Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ اگست و ستمبر » کیاجنت اور جہنم کی تخلیق ہوچکی ہے؟؟؟

کیاجنت اور جہنم کی تخلیق ہوچکی ہے؟؟؟

الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین، اما بعد
جنت اور جہنم اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، قرآن وسنت کے واضح دلائل کی روشنی میں اہل حق کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ اس وقت موجود ہیں جبکہ بعض گمراہ فرقے اس طرف گئے ہیں کہ جنت اورجہنم کی ابھی تخلیق نہیں ہوئی اور ایسا ہوئے ازوئے عقل محال ہے!
انہی گمراہ فرق میں سے ایک فرقہ معتزلہ بھی ہے،جس کا یہی نظریہ ہے کہ جنت اس وقت موجود نہیں ہے۔
موضوع کو آگے بڑھانے سے قبل ہم معتزلہ کا مختصرا تعارف پیش کرنا چاہتے ہیں۔
معتزلہ کی نسبت واصل بن عطاء کی طرف کی جاتی ہے ،یہ شخص ایک دن حسن بصری رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے حسن بصری رحمہ اللہ سےمرتکب کبیرہ کے بارہ میں سوال کیا تو اس نے حسن بصری رحمہ اللہ کے جواب دینے سےقبل ہی کہا کہ مرتکب کبیرہ نہ ہی مومن ہے اور نہ کافر ہے بلکہ وہ منزلۃ بین المنزلتین (کفر اور ایمان کے درمیان)کے درجے پر ہے،یہ بات کہہ کر واصل بن عطاء حسن بصری رحمہ اللہ کی مجلس سے الگ ہوگیا۔
اس وقت حسن بصری رحمہ اللہ نے یہ الفاظ کہے:’’اعتزل عنا واصل‘‘ (واصل نے ہم سےا عتزال کیا)
اس واقعے کے بعد واصل اور اس کے اصحاب پر معتزلہ کا اطلاق ہونے لگا۔(الملل والنحل ۱؍۴۵۔المعتزلۃ واصولھم الخمسۃ وموقف اہل السنۃ منھم ،ص:۱۴تا۲۱۔فرق معاصرۃ تنسب الی الاسلام وبیان موقف منھم (غالب بن علی عواجی ،ص:۱۱۶۶)
دورحاضرپراگر نگاہ ڈالی جائے توپرویزیت(منکرین حدیث) کےا ندر بھی یہی جراثیم موجود ہیں ،طبقہ پرویزیت سے تعلق رکھنے والے سرسید احمد خان اور اس کےہم نوا افراد کی بھی یہی سوچ اوررائے ہے کہ جنت اور جہنم کاکوئی وجود نہیں ہے۔(ماخوذ از من تفسیر القرآن سرسیداحمدخان)
جیسا کہ ہم نے شروع میں بیان کیا کہ اہل السنۃ والجماعۃ کا یہ عقیدہ ہے کہ جنت اور جہنم اللہ رب العزت کی مخلوق ہیں اور اب بھی موجود ہیں اس بات کو ہم قرآن وحدیث کےدلائل سے ثابت کریں گے ۔
قرآنی آیات:
1اللہ رب العزت نے انسانوں کو اپنی مغفرت کی طرف جلدی کرنےکاحکم دیا اور فرمایا:
[وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ](آل عمران:۱۳۳)
ترجمہ:اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
2اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
[سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ ۭ ](حدید:۲۱)
ترجمہ:(آؤ) دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس کی جنت کی طرف جس کی وسعت آسماں و زمین کی وسعت کے برابر ہے یہ ان کے لئے بنائی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پرایمان رکھتے ہیں۔
3جن لوگوں نےایمان لانے میں سبقت اختیار کی ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
[وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ](توبۃ:۱۰۰)
ترجمہ:اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔
4جن لوگوں نے قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں شک کیا ان کے بارہ میں ارشاد فرمایا:
[وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ ۠ وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ oفَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ښ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْن] (البقرہ:۲۳،۲۴)
ترجمہ:ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو۔ پس اگر تم نے نہ کیا اور تم ہرگز نہیں کرسکتے تو (اسے سچا مان کر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
5جولوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے ان کو خوش خبری سناتے ہوئے فرمایا:
[وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۭ ](البقرہ:۲۵)
ترجمہ:اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو جنت کی خوشخبریاں دو جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔
6جولوگ اللہ کے بارےمیں بدگمانیاں رکھتے ہیں ان کے بارہ میں ارشاد فرمایا:
[وَّيُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِكِيْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ الظَّاۗنِّيْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ ۭ عَلَيْهِمْ دَاۗىِٕرَةُ السَّوْءِ ۚ وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا ](الفتح:۶)
ترجمہ:اور تاکہ ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو عذاب دے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانیاں رکھنے والے ہیں۔ (دراصل)انہیں پر برائی کا پھیرا ہے اللہ ان پر ناراض ہوا اور انہیں لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کی اور وہ (بہت) بری لوٹنے کی جگہ ہے۔
7قرآن کریم سے نبی ﷺ کے واقعہ معراج کا تذکرہ کیا اور جنت کے وجود کا بھی اثبات کیا:
[وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى۝عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى ؀عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى ؀](النجم:۱۳تا۱۵)
ترجمہ:اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ اسی کے پاس جنتہ الماویٰ ہے ۔
8جہنم کے بارہ میں فرمایا:
[وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ](آل عمران:۱۳۱)
ترجمہ:اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
9جہنم کی ہولناکی کو بیان کیا اور ارشاد فرمایا:
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰۗىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ](التحریم:۶)
ترجمہ:اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔
احادیث:
0انسان جب فوت ہوجاتا ہے تو اس کو اس کا ٹھکانہ دکھایاجاتا ہے امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں باب قائم کرتے ہیں: ’’باب المیت یعرض علیہ بالغداۃ والعشی ‘‘ اور حدیث بیان کی:
عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ فَيُقَالُ هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(بخاری:1379)
ترجمہ:عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کا ٹھکانا اسے صبح وشام دکھایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت والوں میں اور جو دوزخی ہے تو دوزخ والوں میں۔ پھر کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تجھ کو اٹھائے گا۔
اس حدیث سے ثابت ہواکہ مرنے والے کو جو اس کاٹھکانہ دکھایا جاتا ہے یقینا وہ پہلے سےموجود ہے تبھی تو دکھایا جاتا ہے۔
!اللہ کے رسول ﷺ کےدور میں سورج گرہن ہواآپ ﷺ نےنماز پڑھائی اور نماز کی حالت میں ہی رسول اللہ ﷺ آگے پیچھے ہوتےرہے،حدیث کے الفاظ ہیں،صحابہ فرماتے ہیں:
رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ ثُمَّ رَأَيْنَاكَ كَعْكَعْتَ .
کہ ہم نے دیکھا کہ آپ(نماز میں) اپنی جگہ سے کچھ آگے بڑھے اور پھر اس کے بعد پیچھے ہٹ گئےتورسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ عُنْقُودًا .
(بخاری:1052)
’’إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ ‘‘سے ثابت ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ کو جنت دکھائی ۔
@ابوداؤد ،کتاب السنۃ ،باب فی خلق الجنۃ والنار. کے تحت امام ابوداؤد رحمہ اللہ حدیث لائے ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ, أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْجَنَّةَ، قَالَ لِجِبْرِيلَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا فَذَهَبَ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا.(ابوداؤد:4744)
کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا تو جبرئیل امین سے کہا کہ اے جبرئیل جاؤ اور جنت کو دیکھ کر آؤ۔
اس حدیث میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ اللہ نے جنت کی تخلیق کردی ہے۔
#امام بخاری رحمہ اللہ ،کتاب بدء الخلق ،باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ والنار وانھا مخلوقۃ. کے تحت حدیث لائےہیں:
أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ قَالَ: بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي فِي الجَنَّةِ، فَإِذَا امْرَأَةٌ تَتَوَضَّأُ إِلَى جَانِبِ قَصْرٍ فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا القَصْرُ؟ فَقَالُوا: لِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ .
(بخاری:3242)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، تو آپ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں جنت دیکھی ، میں نے اس میں ایک عورت کو دیکھا جو ایک محل کے کونے میں وضو کر رہی تھی ۔ میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے ؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کا محل ہے ۔
اللہ کے رسول ﷺ کاجنت کو دیکھنا اور پھر جنت میںعورت کو وضو کرتے ہوئے دیکھنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جنت کی تخلیق ہوچکی ہے۔
$اللہ کے رسول ﷺ نےجہنم کی ہولناکی اور اس کے ایندھن کے متعلق اپنےصحابہ کو تعلیم دیتے ہوئے فرمایا،صحیح مسلم میں سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ:
کنا مع رسول اللہ ﷺ اذ سمع وجبۃ فقال النبی ﷺ تدرون ما ہذا؟ قال قلنا اللہ ورسولہ اعلم قال ہذا حجر رمی بہ فی النار سبعین خریفا فھو یھوی فی النار حتی انتھی الی قعرھا.(صحیح مسلم:2944)
ترجمہ:سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ ہم ایک دن اللہ کے رسول ﷺ کےساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک زودار آواز سنائی دی ،رسول اللہ ﷺ نے ہم سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو یہ کس چیز کی آوازہے،صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں تو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:یہ ایک پتھر کی آواز ہے جو آج سے70ہزار سال قبل جہنم میں پھینکا گیاتھا اور وہ آج اس کی گہرائی میں پہنچا ہے۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ جہنم میں پتھر کا پھینکا جانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جہنم معرض وجود میں آچکی ہے، تبھی تو پتھر کو جہنم میں پھینکا گیا تھا۔
#معراج کے موقع اللہ کے رسول ﷺ کا جنت اور جہنم کا مشاہدہ کرنا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ جنت اور جہنم معرض وجود میں آچکی ہیں ۔
بخاری ومسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس کے الفاظ ہیں:
ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى أَتَى بِي السِّدْرَةَ المُنْتَهَى، فَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لاَ أَدْرِي مَا هِيَ ؟ ثُمَّ أُدْخِلْتُ الجَنَّةَ، فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ، وَإِذَا تُرَابُهَا المِسْكُ.
(بخاری:3342مسلم:1033)
اب ہم محدثین کرام کے قائم کردہ بعض ابواب اور سلف کے کچھ اقوال ذکر کریں گے:
^امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح جامع میں باب قائم کرتےہیں:
باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ والنار وانھا مخلوقۃ.
اس باب کے تحت بے شمار آیات اور تقریبا 20کے قریب احادیث ذکر کرتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا تبویب قائم کرنا اور آیات پھراحادیث کوذکر کرنا، اس کا مقصد یہ ہے کہ امام بخاری ان فرقہ ضالہ کا رد کرنا چاہتےہیں جو جنت اور جہنم کے وجود کو نہیں مانتے۔
اور مزید الگ سے جہنم کے بارہ میں باب قائم کیا ہے:باب صفۃ النار وانھا مخلوقۃ .اس باب کے تحت بھی امام بخاری متعدد آیات اور تقریبا10کےقریب احادیث نقل کرتے ہیں۔
&امام طحاوی رحمہ اللہ عقیدہ طحاویہ میں فرماتے ہیں:
والجنۃ والنار مخلوقتان.
(امام دارمی رحمہ اللہ اپنی سنن میں باب قائم کرتے ہیں:
باب صفۃ الجنۃ واھلھاوما اعد للصالحین فیھا.
)امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ اپنی مصنف میں باب قائم کرتے ہیں: باب ما ذکر فی الجنۃ وما فیھا مما أعد لأھلھا.
ان ساری آیات واحادیث اور مختلف ائمہ کی تبویب اور اقوال سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ جنت اور جہنم اللہ کی مخلوق ہیں اور اب بھی موجود ہیں، اور ان آیات ،احادیث اوراقوال سلف سےان لوگوں کا رد ہوجاتا ہے جو جنت اور جہنم کےوجود کے منکر ہیں ،اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں قرآن و سنت کاصحیح فہم عطا فرمائے اور فرقہ باطلہ کی تمام گمراہیوں سے محفوظ رکھے۔آمین

About حافظ فیصل یاسین

Check Also

امام دارمی رحمہ اللہ

صاحب سنن دارمی نام ونسب: شیخ المسلمین فی الحدیث الامام الحافظ ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے