Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ دسمبر » کتاب بینی علم دوستی

کتاب بینی علم دوستی

کتاب استاد کی استاد ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی خاموش دوست بھی ہے "العلم صید والکتاب قید ” علم شکار ہے تو کتاب اسکا پنجرہ ہے، کتاب ہمیں خاموشی سے اچھی اچھی معلومات دیتی ہے، مصنف کے علم کو صدیوں محفوظ کر لیتی ہے، ایک نظریے کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا سبب بنتی ہے، تارریخ کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ تہذیب وکلچر کی ترجمانی کرتے ہوئے علم کے خزینوں کو ہماری آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر دیتی ہے، جب جی چاہیے اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، ایسا دوست جو کبھی ناراض نہ ہو، خصوصا سردیوں کی لمبی راتوں میں دینی معلومات میں اضافے کے لئے مستندکتب کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے ۔

اکثر آپ نے پیدل مسافروں کو دیکھا ہو گا جو کتاب کو سینے سے لگا کر محو سفر ہوتے ہیں، کتاب کی اہمیت کے باعث فطری طور پر اسے سینے سے لگا کر طلبہ آتے جاتے نظر آتے ہیں ۔

اس جہاں میں جس نے بھی علمی میدان میں بلند مقام پایا ہے اسکی کتاب دوستی لازماًرہی ہے "من بلغ العلی سحر اللیالی” جس نے بلندیوں کو پایا راتوں کو وہ جاگا اورکتابوں کےمطالعے اورمذاکرے میںمشغول رہا ہے –

ایک محدث کو جب انکی نئی نویلی دلہن نے ہمہ وقت مطالعہ کتب میں غرق پایا تو بولی "آپ کی کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے بھی زیادہ گراں ہیں”

یہ تو پرانے زمانے کی بات ہے میں نے ماضی قریب میں فضیلہ الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی چند روز شاگردی اختیارکی موصوف صبح لائبریری میں داخل ہوتے اور مطالعہ کتب میں مگن ہو جاتے، ہم ہمت ہار کر چپکے سے لائبریری سے نکل کر دوسری منزل پر سو جاتے جب آنکھ کھلتی تو فضیلہ الشیخ کو جیسے چھوڑ کر جاتے ایسے ہی تازہ دم پاتے،شیخ محترم فرماتے کہ روزانہ بقاعدگی سے مطالعہ کیا کرو اور اگلے دن کو پہلے دن سے زیادہ وقت دو شروع شروع میں مشکل لگے گا لیکن رفتہ رفتہ جہد مسلسل سے عادی ہو جاو گے پھر مطالعہ سے گھبراؤ گے نہیں ۔

خیر ہم سے تو یہ نہ ہو سکا لیکن "رب حامل فقہ إلی من ھو أفقہ” کے تحت آگے نقل کیے دیتے ہیں.

ہم نے استاذ محترم غلام مصطفی ظہیرامن پوری کو بھی ہمہ وقت مطالعہ کتب میں منہمک پایا۔

یاد رہے کہ مطالعہ کتب کے ساتھ ساتھ کتاب کی حفاظت بھی کسی فن سے کم نہیں بہت سے طلبہ کتاب میں بطور نشانی قلم یا دوسری کتاب یا کوئی موٹی چیز رکھ کر کتاب کو بند کر دیتے ہیں جس سے کتاب کی جلد خراب ہو جاتی ہےیا نشانی کے لئے کتاب کے اوراق توڑ مروڑ دیتے ہیں جو کتاب کے احترام کے منافی عمل ہے بلکہ اگر طالب علم کے لئے ناقابل معافی جرم کہا جائے تو زیادہ مبالغہ نہ ہوگا!

میرے لئے سب سے مشکل کام کسی کو کتاب ادھار دینا ہے، جسکی وجہ یہی ہے کہ اکثر کتاب ادھار لینے والے کتاب کے آداب سے ناواقف ہیں، جو کبھی اندر پنسل رکھ کر اور کبھی فولڈ کر کے ہمارا دل رنجیدہ کرتے رہتے ہیں، ایک صاحب ہاسٹل میں خوبصورت جلد والی کتاب ادھار لے گئے جب واپس کی تو کتاب کی جلد پر جگہ جگہ موصوف کے دانتوں کے نشانات پیوست تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ علم کو حاصل نہیں بلکہ ہڑپ کرنے کی کوشش میں لگے رہے ہیں!

کتب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ انکی اولاد کی طرح حفاظت کرنے کا سہرا بھی آج تک علماء کے ہی سر ہے ، ہر عالم کی ذاتی چھوٹی موٹی لائبریری ضرور ہوتی ہے-

 ایک عالم فرمایا کرتے تھے کہ الماری میں کتاب کو کھڑا کر کے نہیں رکھنا چاہیے بلکہ لمبے کر کے رکھنی چاہیے تاکہ جلد خراب ہونے سے بچ جائے ، دیکھنے میں آیا ہے کہ  حفاظت کتب سے ہمارے سکول ،کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ عموما نابلد ہیں وہ کتاب کا مقصد محض امتحان پاس کرنا سمجھتے ہیں ،کتاب کے اوراق پھاڑ کر ساتھ لے جاتے ہیں، جلد خراب کرتے ہیں، توڑ مروڑ کو مطالعے کا لازمی جز سمجھتے ہیں، رزلٹ آنے کے بعد کتاب پھاڑ چیر کر پھینک دیتے ہیں یا  پتیسے والے کو دے کر پتیسہ کھاتے ہیں –

ایک عزیر کو میں نے عربی کی بڑی نایاب کتاب دی تاکہ عربی میں کچھ شناسائی حاصل کرلے، کچھ دن بعد دیکھا کہ اس نے اندر سے تمام تصاویر کاٹ کاٹ کر بی ایڈ وغیرہ کا بے ہودہ سا رجسٹر تیار کیا ہوا ہے، ایسے تعلیمی نظام پر بھی افسوس ہی کیا جا سکتا ہے جو گریجویٹ سے علمی تھیسس لکھوانے کی بجائے طلبہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ رنگ پرنگی تصاویر گوند سے رجسٹر پر جوڑ لاؤ تاکہ پروفیشنل ڈگری کے حق دار ٹھہرو!

اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کی تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے، حاکم وقت کو چاہیے کہ کالجز وغیرہ میں جید علماء دین کو تربیت کے لئے تعینات کرے جو التربیہ الاسلامیہ اور آداب الکتاب و الشیخ والسامع سے نئی نسل کو مطلع رکھے-

اور دوسرا کسی کو کتاب ادھار دینا میرے لئے اسلئے بھی مشکل رہا ہے کہ بعض مہربان کتاب ادھار کا مطلب ہبہ سمجھتے ہیں، ایک دفعہ کلاس میں کسی نے کتاب واپسی کی بات کی تو ماسٹر صاحب نے کہا کہ کتاب ادھار دینا بے وقوفی ہے اور کتاب ادھار لے کر واپس کر دینا اس سے بڑی بے وقوفی ہے بادئ النظر میں یہ انکی ذاتی رائے ہے ، حقیقت یہ ہے کہ کتاب اعتماد والے کو ہی ادھار اس نصیحت کے ساتھ دینی چاہیے کہ بھائی اسکی شکل صورت دیکھ لو، جلد خراب نہیں کرنی، اندر بطور نشانی قلم یا موٹی چیز نہیں رکھنی ،اوراق کو فولڈ نہیں کرنا، جس حالت میں ہے میں نے اسی حالت میں واپس لینی ہے، شرائط منظور ہیں تو لے جاؤ اور  اگر خود کسی سے ادھار کتاب لائیں تو اسی اصول پر سختی سے کار بند رہنا چاہیے-

ہم نے تو یورپ کی شکل نہیں دیکھی، اللہ کرے ایسی ضرورت پیش بھی نہ آئے، لیکن سنا ہے کہ وہ لوگ بھی کتاب کا احترام کرتے ہیں، میاں کی الگ لائبریری ہے بیوی کی الگ ہر سفر میں انکے پاس کتاب ضرور ہوتی ہے، جب کوئی انتظار کی گھڑی گزارنی ہو تو بستے سے کتاب نکال کر پڑھنا شروع کر دیتے ہیں، انکی کوئی بات میرے نزدیک قابل تقلید تو نہیں، لیکن "الحکمة ضالة المومن”  کے تحت نقل کیے دیتے ہیں،یہ بھی سنا ہے کہ ہر نئی اچھی کتاب ضرور خریدتے اور پڑھتے ہیں، لیکن ہم اس کے برعکس جوتوں کی دوکان پر رش کرتے ہیں جبکہ کتب میلہ یا لائبریری میں اکا دکا ہی بندہ نظر آتا ہے؛ اسی لئے سوشل میڈیا کا کہنا ہے کہ اس قوم کو کتابوں کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے!

کتب کے بارے میں چند سنہری اصول پلے باندھ لیں :

1- اچھی معیاری مستند کتب ضرور خریدیں۔

2-کتب خریدتے وقت اچھے کاغذ و جلد کا انتخاب کریں چاہے چند دام مہنگی ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ کتاب نے لمبا عرصہ آپکا ساتھ دینا ہے۔

3-کسی بھی کتاب کی خریداری سے قبل ماہر سے مشورہ کر لیں کہ متعلقہ فن میں سب سے اچھی کونسی کتاب کس مکتبے کی معیاری ہے۔

4-مطالعہ کا شوق پیدا کریں، یقین مانیں کہ PDF اور موبائل انٹرنیٹ گوگل وغیرہ کسی طور پر بھی کتاب کا نعم البدل نہیں بلکہ محض ایک دھوکہ ہے۔

5-کتاب کی حفاظت پر کسی عالم دین سے لیکچرر لے لیں اور طریقہ سیکھ لیں۔

6-مفت خور نہ بنیں بلکہ قیمتا کتاب خریدیں۔

7- مصنف کی حوصلہ افزائی کریں، کسی کا مواد چوری کر کے ہرگز اپنی طرف منسوب نہ کریں یہ علمی خیانت ہے جو مال کی خیانت سے بڑا جرم ہے۔

8-کسی کی بات کو بغیر اجازت کے کانٹ چھانٹ کر شائع نہ کریں؛ کیونکہ یہ بھی علمی خیانت ہے، مصنف کا کوئی لفظ اگر آپکو غلط لگتا ہے تو ضروری نہیں ہے کہ دیگرقارئین کو بھی غلط لگے یا آپ کا دماغ زیادہ بہتر ہو؛ اسلئے کسی کی تالیف پر اسوقت تک جج نہ بنیں جب تک آپ کو جج یا مشرف علی الرسالہ Supervisor of thesis مقرر نہ کیا جائے، ہاں اگر آپ کسی چیز کو غلط سمجھتے ہیں تو آپ اسکا جواب لکھنے میں آزاد ہیں۔

9-ہر فن میں بہتر یہی ہے کہ ایک ہی جامع کتاب خریدیں اور جس فن میں آپکا کچھ لینا دینا نہیں مثل: کیمیا ،ریاضی وغیرہ اس فن میں کتاب خرید کر پیسہ ضائع کرنے کی ضرورت نہیں الا یہ کہ آپ کو اس فن کی معلومات اور ضرورت ہو۔

10-مطالعہ کا بہتر وقت: صبح پہلے پہر ، عصر کے بعد ، عشاء کے بعد کے اوقات بہترین اوقات مطالعہ ہیں، مطالعہ کی جگہ پرسکون ہونی چاہیے جہاں شور وغل اور آمد ورفت نہ ہو ۔

آخر میں بغرض استفادہ

شیخ الاسلام فاتح قادیان مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ کی تحریر کا اقتباس نقل کیے دیتا ہوں:

” عقل و نقل کا مقتضی ہے کہ کام کرنے والوں کی قدر کی جائے۔ مگر آج کل بعض مخلص دوستوں کا دستور ہے کہ ایک انجمن، خواہ اصلی ہو یا نام نہاد، بنا کر ایک خط مصنفین کے نام بھیجتے ہیں کہ اپنی تصانیف ہمارے دفتر میں بھیج دیں۔

معلوم نہیں مصنفوں کو ایسا کڑا حکم کس جرم کی سزا ہے؟ یہی کہ وہ مصنف کیوں بنے؟ غالبا جواب ملے گا کہ چونکہ ہماری انجمن میں کئی لوگ ہیں، اگر وہ یہ تصنیفات پڑھیں گے تو ثواب ہو گا۔

اتنا تو خیال فرمایا کیجئے کہ جو اپنی تصنیفات کو قیمتاً دیتے ہیں اور ان کا ذریعہ معاش یہی ہو، ان کو ایسے ثواب کا طمع دینا گویا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس کام کو بند کر دیں، کیونکہ ایسے ثواب حاصل کرنے والے بہت ملیں گے، نتیجہ یہ ہو گا کہ بجائے اس کے کہ اس کام کو ترقی حاصل ہو، روز بہ روز تنزلی ہو گی جس کا لازمی اثر یہ ہو گا کہ آئندہ کسی اہل علم کو تصنیف کرنے کا حوصلہ نہیں ہو گا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ قوم میں ایسا مصنف پیدا نہیں ہو گا…….. یاد رکھو کبھی کسی قوم میں علمی ترقی نہیں ہو گی جب تک اس میں مصنفین کی حوصلہ افزائی نہ ہو گی۔ اسی اصول پر گورنمنٹ عمدہ عمدہ تصنیفات پر انعام دیتی ہے۔ عام افراد انعام نہیں دیتے، فی نسخہ قیمت تو دیں، نہ کہ مفت مانگیں۔

پس ایسے حضرات ہمیں ایسے احکام کی عدم تعمیل پر معاف رکھیں۔ حق تو یہ ہے کہ ایسے حکم دینے سے وہ خود توبہ کریں اور معافی مانگیں۰۰۰!”

( مصدر: ہفت روزہ "اہل حدیث“ امرتسر۔ ۲۳ مئی ١٩۱٣)

About حافظ نوید امجد طیب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے