Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ اکتوبر » امام دارمی رحمہ اللہ

امام دارمی رحمہ اللہ

صاحب سنن دارمی

نام ونسب: شیخ المسلمین فی الحدیث الامام الحافظ ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن فضل بن بھرام بن عبدالصمد الدارمی السمرقندی

ولادت: 181ھ بمطابق 797ء کوخراسان کے مشہور شہر سمرقند میں پیداہوئے ،قبیلہ تمیم کی ایک شاخ ’’دارم‘‘ سے نسبی تعلق تھا اسی نسبت سے سمرقندی ،تمیمی اوردارمی کہلائے۔

طلبِ حدیث کے لئے سفر:

امام دارمی رحمہ اللہ نے اس زمانے کے دستور کےمطابق حدیث کی طلب کے لئے شام،بغداد،مصر،عراق،خراسان،مکہ اور مدینہ کا سفر کیا، خطیب بغدادی اور دیگر مورخین نے لکھا ہے کہ امام دارمیaان لوگوں میں سے تھے جو حدیث کے لئے بہت زیادہ سفرکیا کرتے تھے، اور بعض علمائے رجال نےلکھا ہے کہ امام دارمیaنے طلبِ حدیث کے لئے طویل سفرکیے اور ملکوں کی خاک چھانی ۔(تذکرۃ المحدثین)

اللہ رب العزت نے آپ کو حفظ وضبط کا غیرمعمولی ملکہ عطا فرمایا تھا اور ائمہ کرام نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے، چنانچہ عبداللہ بن نمیر جیسے بلند پایہ محدث کابیان ہے کہ امام دارمی رحمہ اللہ حافظے کے اعتبار سے ہم پر فوقیت رکھتے تھے اور عثمان بن ابی شیبہ فرماتے ہیں کہ امام دارمی رحمہ اللہ کے حفظ وضبط کے حوالے سے جو کچھ بیان کیاجاتا ہے وہ تو اس سے کہیں زیادہ فائق تھے۔(تذکرۃ المحدثین)

امام دارمی رحمہ اللہ کو فقہ اور تفسیر کے علاوہ دیگر اسلامی فنون میں بھی کافی مہارت حاصل تھی ،فقہ میں ان کے مجتہدانہ کمالات کا اندازہ ان کی سنن سے لگایاجاسکتا ہے۔

شیوخ:

آپ نے کئی ایک علماء اورمحدثین سےعلم حاصل کیاجن میں کچھ درج ذیل ہیں:نفر بن شمیل ،یزید بن ھارون، جعفر بن عون یعلی بن عبید، وھب بن جریر اور خلیفہ بن خیاط وغیرھم۔

تلامذہ:

آپ کے تلامذہ میں بھی علم کے سمندر اور چوٹی کے ائمہ موجود ہیں، جیسے امام بخاری1،اما م مسلم ،ابوداؤد، ترمذی، عبد بن حمید، ابوزرعہ رازی، بقی بن مخلد اور عبداللہ بن احمد بن حنبل

وفاتہ:

امام دارمی رحمہ اللہ 74سال کی عمر میں بروز جمعرات 8ذی الحج 255ھ بمطابق17نومبر869ءکو بعداز نماز عصر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔اور9ذی الحج کو آپ رحمہ اللہ کی تدفین عمل میں آئی۔

(تہذیب الکمال،ج:۱۵ص:۲۱۰،تہذیب التھذیب،ج۵ ص:۲۵۸،سیر اعلام النبلاء،ج:۱۲ص:۲۲۴))

ثناء العلماء علیہ

1۔امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ امام دارمی رحمہ اللہ ہمارے امام ہیں۔(تہذیب التھذیب ۳؍۵۴۸)

2۔محمد بن ابراھیم الشیرازی فرماتے ہیں :دارمی ایک کامل مفسر، فقیہ اور عالم تھے۔(تہذیب التھذیب ۳؍۵۴۹)

3۔رجاء بن مرجی فرماتے ہیں کہ میں نے امام دارمی سے زیادہ حدیث میں بڑا عالم نہیں دیکھا۔(تہذیب التھذیب ۳؍۵۴۹)

4۔امام ابوحاتم فرماتے ہیں کہ امام دارمی رحمہ اللہ متقنین حفاظ میں سے تھے۔

5۔امام ذھبی فرماتے ہیں کہ امام دارمی دین کے ارکان میں سے ایک رکن تھے۔

محدثین کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنی سند کو عالی بنائیں،(سندِ عالی وہ ہوتی ہے کہ جس میں راوی اور رسول اللہ ﷺ کےد رمیان واسطے کم ہوں)تو امام دارمی نے بھی اپنی سنن میں اس کا اہتمام کیا ہے۔

چنانچہ ہم امام دارمیaکی ثلاثیات میں سے بطور نمونہ ایک روایت بیان کریں گے(یعنی وہ روایت جس میں امام دارمی اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان صرف تین واسطے ہیں۔

سنن دارمی میں150ثلاثیات امام دارمی نے ذکر کی ہیں۔

حدثنا جعفربن عون اخبرنا یحی بن سعید عن انس قال جاء اعرابی الی النبی ﷺ فلما قام بال فی ناحیۃ المسجد قال فصاح بہ اصحاب رسول اللہ ﷺ فکفھم عنہ ثم دعا بدلو من مآء فصبہ علی بولہ.

کچھ کتاب کے حوالے سے

سنن دارمی یا مسند دارمی یا صحیح دارمی حدیث کی کتابوں میں سے ایک مشہور کتاب ہے، جس کو امام دارمی رحمہ اللہ نے فقہی ابواب کے اعتبار سے مرتب کیا ہے کتاب کاآغاز طویل مقدے سے کیا ہے جس میں شمائل نبوی ،اتباعِ سنت ،آداب فتوی وغیرہ کے عنوان قائم کیے ہیں اور پھر عام ترتیب کےمطابق کتاب الطھارہ سے شروع کرکے فضائل قرآن پر ختم کیا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیںکہ سنن دارمی حدیث کی معتمد کتابوں میں سے ہے ،اسی وجہ سے بعض علماء کتبِ اربعہ میں ابن ماجہ کی جگہ سنن دارمی کو قرارد یتے ہیں۔

اسی بات کی طرف ابن حجررحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے کہ سنن دارمی دیگر سنن کتب سے درجے میں کم نہیں ہےاگر اس کو کتب اربعہ میںشامل کردیا جاتا تو یہ بہتر تھا۔(تدریب الراوی :۱؍۱۷۴)

اور اکثرعلماء کا کہنا ہےکہ اگر دارمی کو کتب ستہ میں شامل کرلیا جاتا تو یہ بہتر تھا، جس میں ابن صلاح ،امام نووی، صلاح الدین العلائی اور ابن حجر رحمہ اللہ کے نام شامل ہیں۔(الرسالۃ  المستطرفہ:۱؍۱۳)

دارمی کو’’مسند ‘‘کہنے والے علماء:

1امام ذھبی رحمہ اللہ          تذکرۃ الحفاظ 535/2

2امام قرطبی رحمہ اللہ       تفسیر قرطبی 4/1

3امام ابن کثیر رحمہ اللہ     تفسیر ابن کثیر 33/1

4امام ابن حجررحمہ اللہ     تہذیب التھذیب 258/5

5امام عجلونی رحمہ اللہ     کشف الخفاء 75/1

6امام زیلعی رحمہ اللہ       نصب الرایہ 97/1

7امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ     الفتاوی الکبری 10/5

8امام علائی رحمہ اللہ        جامع التحصیل 55/1

9امام منذری رحمہ اللہ       الترغیب والترھیب  297/1

0امام ابن صلاح رحمہ اللہ ،مقدمہ ابن صلاح:ص:19

!امام مناوی رحمہ اللہ        تہذیب التھذیب53/1

دارمی کو’’صحیح دارمی ‘‘کہنے والے علماء:

1ابن قیم رحمہ اللہ اعلام الموقعین 397/1

2امام سیوطی رحمہ اللہ نے بعض کا قول نقل کیا ہے کہ دارمی ’’صحیح‘‘ ہے۔(تدریب الراوی174/1)

ترتیب الکتاب وموضوعاتہ

امام دارمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کو فقہی اندازسے مرتب کیا ہے ،آغاز میں مقدمہ لائے ہیں اور اس میں فضائل النبی ﷺ کے متعلق15ابواب کو ذکر کیا ہے اور اس کے بعد کتاب العلم کونقل کیا ہے اور اس میں41ابواب قائم کیے ہیں۔

اب ہم کتاب الطھارۃ سے ابواب کو بیان کرتے ہیں کہ کس کتاب میں امام دارمیaنے کتنے ابواب قائم کیے ہیں

کتاب الطھارۃ        ابواب:120

کتاب الصلوۃ         ابواب:216

کتاب الزکاۃ           ابواب:38

کتاب الصیام         ابواب:56

کتاب المناسک       ابواب:91

کتاب الاضاحی      ابواب:28

کتاب العید            ابواب:9

کتاب الاطعمۃ        ابواب:42

کتاب الاشربۃ        ابواب:28

کتاب الرؤیا          ابواب:13

کتاب النکاح          ابواب56

کتاب الطلاق         ابواب18

کتاب الحدود         ابواب:21

کتاب النذور والایمان           ابواب:12

کتاب الدیات          ابواب:25

کتاب الجھاد          ابواب:40

کتاب السیر           ابواب:76

کتاب البیوع          ابواب:84

کتاب الاستئذان      ابواب:69

کتاب الرقاق          ابواب:123

کتاب الفرائض       ابواب55

کتاب الوصایا        ابواب45

کتاب فضائل القرآن             ابواب:36

ان تمام ابواب سے امام دارمی رحمہ اللہ کافقہ میں نمایاں مقام ومرتبہ ظاہر ہوتاہے۔

توضیح الغریب من الکلمات

امام دارمی رحمہ اللہ نےبہت سارے مقامات پر مشکل الفاظ کی شرح فرمائی ہے ان میں سے ۲مقام آپ کے سامنے بطور نمونہ پیش کرتاہوں:

1باب ما کان علیہ الناس قبل مبعث النبی ﷺ

عن ابی رجاء قال کنا فی الجاھلیۃ……….ثم جئنا بالناقۃ الصفی فتفاج علیھا

الصفی ،الکثیرۃ الالبان

2حدیث ابوھریرہ رضی اللہ عنہ اذا نودی بالصلاۃ أدبر الشیطان لہ فراط…..واذا ثوب ادبر

ثوب: أقیم

About حافظ فیصل یاسین

Check Also

کیاجنت اور جہنم کی تخلیق ہوچکی ہے؟؟؟

الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین، اما بعد جنت اور جہنم اللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے