بدیع التفاسیر

قسط نمبر 208

الملائکۃ: ملک کی جمع ہے کثرت استعمال کی وجہ سےہمزہ حذف کردیاگیا بمعنی رسول اور پیغام پہنچانے والا۔اصلاً لفظ ’’الالوک‘‘ سے ہے بمعنی رسالت، جیسے مالکۃ لام کے پیش اور زبر سے پڑھاجاتا ہے،شاعر کہتے ہیں:الکنی بمعنی ارسلنی یعنی مجھے روانہ کرو اور بمعنی کن رسولی میرا قاصد،پیغام رسان بن جا۔

ابلیس: اس بارے میں دوقول ہیں :ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ یہ نام عجمی ہے اس لئے منصرفہ نہیں ہوتا، دوسروں کا کہنا ہے کہ یہ افعیل کے وزن پر ہے،اس کا باب :ابلس الرجل بمعنی یأس یعنی فلاں مردناامید ہوا،قرآن مجید میں ہے:[اَخَذْنٰہُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ہُمْ مُّبْلِسُوْنَ۝۴۴] بمعنی یائسون یعنی ہم نے ان پر اچانک عذاب نازل کیا تو وہ ناامید ہونے والے ہیں، اسی طرح ابوصالح ابن عباسwسے روایت کرتے ہیں کہ:

ولما لعنہ اللہ وغضب علیہ ابلس من رحمتہ ای یئس منھا فسماہ اللہ عزوجل ابلیس وکان اسمہ عزازیل .یعنی اس کانام تو عزازیل تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت کی اور وہ غضب کا شکار ہوا تو اس کی رحمت سے ناامیدہوگیا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا نام ابلیس رکھا چونکہ اس طرح کادوسرا کوئی نہیں ہے اس لئے بسبب ثقل یہ غیر منصرف ہے۔

الشیطان: بزون فیعال اور اس کا ’ن‘ حروف اصلی میں سے ہے باب شطن سے بمعنی بعد یعنی

دورہوا،کے ہے، شطنت دارہ یعنی اس کا گھر دور ہوا اور شیاطین الجن وشیاطین الانس دونوں سے مراد،دھتکارے ،دور کیے ہوئے اور سرکش ہیں، نون کے اصلی ہونے کے لئے دلیل یہ ہے کہ جیسے امیہ بن شاعر کا شعر سلیمانuکےا وصاف کے بارے میں ہے:

ایما شاطن عصاہ عکاہ

ثم یلقی السجن والاغلال

اس شعر میںشیطان کے لئے باب شطن سے اس کا اسم فاعل شاطن استعمال ہواہے۔

بعض کہتے ہیںاس میں نون زائد ہے ،اس کا باب شاط یشیط شیطا وشیطانا بمعنی سخت غضب، غضے میں جل،سڑجانا، اس لئےکہ شیطان آگ کی پیدائش ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: [وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۝۱۵ۚ ](الرحمٰن)اور شیطان، غضب وعصیبت سے بھرپورہوتا ہے اس لئے اس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا، امام ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ:شیطان ہر اس انسان وحیوان کو کہتے ہیں جو بڑا سرکش اور اخلاقی اعتبار سے گراہواہو۔(المفردات فی غرائب القرآن للراغب،ص:261-262)

یتوفی الانس: استیفاء العدد واستیفاء الشیٔ بمعنی کسی عدد یا چیز کو مکمل اور پورالینایااخذ کرنا، جیسے کہاجاتا ہے: توفیتہ واستوفیتہ یعنی میں نے اس چیز کو پورالیا، نیز کہتے ہیں: تیقنت الخبر واستقنتہ یعنی میں نے فلاں خبر کے بارے میں یقین کرلیا، وتثبت فی الامر واستثبتہ فلاں کام کا میںنے پورا ثبوت لیا، اس لفظ کا اصلی معنی یہی ہے اور موت کو بھی وفات کہاجاتا ہے۔

راقم الحروف کہتا ہےکہ اس کے لئے قرینے کی ضرورت ہوتی ہے،جیسے:[قُلْ يَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُكِّلَ بِكُمْ] (السجدۃ:۱۱) عرب نفس خون کو کہتےہیں اس لئے کہ وہ روح سےملاہوتاہے اسی لئے حائضہ عورت کےبارے میں کہتے ہیں:نفست المرأۃ، بمعنی حاضت، علماء لغت کہتے ہیں کہ حائضہ عورت کو نفساء اس لئے کہتے ہیں کہ انہیں خون جاری ہوتا ہے اسی طرح ابراھیم نخعی کا قول ہے: کل شیٔ لیست لہ نفس سائلۃ فانہ لاینجس ماء اذا وقعت فیہ یرید کل شیٔ لیست لہ دم سائل.(جس چیز کا نفس یعنی خون بہنے والانہیں ہے اس کے پانی میں گرنے سےوہ نجس نہیںہوتا یہ نہ توحدیث ہے اور نہ ہی حدیث میں اس کی کوئی دلیل ہے یہ صرف نخعی کا اپنا قول ہے۔)امام ابن قتیبہ یہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہاں اس کاذکر بطور مسئلہ کے نہیں ہے بلکہ بطور محاورہ واستعمال کے ہے۔سانس اورروح کوبھی عرب نفس کہتے ہیں مثلا:[اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ](الانعام:۹۳) نیز نفس اس ہوا کو بھی کہتے ہیں جو ناک ومنہ کےذریعے جسم میں داخل ہوتی اور نکلتی رہتی ہے جو روح کےلئے غذا کی حیثیت رکھتی ہے جس کےرکنے سےر وح کااختتام ہوجاتا ہے اور آیت [وَيُحَذِّرُكُمُ اللہُ نَفْسَہٗ](آل عمران:۳۰) میں نفس سے مراداللہ تعالیٰ کی ذات مبارکہ ہے، راقم الحروف کہتا ہےبلکہ نفس اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے یہی سلف صالحین کا منہج اور سلامتی کی راہ ہے ،خوامخواہ کےالجھاؤ اور تکلف میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

یوم ینفخ فی الصورابوعبیدہ کہتے ہیں کہ صور جمع ہے اس کا واحد صورۃ ہے ،نیز جمع صُـوَّرٌ،وَصُوَرٌبھی آتا ہے یعنی لوگوں کی صورتوں (شکلوں)میں پھونک ماری جائے گی ،دوسرے علماء کہتےہیںکہ صور بمعنی سینگ ہے اور یہ لغت اہل یمن کی ہے جیسے ایک شاعر کاکلام ہے کہ:

نحن نطحناھم غذاۃ الجمعین

باالضابحات فی غبار النقعین

نطحا شدیدا لا کنطح الصورین

شعر کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے دشمن کو زوردار ٹکر مارے سینگوں کی ٹکر کی طرح نہیں بلکہ ان سے بڑھ کر۔

ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ یہ معنی مجھے پسند ہے کیونکہ یہ حدیث کےموافق ہے،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

کیف انعم وصاحب القرن قد التقمہ وحنی جبتہ ینتظر متی یؤمر فینفخ .

اخرجہ احمد والطبرانی فی الاوسط، والحاکم والبیھقی فی البعث عن ابن عباس رضی اللہ عنھما واخرجہ سعید بن منصور واحمد وعبد بن حمید والترمذی وحسنہ وابن المنذر والحاکم والبیھقی عن ابی سعید واخرجہ ابو نعیم فی الحلیۃ عن جابر(الدر المنثور ؍ص۲۲ج۳ جامع ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع باب ماجاء فی شان الصور ،ح:۲۴۳۱،مسند احمد ج۱ص۳۲۶ ، المعجم الاوسط للطبرانی ج۳ص۲۸۵،۲۸۶ح:۲۰۰۰،المستدرک للحاکم ج۴ص۶۰۳ح۸۶۷۷،السلسلۃالصحیحۃللالبانی ج۳ص ۱۵۲ح۱۰۷۸)

یعنی میںکیسے خوش گزاروں حالانکہ اسرافیل نے سینگ کو اپنے منہ سے لگالیاہےاور اپنی پیشانی جھکا کر اس انتظار میں کھڑا ہے کہ کب اسے پھونک مارنے کاحکم ملتا ہے۔

راقم الحروف کہتا ہے کہ :ابوعبیدہ والابیان کردہ معنی بلکل غلط اور ناموزوں ہے بلکہ عام مفسرین نے یہی دوسرا معنی مراد لیا ہے، ابوالھیثم کہتے ہیں کہ:

ہذا خطأ فاحش وتحریف لکلمات اللہ…. ونعوذ باللہ  من الخذلان۔

(لسان العرب ،ج:۴،ص:۴۷۵،۴۷۶)

یعنی ابوعبیدہ کوئی نحو کے عالم نہیں تھے بلکہ تاریخ،اور قصص کو جاننے والے تھے، ان کی یہ بات بلکل غلط ہےبلکہ کلمات اللہ میں تحریف اور انہیں مٹانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :وصورکم فاحسن صورکم (المؤمن:3) صورکم میں واؤ پر زبر ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن اسی طرح نازل فرمایا ہے ہم نے کسی قاری کو صورکم کو واؤ کے جزم کے ساتھ پڑھنے نہیں سنا۔ جس نے اسے جزم کےساتھ پڑھا اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا اور اس کے کلام میں تحریف کا مرتکب ہوا بلکہ ایسا کہنا ملحدین کا ہے جو کئی اور امور مثلا: عرش،ترازو،پل صراط، اسی طرح نفخ صور کاانکار کرنے کے لئے اس میں تاویل کرتے ہوئےکہتے ہیں یہ صورت کی جمع ہے جیسے ثوم جمع ثومۃ کا، صوف جمع صوفۃ کا ہے ،شیخ اللغۃ علامہ ازھری فرماتے ہیں:

ابوالھیثم نے بہترین دلائل دیئے اور میرے نزدیک اس کے علاوہ کوئی اور معنی نہیں ہوسکتا یہی اہلسنت والجماعت کا کہنا ہے اس کےد رست ہونے کے لئے مزید دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحم مادر میں صورتوں کی تخلیق سے پہلے ان میں روح پھونکنے کا ذکر فرمایا ہے ،صورت سے پہلے وہ نطفہ تھا پھر خون پھر گوشت ہوگیا اس کے بعد صورت بنائی گئی، اور قیامت میں اٹھائے جانے کے لئے ایسی کوئی ترغیب نہیں ہے(کہ انہیں صورتوں میں اٹھایا جائے گا) بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی منشاء کےمطابق جیسے چاہے گا اٹھائے گا، اور جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان کی صورتیں بناکر پھر ان میں روح پھونکی جائے گی وہ مکلف ہے کہ ان کا ثبوت پیش کرے(جبکہ ایسی دلیل پیش کرنامحال ہے) ہم ایسے ذلیل عقیدے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔

اللعن:لغتابمعنی الطرد یعنی دھتکارنا، (راندائے درگاہ کرنا) جیسے اللہ تعالیٰ نےابلیس پر لعنت کرتے اور دھتکارتے ہوئے فرمایا: [اخْرُجْ مِنْہَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا۝۰ۭ ](الاعراف:۱۸) یعنی یہاں سے ذلیل ورسواء ہو کر نکل جا، پھر اس طرح کے جملوں کو لعنت سے تعبیر کیاگیا نیز شاعر المشاخ پانی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:

ذعرت بہ القطا ونقیت عنہ

مقام الذئب کالرجل اللعین

یہاں بھی لعین کا معنی دھتکارہ ہوا ہے۔

الشرک:مصدر ہےلغتا بمعنی ساجھی یا شراکت دار،شرکتہ فی الامر، فلاں کام میں ،میںنے اس سے شراکت داری کی، اور بعض روایات میں ہے کہ

ان معاذا اجاز بین اھل الیمن الشرک.

یعنی معاذtنے اہل یمن کی آپس میں شراکت داری کو جائز قرار دیا، یعنی کھیتی باڑی میں دو تین شراکت دار ہوسکتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے شرک کا معنی یہ ہے کہ اس کی شان میں کسی اور کو اس کا شریک بنایاجائے جیسے اس کافرمان ہے:

[وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِكُوْنَ۝۱۰۶] (یوسف:۱۰۶) یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والوں کی اکثریت اس کے ساتھ شرک کرتی ہے۔ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ مشرکین دوران حج اس طرح تلبیہ پڑھتے تھے:

لبیک لاشریک الاشریکا ھو لک تملکہ وماملک.

یعنی اے اللہ! میں حاضرہوں تیرا کوئی شریک نہیں ہے مگر وہ شریک جو درحقیقت تیرا ہی (مقرر کیاہوا) ہے تو ہی اس کا مالک وہ خود کسی چیز کا مالک نہیں ہے۔ پھر اس بارے میں آیت نازل ہوئی۔

الجحد:لغتا کسی ایسی چیز کا زبان سے انکار کرنا جس کا دل میں یقین ہو جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:[وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَيْقَنَتْہَآ] (النمل:۱۴) یعنی فرعون اور پیرکاروں کو موسیٰ uکی لائی ہوئی نشانیوں کے بارے میں دل میں یقین تھا (کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق وسچ ہیں) لیکن پھر بھی انہوں نے زبان سے ان کا انکار کردیا۔

الکفر:لغۃ بمعنی کسی چیز کو ڈھانپنا جیسے کفرت الشیٔ اذا اغطیتہ یعنی میں نے فلاں کو ڈھانپا اس طرح رات کو کافر کہاجاتا ہے کہ وہ اپنے اندھیرے سے ہر چیز کوڈھانپ دیتی اور چھپادیتی ہے، قرآن مجید میں ہے:[كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہٗ] (الحدید:۲) اس آیت مبارکہ میںکھیتی باڑی کرنے والے (کسان) کو کفار کہا کہ وہ بیچ کو زمین میں بوکر اسے ڈھانپ دیتےہیں، چونکہ کافر بھی حق کو ظلم سے ،اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو ناشکری سے ڈھانپ دیتے ہیں اس لئے انہیں کافر کہاگیاہے۔

(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے