Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ اکتوبر » المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

قسط نمبر: 6

(۳۴) گھمن:نواب سیدنورالحسن خان اپنی مایہ ناز کتاب ’’عرف الجادی‘‘کے صفحہ:102پر لکھتاہے:’’مگر دوسہ حدیث کی سند ش لابأس بہ است ودلالتش برفضیلت زیارت است‘‘

( ص:39)

الیاس گھمن کی پہلی خیانت ودھوکہ

جواب:افسوس کہ گھمن صاحب نے ’’عرف الجادی‘‘ سےیہ موقف پیش کرتے ہوئے صاف دھوکہ وخیانت سے کام لیا اور پوری بات نقل نہیں کی اصل بات یہ ہےکہ اس مقام پر نور الحسن صاحب نے ’’مقابر کی طرف سفر یا شدرحال پر بحث نہیں کی بلکہ صرف زیارت کی بحث کی ہے، شد رحال پر اس سے پہلے بحث کرتے ہوئے ایک باب باندھا ’’باب دربیان شدرحال‘‘ اور اس میں لکھا:

’’حق آنست کہ سفر بسوائے مواضع متبرکہ غیر این مساجد بقصد خصوصیت تبرک بدان موضع ممنوع است تا امر جاہلیت رواج نپزیرد وقبر وعبادت گاہ ولی از اولیاء وطور ہمہ دریں نہی یکساں ست وگرفتیم کہ مستثنیٰ منہ دریں حدیث اخص ست نہ عام تاہم دلیلے جدااز برائے جوازِ شد رحل بسوئے قبورانبیاء واولیاء درکارست ودلیل موجودنیست وجواز سفر برائے طلب علم وتجارت ونحو آن بادلۂ اخری ہم ثابت شدہ‘‘

’’حق یہ ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ بقصد تبرک مقامات متبرکہ کی طرف سفر ہر ایک مقام کے لئے ممنوع ہے تاکہ جاہلیت کا طریقہ رواج پذیر نہ ہو قبر یااولیاء میں سے کسی ولی کی عبادت گاہ یاکوہ طور سبہی اس نہی میں برابرہیں اگر یہ کہاجائے کہ حدیث میں مستثنیٰ منہ خاص ہے عام نہیں تب بھی قبور انبیاء واولیاء کی طرف سفر کے جواز کی علیحدہ دلیل درکار ہوگی اور دلیل موجود نہیں علم،تجارت یا اس طرح کے دیگر امور کا جواز گو دیگر دلائل سے ثابت ہے۔

(عرف الجادی ،ص:85ناشر جمعیت اہل سنت لاہور)

ہم پہلےعرض کرآئے ہیں کہ بحث شد رحال ؍سفر پر ہے زیارت پر نہیں، تو نورالحسن صاحب بھی سفر کو توممنوع ہی قرار دے رہے ہیں ،جس مقام سے گھمن صاحب نے عبارت نقل کی ہے وہاں بحث زیارت کے بارے میں ہے شدرحال کے بارے میں نہیں باقی ان کا دوتین روایات کو صحیح قراردینا درست نہیں، روایات کی تحقیق آگے آئے گی، ان شاءاللہ۔

(۳۵) گھمن:ان دوحوالوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ عقیدہ سلف صالحین اور غیرمقلدین کے پیشواؤں کا بھی ہے شاہ صاحب کی تسلی کے لئے ان کے پیشواؤں کے اقوال بھی پیش کئے ہیں حالانکہ اس عقیدہ کےبارے میں صحیح اور حسن احادیث بھی موجود ہیں:

جواب:وحیدالزمان صاحب ونورالحسن صاحب ہمارے پیشوا نہیں لیکن نورالحسن صاحب نے تو ایسا کچھ کہا بھی نہیں صرف وحیدالزمان صاحب کی انفرادی رائے رہ جاتی ہے اکابرعلمائےاہل حدیث کا یہ عقیدہ قطعا نہیں اس سلسلہ میں کئی ایک کتب شائع ہوچکی ہیں جیسا کہ

1’’شن الغارہ علی من اختار السفر للزیارۃ‘‘از علامہ نواب صدیق حسن خان

2’’احسن المقال فی شرح حدیث لاتشد الرحال‘‘ از علامہ بشیر الدین قنوجی

3’’القول المحقق المحکم فی زیارۃ قبرالحبیب الأکرم‘‘،’’القول المنصور‘‘،’’ اتمام الحجۃ ‘‘از علامہ محمد شیر سہوانی

4’’مسئلہ زیارت قبر نبوی‘‘ از حافظ عبداللہ محدث روپڑی

اس کے علاوہ بھی کئی ایک کتب میں اس پر مفصل ومختصر بحث کی گئی ہے ،الحمدللہ جماعتی موقف ہے ایک ایسی کتاب جسے اہل حدیث رد کر چکے ہیں گھمن صاحب نے اس سے ایک رائے پیش کرکے اہل حدیث کا عقیدہ بناڈالا، اس کی شناعت وقباحت ان کے اپنے مکتبہ اہل السنہ والجماعۃ کی شائع کردہ کتاب سے ملاحظہ کیجئے، ان کے محقق عالم محمود عالم صفدر اوکاڑوی صاحب نے لکھا:

’’کسی بھی فرد کی لغزش یا تفرد کو اہل سنت والجماعت کا عقیدہ قرار نہیں دیاجاسکتا اس لئے کسی بھی شخص کے قول کو دیکھا جائے گا کہ جماعت نے اس کو کیا درجہ دیا ہے، اگر عقیدہ کے درجہ میں قبول کیا تو وہ عقیدہ ہوگا اگراحکام کے درجہ میں قبول کیا تو وہ حکم ہوگا اور اگر اس کو شخصیات کے اندرداخل کیا تو وہ شطحیات میں سے ہوگا،یعنی نہ اس پر عمل ہوگا اور نہ اس کا قائل قابل مواخذہ ہوگا الغرض کسی آدمی کی ذاتی رائے جس کو جماعت نے قبول نہ کیا ہو اس کو جماعت کا عقیدہ قراردینا کسی دجال کا ہی کام ہوسکتا ہے۔(مسئلہ وحدۃ الوجود ،ص:6تا7)

الیاس گھمن صاحب نے بھی یہی کام کیا کہ وحیدالزمان کی رائے کو اہل حدیث اکابر کاعقیدہ بناڈالاحالانکہ ان کے ہاں یہ دجال کاکام ہے۔

(۳۶) گھمن:’’حدیث لاتشدالرحال ائمہ حدیث اور غیر مقلدین کی نظرمیں‘‘

اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نےباب فضل الصلوٰۃ فی مسجد المکۃ والمدینۃ میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے نقل کیا ہے اور مسجد بیت المقدس کی فضیلت میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور امام مسلم نے حضرت ابوھریرہ  رضی اللہ عنہ سے…ان احادیث میں صرف مساجد ثلاثہ میں نماز کی فضیلت کابیان ہے کہ  (ص:39تا40)

جواب:ان احادیث میں’’صرف مساجدثلاثہ میں نماز کی فضیلت کا بیان‘‘ ہی نہیں بلکہ کسی اور مقام متبرکہ حقیقی یامزعومہ کی طرف سفر کی ممانعت بھی موجود ہے تو’’صرف‘‘ والی بات صحیح نہیں۔

(۳۷) گھمن:’’حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی رائے

صحیح بخاری شریف کے شارح حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ان المراد حکم المساجد فقط وانہ لاتشد الرحال  … ترجمہ اس سے محض مساجد کاحکم مراد ہے اور یہ کہ ان تین مساجد کے علاوہ نماز کی نیت سے کسی مسجد کاسفر نہ کیاجائےالبتہ کسی نیک آدمی ،عزیز ساتھی سےملنے یا علم حاصل کرنے یا تجارت وغیرہ کے لئے تو وہ منع نہیں ہے امام احمد نے شہربن حوشب کے طریق سے جوروایات نقل کی ہیں ا س سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔(ص: 40)

جواب:حدیث لاتشدالرحال سے زیارت کے لئے سفر کرنا ممنوع ہی ہے، جوحضرات اسے ممنوع نہیں سمجھتے وہ اس حدیث کو’’مساجد‘‘ کے ساتھ خاص کرتے ہیں اس کی کچھ تفصیل دیوبندیہ کے’’محدث‘‘ وشیخ الحدیث زکریا کاندھلوی صاحب سے ملاحظہ کیجئے ،چنانچہ اسی حدیث کے فائدہ میں لکھا:

’’چونکہ اس حدیث شریف میں تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ کے سفر کی ممانعت کی گئی اس لئے بعض علماء نے اس سے دلیل پکڑ کر نبی کریم ﷺ کے مزارپاک کے ارادہ سے سفر کی ممانعت فرمائی وہ حضرات فرماتے ہیں کہ اس نیت سے سفر نہ کرے بلکہ مسجد نبوی کی زیارت کی نیت سے سفر کرے البتہ وہاں پہنچنے کے بعد مزار پاک کی زیارت میںکوئی مضائقہ نہیں،لیکن جمہور علماء کے نزدیک اس حدیث شریف کا یہ مطلب ہرگزنہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان تینوں مساجد کے علاوہ کسی او مسجد کے ارادہ سے سفر نہ کرے، اس لئے کہ یہ تین مساجد تو بہت اہمیت رکھتی ہیں…اس کے علاوہ او رمساجد میں کوئی خاص خصوصیت نہیں، جمہور کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس مضمون کی بعض روایات میں خود تصریح موجود ہے، چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ کسی مسجد کی طرف سفرنہ کیاجائے بجز ان تین مساجد کے یہ صاف اور واضح ہے کہ خاص خاص شہروں کی مساجد کی نیت کرکے سفر نہ کیاجائے جیسا کہ ہمارے زمانے میں دستور ہے کہ دہلی کی جامع مسجد میں آخری جمعہ پڑھنے کی نیت سے بمبئی ،کلکتہ تک سے لوگ آتے ہیں یہ محض فضول اور لغو ہے۔‘‘(فضائل حج،ص:136،آٹھویں فصل ،مطبوع کتب خانہ اشرفیہ کراچی)

مجوزین سفر زیارت کا یہی موقف ہے چنانچہ ان کے ’’حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے حدیث’’لاتشدالرحال ‘‘ کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا:

الجواب: اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ بہ نیت تضاعف صلوٰۃ اور کسی مسجد کی طرف سفر کرنا ممنوع ہے، اس کو زیارت قبور سے کوئی علاقہ نہیں البتہ اعراس متعارضہ کا مجمع خلاف سنت ہے ،اس سے احتراز ضروری ہے۔(امداد الفتاویٰ ۵؍۸۱سوال نمبر:۸۴ معنی حدیث لاتشد الرحال)

ایک اور سوال وجواب ملاحظہ کیجئے، لکھاہے:

سوال(85)علمائے دین متین اس مسئلہ میں کیافرماتے ہیں اگر سفر کیاجاوے از راہِ دور دراز بمقام اجمیر برائے زیارت قبر اولیاء اللہ ایسا سفرکرنا درست ہے یا نادرست، کلکتہ سے اجمیر واسطے زیارتِ قبر جاسکتےہیں یانہیں،لاتشدالرحال والی حدیث کا اصلی کیامفہوم ہے ازراہ کرم فرمائی حقیقتِ مسئلہ سے سرفراز فرمائیں۔

الجواب: فی مسند احمد عن ابی سعیدالخدری ؓقال قال رسول اللہ ﷺ ولاینبغی للمطی ا ن یشد رحالہ الی مسجد یبتغی فیہ الصلاۃ غیر المسجد الاقصیٰ ومسجدی ہذا ۔اھ

من منتہی المقال للمفتی حیدرالدین المرحوم

یہ حدیث مفسر ہے حدیث مشہور فی ہذا الباب کی ا س سے معلوم ہوا کہ مقابر کی زیارت کو دوردراز سے جانا اس نہی میں داخل نہیں، البتہ اگر دوسرا سبب نہی کا ہوتومنہی عنہ ہوجائے گا جیسے عرس متعارف کے مفاسد کہ وہ بلاشبہ تحریم حضور کے موجب ہیں اور ظاہر ہے کہ سفرللمحرم محرم ہے۔

(امداد الفتاویٰ ۵؍۸۱)

اس کے علاوہ یہی جواب ان کے متعدد اہل علم اپنی شروحات وفتاویٰ وغیرھا میں نقل کرچکے ہیں استیعاب مقصود نہیں لہذا ان کے حکیم الامت وشیخ الحدیث کے یہ دوحوالے کافی ہیںکہ ان کے ہاں اس حدیث کی یہ تشریح وتاویل کی جاتی ہے۔

لیکن دیگر اہل علم کی طرح اکابردیوبند کی یہ تاویل کہ یہ حدیث دیگر مساجد کی طرف سفر کی ممانعت کے لئے ہے،صحیح نہیں جیسا کہ اس روایت پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے نیز صحابہ yنے بھی اسے دیگر مساجد کے ساتھ خاص نہیں کیا حتی کہ تھانوی صاحب کی نقل کردہ روایت جس سے مجوزین حضرات استدلال کرتے چلے آئے ہیں اس سے بھی اس نہی کا دیگر مساجد سے متعلق ہوناثابت نہیں ہوتا، ہر دو کی تفصیل ذیل میں ملاحظہ کیجئے:

صحابہ کرام ومسئلہ شدرحال

1۔اس حدیث کے ایک راوی سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ ہیں وہ خود فرماتے ہیں:

خَرَجْتُ إِلَى الطُّورِ …. فَلَقِيتُ بَصْرَةَ بْنَ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيَّ فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ أَقْبَلْتَ؟ فَقُلْتُ: مِنَ الطُّورِ فَقَالَ: لَوْ أَدْرَكْتُكَ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْهِ، مَا خَرَجْتَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” لَا تُعْمَلُ الْمَطِيَّ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: إِلَى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَإِلَى مَسْجِدِي هَذَا، وَإِلَى مَسْجِدِ إِيلِيَاءَ أَوْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ ” يَشُكُّ

قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: ثُمَّ لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ،

میں’’طور‘‘ کی جانب نکلا…پس میری(سیدنا) بصرہ بن ابی بصرہ الغفاری رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا:کہاں سے تشریف لائے،تو میں نے بتلایا کہ’’طور‘‘ سے تو انہوں نے فرمایا: اگر آپ کے ’’طور‘‘ کی طرف نکلنے سے پہلے میں آپ کو پالیتا تو آپ وہاں تشریف نہ لے جاتے،(چونکہ) میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتےہوئے سنا کہ سواریاں کام میں نہ لائی جائیں(سفر نہ کیاجائے) مگر تین مساجد کی طرف،مسجدحرام، میر ی اس مسجد(مسجد نبوی) مسجد ایلیاءیا بیت المقدس کی طرف راوی کو آخر کے ان دولفظوں کے بارے میں)شک تھا کہ کون سا فرمایاتھا،(مسجد ایلیاء یا بیت المقدس؟) ابوھریرہtنے فرمایا پھر میں عبداللہ بن سلام tسےملا..الخ (مؤطا امام مالک، رقم الحدیث:1430،سنن نسائی:1430،مسند احمد:23848)

1۔یہ حدیث صحیح سند سے ثابت ہے، جب سیدنا بصرہ الغفاری رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوھریرہ سےیہ فرمایا کہ اگر آپ طور جانے سے پہلے مجھے پالیتے تو طور کی طرف سفر نہ کرتے چونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سےیہ حدیث سنی ہے….توسیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نےیہ نہیں فرمایا کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ کسی مقدس وبابرکت مقام کی طرف سفر نہ کیاجائے یہ حدیث تو بس ان تین مساجد کے علاوہ دیگر مساجد کی طرف بنیت اضافی ثواب سفر کرنے سے منع کرتی ہے،بلکہ آپ نہ صرف یہ کہ خاموش رہے بلکہ سیدنا بصرہ رضی اللہ عنہ کی بات آگے بیان بھی فرمادی۔

2۔اس حدیث کے ایک راوی سیدنا بصرہ رضی اللہ عنہ ہیں ان کافہم مذکورہ بالاحدیث سے واضح ہے کہ وہ انہیں دیگرمساجد کےساتھ خاص کرنے کے بجائے مقامات متبرکہ ومقدسہ کے لئے بھی عام ہی سمجھتے تھے ،کماھوبین

3۔اس حدیث کے ایک راوی سیدناابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ بھی ہیں، مجوزین شدرحال اپنے حق میں ان کی جس روایت کو پیش کرتے ہیں اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے ،اگرچہ وہ روایت تھانوی صاحب کے فتویٰ میں بھی آچکی ہے لیکن مکمل نہیں شاید تھانوی صاحب کی محولہ کتاب’’منتہی المقال‘‘ از مفتی حیدر الدین میںبھی اسی طرح مختصرا منقول ہے یا پھر خود تھانوی صاحب نےاختصار سے کام لیتےہوئے یونقل فرمایا، بہرحال اس روایت کے اصل الفاظ ملاحظہ کیجئے:

عن شھر قال سمعت ابا سعید الخدری وذکرت عندہ صلاۃ فی الطور فقال: قال رسول اللہ ﷺ:لاینبغی للمطی ان تشد رحالہ الی مسجد یبتغی فیہ الصلاۃ غیر المسجد الحرام، والمسجد الاقصیٰ ومسجدی ہذا…الخ

شھر(بن حوشب) سے مروی ہے میں نےابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا جبکہ ان کے پاس طور میں نماز پڑھنے کا ذکر کیاگیا تو کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جائز نہیں کسی سواری کے لئے کہ اس کے کجاوے کسے جائیں کسی مسجد کی طرف سوائے مسجدحرام،مسجد اقصیٰ اور میری اس مسجد کے۔

اس روایت سے واضح ہے کہ سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے طور جاکر نماز پڑھنے کے خلاف یہی شدرحال والی حدیث پیش فرمائی اگر وہ اسے دیگر مساجد کے بارے میں سمجھتے تو ایسا قطعاً نہ کرتے چونکہ طور کوئی مسجد تو نہیں ہے ،دیوبندیہ کے’’المحدث الکبیر مولانا‘‘عبدالرشید نعمانی صاحب ’’طور‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں:

قرآن مجید میں طور کا استعمال ایک مخصوص ومتعین پہاڑ کے لئے ہوا ہے، چنانچہ’’الطور‘‘ میں الف لام عہد کا اس پر دلالت کررہا ہے یہ وہی پہاڑ ہے جو مصرومدین کے مابین ہے ،حضرت موسیٰuکو اسی پہاڑ پر تجلی خداوندی سے سرفراز فرمایاگیا تھا، اسی پہاڑ پرآپ کو خلعت کلیمی سے نوازا گیاتھا اسی پہاڑ پر آنجناب کو پیش گاہ ربانی سے الواح تورات کا نسخہ مرحمت فرمایاگیاتھا…قرآن مجید میں جابجا ان تمام واقعات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔(لغات القرآن ۴؍۱۰۴،مطبوعہ دراالاشاعت، کراچی)

مطلب’’طور‘‘کا مقدس ومتبرک مقام ہونا توقرآن مجید سے ثابت ہے لیکن مذکورہ بالاصحابہ کے نزدیک اس متبرک مقام کے لئے بھی شدرحال کی ممانعت ہے اسی حدیث کے عموم سے۔

4۔سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے شدرحال کو عام سمجھا چنانچہ ان کے شاگرد قزعۃaکہتے ہیں:

سالت ابن عمر آتی الطور فقال: دع الطور ،لاتأتہ ، وقال: لاتشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد.

میں نے سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ میں’’طور‘‘ جاؤں؟ تو آپ نے فرمایا :’’طور‘‘ کوچھوڑ دو وہاں مت جاؤ، اور فرمایا: کجاوے نہیں کسے جاتے مگرتین مساجد کی طرف۔(مصنف ابن شیبہ ،مصنف عبدالرزاق)

یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فہم ہے کہ وہ اس ’’شدرحال‘‘ کی نہی کو مسجد کے ساتھ خاص نہیں فرمارہے بلکہ کسی بھی مقام کے لئے عام ہی قرار دےرہے ہیں ،ان کے مقابلہ میں مجوزین کی طرف سے کوئی دلیل ایسی پیش نہیں کی جاتی کہ فلاں صحابیtاس ممانعت کو بس دیگر مساجد کے ساتھ ہی خاص سمجھتے تھے۔صحابہ yکے فہم کے مقابلہ میں بعد والوں کے فہم کی کیاحیثیت؟؟

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

گھمن صاحب کی تیسری خیانت  قارئین کرام! گھمن صاحب نےا پنی اس کتاب کے ص:۵۳پر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے