Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ دسمبر » سایہ رسول ﷺکا اثبات دلائل صحیحہ سے

سایہ رسول ﷺکا اثبات دلائل صحیحہ سے

سوال:

کچھ  احباب کہتے ہیں کہ آپ صلی علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا لھذا آپ نور ہیں،مذکورہ مسئلے کی درست وضاحت فرمائیں!

جواب:

رسول صلی اللہ علیہ وسلم بطور ذات انسان تھے اور سب سے افضل و اعلیٰ انسان تھے اور آپ کا سایہ مبارک بھی تھا اس حوالے سے قرآن مقدس اور احادیث شریفہ میں کئی ایک حوالے موجود ہیں، ہم چند حوالے آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں:

قرآن کریم سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ زمین وآسمان کی ہر مخلوق کا سایہ ہے، فرمانِ باری ہے:

﴿ وَلِلَّـهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ طَوْعًا وَكَرْ‌هًا وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ﴾ (سورة الرعد:15)

ترجمہ: اور اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے خوشی اور ناخوشی  سے اور ان کے سائے بھی صبح و شام۔

مذکورہ آیت کااحمد رضا خان بریلوی صاحب یہ ترجمہ بیان کرتے ہیں:

اور اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جتنے آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی سے خواہ مجبوری سے اور ان کی پرچھائیاں ہر صبح و شام۔

اسی طرح اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:

﴿ أَوَلَمْ يَرَ‌وْا إِلَىٰ مَا خَلَقَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِّلَّـهِ وَهُمْ دَاخِرُ‌ونَ  ﴾

کیا انہوں نے نہیں دیکھا جو کچھ اللہ نے بنایا ہے اس کے سائے دائیں اور بائیں جھکتے  ہیں اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے  اور وہ اللہ کے سامنے  انتہائی احقر ترین ہیں ۔(سورة النحل:48)

مذکورہ آیت کا احمد رضا خان بریلوی صاحب نے یہ ترجمہ بیان کیا ہے:

اور کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ جو چیز اللہ نے بنائی ہے اس کی پرچھائیاں  دائیں اور بائیں جھکتی ہیں اللہ کو سجدہ کرتی اور وہ اس کے حضور ذلیل ہیں۔

معزز احباب! مذکورہ آیتوں سے پتا چلاکہ زمین اور آسمان میں موجود ہر  چیز کا سایہ  ہے چاہے وہ انسان ہو یا دیگر مخلوقات۔

اسی طرح کی احادیث شریفہ اس مسئلے کی وضاحت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا چنانچہ صحیح ابن خزیمہ وغیرہ کی حدیث ہے:

ثم عرضت علي النار بيني وبينكم حتى رأيت ظلي وظلكم فأومأت إليكم أن استأخروا فأوحى إلي أن  أقرهم فإنك أسلمت وأسلموا وهاجرت وهاجروا وجاهدت وجاهدوا فلم أر لي عليكم فضلا إلا بالنبوة

قال الأعظمي : إسناده صحيح وصححہ الالباني

(صحيح ابن خزيمة 2/ 50 حديث:892) وصححہ الحاکم فی المستدرک ووافقه الذهبي ح:8487 )

رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے آگ کو پیش کیا گیا، یہاں تک کہ میں  نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا اسی وجہ سے میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ اور پھر میری طرف  وحی کی گئی انہیں اپنی جگہ پر موجود رہنے دو کیونکہ آپ بھی مسلمان ہیں اور وہ بھی مسلمان  ہیں آپ نے بھی ہجرت کی ہے اور انھوں نے بھی ہجرت کی ہے آپ نے بھی جہاد کیا ہے اور انہوں نےبھی جہاد کیا ہے،میں تم پر فضیلت حاصل نہ کر سکا(یعنی جتنے اوصاف  میرے ذکر کیے گئے اتنے ہی آپ کے بھی ذکر کیے گئے)  مگر نبوت کے مسئلے میں ، یعنی تم نبی نہیں میں نبی بھی ہوں۔

اسی طرح مسند احمدمیں بھی صحیح روایات موجود ہیں جن میں آپکے سائے کا ذکر ملتا ہے جیساکہ ایک حدیث میں ہے:

 فبينَما أنا يومًا بنصفِ النهارِ، إذا أنا بظِلِّ رسولِ اللهِ صلّى اللهُ عليه وسلَّمَ مُقبِلٌ۔

(رواہ احمد، رقم الحدیث: 25002)

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت  ہے فرماتی ہیں کہ میں ایک دن کے درمیانی حصے  میں موجود  تھی اچانک میں نے رسول اللہ سلم کے سائے کو دیکھا آپ آ رہے تھے۔

 اسی طرح حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ:

فَلَمَّا كَانَ شَهْرُ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ دَخَلَ عَلَيْهَا، فَرَأَتْ ظِلَّهُ

(رواه أحمد رقم الحدیث: 26866)

جب ربیع الاول کا مہینہ تھا رسول اللہ سلم ان کے پاس آئے اور انہوں نے آپ کا سایہ دیکھا۔

نوٹ: مذکورہ دونوں روایتوں پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس میں موجود شمیسہ راویہ کی توثیق نہیں ملتی جبکہ یہ اعتراض غلط ہے۔

شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شمیسہ کو ابن معین نے ثقہ کہا ہے ۔( تاریخ عثمان بن سعید الدارمی:418)

(بحوالہ : توضیح الاحکام ،ص81)

اعتراض: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بطور ذات نور ہیں اور نور کا سایہ کیسے ہو سکتا ہے؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطور ذات انسان ہیں اس حوالے سےقرآن مقدس میں کئی ایک دلائل موجود  ہیں جن کو ہم تفصیل سے الگ موضوع میں بیان کریں گے۔( ان شاءاللہ) یہاں پر صرف ایک آیت مقدسہ پڑھ لیں:

قُلۡ اِنَّمَاۤ  اَنَا بَشَرٌ  مِّثۡلُکُمۡ  یُوۡحٰۤی  اِلَیَّ اَنَّمَاۤ  اِلٰـہُکُمۡ  اِلٰہٌ  وَّاحِدٌ ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ  رَبِّہٖۤ  اَحَدًا ﴿ سورہ کھف:110﴾

آپ کہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ( ہاں )  میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ، تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت  میں کسی کوبھی شریک نہ کرے ۔

لیکن ان احباب کا کہنا کہ نوری مخلوق کا سایہ نہیں ہوتایہ بھی غلط ہے فرشتے نوری مخلوق ہیں اور ان کے سائے کا تذکرہ احادیث کے اندر موجود ہے جیسے بخاری شریف کے اندر حدیث ہے۔

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُنْكَدِرِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ جِيءَ بِأَبِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ مُثِّلَ بِهِ وَوُضِعَ بَيْنَ يَدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبْتُ أَكْشِفُ عَنْ وَجْهِهِ فَنَهَانِي قَوْمِي، ‏‏‏‏‏‏فَسَمِعَ صَوْتَ صَائِحَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ ابْنَةُ عَمْرٍو أَوْ أُخْتُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "”لِمَ تَبْكِي أَوْ لَا تَبْكِي مَا زَالَتِ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لِصَدَقَةَ أَفِيهِ حَتَّى رُفِعَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رُبَّمَا قَالَهُ””. رواہ البخاری:2826.

میرے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے گئے  (احد کے موقع پر )  اور کافروں نے ان کے ناک کان کاٹ ڈالے تھے ‘ ان کی نعش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی گئی تو میں نے آگے بڑھ کر ان کا چہرہ کھولنا چاہا لیکن میری قوم کے لوگوں نے مجھے منع کر دیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے پیٹنے کی آواز سنی ( تو دریافت فرمایا کہ کس کی آواز ہے؟ )  لوگوں نے بتایا کہ عمرو کی لڑکی ہیں ( شہید کی بہن ) یا عمرو کی بہن ہیں ( شہید کی چچی شک راوی کو تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں رو رہی ہیں؟ یا ( آپ نے فرمایا کہ ) روئیں نہیں

ملائکہ ان پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے صدقہ سے پوچھا کیا حدیث میں یہ بھی ہے کہ ( جنازہ) اٹھائے جانے تک تو انہوں نے بتایا کہ سفیان بعض اوقات یہ الفاظ بھی حدیث میں بیان کرتے تھے۔

حاصل کلام:یاد رہے کہ یہ غلو پر مبنی باطل دعویٰ ہے کہ آپ صلی علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا۔اس دعویٰ پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب۔

About ابو عبدالرحمٰن عبدالرزاق دل

Check Also

عقیدہ عصمت اور اسکی حقیقت

الحمدللہ وحدہ والصلوات والسلام علی من لا نبی بعدہ: چند دن قبل ایک تحریر نظر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے