Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ ستمبر » المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

قسط نمبر: 5

عقیدہ نمبر:1

مسئلہ شد رحال

یعنی زیارت قبور کےلئے دوردراز کاسفرطے کرنا

دیوبندیہ کے اس عقیدے پربحث سے پہلے یہ بات عام قارئین کے لئے واضح ہو کہ مسئلہ زیارت اور زیارت کے لئے’’شد رحال‘‘ کجاوے کسنامطلب سفرکرنا دومختلف مسائل ہیں،نبی مکرم ﷺ کی قبر مبارک تو کیا عام قبور کی بھی زیارت کو کسی عالم نے ممنوع قرار نہیں دیا لیکن بہت سے لوگ عمداً اور بعض اپنی کم فہمی کی سبب ان میں فرق نہیں کرپاتے،تو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ aاور سلفیوں پر یہ بہتان والزام لگابیٹھتے ہیں کہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی قبراقدس کی زیارت کوممنوع قراردیتےہیں، العیاذ باللہ،یہی کام گھمن صاحب نے بھی کیا ہےتفصیل اپنے مقام پر مناسب رہے گی۔

المہند میں مذکور عقیدہ:

’’ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کےنزدیک زیارت قبرسید المرسلین (ہماری جان آپ پر قربان)اعلیٰ درجہ کی قربت اور نہایت ثواب اور سبب حصول درجات ہے بلکہ واجب کے قریب ہے گوشدرحال اور بذلِ جان ومال سے نصیب ہو اور سفر کے وقت آپ کی زیارت کی نیت کرے اور ساتھ میں مسجد نبوی اور دیگرمقامات وزیارت گاہ ہائے متبرکہ کی بھی نیت کر ے بلکہ بہتر یہ ہے کہ جو علامہ ابن ہمام نے فرمایا ہے کہ خالص قبر شریف کی زیارت کی نیت کرے پھر جب وہاں حاضر ہوگا تومسجد نبوی کی بھی زیارت حاصل ہوجائے گی۔‘‘(المہند،ص:۳۴)

یہ ہے دیوبندی ’’عقیدہ‘‘ کہ’’شدرحال‘‘ (سفر) کے ذریعہ بھی زیارت قبررسول ﷺ حاصل ہو وہ اعلیٰ درجہ کی قربت، نہایت ثواب اور سبب حصول درجات ہے،ا ب انہیں اپنے طے شدہ اصول کے مطابق اپنے اس عقیدہ کے لئے قطعی الثبوت وقطعی الدلالت دلیل پیش کرنا چاہئے جو کہ قرآن مجید کی آیت یاحدیث متواتر ہے،اور اہل حدیث چونکہ ’’شد رحال‘‘ کی صورت میں اس کی نفی کرتےتو نفی کے لئے خود دیوبندی اکابر کے اصول کے مطابق ’’عدم ثبوت دلیل‘‘ کافی ہے،جیسا کہ ہم ’’ابتدائے سخن‘‘ میں حوالوں کی تفصیل کے ساتھ نقل کر آئے ہیں۔

محترم نصیب شاہ سلفی صاحب نے ان کے اس عقیدہ کے خلاف درج ذیل حدیث پیش فرمائی:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى "

(صحیح بخاری:1189صحیح مسلم:1397))

سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:تین مسجدوں کے علاوہ کسی کے لئے کجاوے نہ باندھے جائیں(یعنی سفر نہ کیاجائے)ایک مسجد حرام،رسول اللہ ﷺ کی مسجد اور مسجد اقصیٰ۔

یہ حدیث سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، (صحیح بخاری:1197صحیح مسلم:827)

اور سیدنا بصرۃ ابن ابی بصرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔(سنن نسائی:1430مؤطا امام مالک:291)

اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔(سنن ابن ماجہ:1410)

شاہ صاحب نے حدیث پیش فرمانے کے بعد لکھا:َ

’’اس حدیث میں آپﷺ نے بیت اللہ،بیت المقدس اور مسجد نبوی ﷺ کے علاوہ کسی مقام،قبر اور علاقہ کی طرف بنیتِ ثواب سفر کرنے سے منع فرمایاہے۔(بخاری،مسلم، ابن ماجہ،نسائی،احمد)

نوٹ: اس بارے میں جواز کی روایات ساری موضوع ہیں۔

’’کل حدیث یروی فی زیارۃ قبر النبی ﷺ فانہ ضعیف بل موضوع‘‘(فتاویٰ ابن تیمیہ:۱۴؍۱۴،الکامل فی الضعفاء لابن عدی ۶؍۳۵۱)

 گھمن’’جواب‘‘ شاہ صاحب نے اس اعتراض میں دو دعوے کیے ہیں:

(۱)نبی کریم ﷺ کے روضہ مقدس کی نیت سے سفرکرنا شریعتِ اسلامی میں ممنوع ہے۔

(۲)اس بارے میں جواز کی ساری روایات موضوع ہیں۔

پہلے دعویٰ کاجواب: نبی کریم ﷺ کے روضہ مقدس کی نیت سے سفر کرنا شریعت میں ممنوع نہیں بلکہ جائزومستحب اور بہت اجروثواب والی چیز ہے،ائمہ دین نے اس موضوع پر کافی وشافی بحث فرمائی ہے، قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ‘‘جلد۲ص۵۳پر ایک مستقل فصل فی حکم زیارۃ قبرہ ﷺ کے عنوان سے تحریر فرمائی ہے، باذوق افراد کے لئے حوالہ کافی ہے۔

(ص:38)

جواب:قارئین کرام یہ بات ذہنوں سے اوجہل نہ ہونے پائے کہ بحث وانکار نبی مکرم ﷺ کے روضہ مقدسہ کی زیارت سے متعلق نہیں بلکہ اس زیارت کے لئے سفر کے بارے میں ہے، گھمن صاحب کے نزدیک یہ سفر شریعت میں ممنوع نہیں بلکہ جائز ومستحب اور بہت اجروثواب والی چیز ہے ،یہی ان دیوبندیوں کا عقیدہ ہے اور عقیدہ کے لئے ان کے ہاں نص قطعی درکارہوتی ہے،اس کا وہ اپنے مخالفین سے مطالبہ کرتے ہیں عقائد کی بحث میںتوخود گھمن صاحب پر بھی لازم تھا کہ اس دعویٰ کی دلیل میں نص قطعی پیش کردیتے لیکن اس کے بجائے جناب نے گفتگو کا آغاز یوں فرمایا کہ’’ائمہ دین‘‘ نےاس موضوع پر کافی وشافی بحث فرمائی ہے‘‘لیکن بطور ثبوت چھٹی صدی ہجری کے ایک بزرگ قاضی عیاض بن موسیٰ المالکی a(المتوفی :544ھ)کی کتاب کی ایک فصل کاحوالہ دے دیا۔

سوچئے کیاائمہ دین کا سلسلہ قاضی عیاض سے شروع ہوتا ہے؟ ان سے پہلے ائمہ دین نہیں گزرے؟ چلئے زیادہ تفصیل میں نہیں جاتے ائمہ دین کی اسی ترتیب سے آغاز کرلیتے ہیں جو مقلدین کے ہاں مشہور ومعروف اور مسلم ہے ،جی ہاں ائمہ اربعہ تو ان کی ترتیب کے مطابق سب سے پہلے ابوحنیفہaآتے ہیں ،اور ان کے خیال سے انہوں نے’’عقیدہ‘‘ پر’’الفقہ الاکبر‘‘ لکھی(گھمن کی زیربحث کتاب،ص:26) اس میں زیارت قبر نبی ﷺ کے لئے سفر سے متعلق ’’کافی وشافی بحث‘‘ درکنار اس کاذکر ہی دکھادیجئے، اسی طرح ان کے شاگرد ابویوسف کی کتب یا محمد بن حسن الشیبانی کی کت، الاصل،الجامع الصغیر اور الموطا وغیرہ بلکہ فقہ حنفی کی ابتدائی دور کی کتب مختصر الطحاوی، المبسوط، السرخسی حتی کہ اپنی سب سے مشہور معروف ومتداول کتاب’’الھدایہ‘‘ میں ہی اس مسئلہ کا تذکرہ دکھادیںچہ جائیکہ کافی وشافی بحث!!!حالانکہ ان کتب میں حج ومناسک حج کاتذکرہ موجود ہے، لیکن زیارت کے لئے سفر کاذکر تک نہیں۔

دوسرے نمبر پر امام مالکaہیں ان کی کتاب مؤطا ہمیشہ مشہور ومتداول رہی ہے اس میںبلکہ ’’فقہ مالکی کی ابتدائی دور کی کتب میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں،تیسرے نمبر پر امام شافعیaان کی مشہور زمانہ کتاب ’’الام‘‘ ان کے شاگرد کی ’’مختصر المزنی‘‘ وغیرھما میں اس مسئلہ کا کوئی ذکر نہیں، چوتھے نمبر پر امام احمد بن حنبل نے بھی اپنی کتب میں اس پر کوئی کافی وشافی بحث نہیں کی ان چاروں مذاہب کی ابتدائی دور کی کتب فقہ اس سے خالی ہیں۔

اب آیئے محدثین کی طرف کہ ان کے’’ائمہ دین‘‘ ہونےپر بھی کوئی اختلاف نہیں۔ تیسری صدی ہجری تک کی کتب احادیث میں زیارت کی فضیلت اور اس کے لئے سفر کی حدیثوں کا کوئی ذکر نہیں، البتہ چوتھی صدی میں امام دار قطنی نے اپنی ’’سنن‘‘ میں اسی طرح پانچویں صدی میںامام بیہقی نے اپنی کتاب’’شعب الایمان‘‘ ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں اس عنوان کی چنداحادیث روایت کی ہیں، لیکن بعض پر کلام کیا اور بقیہ کی اسناد بیان فرماکر اہل تحقیق کے لئے گنجائش چھوڑ دی کہ تحقیق کے ذریعہ حقیقت پالیں۔

تنبیہ: ائمہ دین اور ان کی کتب سے متعلق مذکورہ بالابحث فضیلۃ الشیخ مولانا محمد عزیز شمس حفظہ اللہ کی تحریر سے مستفاد ہے جو محدث بشیرسہوانی aکی کتاب ’’اتمام الحجہ…‘‘ المعروف ’’زیارتِ قبر نبوی‘‘ پر بطور مقدمہ درج ہے،تفصیل کے شائقین اصل تحریر سے مستفید ہوسکتے ہیں۔

کتاب الشفاء امام ذہبی کی نظر میں

اب آئیے اس کتاب کی طرف جس کاتذکرہ گھمن صاحب نےکیا، اور دیکھئے امام ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، اما م ذہبی کے بارے میں سرفراز خان صفدر صاحب نے لکھا:

’’علامہ ذہبی ؒجن کے بعد آج تک کوئی ناقد رجال پیدا نہیں ہوا، اور حافظ الدنیا ابن حجر ؒ بھی ان کے ناقد روات ہونے پر نہ صرف اعتماد کرتے ہیں بلکہ ان کے خوشہ چین ہیں۔‘‘(احسن الکلام ،ص:106)

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

’’علامہ ذھبیؒ وہ ہیں جن کو نقدِ اسماء الرجال میں کامل ملکہ حاصل ہے، جب علامہ ذہبیؒ کو روات اور رجال کے پرکھنے کی مکمل مہارت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والے جملہ حضرات محدثین کرامؒ ان پر اس فن میں کلی اعتماد کرتے ہیں۔‘‘ (احسن الکلام ،ص:531)

یہی علامہ ذہبی علامہ قاضی عیاض اور ان کی کتاب’’الشفاء‘‘ کےبارے میں فرماتے ہیں۔

’’توالیفہ نفیسۃ واجلھا وأشرفھا کتاب ’’الشفاء‘‘ لولا ما قد حشاہ بالأحادیث المفتعلۃ عمل إمام لا نقد لہ فی الحدیث ولاذوق، واللہ یثیبہ علی حسن قصدہ وینفع بشفائہ وقد فعل، وکذا فیہ من التاویلات البعیدۃ الوان، ونبینا صلوات اللہ علیہ وسلامہ غنی بمدحہ التنزیل عن الاحادیث ، وبما تواتر من الأخبار عن الأحاد وبالأحاد النظفیۃ الأسانید عن الواھیات فلما ذا یا قوم نتشبع بالموضوعات؟‘‘

ان کی تالیفات نفیس ہیں ان میں سب سے بہتر واعلیٰ کتاب ’’الشفاء‘‘ ہوتی اگر وہ اس کتاب کو گھڑی ہوئی (موضوع) احادیث سے بھر نہ دیتے، ایک ایسے امام نے یہ کام کیا جن کاحدیث میں کوئی نقد وذوق نہیں، اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اچھے ارادے پر اجرعطا فرمائے اور ان کی اس ’’الشفاء‘‘ سے فائدہ پہنچائے، اسی طرح اس میں مختلف قسم کی تاویلات بعیدہ ہیں اور ہمارے نبی ﷺ قرآن میں اپنی مدح ہونے کی وجہ سے ان احادیث سے مستغنی ہیں اور متواتراخبار کی وجہ سے احاد اور صاف ستھری اسانید سے ثابت مدح کی وجہ سے کمزور روایات سے بے پرواہ ہیںبس تو اے میر ی قوم کیوں ہم موضوع روایات سے سیرابی چاہتے ہیں۔(سیر اعلام النبلاء)

حسن نیت پر شبہ نہیں البتہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اس کتاب ’’الشفاء‘‘ میں موضوع روایات کے ساتھ ساتھ دوردراز کی تاویلات بھی پائی جاتی ہیں،یہ ہماراتبصرہ نہیں کہ اسے تعصب پر محمول کیاجائے بلکہ سرفراز صاحب کے بیان کےمطابق’’رجال پر کھنے کی مکمل مہارت‘‘ رکھنے والے امام ذہبی کا ہے کہ ان جیسا ماہرنقاد ان کے بعد آج تک پیدا نہ ہوا۔ الغرض کہ ایک ایسی کتاب جس میں تاویلات بعیدہ کے ساتھ موضوع اور ضعیف روایات بھی ہوں اس پرفخر کرنا عجیب ہے۔

اب آیئے ان کی تحریر فرمودہ فصل کی طرف وہ کچھ اس طرح ہے:

’’فصل فی حکم زیارۃ قبرہ ﷺ وفضیلۃ من زارہ وسلم علیہ وکیف یسلم ویدعولہ‘‘

’’فصل :آپﷺ کی قبر کی زیارت کا حکم اور اس کی زیارت کرنے والے اور سلام کہنے والے کی فضیلت اور یہ کہ آپ پر کس طرح سلام بھیجے آپ کے لئے کیسےدعامانگے۔‘‘

غور کرنے کی بات ہے کہ یہ’’فصل‘‘شدرحال کی نہیں مطلب آپ ﷺ کی قبرمبارک کی زیارت کے لئے سفر کے بارے میں خاص نہیں البتہ اس کاذکر ضرور ہے، آیئے اب ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں کہ اس فصل میں کیاکیاہے،قاضی عیاض لکھتے ہیں:

’’وزیارۃ قبرہ ﷺ سنۃ من سنن المسلمین مجتمع علیھا وفضیلۃ مرغبۃ فیھا روی عن ابن عمررضی اللہ عنہ…‘‘

آپﷺ کی قبر کی زیارت اجماعا مسلمین کے طریقوں میں سے ایک طریقہ اور ایسی فضیلت ہے جس کی ترغیب دلائی گئی ہے ابن عمرwسے روایت کی جاتی ہے۔(الشفاء۲؍۷۱مطبوع مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت)

پھر اس کے بعد دوتین روایات ہیں،پھر لفظ زیارت پرکچھ بحث ہے، پھر لکھا ہے:

’’الزیارۃ مباحۃ بین الناس،وواجب شد الرحال الی قبرہ ﷺ یرید بالوجوب ھنا وجوب ندب وترغیب وتاکید لاوجوب فرض‘‘

زیارت لوگوں کے درمیان مباح ہے اور نبی ﷺ کی قبر کی طرف سفر کرنا واجب ہے،وجوب سے یہاں وجوب مندوب،ترغیب وتاکید ہے وجوبِ فرض نہیں۔(ص:۷۲)

اس میں شدرحال کو مندوب ،مستحب توکہا لیکن اس پر کوئی بحث نہیں کی، پھر اس کے بعد لکھا:

’’قال اسحق بن ابراھیم الفقیہ:ومما لم یزل من شان من حج المرور بالمدینۃوالقصد الی الصلاۃ فی مسجد رسول اللہ ﷺ والتبرک برؤیۃ روضۃ ومنبرہ وقبرہ…الخ

اسحق بن ابراھیم الفقیہ نےکہا:حج کرنے والوں کی ہمیشہ سے یہ حالت رہی کہ وہ مدینہ آتے ہیں مقصد رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں نماز ادا کرنا اور آپ کے روضہ منبر وقبر سے تبرک لینے کے قصد سے۔

(ص:۷۲)

اگرمسجد نبوی میں نماز کی نیت سے جائے اور پھر قبر مبار ک کی زیارت بھی کرلے تو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے،پھر آگے نبی ﷺ کی قبر پر درود وسلام عرض کرنے اور مسجد میں داخل ہونے کے آداب وغیرھا کا ذکر ہے، ہاں البتہ زیارت قبر نبوی کی چند ضعیف روایات بھی نقل کی ہیں۔

 گھمن شاہ صاحب کی تسکین قلب اور آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے اس جگہ صرف اور صرف شاہ صاحب کے مقتداؤں کے اقوال نقل کئے جاتے ….غیرمقلدین کے مشہور ومعروف عالم نواب وحیدالزمان حیدرآبادی نے اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے لکھا:

قلت ہذا الکلام عجیب فان مسئلۃ شدالرحال الی غیر المساجد الثلاثۃ مختلف فیہ من زمن الصحابۃ …

ترجمہ:میں اس عجیب کلام میںکہتاہوں مساجدثلاثہ کےعلاوہ کسی اور طرف بغرض زیارت سفرکرنا صحابہyکے زمانے سے مختلف فیہ ہے، یہاں تک کہ حضرت ابوھریرہtنے طور کی زیارت کے لئے سفر کیا، اور سلف وخلف کے بہت سے علماء نے انبیاء وصلحاء کی قبروں کی زیارت کے سفر کو جائز قراردیا ہےمثلا امام الحرمین غزالی، سیوطی، ابن حجر مکی، ابن الھمام، حافظ ابن حجر، نوویSاور ان کے علاوہ دوسرے علماء تو کیا یہ لوگ کافر ومشرک تھے؟ بلکہ اس قائل کے مذہب پر ان کا کفر اور بھی شدید ہوگا کیونکہ وہ العیاذباللہ نہ صرف کفروشرک کے مرتکب ہوئے بلکہ انہوں نے کفر وشرک کوجائز بھی کہا۔(ہدیۃ المھدی، ص:۳۱)

(ص:۳۸تا۳۹)

جواب:الحمدللہ اہل حدیث کی تسکین تومحکم دلائل سے ہوتی ہے اقوال الرجال سے نہیں کہ جن میں خطاوصواب کابرابراحتمال ہوتا ہے، پھروحیدالزمان صاحب اور ان کی کتب ’’ھدیۃ المھدی‘‘ ،’’نزل الابرار‘‘، ’’کنز الحقائق‘‘ اور ’’لغات الحدیث‘‘ ایسی کتب ہیںکہ جو اہل حدیث کے ہاں سرے سے غیر معتبر ہیں اور یہ حقیقت اس قدر واضح ہے کہ مقلدین دیوبند کے اکابر اہل علم بھی اس کی گواہیاں دے چکے ہیں، تفصیل کے لئےہمارامضمون ’’غالی مقلدین اور وحیدالزمان کی کتابیں‘‘ ماہنامہ ضرب حق ،سرگودھا ،شمارہ نمبر33اور34جنوری،فروری2013ء) ہمیں ان کے منفرد خیالات سے اتفاق نہیں۔

گھمن صاحب کےلکھے اس ترجمہ کی عدمِ صحت سے قطع نظر کرتے ہوئے عرض ہے ’’ھدیۃ المھدی‘‘ کے ص:۳۰سے یہ بحث شروع ہوتی ہے اس میں شد رحال ،طواف،قبر، غیراللہ کو پکارنے وغیرہ کا بھی ذکر ہےجسے قائل نے شرک قرار دیا،صرف شدرحال کو شرک نہیں کہا تو وحیدالزمان نے اس کی تردید کی اور شدرحال پرکچھ بحث کرتے ہوئے اس کے جواز کاذکر کیا اور اسے صحابہ yکےد ور سے مختلف فیہ مطلب اختلافی مسئلہ بتلایا، مقابر کی طرف شدرحال شرک تو نہیں لیکن ممنوع ضرور ہے۔ صحابہyکے مابین اس مسئلہ کے اختلافی ہونے کاثبوت نہیں، سیدنا ابوھریرہ tنے طور کی جانب سفر کیا تو دوسرے صحابی نے اس پر نکیر بھی فرمائی، جیسا کہ آئندہ صفحات میں واضح ہوگا، علماء کے فتوے سے کوئی چیز جائز یاناجائز ثابت نہیں ہوتی دلائل سے ہوتی ہے، دونوں طرف علماء ہی ہیں، لہذا بات دلیل تک محدود رہنی چاہئے۔

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

گھمن صاحب کی تیسری خیانت  قارئین کرام! گھمن صاحب نےا پنی اس کتاب کے ص:۵۳پر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے