Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ اگست و ستمبر » فرزندارجمند کو نصائح لقمانی

فرزندارجمند کو نصائح لقمانی

آج جس پرآشوب دورفتن سے ہمارا معاشرہ گزر رہا ہے، چاروں اطراف بدی،برائی ،بے حیائی،اختلاط مردوزن ،شراب نوشی، منشیات، رقص وسرورکی محافل خرافات وفضولیات کوفروغ دیاجارہاہے، جبکہ ہمارے گھروں میں اسلامی تعلیمات واخلاقیات کافقدان ہے، ہمارے گھروں میں تعلیمات قرآنی وسنت رسول کو بھلاکر رکھدیا گیا ہے ،قرآن وسنت کوپرزیب الماریوں کی زینت بنادیاگیاہے، مطالعہ کی فرصت نہیں، گھرانوں میں بڑوں والدین، اعزہ رشتہ داروں کی لاتعلقی اور بےپرواہی وبے اعتنائی اپنی ذمہ داری سے لاتعلق ہونے کیوجہ سے آج کے بچے بیٹے بیٹیاں بالکل بے فکر ہوکرا پنی عزت،آبرو،عفت وعصمت،اخلاق وکردار سے بے خبر ہوکر آخرت کی زندگی میں جہنم کی ہولناک آگ سے کلیۃ لاتعلق وبےفکر ہوچکے ہیں جبکہ قرآن عظیم میں ارشاد گرامی کہ اے لوگو! جوایمان لائے ہو بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہونگے۔

(التحریم:۶)

کاش والدین اور متعلقین اپنے بچوں ،لخت جگربیٹوں اوربیٹیوں سےبھی کچھ بات کرنے کی ضرورت محسوس کریں، سیدنا عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےا رشاد فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے معاملہ میں جواب دہ ہے۔

(بخاری)

آج والدین نے اپنے لخت جگروں کو آزادی کے نام پر کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ جو کچھ کرناچاہتے ہوں وہ کرتے رہیں ،اپنی عزت وآبروکاخیال نہ کریں، بے پروا گھومیں ،منشیات کے عادی بن جائیں، موبائل فون کا بےدریغ غلط استعمال کرتے رہیں ،انٹرنیٹ وفیس بک پر غیرمحرم اور اوباش نوجوانوں سے بے دھڑک تعلقات قائم کرتے رہیں…؟

اے جوانان عزیز!یہ سب کچھ قرآن عظیم سےدوری اور حمیت ایمانی سے محرومی کا نتیجہ ہے، جس کا خمیازہ پوری ملت اسلامیہ بھگت رہی ہے ایسے میں ہم تو یہ دعا ہی دے سکتے ہیں کہ

خداکرے میری ارض پاک پے اترے

وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

قرآن عظیم سورۂ لقمان کی آیت ۱۲تا۱۹ تک یہ پورا رکوع ایک سلیم الفطرت انسان کی ہدایت کے لئے بڑا اہم رکوع ہے،جس میں سیدنا لقمان کی نصیحتیںنقل ہوئی ہیں یہ پورا رکوع اپنے معنی ومضامین کے اعتبار سے بے حداہم اور قابل تدبر وتفکر ہےان نصیحتوں میں اس قدر جامعیت ہے کہ انسان کی نجات اخروی کےلوازمات کا ایک پورا خاکہ موجود ہے جوسیدنالقمان کی عمر بھر کی سوچ کا لب لباب وماحصل ہے ، یہ رکوع موجودہ ماحول میں بڑا اہم اور قابل مطالعہ ہے۔

موجودہ ماحول میں جبکہ ہر انسان شدید ذہنی الجھنوں کی وجہ سے مضطرب ،حیران،وپریشان اور سراسیمہ نظر آتا ہے ،ہر سولامتناہی مسائل ومشکلات کا انبار نظر آتا ہے اور ان مسائل کے جنگل میں گھر کر رہ گیا ہے،بے روز گاری ،خاندانی وازدواجی مسائل صحت کے لحاظ سے دماغی، ذہنی،نفسیاتی اور اعصابی امراض نے بھی انسان کو پوری طرح جکڑ رکھا ہے،دوسری جانب مراعات یافتہ طبقہ اللہ رب العالمین کی عطا کردہ بے بہا نعمتوں کی قدرشناسی کرتے ہوئے سجدہ شکر ادا کرنے کے بجائے نعمتوں کے حصول کےبعد اکڑنا،اترانا،فخروغرورکرنا اور زمین پرطاغوت بن بیٹھنے کا عادی بن چکا ہے، ایسے پرآشوب ملحدانہ ماحول میں یقینا ہمیں خالق کائنات کے ازلی وابدی قانون سے استفادہ کئے بغیر اور کوئی چارہ نہیں،چونکہ قرآن عظیم جو کہ کتاب ہدایت ہے وہ ہمیشہ ہماری پوری زندگی میں رہبری وراہنمائی کرتے ہوئے نظر آتا ہے ،مثلا سیدنالقمان  علیہ السلام  اللہ تعالیٰ کے انتہائی پسندیدہ محبوب نیک اور صالحہ صفت بندے تھےجو کہ پورے جزیرۃ العرب میں اپنی دانائی ،بینائی بھری پر حکمت باتوں کے لحاظ سے شہرت تامہ رکھتے تھے پھر سیدنالقمان علیہ السلام  نے اپنے نور نظر فرزندارجمند کو جو وعظ ونصیحت کی اللہ رب العزت نے اسے رہتی دنیا تک سورہ لقمان قرآن مجید فرقان حمید میں پورے طرح محفوظ فرمادیا، سیدنالقمان علیہ السلام کی یہ باتیں رہتی دنیا تک ہماری پوری طرح رہبری ورہنمائی کرتی رہینگی، چونکہ یہ ہدایات ونصائح ہمارے لئے منارۂ نور سے کسی طرح کم نہیں، ان کے اسلوب بیان میں سچائی، سادگی، وقاروتمکنت لہجہ میں ہے ،انتہائی مٹھاس اور لفظ لفظ سے جھلکتاہوا اخلاص،انداز بیان میں نرمی شائستگی، اپنائیت کااحساس ،نیک نام عزیز فرزند ارجمند،صالح صفت سپوت کے اصلاح احوال کے لئےتدبر،تفکر اور بے انتہا تڑپ حقانیت کی غماز ہے، اور پھر بار بار اےمیرے نورنظر،لخت جگر،فرزند ارجمند کے شیریں الفاظ سے مخاطب کرنا ،گفتگو میں جوبے پناہ محبت، اخلاص،اپنائیت کی تڑپ ہے وہ بھی قابل تدبر وتفکر ہے۔

اب آیئے قرآن عظیم کے بے مثال اسلوب بیان سے رہنمائی کرتے ہوئے استفادہ کردیں اور اپنی دنیا وعقبیٰ سنواریں، اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایات باری تعالیٰ سے مستفید فرمائے ،آمین

پہلی بات توحید باری تعالیٰ کی دعوت وتبلیغ اور شرک سے کلیۃ برأت کی گئی ہے، گویا کہ ایمان کا تقاضا اولین ہے کہ شرک سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے اور توحید باری تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی اور عمل افضل نہیں، چونکہ صحیح العقیدہ ہونے کے بغیر کوئی بھی عمل صالح کہیں کارگر نہیں ہوتا۔

چنانچہ ہمیں بھی اپنے بچوں کے اصلاح احوال کے لئےان پر واضح کرنا چاہئے کہ ذات باری تعالیٰ میں کوئی اور ہمسرنہیں، وہ بے پروا پروردگار،اپنی ذات بابرکت وصفات میں اکیلا وحدہ لاشریک لہ ہے، اس کی کوئی ضد ہے نہ نداور یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بے بہا انعام واکرام پر ہمیشہ دل وجان سے عملی شکریہ اداکرناچاہئے۔

مزید یہ کہ سیدنا لقمان علیہ السلام نےاپنے ہونہار فرزند کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی موجبات بھی واضح کردیں، اور ان کو اللہ تعالیٰ کےشکر کے ساتھ والدین کے حقوق ادا کرنے کی بھی تاکید فرمائی، چونکہ دنیامیں کسی مہذب انسان کو اپنے والدین سے بڑھ کر اور کون محبوب ہوسکتا ہے؟ والدین نے اپنے بچوں کی پیدائش ،پرورش، نشونما، پرداخت ،تعلیم وتربیت میں جس دلسوزیٔ اور لگن سے فریضہ سرانجام دیتے ہیں وہ توصرف وہی جانتے ہیں وہ اپنی جوانی، اپناآرام،چین، اپنی کمائی سب کچھ اپنی اولاد کی بہتری وبھلائی پر قربان کردیتے ہیں، پھر المیہ تو یہ ہے کہ اگر یہی والدین جب بوڑھے(نحیف) کمزور بن جاتے ہیں تو بھی موصوف اولاد انہیں اگرخود پر بھاری بھرکم بوجھ سمجھ کر ان سے اپنا دامن چھڑانے کی فکر میں پریشان نظرآئیں اور پھر ایک دن کسی اولڈہاؤس میں چھوڑ کر جان خلاصی کرکے آرام سے جیئیں کہ خبط کے مریض نہیں جب کہ دین حنیف نے والدین کی اطاعت کی تاکید فرماتے ہوئے فرمایاکہ ماں باپ سے نیک سلوک کرو، اگر تمہارے پاس، ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیںتو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام وادب کے ساتھ بات کرو اورنرمی ورحم کےساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اوریہ دعا کروکہ[رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا]

 اے پرودگار عالم ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحم وشفقت کےساتھ مجھے بچپن میںپالاتھا۔(بنی اسرائیل:۲۲،۲۳)

[وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسٰـنًا   ۭ ](الاحقاف:۱۵)

اور ہم نے آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔

پھر سیدنالقمان علیہ السلام نے یہ بھی نصیحت فرمائی کے بیٹے! اللہ سبحانہ وتعالیٰ بڑا باریک بین ہے،اور باخبر ہے اگر کوئی چیز رائی کےدانہ کے برابر بھی کسی چٹان میں یازمین وآسمان کے کسی کونے میں چھپی ہوئی ہو تو یقینا اللہ رب العزت اس سے بھی باخبر ہے۔

تیسری یہ تاکید فرمائی کہ اے نورنظر!اقامت الصلوٰۃ کا ہمیشہ اہتمام کرنااور کوئی بھی وقت ضایع مت کرنا مزیدیہ کہ ہمیشہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ بھی سرانجام دیتے رہنا،چونکہ یہ ملت مسلمہ کی خصوصی صفات عالیہ میں سےایک اہم بنیادی صفت ہے، اگربغور دیکھا جائے تو تاریخ ملت کے اوراق پارینہ شاہد ہیں کہ جب تک مسلمانوں نےیہ فریضہ احسن انداز سے اداکیا تو وہ ہرجگہ کامیاب وکامران رہے ، لیکن جب اس فریضہ سے غافل ہوئے تو پھر ذلت ومسکنت، شکست وادبارسے دوچارہوئے،لہذا تبلیغ دین واقامۃ الصلاۃ کے اہتمام کی آج بھی سخت ضرورت ہے، چونکہ یہاں پر سیدنالقمان علیہ السلام کی دلی خواہش تھی کہ ان کانورنظر فرزند ہر صورت میں زیور اخلاق سے بھی آراستہ وپیرا ستہ رہے تاکہ وہ صحیح معنوں میں سماج میں صداقت ودیانت کا بیج بوسکے، لہذا فرمایا کے توحید باری تعالیٰ ،اقامت صلوٰۃ ،امر بالمعروف کے علاوہ اخلاق حسنہ کو بھی اپنائے، اور عام بول چال ،چال ڈھال میں بھی کبھی ایسا نہ ہو کہ لوگ کبھی تم میں کبر ونخوت کی نازیبائی محسوس کریں، لہذا ہمیشہ چال ڈھال میں میانہ روی اختیار کرنا، اور زمین پر اکڑ کر مت چلنا، چونکہ اللہ رب العزت ہر شیخی خوراور متکبر کو ہمیشہ ناپسند کرتا ہے، اپنی روز مرہ چال ڈھال میں میانہ روی اختیار کرتے ہوئے اپنی آواز کو بھی ہمیشہ باوقار انداز میں پست رکھنا، چونکہ چیختے اور چلاتے ہوئے بولنا اس بات کاغماز ہے کہ تو اپنےغیض وغضب کا شکار ہوکر بغیر کسی معقول دلیل کے محفل پر چھانا چاہتا ہے ،جویقینا ایک متوازن ومعقول انسان کو زیب نہیں دیتا کہ بلاوجہ منہ پھاڑے گدھے کی طرح چلاچلاکر گفتگو کرے، بلکہ ایک معقول ومعیاری انسان کو ہمیشہ تحمل وتوازن ، سنجیدگی ووقار سے گفتگو کرنی چاہئے بات میں معقول دلائل سے توازن پیدا کرکے اخلاقی گراوٹ سے بچنا چاہئےخوبصورت گفتگو،شیریں وملائم لب ولہجہ، نرم گفتگواپناکر سماج میں بھی قوت برداشت پیدا کرنے کاباعث بنیں، یہاں لمحہ فکریہ ہے کہ سیدنالقمان علیہ السلام جیساذہین، زیرک،دانا، بیناحکیم اپنے عمربھر کے تجربے ومشاہدہ کو پیش نظر رکھ کر تجربے وغور وفکر کانچوڑ،لب لباب اور ماحصل اپنے فرزند ارجمند تک انتہائی اختصار وجامعیت سے پیش کرتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ کوئی بھی عمل کبھی ضایع نہیں ہوتا،حقیر سے حقیر اقدام اور ادنی سےا دنی کام بھی نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے ،جس کا یوم الحساب میں محاسبہ ہوگا، اور یہ کہ دنیا میں ہمیشہ منکرات ومنہیات کے خلاف جہاد جاری رکھنا، پھر اس سلسلہ میں جس قدر بھی مصائب ومشکلات آئیں ہمیشہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہنا، یہاں عزیمت واستقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک خوش وخرم کامیاب وکامران آسودہ زندگی کا ایک مکمل پیکج موجود ہے، سورۂ لقمان کے اس ایک رکوع میں دنیاومافیھا کی سرخروئی کےلئے منجملہ احکامات وہدایات موجود ہیں،کاش ہم بھی اس گئے گزرے مادیاتی اور ملحدانہ ماحول میں اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو بھی تعمیر شخصیت کے لئے ان ہدایات ربانی سے نوازیں جن میںآسودہ حال زندگی کا پورا عکس نمایاں ہے، اللہ رب العزت ہمیں بھی ان پر حکمت باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور اسلامی سلیقہ سے جینے کی توفیق عطافرمائے۔

آمین یا رب العالمین

About پروفیسر مولابخش محمدی

پروفیسر مولابخش محمدی،مٹھی تھرپارکر

Check Also

آزادی کے نام پر عریانی کافروغ

افسوس مغرب کی بے رحم آندھی نے مشرقی عورت کا پردہ، عزت، وقار، عصمت کو …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے