Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ ستمبر » فضائل علی رضی اللہ عنہ اور من گھڑت روایات

فضائل علی رضی اللہ عنہ اور من گھڑت روایات

نبی اکرم ﷺ کا فرمان ذیشان ہے:’’ فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ‘‘

 (سنن ابی داؤد: 4607، جامع ترمذی ، حدیث نمبر: 2676، وقال ھذا حدیث حسن صحیح ، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر : 420 علامہ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا یہ حدیث صحیح ہے۔ )’’ تم پر میری سنت اور خلفاء راشدین جوکہ ہدایت یافتہ ہیں، کی پیروی لازم ہے۔ ‘‘ان خلفاء راشدین میں سب سے پہلے نمبر پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، دوسرے نمبر پر سیدنا عمررضی اللہ عنہ، تیسرے نمبر پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور چوتھے نمبر پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ  کی شخصیت اسلامی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہے، آپ کو جہاں خلیفہ رابع ہونے کا شرف حاصل ہے وہیں آپ کے حصے میں یہ مرتبت بھی آئی کہ آپ رسول اکرم ﷺ کے چچیرے بھائی اور داماد ہیں اور فاتح خیبر ہونے کا شرف بھی آپ کی شخصیت کا ایک ممتاز پہلو ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ  ان شخصیات میں سے ہیں جنہیں سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں شمار کیا جاتا ہے، مردوں میں سب سے پہلے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ، خواتین میں سیدہ خدیجہ اور بچوں میں سب سے پہلے سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے، اس کے بعد مکی دور جو رسول اکرم ﷺ کے لئے انتہائی کٹھن اور صبر آزما دور تھا ، اس موقع پر ہر آن آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہوئے، بلکہ ہجرت کی رات سیدنا ابو بکرt کے حصے میں یہ شرف آیا کہ وہ رفیق سفر ِہجرت بنے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حصے میں یہ شرف آیا کہ انہوں نے اس رات نبی اکرمﷺ کے بستر پر آرام فرمایا،اور ہجرت کے بعد بھی آپ کبھی جنگوں میں نبی اکرم ﷺ کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتےہیں ، تو کبھی جنگ تبوک کے موقع پر مدینہ منورہ میں نبی اکرمﷺ کے جانشین کی صور ت میں ، کبھی آپ کو نبی اکرم ﷺ نے یمن کے لئے قاضی اور مبلغ کی حیثیت سے منتخب فرمایا تو کبھی فتح خیبر کے لئے عظیم سپہ سالار کی حیثیت سے منتخب فرمایا۔ بہرحال آپ کی شخصیت کے  یہ مختلف جھروکے کتب سیرت اور کتب تاریخ میں بکھرے پڑے ہیں جو کھو ل کھول کر آپ کے فضائل و مناقب  بیان کررہے ہیں۔

ان فضائل و مناقب سےکسی مؤمن کو کوئی انکار ہے نہ ہوسکتا ہے ، البتہ کسی ضعیف ، موضوع یا من گھڑت روایت سے ثابت منقبت کے اہل توحید و حدیث قائل نہیں اور جس طرح سلف نے اس قسم کی روایات کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے کھول کر نکیر بھی کی اور اس قسم کی روایات کے نشر سے گریز بھی کیا، یہی منہج اہل حدیث کا ہے کہ اس قسم کی مرویات جو دور حاضر میں بھی بڑی شدو مد کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں اور جھوٹے قصے اور روایات بیان کرکے قصہ گو واعظین اور ذاکرین پیسہ بھی بٹورتے ہیں اور جاہل عوام کی داد بھی۔ لیکن دنیا کے چند ٹکوں کے لئے شریعت کے ساتھ تحریف و تبدیل کا سلوک جو وہ کرتے چلے جاتے ہیں ،اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی، واضح رہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت جو قطعا ًاس بات کی محتاج نہیں کہ اس کے لئے من گھڑت روایات کا سہارا لینا پڑے بلکہ ان کی عظمت تو صحیح ثابت شدہ مرویات میں بھرپور بیان ہوئی ہیں۔

 علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی کچھ اسی قسم کا تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’وفضل علي رضي الله عنه أشهر من أن يستدل عليه بمثل هذه الموضوعات، التي يتشبث الشيعة بها، ويسودون كتبهم بالعشرات من أمثالها، مجادلين بها في إثبات حقيقة لم يبق اليوم أحد يجحدها، وهي فضيلة علي رضي الله عنه.‘‘ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : 894)

یعنی : سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت تو اس بات سے کہیں زیادہ مشہور ہے کہ اسے موضوع روایات سے استدلال کرکے بیان کیا جائے ، جنہیں شیعہ نے گھڑا اور اس طرح کی دسیوں مرویات کے ذریعے اپنی کتب کو سیاہ کرکے رکھ دیا۔ اور اس سے اثبات بھی اس حقیقت(سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت) کا کیا جاتا ہے جس سے کسی کو انکار ہی نہیں ۔

زیر نظر بحث میں ایسی ہی بعض روایات کی تحقیق  مقصود ہے تاکہ ان کے بیان اور انہیں عام کرنے سے ہم حد درجہ احتیاط بھی برتیں اور جو لوگ اس قسم کی مرویات بیان کرتے ہیں ان سے بھی محتاط رہیں۔واضح رہے کہ جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اشار ہ کیا کہ فضیلت علی کے حوالےسے بکثرت من گھڑت روایات موجود ہیں، سب کا احاطہ مقصود نہیں بلکہ ہم یہاں صرف دس روایات کا تذکرہ کررہے ہیں۔

پہلی روایت:

[عن ابن عباس قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) حب علي يأكل الذنوب كما تأكل النار الحطب] (تاریخ دمشق : 13/52، تاریخ بغداد:5/318)

ترجمہ : ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: علی کی محبت گناہوں کو اس طرح کھاجاتی ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔

حکم :

اس کی سند میں احمد بن شبویہ مجہول ہے اور محمد بن مسلمۃ ضعیف ہے۔

خطیب بغدادی اس روایت کودرج کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’رجال إِسْنَاده بعد مُحَمَّد بن مسلمة كلهم معروفون ثقاة، والْحَدِيث بَاطِل مركب عَن هَذَا الْإِسْنَاد ‘‘

’’ اس کی سند میں محمد بن مسلمہ کے بعد سب کا ثقہ ہونا معروف ہے ، یہ حدیث باطل ہے اور اس سند سے بنائی ہوئی ہے۔

علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ اسے موضوعات میں لائےہیں۔

 (الموضوعات: 1/370)

حافظ ذہبی نے اسےباطل قرار دیا۔ (تلخیص الموضوعات: 264)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ومحمد بن مسلمة سيأتي ترجمته وإنه ضعيف والراوي عنه أحمد بن شبويه هذا مجهول فالآفة من أحدهم‘‘

(لسان المیزان : 588)

’’ محمد بن سلمہ کا ترجمہ عنقریب آرہا ہے اور وہ ضعیف ہے اور اس سے روایت کرنے والا احمد بن شبویہ مجہول ہے آفت ان میں سے کسی ایک کی طرف سے ہے۔ ‘‘

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو باطل قرار دیا۔

(سلسلۃ الضعیفۃ : 1206)

دوسری روایت:

عن حذيفة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” من سره أن يحيا حياتي، ويموت ميتتي، ويتمسك بالقصبة الياقوتة التي خلقها الله بيده ثم قال لها: كوني، فكانت، فليتول علي بن أبي طالب من بعدي ” (حلیۃ الاولیاء : 1/86، 4/174)

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جسے یہ پسند ہوکہ وہ میری زندگی جئیے اور میری موت مرے، اوریاقوت  سے مرصع موتی  حاصل کرے جسے اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا پھر اسے کہا ہوجا ، وہ ہوگیا۔ اسے چاہئے کہ وہ میرے بعد علی کو دوست بنائے۔

حکم :

علامہ سیوطی رحمہ اللہ نےاس کی سند میں موجود محمد بن زکریا الغلابی کو متھم قرار دیا۔ (اللآلىء المصنوعة : 1/337)

ابن عراق الکنانی نے بھی اس کی سند میں موجود محمد بن زکریا الغلابی کو متھم قرار دیا۔ (تنزیہ الشریعۃ 1/361)

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو سلسلۃ الضعیفۃ میں درج کیا   اور موضوع قرار دیا۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے  شریک بن عبداللہ القاضی پر جرح نقل کی کہ ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد نے اس کی حدیث کو چھوڑ دیا تھا۔ اس کی سند میں موجود ایک اور شخص محمد بن زكريا الغلابي کو اس حدیث کی اصل آفت قرار دیا اور امام دارقطنی سے نقل کیا کہ یہ حدیث گھڑتا تھا ، حافظ ذہبی نے اسے متھم قرار دیا۔ (السلسلۃ الضعیفۃ: 893)

تیسری روایت:

ایک روایت عام طور پر بیان کی جاتی ہےکہ خیبر کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عصر کی نماز نکل گئی ، اور وجہ یہ تھی کہ نبی ﷺ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں سورہے تھے اور انہوں نے نبی ﷺ کو اٹھانا مناسب نہ سمجھا اسی حال میں سورج غروب ہونے کا وقت ہوگیا، نبی ﷺ بیدار ہوئے تو دعا کی:’’اللهم إنه كان في طاعتك وطاعة رسولك فاردد عليه الشمس‘‘

’’ اے  اللہ !  علی تیرے نبی کی اطاعت میں بیٹھے رہے لہذا تو دوبارہ سورج کو طلوع کردے‘‘  اور سورج دوبارہ طلوع ہوا اور پھر نبی اکرمﷺ اورسیدنا علی نے نماز ادا کی۔(شرح مشکل الآثار: 2/9)

حکم :

مختلف طرق سے یہ روایت مختلف کتب میں موجود ہے لیکن تمام طرق ہی اس کے موضوع کے درجے کے ہیں، حافظ ذہبی ، ابن الجوزی، علامہ سیوطی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ البانی  رحمھم اللہ نے اسے موضوع قرار دیاہے۔ (دیکھئے:السلسلۃ الضعیفۃ : 971)

چوتھی روایت:

[يا عمار بن ياسر! إن رأيت علياً قد سلك وادياً وسلك الناس وادياً غيره؛ فاسلك مع علي؛ فإنه لن يدلك على ردى، ولن يخرجك من هدى]

(تاریخ دمشق : 42/72)

یعنی : نبی اکرم ﷺ نے عمار بن یاسر سے فرمایا: اے عمار بن یاسر! اگر تم دیکھو کہ علی ایک راہ پر ہیں اور باقی لوگ دوسری راہ پر تو تم علی کے ساتھ چلنا، کیونکہ وہ تمہاری کسی بے فائدہ چیز کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اور نہ ہی تمہیں ہدایت سے نکالیں گے۔

حکم:

ابن الجوزی رحمہ اللہ نے فرمایا:[ هَذَا حَدِيثٌ مَوْضُوعٌ بِلا شَكٍّ ]

یعنی یہ حدیث بلا شک و شبہ موضوع ہے۔

 (الموضوعات لابن الجوزی: 2/12)

 مزید معلی بن عبدالرحمٰن کے بارے میں جرح نقل کیں کہ ابن المدینی رحمہ اللہ نے کہا کہ: وہ حدیث گھڑتا تھا، ابوحاتم رازی نے کہا: متروک ہے، ابو زرعہ نے کہا کہ: ذاھب الحدیث ہے۔

اس کی سند کے ایک اور راوی احمد بن عبداللہ المؤدب کےبارےمیں جرح نقل کی کہ ابن عدی نے کہا کہ یہ حدیث گھڑتا تھا، دارقطنی نے کہا کہ متروک الحدیث ہے۔

اور پھر اس کے دیگر طرق کی حققیت بھی کھول دی۔

علامہ سیوطی نے  فرمایا: ’’ مَوْضُوع: والمعلى مَتْرُوك يضعُ وَأَبُو أَيُّوب لَمْ يشْهد صفّين‘‘  یعنی یہ حدیث موضوع ہے، معلی متروک ہے ، احادیث گھڑتا تھا، اور ابو ایوب تو جنگ صفین میں موجود ہی نہیں تھے۔ ( اللآلی المصنوعۃ: 1/374)

امام جورقانی نے فرمایا:’’هذا حديث موضوع لا شك فيه ‘‘اس حدیث کے موضوع ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الاباطیل والمناکیر :1/329 )

ابن العراق الکنانی بھی اسے تنزیہ الشریعۃ میں لائے۔

(تنزیہ الشریعۃ : 1/371)

علامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع قراریا۔

(السلسلۃ الضعیفۃ : 4896)

پانچویں روایت:

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

[أنا وهذا (يعني: علياً) حجة على أمتي يوم القيامة]

(تاریخ بغداد: 2/88، تاریخ دمشق : 42/308)

یعنی : میں اور یہ علی قیامت کے دن اپنی امت پر حجت ہوں گے۔

حکم :

 علامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع قرار دیا۔ (السلسلۃ الضعیفۃ : 4900)

اس کی سند میں ایک راوی مطر بن ابی مطر ہے جس کو امام بخاری ، ابوحاتم اور  نسائی نے منکر الحدیث قرار دیا۔

( میزان الاعتدال ، ترجمہ مطر)

ازدی نے متروک قرار دیا۔(تہذیب التہذیب، ترجمہ مطر)

ساجی نے منکر الحدیث قرار دیا۔  (تہذیب التہذیب، ترجمہ مطر)

ابن حبان: كان ممن يروي الموضوعات عن الاثبات يروي عن أنس ما ليس من حديثه في فضل علي بن أَبي طالب وغيره لا تحل الرواية عنه.

(المجروحين: 3 / 5)

یعنی : یہ ان راویوں میں سے ہےجو ثقہ راویوں سے موضوع روایات بیان کرتے ہیں ، انس سے علی بن ابی طالب وغیرہ کے بارے میں وہ روایت بیان کرتا ہےجو اس کی حدیث نہیں ، اس سے روایت لینا جائز نہیں۔

امام حاکم:’’يضع الْأَحَادِيث فِي الْفَضَائِل فيرويها عَن أنس بن مَالك‘‘ یعنی :  فضائل میں احادیث گھڑکے انس بن مالک سے بیان کرتا ہے۔ (مستدرک حاکم : 10/170)

دارقطنی نے اسے الضعفاء والمتروکین میں درج کیا ہے۔ (الضعفاء والمتروکین : 530)

حافظ ذہبی نے بھی اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد اسے باطل قرار دیا۔ (میزان الاعتدال، ترجمہ مطر)

حافظ ابن حجر نے اسےمتروک قرار دیا۔

(تقریب التہذیب : 6703)

چھٹی روایت:

[لما أسري بي؛ رأيت في ساق العرش مكتوباً: لا إله إلا الله، محمد رسول الله صفوتي من خلقي، أيدته بعلي ونصرته](تاریخ  ابن عساكر: (16/ 455 – 456،

اس میں عمار بن مطر اور ابو حمزۃ الثمالی مجروح ہیں۔ اور صفحہ نمبر (42/ 336)پر ایک اور طریق سے ذکر کیا اس میں عبادہ بن زیادہ ، عمرو بن ثابت اور ابو حمزۃ الثمالی مجروح ہیں۔ اس روایت کو امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کیا ہے، (22/ 200) ح 526  ، سند وہی ہے۔اور اسے ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء (3/27) میں بیان کیا ہے، اور اس سند میں احمد بن الحسن الکوفی ہے۔ )

جب مجھے اسراء کروائی گئی میں نے عرش کے نیچےلکھا دیکھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، محمد اللہ کے رسول ہیں اور مخلوق میں سے چنے ہوئے ہیں اور علی کے ذریعے سے میرے مدد کی گئی ۔

حکم :

ابو الحمرا ء سے مروی یہ حدیث تاریخ دمشق لابن عساکر میں دو جگہ موجود ہے، ایک جگہ (16/455، 456) پر یہ روایت [۔۔۔۔ حدثنا عمار بن مطر حدثنا عمر بن ثابت عن أبي حمزة الثمالي عن سعيد بن جبير عن أبي الحمراء قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم)۔۔۔۔الخ ]  کی سند سے موجود ہے ۔

اس سند سے بھی یہ روایت موضوع کے درجے کی ہے ، جیسا کہ  ابن عراق الکنانی نے اس سند میں موجود راویوں عما ر بن مطر اور ابو حمزہ الثمالی پر جرح کی کہ یہ رافضی ، ثقہ نہیں ہیں۔ (تنزیہ الشریعۃ: 164)

عمار بن مطر

حافظ ذہبی نے یہ اشارہ کرتے ہوئے کہ بعض نے اس کی توثیق اور بعض نے اس کا حفظ بیان کیا ہے ،اس کے بعد کئی ایک اقوال جو اس پر جرح کے حوالے سے ہیں ، نقل کئے :

حافظ ذہبی: ھالک

ابن حبان :’’ کان یسرق الحدیث ‘‘ یعنی یہ احادیث چراتا تھا۔

عقیلی : ثقات سے اکثر مناکیر بیان کرتا ہے۔

ابو حاتم الرازی : جھوٹ گھڑتا تھا۔

ابن عدی کہتے ہیں : اس کی احادیث باطل ہیں۔

دارقطنی : ضعیف ( میزان الاعتدال :6004)

ابو حمزۃ الثمالی

اس کا نام ثابت بن ابی صفیۃ ہے ، اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے ذکر کردہ اقوال درج کئے جاتے ہیں۔

امام احمد: لیس بشئی

امام ابن معین: لیس بشئی

امام ابو حاتم : لین الحدیث

امام نسائی: لیس بثقۃ

حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ سلیمانی نے اسے روافض میں سے شمار کیا ہے۔  (میزان الاعتدال: 1358)

اس کے بارے میں بحوالہ سلسلۃ الضعیفۃ کلام آگے آرہا ہے۔

یہ حدیث تاریخ دمشق میں دوسری جگہ (42/336) [حدثنا إبراهيم بن هانئ النيسابوري حدثنا عبادة بن زياد الأسديحدثنا ناعمرو بن ثابت بن أبي المقدام عن أبي حمزة الثمالي عن سعيد بن جبير عن أبي الحمراء خادم رسول الله (صلى الله عليه وسلم) قال سمعت رسول الله (صلى الله عليه وسلم)۔۔۔۔الخ ] کی سند سے موجود ہے ۔

اس سند پر علامہ البانی رحمہ اللہ نےروایت کو موضوع قرار دیتے ہوئے  تین راویوں عبادۃ بن زیاد الاسدی ، عمرو بن ثابت اور ابو حمزۃ الثمالی پر جرح نقل کی  ، جن کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے ۔

ابو حمزۃ الثمالی :

دارقطنی : متروک

ابن حبان : احادیث میں کثیر الوھم ہے ، حتی کہ جب یہ منفرد ہو تو قابل احتجاج نہیں اور یہ غالی شیعہ ہے۔(مزید اس پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ  کا نقل کردہ کلام گزر چکا۔ )

عمرو بن ثابت :

ابن معین : لیس بشئی اور ایک مقام پر لیس بثقۃ ولا مأمون

نسائی : متروک  الحدیث

ابن حبان : موضوع روایات بیان کرتا ہے۔

ابو داؤد : یہ رافضی، خبیث ہے۔

عبادۃ بن زیاد:

یہ بھی شیعہ ہے ، لیکن مختلف فیہ قرار دینے کے بعد اصل آفت اسے قرار نہیں دیتے۔ (سلسلۃ الضعیفۃ : 4902)

اسی سند سے یہ روایت المعجم الکبیر میں بھی ہے اور المعجم الکبیر کے حوالے سے علامہ ہیثمی نے اسے نقل کیا اور عمرو بن ثابت پر متروک ہونے کی جرح کی ،(مجمع الزوائد : 14702)

لہذا اس سند کا حکم بھی موضوع کا ہے۔

یہ روایت حلیۃ الاولیاء میں [۔۔۔ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْكُوفِيُّ، قَالَ: ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي الْحَمْرَاءِ۔۔۔الخ ] کی سند سے ہے (حلیۃ الاولیاء : 3/27)جو مذکورہ بالا دونوں سندوں سے مختلف ہے ۔

ابو نعیم اس روایت کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں : ’’ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، لَمْ نَكْتُبْهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ‘‘یعنی یہ یونس بن عبید عن سعید کے طریق سے غریب ہم نے اسے صرف اسی سند کے ساتھ لکھا ہے ، گویا کہ ابو نعیم رحمہ اللہ اشارہ فرمارہےہیں کہ باقی اسانید لکھنے کے قابل نہ تھیں۔لیکن جس سند سے ابو نعیم لائے ہیں اس میں بھی احمد بن الحسن الکوفی ہے ، جیساکہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حلیۃ الاولیاء کے طریق سے نقل کرکے احمد بن الحسن الکوفی کے بارے میں ابن حبان کی جرح نقل کی کہ یہ موضوع روایات بیان کرتا ہے اور دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے متروک قرار دیا۔ اورخود بھی علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس روایت کو لایصح قرار دیا۔لہذا  اس سند کے ساتھ بھی موضوع کے درجے کی ہے۔ (العلل المتناھیۃ : 378)

ساتویں روایت:

[من أراد أن ينظر إلى آدم في علمه، وإلى نوح في فهمه، وإلى إبراهيم في حلمه، وإلى يحيى بن زكريا في زهده، وإلى موسى بن عمران في بطشه؛ فلينظر إلى علي بن أبي طالب]  (تاریخ دمشق : 42/313)

جو آدم کا علم ، نوح کا فہم ، ابراہیم کا حلم ، یحی بن زکریا کا زہد ، موسی بن عمران کے پکڑنے کو دیکھنا چاہے تو وہ علی کو دیکھ لے۔

علامہ ابن الجوزی نے اسے موضوع قرار دیا۔

(الموضوعات :1/370)

علامہ جلال الدین سیوطی نے اس حکم کو برقرار رکھا، البتہ بعض طرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’(قلت) لَهُ طَرِيق آخر عَن أبي سَعِيد قَالَ ابْن شاهين قَالَ الديلمي أَخْبَرَنَا أبي حَدَّثَنَا عَلِيّ بْن دُكَيْن القَاضِي حَدَّثَنَا عَلِيّ بْن مُحَمَّد بْن يُوسُف حَدَّثَنَا الْفضل الْكِنْدِيّ حَدَّثَنَا عَبْد الله بْن مُحَمَّد بْن الْحَسَن مولى بني هَاشم بِالْكُوفَةِ حَدَّثَنَا عَلِيّ بْن الْحُسَيْن حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن أبي هَاشم النَّوْفَلِي حَدَّثَنَا عَبْید الله بْن مُوسَى حَدَّثَنَا الْعَلَاء عَن أبي إِسْحَاق السبيعِي عَن أبي دَاوُد مقنع عَن أبي الْحَمْرَاء بِهِ وَورد عَن أبي سَعِيد قَالَ ابْن شاهين فِي السّنة حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن الْحُسَيْن بْن حميد بْن الرّبيع حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن عمرَان بْن حجاج حَدَّثَنَا عُبَيْد الله بْن مُوسَى عَن أبي رَاشد يَعْنِي الْحمانِي عَن أبي هَارُون الْعَبْدي عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ كُنَّا حَوْلَ النَّبِيِّ فَأَقْبَلَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فأدام رَسُول الله النَّظَرَ إِلَيْهِ ثُمَّ قَالَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى آدَمَ فِي عِلْمِهِ وَإِلَى نُوحٍ فِي حُكْمِهِ وَإِلَى إِبْرَاهِيمَ فِي حِلْمِهِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا وَالله أعلم.‘‘  (  اللآلی المصنوعۃ :1/325)

ابن عراق الکنانی نے بھی اس حکم کو برقرار رکھا البتہ ابن عباس والے شاھد کو کچھ اس طرح بیان کیا: ’’ (قلت) ومن حديث ابن عباس قال ابن بطة ثنا أبو ذر أحمد بن الباغندي ثنا أبي عن مسعر بن يحيى عن شريك عن أبى اسحق عن أبيه عن ابن عباس مرفوعا: ” من أراد أن ينظر إلى آدم في علمه وإلى نوح في حكمته وإلى إبراهيم في خلته فلينظر إلى علي، ” وقال الذهبي في الميزان: مسعر بن يحيى النهدي لا أعرفه وخبره منكر انتهى، وأبو الحمراء، قال البخاري: يقال له صحبة ولا يصح حديثه والله أعلم. ‘‘ ۔ (تنزیہ الشریعۃ :1/385)

سلسلۃ الضعیفۃ میں علامہ البانی نے اس روایت کو موضوع قرار دیتے ہوئےعلامہ سیوطی رحمہ اللہ اور ابن العراق کے بیان کردہ طرق کا جائزہ بھی پیش کردیا۔جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے :

  پہلی سند جس میں عبیداللہ بن موسی کے شاگرد محمد بن مسلم بن وارہ ہیں ، اس سند میں عبیداللہ کا استاذ ابو عمرو الاذدی متروک ہے۔

دوسری سند جس میں عبیداللہ بن موسی کا شاگرد محمد بن ابی ہاشم النوفلی ہے، اس میں عبیداللہ بن موسی کا استاد علاء اور وہ روایت کرتے ہیں ابو اسحاق السبیعی سے اور ان کا استاد ابو داؤد مقنع کو حافظ ابن حجر نے متروک اور ابن معین نے کذاب قرار دے رکھا ہے ، لہذا یہ سند بھی موضوع ہوئی۔

تیسری سند میں عبیداللہ بن موسی کا شاگرد محمد بن عمران بن حجاج ہے، اور عبیداللہ بن موسی کا استاد ابو راشد  الحمانی  روایت کرتے ہیں کہ ابو ھارون العبدی سے ، وہ ابوسعید خدری سے۔ اس سند میں ابو ھارون العبدی جس کا نام عمارۃ بن جوین شیعہ تھا، متروک راوی ہے، بعض نے کذاب بھی کہا۔ لہذا یہ سند بھی موضوع کے درجے کی ہے۔(سلسلۃ الضعیفۃ : 4903)

خلاصہ یہ ہے کہ اس مفہوم کی تمام اسانید خواہ ابو حمراء سے مروی ہو یا ابو سعید سے یا ابن عباس سے یا انس سے سب موضوع کے درجے کی ہیں۔

 آٹھویں روایت:

[يا علي! لك سبع خصال، لا يحاجك فيهن أحد يوم القيامة: أنت أول المؤمنين بالله إيماناً، وأوفاهم بعهد الله، وأقومهم بأمر الله، وأرأفهم بالرعية، وأقسمهم بالسوية، وأعلمهم بالقضية، وأعظمهم مزيةً يوم القيامة](حلیۃ الاولیاء: 1/66)

 اے علی ! تیری سات خصلتیں ہیں قیامت کے دن ان کے بارے میں تجھ سے کوئی جھگڑا نہیں کرے گا۔ تو سب سے پہلے ایمان لانے والا ہے، اور اللہ کے عہد کو سب سے زیادہ پورا کرنے والا ہے اور اللہ کے امر کو سب سے زیادہ قائم کرنے والا ہے اور رعیت سے سب سے زیادہ پیار کرنے والا ہے، اور سب سے زیادہ برابر تقسیم کرنے والا، اور معاملے کو سب سے زیادہ جاننے والا اور قیامت کے دن خصوصیت و مرتبہ کے لحاظ سے سب سے زیادہ اعظم ہوگا۔

اس کی سند میں عصمہ بن محمد کذاب ہے جو احادیث گھڑتا تھا۔ ابن معین نے اس کے بارے میں کہا کہ یہ کذاب ہے، احادیث گھرتا تھا، عقیلی نے کہا کہ ثقہ راویوں سے باطل روایات بیان کرتا ہے۔

علامہ سخاوی نے اس سمیت چند ایک روایات ذکر کرکے فرمایا: وکلھا واھیۃ۔ (مقاصد الحسنۃ : 1/135)

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے موضوع قرار دیا۔

(سلسلۃ الضعیفۃ : 4913)

نویں روایت:

نبی اکرم ﷺ  نے فرمایا : ’’ النظر إلى علي عبادة‘‘

یعنی : علی کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ (مستدرک حاکم :4681،عن عمران بن حصین و 4682 عن عبداللہ ، حلیۃ الاولیاء :2/182،عن عائشۃ ، تاریخ بغداد: ۔۔۔ عن ابی ھریرۃ )

حکم :

یہ روایت بھی موضوع ہے۔

ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس کے تیرہ (13) طرق پیش کرنے کے بعد فیصلہ دیا ’’هذا الحديث لا يصح من جميع طرقه ‘‘ اس حدیث کے تمام طرق صحیح نہیں ہیں۔ (الموضوعات : 1/358، حدیث نمبر : 13)

علامہ البانی رحمہ اللہ اس روایت کو موضوع قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ روایت  عبد الله بن مسعود،  عمران بن حصين، عائشہ، أبو بکر الصديق، أبو ھریرہ ،أنس بن مالک، معاذ بن جبل،عثمان بن عفان، وغيرہم سے بیان کی جاتی ہے اور ان تمام اسانید پر کلام نقل کیا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے: سلسلۃ الضعیفۃ :4702)

تنبیہ :

بعض کا اس روایت متواتر(جیساکہ صاحب نظم المتناثر (243)نے علامہ سیوطی کے حوالے سے کہا کہ کثرت طرق کی بناء پر وہ اسے متواتر شمار کرتے ہیں۔ ) قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ اس کا کوئی طریق صحیح ثابت نہیں۔ اور بعض کا اس کے کسی طریق کو صحیح قرار دینا بھی صحیح نہیں (جیساکہ امام حاکم نے صحیح قرار دیا اور اس پر تعقب کرتےہوئے ،  حافظ ذہبی نے تلخیص میں اس روایت کو موضوع قرار دیا۔ )، جیساکہ ابن الجوزی اور علامہ البانی رحمہ اللہ کے تفصیلی کلام کی طرف مراجعت سے واضح ہوجائے گا۔ بعض کا اس روایت کوکثرت طرق کی بنیاد پر حسن لغیرہ قرار دینا۔ ( جیسا کہ علامہ شوکانی نےالفوائد المجموعہ میں  یہ بات کہی اور حاشیہ میں اس پر علامہ معلمی نے نقد کرتے ہوئے کہا علامہ شوکانی کا یہ کہنا صحیح نہیں کیونکہ بعض طرق کی حالت پر خود علامہ شوکانی مطلع نہیں ہوسکے۔ )

دسویں روایت:

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ أنا مدينة العلم، وعلي بابها، فمن أراد العلم فليأته من بابه‘‘

یعنی : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، پس جو علم کا ارادہ رکھتا ہے ، وہ اس کے پاس دروازے سے آئے۔

(المعجم الکبیر : 11061 ، المستدرک  علی الصحیحین : 4637، 4638 ،عن ابن عباس ،المستدرک علی الصحیحین : 4369، عن جابر ،  جامع الترمذی:3723، عن علی  و لفظہ أنا دار الحكمة، وعلي بابها  وقال الترمذي : ھذا حدیث غریب منکر)

حکم:

یہ روایت موضوع ہے، بعض نے کثرت طرق کی بنیاد پر اسے حسن کہا ، جو کہ صحیح نہیں ، جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس پر تفصیلی کلام فرمایا ، اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

 ابن جریر نے تہذیب الآثار میں ، طبرانی نے المعجم الکبیر میں، امام حاکم نے  المستدرک میں ، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں ، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میںابن عباس سے مرفوعاً روایت کی ۔

امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا تو حافظ ذہبی نے اس پر نقد کرتے ہوئے موضوع قراردیا۔

امام حاکم نے ابو الصلت کو ثقہ ، مامون قرار دیا تو اس پر بھی حافظ ذہبی نے تعقب کیا اور کہا کہ یہ ثقہ اور مامون نہیں۔

انہوں نے اپنی کتاب الضعفاء والمتروکین میں کہا کہ کئی ایک نے اسے متھم بالکذب قرار دیا۔ ابو زرعہ نے کہا : ثقہ نہیں ، ابن عدی نے کہا کہ متھم ہے۔ دیگر نے کہا کہ رافضی ہے، اور حافظ ابن حجر نے کہا :صدوق ، منکر روایات بیان کرتا ہے اور شیعہ تھا، مزید کہا کہ عقیلی نے اسے کذاب کہہ کر افراط سے کام لیا۔

علامہ البانی فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ ابن معین کے علاوہ اس کی کسی نے توثیق نہیں کی اور ابن معین سے بھی متعدد روایات اس پر جرح یا تعدیل کے حوالے سے پانچ مختلف روایات ذکر کرتے ہوئے کہا اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ابن معین نےبالجزم اس کی توثیق نہیں کی،مزید یہ کہ ابن معین سے اس حدیث کے حکم  کے تعلق سے بھی  پانچ مختلف روایات مروی ہیں۔ جن میں سے اکثر اس حدیث کی تضعیف کی طرف مائل ہیں۔

اس کی چھ متابعات ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ’’فهؤلاء ستة متابعين لأبي الصلت، ليس فيهم من يقطع بثقته‘‘ یہ چھ متابعین ہیں ابو الصلت کے جن میں سے قطعی طور پر کسی ایک بھی توثیق ثابت نہیں۔

پھر مزید یہ کہ روایت کرنے والے اعمش ہیں جو مجاھد سے بالعنعنۃ روایت کررہے ہیں، حالانکہ وہ مدلس ہیں ، حافظ ابن حجر اور یعقوب بن شیبہ کی صراحت کے مطابق  اعمش نے مجاھد سے بہت کم ہی روایات سنی ہیں ، اور ان میں سماع کی صراحت ہےجو دس کے قریب ہیں ، اور مذکورہ روایت میں تصریح سماع نہیں۔  مزید یہ کہ وہ باقی مرویات مجاھدسے لیث یا ابو یحی القتات کے واسطے سے لیتے ہیں ، اور یہ دونوں ضعیف ہیں۔

اس کا ایک شاہد سیدنا علی سے مروی ہے جس کے الفاظ ہیں انا باب الحکمۃ و علی بابھا، اسے خود امام ترمذی نے منکر قرار دیا۔

اس کا ایک اور شاہد سیدنا جابر سے مروی ہے ، جوکہ مستدرک حاکم اور تاریخ بغداد میں ہے۔

اس کے الفاظ ہیں: ’’ هذا أمير البررة، وقاتل الفجرة، منصور من نصره، مخذول من خذله، – يمد بها صوته -، أنا مدينة العلم…. ‘‘ ’’یہ نیک لوگوں کے امیر، فاجروں کے قاتل ہیں ، جو ان کی مدد کرے گا و مدد کیا جائے گا اور جو انہیں رسوا کرے گا وہ رسوا کیا جائے گا، آپ  نے ان کلمات کے ساتھ اپنی آواز کو بلند کیا اور پھر فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔ ‘‘

امام حاکم نے یہ روایت ذکرکرنے کے بعد فرمایا:’’ اسنادہ صحیح ‘‘ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس پر نقد کیا اور فرمایا: ’’العجب من الحاكم وجرأته في تصحيح هذا وأمثاله من البواطيل، وأحمد هذا دجال كذاب ‘‘

’’حاکم (رحمہ اللہ ) کی جرأت پر تعجب ہے کہ ایسی باطل قسم کی روایات کو صحیح قرار دے رہے ہیں اور یہ احمد تو دجال اور کذاب ہے۔ ‘‘

دوسری جگہ فرمایا: ’’بل والله موضوع، وأحمد كذاب، فما أجهلك على سعة معرفتك‘‘

’’ یہ حدیث تو موضوع ہے اور احمد کذاب ہے ، (اور آپ کا اس حدیث کو صحیح قرار دینا )  آپ کی کتنی بڑی ناواقفیت ہے باوجود اس کے کہ آپ وسیع معرفت رکھتے ہیں۔

اس کا تیسرا شاہد جو کہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، اس کے دو طریق ہیں ۔

ایک طریق پیش کیا : [عن محمد بن جعفر الشاشي: أخبرنا أبو صالح أحمد بن مزيد: أخبرنا منصور بن سليمان اليمامي: أخبرنا إبراهيم بن سابق: أخبرنا عاصم بن علي: حدثني أبي عن حميد الطويل عنه مرفوعا به] اس  پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے تبصرہ فرمایا: ’’وهذا إسناد ضعيف مظلم، من دون عاصم بن علي لم أعرف أحدا منهم، ووالد عاصم – وهو علي بن عاصم بن صهيب الواسطي – ضعيف‘‘

’’ عاصم بن علی سے نیچے یہ سند تو ضعیف اور اندہیرہ ہے ، ان میں سے میں کسی ایک کو نہیں جانتا ، اور عاصم کا والد ، علی بن عاصم بن صہیب الواسطی  بھی ضعیف ہے۔ ‘‘

دوسرا طریق [عن عمر بن محمد بن الحسين الكرخي: أخبرنا علي بن محمد بن يعقوب البردعي: أخبرنا أحمد بن محمد بن سليمان قاضي القضاة بـ (نوقان) : حدثني أبي: أخبرنا الحسن بن تميم بن تمام عن أنس بن مالك به دون الزيادة، وزاد:”…. وأبو بكر وعمر وعثمان سورها، وعلي بابها … ".]

اس پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے تبصرہ فرمایا: ابن عساکر نے اس کو روایت کرنے کے بعد سند اور متن دونوں لحاظ سے منکر قرار دیا۔ علامہ البانی کہتے ہیں بلکہ باطل روایت ہے اور اس کا بطلان واضح ہے۔

خلاصہ ہے اس باب کی تمام روایات اپنے متابعات و شواہد کے ساتھ صحیح کے درجے تک نہیں پہنچتیں بلکہ موضوع ہی ہیں ، اور آخر میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کے متن پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام نقل فرمایا کہ یہ روایت متن کے اعتبار سے بھی موضوع ہے چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"وحديث ” أنا مدينة العلم وعلى بابها ” أضعف وأوهى، ولهذا إنما يعد في الموضوعات وإن رواه الترمذي، وذكره ابن الجوزي وبين أن سائر طرقه موضوعة، والكذب يعرف من نفس متنه، فإن النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان مدينة العلم، ولم يكن لها إلا باب واحد، ولم يبلغ العلم عنه إلا واحد؛ فسد أمر الإسلام. ولهذا اتفق المسلمون على أنه لا يجوز أن يكون المبلغ عنه العلم واحد، بل يجب أن يكون المبلغون أهل التواتر الذين يحصل العلم بخبرهم للغائب، وخبر الواحد لا يفيد العلم بالقرآن والسنن المتواترة. وإذا قالوا: ذلك الواحد المعصوم يحصل العلم بخبره. قيل لهم: فلابد من العلم بعصمته أولا، وعصمته لا تثبت بمجرد خبره قبل أن نعرف عصمته لأنه دور ولا إجماع فيها. ثم علم الرسول صلى الله عليه وسلم من الكتاب والسنة قد طبق الأرض، وما انفرد به علي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيسير قليل، وأجل التابعين بالمدينة هم الذين تعلموا في زمن عمر وعثمان. وتعليم معاذ للتابعين لأهل اليمن أكثر من تعليم علي رضي الله عنه، وقدم علي على الكوفة وبها من أئمة التابعين عدد: كشريح، وعبيدة، وعلقمة، ومسروق، وأمثالهم "

’’ یہ حدیث ضعیف اور کمزور ترین ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے موضوعات میں شمار کیا گیا ہے ، گو کہ اسے ترمذی نے روایت کیا ۔ ابن الجوزی نے اسے ذکر کیا اور اس کے تمام طرق کا موضوع  ہونا بیان کیا۔ اور جھوٹ تو اس کے متن سے ہی معلوم ہورہا ہے کیونکہ اگر نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  شہر علم ہیں ، اور اس کا ایک ہی دروازہ ہے ، نبی کا علم بس اس ایک ہی دروازے سے پہنچتا تو اس طرح اسلام کا معاملہ خراب ہوجاتا، یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ جائز ہی نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سےمبلغِ علم بس ایک ہو،بلکہ ضروری ہے کہ مبلغین بڑی تعداد میں ہوں جن کی خبر سے علم غیر حاضر لوگوں تک پہنچے، اور خبر واحد علم کا فائدہ نہیں دیتی ، (الا یہ کہ دیگر قرائن اس کے ساتھ مل جائیں ،اور جب یہ قرائن موجود نہ ہوں، یا اکثر لوگوں سے مخفی ہوں، تو قرآن یا سنن متواترہ کا علم حاصل نہیں ہوگا۔ )جب وہ یہ کہیں کہ اس واحد معصوم (علی رضی اللہ عنہ) کی خبر سے علم حاصل ہوجائے گا۔ جواب یہ ہے کہ علم کے لیے پہلے عصمت ضروری ہے اور عصمت صرف خبر کے ساتھ ثابت نہیں ہوتی ،جب تک کہ معروف نہ ہو، کیونکہ عصمت گھومتی ہے (باقی ائمہ شیعہ کے بارے میں بھی)اور یہ عصمت اجماع سے ثابت نہیں ، پھر علم الرسول، کتاب و سنت سے پوری زمین میںپھیلا ہوا ہے، اورعلی رضی اللہ عنہ سوائے چند روایات کے اس علم کے بیان میں منفرد نہیں ہیں، اور بڑے بڑے جلیل القدر تابعین نے دور عمر ، دور عثمان میں علم حاصل کیا،سیدنا معاذ کا تابعین اور اہل یمن کو تعلیم دینا سیدنا علی کی تعلیم سے زیادہ ہے، جب علی کوفہ آئے وہاں ائمہ تابعین میں سے ایک تعداد موجود تھی ، جیساکہ شریح ، عبیدہ، علقمہ ، مسروق اور دیگر۔ انتھی (سلسلۃ الضعیفۃ : 2955)

About شیخ یونس اثری

Check Also

عقیدہ آخرت اور جدید سائنس

قرآن کریم نے ہدایت یافتہ، فلاح پانے والے لوگوں کا تعارف جن صفات کے ذریعے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے