احکام ومسائل

انشورنس

سوال :167

محترم جناب مفتی صاحب!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال یہ ہے کہ :

1انشورنس کرواناکیساہے؟

2جوانشورنس کمپنی میں کام کرتا ہے اس کے پیچھے نمازاداکرناکیسا ہے؟(سائل: لئیق احمد عبداللہ،کراچی)

جواب :

الجواب بعون الوہاب

صورت مسئولہ برصحت سؤال

سائل پر واضح ہوناچاہئے کہ انشورنس کروانا شرعادرست نہیں ہے، اس میں زیادہ تر جوا اورسود موجود ہیں،نیزانشورنس کوئی بیع نہیں، جس کوخریدہ جاتاہے، بیع وشراء میں مبیع(جوچیزخریدی گئی ہو)کا مشکل (یعنی اس چیزکا وجود ہونا)ضروری ہے، اور وہ یہاں مفقود ہے، اگرامام کو مسئلہ کا علم نہیں تھا اس وقت تک وہ معذور تھا لیکن مسئلے کا علم ہونے کے بعد اس پراصرار درست نہیں ہے بلکہ انشورنس کے عمل سے تائب ہوکرنماز پڑھائے، یہ بہتر ہے اس عمل سے کہ انشورنس کووجہ سے امامت جیسے شرف سے محروم ہوجائے۔

ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب

رب کریم ہمیں جمیع معاملات میں قرآن وسنت پر عمل کی توفیق عطافرمائے۔آمین

کورٹ میرج اور طلاق

سوال :168

محترم جناب مفتی صاحب!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا نام اشفاق احمد ہے ،عمر ۲۳سال ،میرا نکاح دوسال دو ماہ پہلے سائرہ محمود نام کی لڑکی سےہوا تھا اور یہ نکاح ہم دونوں کی مرضی سے ہواتھا اور ہم نے وعدہ کیا تھا کہ یہ بات اپنے گھر میںجلد سے جلد واضح کردیں گے مگر ہم نے جب یہ بات اپنے اپنے گھر والوں کے سامنے رکھی تو ہمیں بہت مشکلات کا سامنا کرناپڑا،لیکن پھر بھی ہم دونوں آپس میں بات کرتے رہے اور پھر آہستہ آہستہ اس کے گھر والوں نے اس پرجبرکرناشروع کردیا اور مجھ سے ملنے اور بات کرنے سے منع کردیا ہم پھر بھی چھپ چھپ کر بات کرتے تھے اس کے باوجود بھی کوئی حل سامنے نہیں آیا ان سب وجوہات کی وجہ سے ہمارے درمیان روز روز کی لڑائیاں ہوتی رہیں چونکہ ہماری بات صحیح سے نہیں ہوپارہی تھی تو ایک دن غصہ کی حالت میں میرے منہ سے طلاق کا لفظ نکل گیا اور اس کے بعد غصے میں تین بار میسج پر طلاق،طلاق ،طلاق لکھ کر بھیج دیا یہ میری لاعلمی تھی کہ میں غصے میں ایسا کام کرگیا میری نظر میں ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔

گزارش یہ ہے کہ میرے اس معاملے میںرہنمائی فرمائیں میں اس بات پر فتوی لیناچاہتاہوں کہ ہماری طلاق ہوئی ہے یانہیں۔

سائل اشفاق احمد صاحب نے دوسال اور دو ماہ قبل جو کورٹ میرج کیا تھا جس کی اطلاع پر لڑکی والوں کی طرف سے لڑکی پر پابندیاں لگنی شروع ہوئیں اوربالآخر سائل نے ایک موقع پر غصہ کی حالت میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اہلیہ کو تین طلاقیں دے دیں، شرعا مذکورہ نکاح کے تعلق سے راہنمائی یہ ہے کہ یہ نکاح نہیں ہوا ،قرآن وسنت میں نکاح کے حوالے سے ولی کاہونا ضروری ہے، رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:(لانکاح الابولی) یعنی بغیر ولی کے نکاح نہیں ہوتا۔( جامع ترمذی:1101)

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:[وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا۝۰ۭ ](بقرہ:۲۲۱)

یعنی: تم اپنی بیٹیوں کو مشرکین کے نکاح میں نہ دو۔

اس آیت مبارکہ میں بھی ولی کی اہمیت ذکر کیاجارہی ہے۔

مزیدارشاد فرمایا:[فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ ](بقرہ:۲۳۲)

یعنی: تم انہیں سابقہ خاوند سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔

یہاں پر بھی ولایت کی حقیقت بتائی جارہی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب نکاح نہیں ہوا توطلاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،لہذا سابقہ زندگی پر استغفار کریں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کریں۔

ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب

About حافظ محمد سلیم

مفتی جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

احکام ومسائل

مسئلہ وراثت محترم جناب مفتی صاحب! گزارش یہ ہے کہ وراثت کے معاملے میں کچھ رہنمائی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے