Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ ستمبر » بدیع التفاسیر (قسط نمبر :207)

بدیع التفاسیر (قسط نمبر :207)

(14)۔[اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَيْرِكُمْ ] (المائدۃ:۱۰۶) کو آیت: [وَّاَشْہِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ] (الطلاق:۲) سے منسوخ کہا جاتا ہے، مگرشاہ صاحب فرماتے ہیں کہ’من غیرکم‘ سے مراد ’من غیر اقاربکم ‘بھی ہوسکتا ہے،یعنی گواہ مسلمان ہوں اگرچہ تمہاری غیر برادری سے تعلق رکھتے ہوں، امام شوکانی اپنی تفسیر ۲؍۸۲میں لکھتےہیں کہ :

وخالفهم الجمهور فقالوا: الآية محكمة، وهو الحق لعدم وجود دليل صحيح يدل على النّسخ. وأما قوله تعالى: مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَداءِ وقوله: وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ فَهُمَا عَامَّانِ فِي الْأَشْخَاصِ وَالْأَزْمَانِ وَالْأَحْوَالِ، وَهَذِهِ الْآيَةُ خَاصَّةٌ بِحَالَةِ الضَّرْبِ فِي الْأَرْضِ وَبِالْوَصِيَّةِ وَبِحَالَةِ عَدَمِ الشُّهُودِ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا تَعَارُضَ بَيْنَ عَامٍّ وَخَاصٍّ.

یعنی: جمہور علماء نسخ کرنے والوں کے خلاف ہیں اور وہ آیت کو محکم مانتے ہیں حق بھی یہی ہے کیونکہ کوئی بھی دلیل نسخ پر دلالت نہیں کرتی، اسی طرح دوسری آیت :[مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَاءِ] (البقرۃ:۲۸۲) بھی ناسخ نہیں بلکہ یہ دونوں آیات عام ہیں ان میں ہروقت ہر زمانے اور کسی بھی حالت میں تمام گواہ داخل ہیں مگر یہ آیت خاص حالات کے لئے ہے یعنی سفر میں ہو اور وصیت کا معاملہ ہویاموت قریب نظرآرہی ہو اور مسلمان گواہ بھی میسر نہ ہوں تو ایسے حالات کے لئے اس آیت کاحکم سمجھناچاہئے۔

بموجب اصل عام وخاص میں کوئی تعارض نہیں ہے اس لئے یہاں نسخ کاکوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔

(15)۔[اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۝۰ۚ](الانفال:۶۵)کو بعد میں آنے والی آیت سے منسوخ قراردیا جاتاہے،شاہ صاحب بھی اس نسخ کو قبول کرتے ہیں،مگر نواب صاحب فرماتے ہیں کہ یہاں صرف ایک قسم کی تخفیف ہے اور اصل حکم منسوخ نہیں ہے ،راقم الحروف کہتا ہےکہ:یوں سمجھناچاہئے کہ پہلی آیت بمنزل وعدہ اورخبرکے ہے اور دوسری آیت میں امر وفرضیت ہے یعنی اگر تمہاری تعدا بیس(20)ہو اور تمہارے مقابلے میں سو(100) کافرہوں تب بھی اللہ تعالیٰ تمہیں استقامت وصبر کے بدلے میں ان پر غلبہ عطافرمائے گا،مگر تمہاری کمزوری اور ضعف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر تخفیف فرمائی ہے اور ایسی صورت میں قتال تم پر فرض نہیں کیاگیا جب تک ان کے نصف کے برابر تمہاری تعداد نہ ہویعنی وہ دوسوہوں تو ان کے مقابلے میں تمہاری تعداد کم از کم ایک سوہو،دوہزار ہوں تو تم ایک ہزار ،بصورت دیگر صرف ترغیب جہاد، نصرت اور غلبہ کاوعدہ مذکور ہے،واللہ اعلم

(16)۔[اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا وَّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۴۱](التوبۃ:۴۱)کو عذروالی آیت یعنی:[لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَي الْمَرْضٰى وَلَا عَلَي الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلہِ وَرَسُوْلِہٖ۝۰ۭ مَا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۹۱ۙ وَّلَا عَلَي الَّذِيْنَ اِذَا مَآ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُكُمْ عَلَيْہِ۝۰۠ تَوَلَّوْا وَّاَعْيُنُہُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا يَجِدُوْا مَا يُنْفِقُوْنَ۝۹۲ۭ ] (التوبۃ:۹۱،۹۲) اور [لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ۝۰ۭ ](الفتح:۱۷) سےمنسوخ کہاگیاہے، شاہ صاحب فرماتے ہیں ’خفافا‘ سے مراد یعنی کس قدر بھی سواری،سامان،خادم اور زاد راہ میسر ہوسکے اور ’ثقال‘ سےمراد ان چیزوں کی کثرت ہے،اس لئے یہاں نسخ نہیں ہوسکتا، امام شوکانی اپنی تفسیر:۳۴۶میں اسے ترجیح دیتے ہیں کہ فی الواقع معذور آدمی’انفروا خفافا‘ کے حکم میں داخل نہیں اور اگرانہیں داخل تسلیم بھی کرلیاجائے تب بھی عام حکم سے انہیں خاص کیاجائےگا، اس طرح یہ آیت نسخ کےباب سے نہیں ہے، راقم الحروف کہتا ہےکہ آیت [لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۭ ]اس مسئلہ کی وضاحت کےلئے کافی ہے۔

(17)۔[اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَۃً اَوْ مُشْرِكَۃً۝۰ۡوَّالزَّانِيَۃُ لَا يَنْكِحُہَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ۝۰ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ۝۳](النور:۳)کو آیت :[وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ۝۰ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِہِمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۝۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۳۲ ] (النور:۳۲) سےمنسوخ کہاگیا ہے، شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے یہ معنی کیا ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب زانی عورت کے علاوہ کسی کا کفو نہیں بن سکتایا یہ حکم استحبابی ہےیعنی زانی عورت سے نکاح کرنا مستحب کے خلاف ہےاور ’حرم ذلک‘ میں اشارہ زنااور شرک کی طرف ہے اس لئے یہاں نسخ نہیں ہے ،راقم الحروف کہتا ہے:بظاہر آیت میں نکاح سے منع وارد ہے اور حرمت کا اشارہ بھی ظاہرا نکاح کی طرف ہے اور یہ نکاح سے منع اپنی جگہ قائم ہے لیکن آیت :[وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى ]اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اگرزانی عورت توبہ کرلے اور برائی سے باز آجائے تو اس سے مسلمان مرد نکاح کرسکتا ہے اسی طرح زانی مرد توبہ کرلے اور برائی سے باز آجائے تو اس سے مسلمان مرد نکاح کرسکتا ہے ،اسی طرح زانی مرد توبہ کرکے برائی کوچھوڑ دے تو مسلمان عورت سے شادی کرسکتا ہے کئی لوگ برائی کو ترک کر کے مسلمان ہوگئے اسی طرح کئی عورتیںمسلمان ہوئیں ان سب کے نکاح کروائے گئے، اس لئے آیت میں جس طرح تنبیہ وارد ہے یہی تنبیہ زانی مرد یا زانیہ عورت سے نکاح پر بھی ہے بلکہ مرد کو چاہئے کہ شریف عورت سے نکاح کرے اور فاحشہ عورت سے بچے یہی حکم عورت کے لئے بھی ہے۔

واللہ اعلم

(18)۔[يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِـيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ۝۰ۭ ](النور:۵۸)کو آیت :[وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْا كَـمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ ] (النور:۵۹) سےمنسوخ قرار دیا گیا ہے،سیوطی نےکہا کہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ بسبب لاپرواہی لوگوں نے اس پر عمل ترک کردیا ہے،شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ابن عباس wاس آیت کو غیرمنسوخ کہتے ہیں اور یہی بات اولیٰ ہے،راقم الحروف کہتا ہےکہ دونوں آیات میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ نابالغ لڑکوں اورغلاموں کو تین اوقات میں استیذان یعنی آنے کی اجازت طلب کرنی ہے مگر بلوغت کے بعدانہیں دوسروں کی طرح ہروقت اجازت لینے کاحکم ہے۔

(19)۔[لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْۢ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَــبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَـبَكَ حُسْنُہُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ](الاحزاب:۵۲)کو[يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِيْٓ اٰتَيْتَ اُجُوْرَہُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ] (الاحزاب:۵۰) سےمنسوخ کہاگیا ہے، شاہ صاحب اس نسخ کو قبول کرتے ہیں مگر اس کے برعکس کہتے ہیں (یعنی پہلے آیت ناسخ اور دوسری منسوخ ہے) راقم الحروف کہتا ہے کہ پہلی آیت سے جمہور نےیہ مراد لیاہے کہ:’حللنا لک ازواجک الکائنات عندک لانھن اخترنک علی الدنیا وزینتھا‘(تفسیر شوکانی ۴؍۲۸۸) یعنی ہم نے آپ کے لئے وہ عورتیں حلال کی ہیں جو آپ کے پاس نکاح میں ہیں کیونکہ باوجود اختیار دینے کے انہوں نے دنیا کی زیب زینت کو ترک کرکے آپ کو اختیار کیا ہے، شوکانی کہتے ہیں کہ:وہذا ھو الظاہر لان قولہ احللنا وآتیت ماضیان وتقیید الاحدال لایتاء الاجور لیس لوقف الحل علیہ لانہ یصح بلاتسمیتہ ویجب مھرا المثل مع الوطئ والمتعۃ مع عدمہ فکانہ لقصد الارشاد ما ھو الافضل.

یعنی ظاہرا جمہور کاقول صحیح ہے کیونکہ حلال کرنےکے ساتھ مہر کاذکر اس لئے نہیں ہے کہ اس کی حلت مہر پرموقوف ہےکیونکہ مہر مقرر کیے بغیر بھی نکاح درست ہوجاتا ہے ،ثابت ہوا کہ یہ حلت کسی بڑی شان کی خاطر ہے اور دوسری آیت میں ازواج مطہرات کی اسی قربانی یعنی دنیا کو ترک کرکے رسول اللہ ﷺ کو اختیار کرنے کی بھلائی کے عوض اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مزیدنکاح کرنے سےمنع فرمایا ہے ،امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہی موقف ہے ابن عباس t،مجاہد،ضحاک،قتادہ، حسن بصری، محمد بن سیرین ،ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن الحارث، ابن زید اور امام ابن جریر کا۔

(20)۔[يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَۃً۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاَطْہَرُ۝۰ۭ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۲] (المجادلۃ:۱۲)اسے مابعد آیت سے منسوخ کہاگیا ہے،اسی طرح شاہ صاحب نے بھی منسوخ تسلیم کیا ہے، راقم الحروف کہتا ہے کہ آیت کا آخری حصہ اس چیز پر دلالت کرتا ہے کہ یہ حکم ان لوگوں کیلئے نہیں ہے جن کے پاس کوئی چیز موجود نہ ہو(یعنی جوصاحب استطاعت نہ ہوں) دوسری آیت کے بارے میں شوکانی اپنی تفسیر ۵؍۱۸۵میں لکھتے ہیں:وہذا خطاب لمن وجد مایتصدق بہ ولم یفعل واما من لم یجد فقد تقدم الترخیص لہ بقولہ فان لم تجدوا فان اللہ غفور رحیم.

یعنی یہ حکم ایسے لوگوں کے لئے ہےجن کے پاس صدقہ کرنے کی طاقت موجود نہ ہواور ایسی رخصت پہلی آیت کےآخری حصے میں مذکور ہےیعنی اگر تمہارے پاس صدقہ کرنے کے لئے کوئی چیز دستیاب نہ ہوتو اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والامہربان ہے،اس لئے یہاں نسخ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

(21)[فَاٰتُوا الَّذِيْنَ ذَہَبَتْ اَزْوَاجُہُمْ مِّثْلَ مَآ اَنْفَقُوْا](الممتحنۃ:۱۱)اسےبعض علماء نے لڑائی کے حکم والی آیت سےمنسوخ قراردیاہے،سیوطی کہتے ہیں:بعض علماء اسے محکم وغیرمنسوخ کہتے ہیں، شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ: یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ اس کا حکم اس وقت کےلئے ہے کہ جب کفار کو زیادہ قوت حاصل ہو یا ان سے کسی قسم کا معاہدہ یاصلح ہو۔

(22)[قُـمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۲ۙ](المزمل:)کو سورۃ کے آخری حصے سے منسوخ کہتے ہیں اور پھر آخری حصہ کو پنج وقتہ نمازوں کی فرضیت سےمنسوخ قرار دیتے ہیں ،شاہ صاحب کہتے ہیں کہ پنج وقتہ نمازوں سے اسےمنسوخ کہنا موزوں نہیں ہے، حق یہ ہے کہ سورت کی ابتداء میں قیام اللیل کے استحباب کا تاکیدی حکم ہے اور آخری حصہ میں اس تاکید میں تخفیف کی گئی ہے، راقم الحروف کہتا ہے کہ آخری حصہ نے پہلے حصے کی تفسیر بیان کی ہے یعنی یہ امراستحباب ہے نہ کہ وجوبی۔

ناظرین! یہ تمام بائیس(22)آیات ہیں جن میں سے بیس آیات کو سیوطی نےمنسوخ تسلیم کیا ہے، ہم نے الحمدللہ شاہ صاحب ،دیگر علماء اور اپنی ناقص علمیت سے ثابت کیا کہ ان تمام آیات کی صحیح توجیہ ممکن ہے اس لئے کسی نسخ کا احتمال باقی نہیں رہتا، اس کے بعد ہم نسخ کے بارے میں ضروری قواعد ذکر کرتے ہیں۔

جاننا چاہئے کہ اس طرح اکثر آیات کو منسوخ قراردیکر ان کے حکم کو ختم کرنے کا رواج متاخرین میں زیادہ رہا ہے، سلف صالحین میں عموما اس طرح کثرت نسخ کار واج نہ تھا بلکہ جہاں انہوں نے نسخ کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں ان کی یہ مراد نہیں ہوتی کہ اس آیت کاحکم ہی ختم ہوگیا اب اس پر عمل کرناجائز نہیں ہے، یہ اصطلاح بعد والوں کی اختراع ہے، سلف میں اکثر عام کوخاص کرنے،مطلق کو مقید پرمحمول کرنے نیز تفسیر ، توضیح ،استثناء وغیرہ کو نسخ کہاجاتاتھا ،حافظ ابن قیم فرماتے ہیں :

مراد عامة السلف بالناسخ والمنسوخ رفع الحكم بجملته تارة- وهو اصطلاح المتأخرين- ورفع دلالة العام والمطلق والظاهر وغيرها تارة، إما بتخصيص أو تقييد مطلق. وحمله على المقيد وتفسيره وتبيينه. حتى إنهم يسمون الاستثناء والشرط والصفة نسخا، لتضمن ذلك رفع دلالة الظاهر وبيان المراد. فالنسخ، عندهم وفي لسانهم، هو بيان المراد بغير ذلك اللفظ، بل بأمر خارج عنه. ومن تأمل كلامهم رأى من ذلك فيه ما لا يحصى، وزال عنه به إشكالات أوجبها حمل كلامهم على الاصطلاح الحادث المتأخر.انتهى.(تفسیر القاسمی ۱؍۳۲،۳۳)

یعنی ناسخ منسوخ کا یہ معنی کہ پہلاحکم بلکل ختم ہوگیا متاخرین کی اصطلاح ہے، اسلاف میں ہروقت یہ معنی مراد نہیں ہوتاتھا، بلکہ نسخ سے کبھی عام کوخاص کرنا، مطلق کو کسی قید سےمقید کرنا، کسی آیت کی دوسری آیت سے تفسیر یاوضاحت کرنا مراد لیتے تھے، حتی کہ نسخ کا اطلاق کسی آیت کا دوسری آیت سے جزوی استثناء پر بھی ہوتاتھا، اگر کسی آیت کے لئے دوسری آیت میں کوئی شرط یا صفت مذکور ہوتی تو اسے بھی نسخ سے تعبیر کرتے تھے، اس لئے کہ ان صورتوں میں ظاہری معنی میں کچھ تبدیلی واقع ہوتی ہے نہ یہ کہ اس کا حکم ہی ختم ہوجاتاہے، اگر سلف کے کلام پر غور کیاجائے تو کئی مقامات پر یہ نظرآتا ہے کہ متاخرین نے جونسخ کا عام دروازہ کھولاہے اس سے کئی اشکالات پیداہوتے ہیں(مثلاً: اگرقرآنی آیات اس کثرت سے منسوخ ہیں تو ان کاحکم قابل عمل نہ رہا، پھر ان کے پڑھنے کاکیافائدہ؟ اسے قانونی کتاب کیسے قراردیاجاسکتا ہے، اس کی اطاعت وپیروی ہم پر کیسے فرض ہوئی؟ بلکہ ہر مخالف کو اعتراض کا موقع مل جاتا ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی آیت میں تعارض کا دعویٰ کرکے اس پر نسخ کاحکم لگاتارہے گاوغیرہ اس قسم کے اعتراضات سامنے آتے رہیں گے وہ سارے)دور ہوجائیں گےبحول اللہ وقوتہ۔اسی طرح امام شاطبی نے کتاب الموافقات :ص:۱۰۸ سے ۱۱۷ج۳میں بیان کیا ہے، امام موصوف نے کئی ایسی آیات نقل کرکے ان میں توجیہات بھی بیا ن کی ہیں، اور سلف صالحین سے کئی مثالیں نقل کی ہیں، ان میں سے دو مثالیں یہاں نقل کی جاتی ہیں:

ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:

[قُلِ الْاَنْفَالُ لِلہِ وَالرَّسُوْلِ۝۰ۚ ](الانفال:۱)[وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ] (الانفال:۴۱)کے لئے ناسخ ہے،حالانکہ دوسری آیت پہلی کے لئے بیان اوروضاحت ہے، اسی طرح ابودرداء وعبادہ بن الصامتw فرماتے ہیں کہ:آیت :[وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ۝۰۠ ] (المائدہ:۵)کے لئے آیت :[وَلَاتَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ۝۰ۭ ](الانعام:۱۲۱) ناسخ ہے حالانکہ دوسری آیت پہلی کے عموم کوخاص کرتی ہے یا اس کے لئے شرط بیان کرتی ہے،ایسی کئی مزید مثالیں امام شاطبی نے ذکر کی ہیں، نیز اسی طرح شاہ ولی اللہ نے الفو ز الکبیر میں بیان فرمایا ہے اور موصوف شکایتاً لکھتےہیں کہ اس طرح عام دروازہ کھول کر کئی آیات کو منسوخ کہا گیا جن کی تعداد تقریباپانچ سو تک پہنچ جاتی ہے، غور کیاجائے تو اسلاف کے نزدیک متاخرین کی بنسبت صرف چند آیات منسوخ قرار پاتی ہیں، بلکہ جس طرح میں نے توجیہات پیش کیں اس کے مطابق منسوخ آیات کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔

ناظرین!ان قلیل تعداد کی بھی ہم نے توجیہ ذکرکردی ہے،اس لئے انہیں بھی منسوخ نہیں کہناچاہئے ،اصل قاعدہ یہ ہے کہ جمع وتطبیق نسخ پر مقدم ہے، جب تک بظاہر دومتعارض کے درمیان رفع تعارض یا ان میں تطبیق کی کوئی صورت ممکن ہوتو ان پر نسخ کاحکم لگانا درست نہیں ہے یہ ایسا قاعدہ ہے جو ہرکسی کے نزدیک مسلمہ ہے کیونکہ کسی آیت یاحکم الالٰہی کو بلاوجہ بے کار اور حکم سے خارج قراردینا جائز نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ[وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِيْہِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا۝۸۲ ] (النساء:۸۲) ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ احکامات میں ایساتعارض ہرگز نہیں ہوسکتا کہ جس کا رفع ناممکن ہویاتطبیق محال ہو، جب حقیقت یہ ہےتوپھر کسی آیت پر نسخ کاحکم لگانا کیسے درست ہوگا؟ اس لئے نسخ کی طرف قدم بڑھانے سے خاموشی بہتر ہے۔

ناظرین! امام زرکشی البرھان ۲؍۴۳میں لکھتے ہیں کہ:

یعنی اس آیت سے اس بات پر استدلال کرنا کہ قرآن میں بعض آیات ایسی ہیں جن کے احکام منسوخ ہیں درست نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں اس طرح نہیں ہے کہ ہم اس قرآن کی آیت کو منسوخ کرکے دوسری آیت کو لاتے ہیں، قرآن چونکہ آخری کتاب ہے، پہلے احکامات کو منسوخ کرنے والا،کتب گذشتہ پرنگہبان ہے اس کے بعد اس کے لئے کوئی کتاب ناسخ نہیں ہے، جن آیات کو علماء نے منسوخ کہا ہے ان کی تعداد انتہائی قلیل ہےجن کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی نسخ نہیں بلکہ تاخیر کے باب سے ہیں، اور جن آیات کو حدیث سے منسوخ کیاگیا دراصل حدیث میں ان آیات کی تفسیر وبیان ہے، کئی مفسرین نے بعض آیات کو دوسری آیات سے منسوخ قرار دیا ہے حقیقتاً ان کا تعلق نسخ کے باب سے نہیں ہوتا بلکہ تاخیر کے باب سے ہے، مثلا ایک حکم مجمل نازل ہوااور کچھ عرصہ بعداس کا بیان کیاگیا،اور کسی جگہ عام کوخاص کیاگیا، اس قسم کی آیات کے بارے میں منسوخیت کا گمان کیاگیا ہے،مگرحقیقتاً ایسا نہیں ہے کیونکہ قرآن تو خود دوسری کتابوں پر نگہبان ہے، اس کی آیات ایک دوسرے کی مؤید ہیں، ان کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لی ہے جیسے فرمایا:ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہم ہی اس کے نگہبان اور محافظ ہیں۔                                   (جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے