Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ نومبر » المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

قسط نمبر:7

المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

طور سے متعلق تھانوی صاحب کی توجیہ

تھانوی صاحب کے مذکورہ فتوی پر کسی نے سوال کیا کہ آپ نے لکھا ہے ’’اس کو زیارت قبورسے کوئی علاقہ نہیں‘‘مگر میں نے حجۃ اللہ البالغہ کی بحث شرک میں زیارت قبور کےلئے سفرکرنے سے منع دیکھا، دوسرا یہ کہ شرّاح حدیث نے بعض صحابیؓ کا کوہ طور پر جانے کی حدیث کو بھی ممانعت کی تائید میں پیش کیا‘‘

توتھانوی صاحب نے جواب دیتے ہوئے لکھا:

’’رہی طور پر جانے کی ممانعت اس کامحل یہ ہے کہ بنیتِ تقرب کے سفر کرے، سوچونکہ اس میں دعویٰ ہے ایک امر غیرثابت کا اس لئے غیر مشروع ہے اور وہ اس حدیث نہی میں اس لئے داخل ہے کہ حدیث کی علت یہی ہے کہ جس طرح ان مساجد کی طرف سفرکیاجاتا ہے یعنی بہ نیت تقرب کے اس پر دوسرے مشاہد کو قیاس کرناجائز نہیں للفارق، اور وہ فارق یہ ہے کہ ان مساجد میں نمازپڑھنے میں تو تضاعف ثواب موعود ہے سواس تضاعف کی تحصیل اگربدون سفر ممکن نہ ہوتو سفر کی بھی اجازت ہوگی خلاف دوسرے مشاہد کے کہ وہاں کوئی دلیل ثواب کی نہیں، اس لئے وہاں اس نیت سے سفر کرنا امرغیرثابت کا اعتقاد ہے، فافترقا

(امداد الفتاویٰ ۵؍۸۲)

جب طور کی طرف بنیت تقرب کا ثبوت نہیں تو اس کی طرف سفر کرنا خودتھانوی صاحب کے نزدیک بھی’’غیرمشروع‘‘ ٹھہرا اور شدرحال کی عام حدیث کے تحت ممنوع قرارپایا، کیا مقلدین دیوبند کسی ثابت شدہ نص سے رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کی طرف سفر کے لئے تقرب کی کوئی دلیل پیش کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں توباوجود تقدس حاصل ہونے کے اس کی طرف سفرکرنا بھی حدیث زیربحث کی نہی کے تحت داخل اور غیرمشروع ہی ٹھہرے گا۔باقی جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ سب موضوع یاسخت ضعیف ہیں۔

الیاس گھمن صاحب نے لکھا:

’’شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ،شاہ عبدالعزیزرحمہ اللہ،شاہ اسمعیل شہید رحمہ اللہ کے بعد شرک وبدعت اور رسومات باطلہ کی تردید اور ابطال جس قدر رعلماء دیوبند نے کیا ہے کسی جماعت نے نہیں کیا ہے۔‘‘

(المہند اور اعتراضات ،ص:32)

(۱)توسنئے ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ’’حقیقت الشرک‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ونحن نرید أن ننبھک علی أمور جعلھا اللہ تعالیٰ فی الشریعۃ المحمدیۃ علی صاحبھا الصلوات والتسلیمات مظنات للشرک ،فنھی عنھا‘‘

اور ہم چاہتے ہیں کہ تمہیں متنبہ کردیں ایسے امور پر جنہیں اللہ تعالیٰ نے شریعتِ محمدیہ(علی صاحبھا الصلوات والتسلیمات)میں شرک کے مواضع ٹھہرایا اور ان سےروک دیا۔

(حجۃ اللہ البالغۃ ۱؍۱۸۴،مطبوع قدیمی کتب خانہ)

پھر چھ مختلف امور بیان کرنے کے بعد لکھا:

’’ومنھا الحج لغیراللہ تعالیٰ وذلک أن یقصد مواضع متبرکۃ مختصۃ بشرکائھم یکون الحلول بھا تقربا من ھولاء ،فنھی الشرع عن ذلک وقال النبی ﷺ :لاتشد الرحال الاالی ثلاثۃ مساجد‘‘

ان امور میں سے ایک غیراللہ کے لئے حج ہے وہ اس طرح کہ ان کے شرکاء کے ساتھ مختص ومتبرک مقامات کا قصد کرنا اور وہاں ٹھہرنا ان کے تقرب کا سبب ہو تو شریعت نے اس سے روکا اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کے لئے سفر نہ کیاجائے۔(حجۃ اللہ ۱؍۱۸۸)

پھر آگے چل کر’’ابواب الصلوٰۃ‘‘ میں مساجد کے بیان میں لکھا:

’’قولہ ﷺ لاتشدالرحال ….أقول :کان أھل الجاھلیۃ یقصدون مواضع معظمۃ بزعمھم یزورونھا، ویتبرکون بھا، وفیہ من التحریف والفساد ما لایخفی فسد النبی ﷺ الفساد لئلا یلتحق غیر الشعائر بالشعائر ولئلا یصیر ذریعۃ لعبادۃ غیر اللہ والحق عندی أن القبر ومحل عبادۃ ولی من اولیاء اللہ والطور کل ذلک سواء فی النھی ،واللہ اعلم‘‘

حدیث کجاوے نہ کسے جائیں….میں کہتاہوں !اہل جاہلیت اپنے زعم کے مطابق عظیم مقامات کی زیارت کے لئے سفر کیا کرتے تھے اور ان مقامات سےبرکت حاصل کرتے ،اس میں جو تحریف وفساد ہے وہ مخفی نہیں بس نبی ﷺ نےاس فساد کا راستہ روکا تاکہ غیر شعائر جو ہیں وہ شعائر اللہ کے ساتھ مل نہ جائیں اور تاکہ یہ غیراللہ کی عبادت کا ذریعہ نہ بن جائیںاور میرے نزدیک حق یہ ہے کہ قبر اور اولیاء اللہ میں سے کسی ولی کی عبادت کا مقام اور طور سب کے سب اس نہی میں برابر ہیں‘‘(حجۃ اللہ ۱؍۵۴۳)

(۲)اور شاہ اسحٰق محدث دہلوی سےجب اس کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے بھی شاہ ولی اللہ کا یہ قول نقل کیا ،سوال وجواب ملاحظہ کیجئے:

’’سوال ہفتدہم:اولیاء اللہ کی قبروں کی زیارت کے لئے مثلا کابل سے ہندوستان آنا ہندوستان سے وہاں جاناکیسا ہے جائز ہے یاگناہ اگر گناہ ہے تو کیسا ہے؟

جواب: اس مسئلہ میں علماء کااختلاف ہے بعض علماء جائز کہتے ہیں اور بعض علماء نے حرام لکھا ہے، چنانچہ قسطلانی شرح بخاری اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مشکوٰۃ کے ترجمہ ’’اشعۃ اللمعات‘‘ میں ہے…صالحین کی قبروں کی زیارت کے واسطے سفر کرنا ،متبرک جگہوں میں جانے کے متعلق اختلاف ہے، بعض مباح اور بعض حرام کہتے ہیں، انتہی (اشعۃ اللمعات ) ….بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ علماء وصلحاء کی درگاہوں کی زیارت کرنے کے لئے سفر کرنا منع ہے انتہی(شرح المشکوٰۃ لملاعلی قاری) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں بصرہ بن ابی بصرہ الغفاری سے ملا (انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا) کہ آپ کہاں سے آرہے ہیں تو میں نے کہا طور سے تب فرمایا اگر وہاں جانے سے پہلے مجھے ملتا تو ہر گز نہ جاتا، اس لئے کہ میں نے رسول خداﷺ سے سنا کہ سواریوں پر سفر نہ کیا جائے گا سوائے تین مسجدوں کے…(مؤطا امام مالک) رسول خدا کا فرمان کہ سفر نہ کیا جائے زیارت کے لئے لیکن صرف تین مسجدوں کی طرف مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ اور میری یہ مسجد۔ شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ جن مقامات کو اپنے خیال میں معظم سمجھتے تھے ان کی زیارت کو جایا کرتے تھے…اور حق بات میرے نزدیک تو یہ ہے کہ ممانعت میں قبر اور اولیاءاللہ کی جائے عبادت اور کوہِ طور سب برابر ہیں۔ (حجۃ اللہ البالغہ)

شاہ اسحق دہلوی صاحب کے اس فتوی سے ظاہر ہے کہ وہ ’’شد رحال‘‘ کو مساجد کے لئے خاص نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ انہوں نے شاہ ولی اللہ کے اقوال نقل کرکے واضح کیا،مزیدوضاحت کے لئے دیوبندیہ کے قطب عالم گنگوہی صاحب کی ایک روایت ملاحظہ کیجئے: تھانوی صاحب نے لکھا:

’’خان صاحب نےفرمایا کہ مولاناگنگوہی فرماتے تھے کہ شاہ اسحٰق صاحب کے ایک شاگرد اجمیر میں رہا کرتے تھے اور وہاں مواعظ کے ذریعہ اشاعت دین کرتے تھے، انہوں نے حدیث’’لاتشدالرحال ‘‘کا وعظ کہنا شروع کیا اور لوگوں پر اثربھی ہوا،اتفاق سے شاہ اسحٰق صاحب کا اس زمانہ میں قصد ہجرت ہوگیا، جب شاہ صاحب کے قصد کی ان کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے شاہ صاحب کو لکھا:’’جناب جب عازم سفرہجرت ہوں تو اجمیر تشریف نہ لاویں کیونکہ میں’’لاتشدالرحال‘‘ کا وعظ کر رہا ہوں اور وہ لوگ راہ پر آچکے ہیں آپ کی تشریف آوری سے جو کچھ اثر ہوا ہے اسے غتربود ہوجانے کااندیشہ ہے۔‘‘شاہ صاحب نےاس کے جواب میں فرمایا کہ’’میں اجمیر کے قصد سے نہ آؤں گا لیکن چونکہ اجمیر راستہ میں پڑے گا اور خواجہ صاحب ہمارے مشائخ میں سےہیں ،اس لئے مجھ سے نہ ہوسکے گا کہ میں بلاحاضر ہوئے بالابالاچلاجاؤں ،ہاں جب میں آؤں تم وعظ کہنا اور وعظ میں بیان کرنا کہ اسحق نے غلطی کی جو وہ اجمیر میں آیا اس کا فعل حجت نہیں اور میرے سامنے کہنا اور یہ خیال نہ کرنا کہ شاید مجھے ناگوار ہو، مجھے ہرگز ناگوار نہ ہوگا اور میں اقرار کرلوں گا کہ واقعی میری غلطی ہے، اس سے ضرر رفع ہوجائے گا جس کا تم کو اندیشہ ہے۔‘‘

(حکایات اولیاء،ص:۹۱حکایت نمبر:۱۰۲مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)

اس پر ذرا غور کیجئے ،شاہ اسحٰق صاحب محدث دھلوی نےاپنے شاگرد سےیہ قطعا نہیں فرمایا کہ’’میاں کیوں عبث جدوجہد میں مشغول ہو،کیوں بیکار میں لوگوں پر ایسی پابندی لگارہے ہوجو دین میں نہیں؟ ’’لاتشدالرحال‘‘ کا یہ مطلب تھوڑا ہے کہ بزرگوں کے مزارات کی زیارت کے لئے بھی سفر نہ کیاجائےیہ ممانعت تو بس تین مساجد کےعلاوہ دیگر مساجد کےلئے ہے نہیں اور ہرگز نہیں۔شاہ صاحب نے اس کے بجائے شاگرد کی بات تسلیم کی کہ’’میں اجمیر کے ارادہ سے نہیں آؤں گا البتہ اجمیر راستہ میں پڑے گا اور خواجہ معین الدین صاحب اجمیری ہمارے مشائخ میں سے ہیں تو ان کے مزار پر حاضرہوں گا ،اور شاگرد سے یہ بھی فرمایا کہ تم میرے سامنے ہی اس حدیث کا وعظ کر نااور لوگوں کو اس قسم کےممنوع سفر سے روکنے کی نصیحت کرنا اور میرے آنے کوغلط قرار دینا اور کہہ دینا کہ ان کا فعل حجت نہیں۔

(۳)شاہ اسمعیل دہلوی صاحب لکھتے ہیں:

ترجمہ: مشکوٰۃ کےباب المساجد ومواضع الصلوٰۃ میں لکھا ہے کہ بخاری ومسلم نے ذکر کیا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نقل کیا کہ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا کہ سفر نہ کیاجائے مگر تین مساجد کی طرف….یعنی: زیارت کے واسطے کسی مکان متبرک کی طرف سفر کر کے جانا درست نہیں مگر کعبہ کو اور مسجد اقصیٰ کو اورمدینہ طیبہ کی مسجد نبوی کی زیارت کے واسطے جانا درست ہے اگلی امتوں کے لوگ کوہ طور اور مرقع عیسیٰ اور یوحنا کی قبر وغیرہ کی زیارت کرنےد ور دور سے سفر کرکے جاتے اس حدیث سے وہ جانا منع ہوگیا سوائے ان تین جگہ کے اور جگہ زیارت کے واسطے سفر کر کے جانا منع ہے اور مکن پورا اور اجمیر اور بہرائچ اور بغداد اور کربلا اور نجف اشرف کی طرف صرف قبروں کی زیارت کےلئے سفر کرکے جانا درست نہیں۔(تذکیر الاخوان ،ص:۲۶۱،مطبوعہ لاہور)

باعتراف گھمن ’’شاہ ولی اللہ ،وشاہ اسمعیل نے شرک وبدعت اور رسومات باطلہ کی تردید کی ہے۔‘‘ تو پھر وہ ان کی یہ عبارات بھی دیکھ لیں کہ یہ بزرگ تو زیارتِ قبور کےلئے سفر کو بھی شد رحال والی حدیث کے مطابق ممنوع جانتے تھے۔

(۴)دیوبندیہ کے امام اہل سنت سرفراز صاحب نے علامہ بدر الدین بعلی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

’’علامہ بدر الدین بعلیؒ مختصر الفتاویٰ المصریہ ،ص:۵۱۵میں لکھتے ہیں :’’والذی علیہ ائمۃ المسلمین وجمہور العلماء ان السفر للمشاہد التی ھی علی القبور غیر مشروع بل ھو معصیۃ من اشنع المعاصی حتی لایجوز ہ قصر الصلاۃ فیہ عند من لایجوز قصرھا فی سفر المعصیۃ لقولہ ﷺ لاتشدالرحال ،الحدیث‘‘

(خزائن السنن ۱؍حصہ دوم ص:۱۳۰،مکتبہ صفدریہ گجرانوالہ)

’’اور جس چیز پر ائمہ مسلمین اور جمہور علماء ہیں وہ یہی ہے کہ قبروں پر بنی زیارت گاہوں کی طرف سفرغیر مشروع ہے بلکہ یہ قبیح ترگناہوں میں سے ایک گناہ ہے حتی کہ ان اہل علم کےنزدیک ایسے سفر کرنے والے کے لئے نماز میںقصر کرنا بھی جائز نہیں جو گناہ کی طرف سفر میں قصر کو جائز نہیں سمجھتے ،رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے کہ تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کے لئے سفر نہ کیاجائے۔

سرفراز صاحب کے محولہ عبارت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ائمہ مسلمین اور جمہور علماء دین حدیث ’’لاتشدالرحال‘‘ کو تین مساجد کے علاوہ دیگر مساجد کے ساتھ خاص نہیں سمجھتے تھے اور زیارت قبور کے لئے سفر کو بھی اسی حدیث کے تحت ممنوع سمجھتے تھے۔

(۵)علامہ انورشاہ کشمیری صاحب اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

’’السفر لزیارۃ قبور الأولیاء کما ھو معمول اھل العصر لابد من النقل علیہ من صاحب الشریعۃ أو صاحب المذہب أو المشائخ ولایجوز قیاس زیارتھا علی زیارۃ القبور الملحقۃ بالبلدۃ فانہ لاسفر فیھا‘‘

(العرف الشذی ،مع سنن الترمذی ،درسی نسخہ۔خزائن السنن ،ص:۱۳۰)

قبوراولیاء کی زیارت کے لئے سفر جیسا کہ اس دور کے لوگوں کا معمول ہے اس کے لئے صاحب شریعت(u)یا صاحب مذہب یا مشائخ سےمنقول ہونا ضروری ہے،ان زیارتوں کو اپنے شہر کے ساتھ ملے ہوئے قبرستان کی زیارت پر قیاس کرنا جائز نہیں چونکہ اس میں تو کوئی سفر نہیں ہوتا۔

حوالے تو مزید بھی نقل کیے جاسکتےہیں لیکن انہی پر اکتفاء کرتے ہوئے عرض ہے کہ جب اکابر دیوبند اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اولیاء کرام کی قبور وجائے عبادت کی زیارت کےلئے سفر کو ممنوع قرار دیتے ہیں اور اس معاملہ میں اس حدیث کو تین مساجد کے علاوہ دیگر مساجد کے لئے خاص نہیں کرتے تو رسول نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کے لئے سفر کے مسئلہ میں اسے دیگر مساجد کے ساتھ خاص کیوں کردیتے ہیں اس تخصیص کی دلیل خاص کیا ہے؟

گھمن صاحب نے ابن حجرaیاچنددیگر علماء کے نام جو پیش کئے ہیں تو عرض ہے کہ اس حدیث کو عام سمجھنے والے افراد بھی تو کم نہیں سب سے بڑھ کر صحابہ کرام yکا اسے عام سمجھنا ہے ان کے فہم پر چھٹی ساتویں صدی یا بعد والے اہل علم کے فہم کو ترجیح دینا صحیح نہیں۔ امید ہے کہ حجیت اقوال صحابہ کے مدعی گھمن صاحب اور اس قبیل کے دیگر دیوبندی فہم صحابہ(y)کے مقابلہ میں چھٹی ساتویں صدی ہجری کے بزرگوں کےا قوال پیش کرنے سے باز آجائیں گے۔

طریق شھر بن حوشب

حدیث منع شدرحال کو مقامات مقدسہ (خواہ حقیقی ہوں یالوگوں نے اپنے زعم کے مطابق اسے تقدس دے رکھاہو)کے بارے میں ماننے کے بجائے دیگر مساجد کے لئے خاص قرار دینے والوں نے مسند احمد میں شھربن حوشب کے طریق سے مروی روایت سے استدلال  کیاجیسا کہ تھانوی صاحب ،تقی عثمانی نے اسے پیش کیااور گھمن صاحب نے ابن حجررحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا لیکن یہ قطعاً نہیں بتلایا کہ خود حافظ حجر نے آگے یہ بھی لکھا ہے:

’’وشھر حسن الحدیث وان کان فیہ بعض الضعف‘‘

شھر حسن الحدیث ہے اگرچہ اس میں کچھ ضعف ہے۔

(فتح الباری۳؍۶۵تحت رقم الحدیث:۱۱۳۲)

یہ بات سرفراز خان صفدر صاحب نے بھی نقل کی ہے ،دیکھئے خزائن السنن ۱؍۳۸۱)

بلاشبہ ’’شھر بن حوشب‘‘ حسن الحدیث ہے لیکن اس پر بہت سے محدثین نے جرح بھی کی ہے، ملاحظہ کیجئے:

(۱۔۲)امام شعبہ وامام معاذ بن معاذ العنبری :العنبری نے فرمایا:

’’ماتصنع بحدیث شھر فإن شعبۃ ترک حدیث شھر بن حوشب‘‘

شھر بن حوشب کی حدیث کا تم کیاکروگے؟ یقینا امام شعبہ نے اس کی حدیث کو ترک کردیاتھا۔(الجرح والتعدیل ۴؍۳۸۳)

(۳)امام یحی بن سعید القطان کے بارے میںمروی ہےکہ ’’لا یحدث عنہ‘‘ آپ اس سے حدیث روایت نہیں کرتے تھے۔(حوالہ بالا)

(۴)امام ابوحاتم الرازی فرماتے ہیں:

شھر بن حوشب أحب الی من أبی ھارون العبدی ومن بشر بن حرب، ولیس بدون ابی الزبیر ،لایحتج بحدیثہ۔

شھربن حوشب میرے نزدیک ابوھارون العبدی وبشر بن حرب سےزیادہ محبوب ہیں اور یہ ابوالزبیر سے کمتر نہیں، اس کی حدیث سے حجت نہیں لی جائے گی۔(حوالہ بالا)

(۵)امام عبداللہ بن عون سے جب شھر کی روایات کےبارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:

ان شھرا نزکوہ ،ان شھرا نزکوہ

بے شک محدثین نے اس پر طعن کیا، یقینا محدثین نے اس پر طعن کیا۔

(مقدمہ صحیح مسلم ،رقم:۳۶)

(۶)امام مسلم نے فرمایا:’’تکلموا فیہ‘‘ محدثین نے اس پر کلام کیا۔(مقدمہ صحیح مسلم ،رقم:۳۶،ص:۱۲)

البتہ امام مسلم متابعات میں اس سے روایات لائے ہیں۔

(۷)امام نسائی نے فرمایا:’’لیس بالقوی‘‘ یہ قوی نہیں۔ (کتاب الضعفاء والمتروکین ،ص:۱۹۴)

(۸)امام دار قطنی نے فرمایا:’’لیس بالقوی‘‘ یہ قوی نہیں۔ (سنن دار قطنی ۱؍۱۰۲ تحت حدیث:۳۵۳)

(۹)ابن عدی نے فرمایا:’’لیس بالقوی فی الحدیث‘‘ حدیث میں قوی نہیں۔ (الکامل ۵؍۶۴)

(۱۰)امام ابن حبان نے فرمایا:’’کان ممن یروی عن الثقات المعضلات وعن الاثبات المقلوبات‘‘ شھر ان راویوں میں سے ہیں جو ثقات سے معضلات(سند سے دو یا زیادہ راوی ایک ہی جگہ سے ساقط کردہ روایات)اور مقلوبات (سند یا متن میں الفاظ کی تبدیلی اور الٹ پلٹ والی) روایات بیان کرتے تھے۔ (کتاب المجروحین ۱؍۳۶۱)

(۱۱)امام بیہقی فرماتے ہیں:’’وھو عند اھل العلم بالحدیث لا یحتج بہ‘‘ حدیث کا علم رکھنے والوں کے نزدیک اس سے حجت نہیں لی جاتی۔ (کتاب الأسماء والصفات ،ص:۴۶۷)

(۱۲)امام جوزجانی فرماتے ہیں:’’احادیثہ لا تشبہ حدیث الناس ….  فلا ینبغی أن یغتربہ وبروایتہ‘‘ اس کی احادیث لوگوں کی احادیث کے مشابہ نہیں ہوتیں…پس اس سے اور اس کی روایت سے دھوکہ کھانا مناسب نہیں۔ (احوال الرجال،ص:۱۴۱)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ شھراگرچہ حسن الحدیث ہے لیکن اس سے روایت احادیث میں الٹ پلٹ بھی ہوتی ہے اور دیگر راویوں سے مختلف بھی نیز اس کی روایات سے حجت بھی نہیں لی جاتی، اب شد رحال سےممانعت والی حدیث میں ’’الی مسجد‘‘ کا اضافہ ہمارے علم کے مطابق بس اسی شھر کی روایت میں ہے، تو یہ روایت کیونکر قابل حجت ہوسکتی ہے جبکہ صحیح سندوں سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام yنے اسے مساجد کے علاوہ دیگر مقامات متبرکہ کے لئے بھی عام ہی سمجھا ،جیسا کہ پہلے باحوالہ نقل ہوا۔ حتی کہ شھر بن حوشب کی بیان کردہ روایت سے بھی یہ مقامات متبرکہ کی طرف سفر کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے، دیکھئے ،ص:۳۶۔

(۳۸) گھمن:اور آگے چل کر(ابن حجر) لکھتے ہیں: فیبطل بذلک قول من منع شد الرحال الی زیارۃ القبر الشریف وغیرہ من قبور الصالحین (فتح الباری ۳؍۶۶)

یعنی یہ حدیث ان حضرات کے قول کی تردید کرتی ہے جو رسول اکرم ﷺ اور صلحاء کی قبور وغیرہ کی زیارت کے لئے شد رحال سے منع کرتے ہیں۔(ص:40)

جواب:شھربن حوشب کی یہ روایت مانعین شدرحال کے قول کا ابطال یا تردید قطعا نہیں کرتی بلکہ تائید ہی کرتی ہے، چونکہ اسی روایت میں مذکور ہے کہ سیدنا ابوسعید خدری tکے سامنے جب طور پر نماز پڑھنے کا ذکر ہواتوفرمایا جائز نہیں کسی سواری کے لئے کہ اس کے کجاوے کسے جائیں کسی مسجد کی طرف سوائے تین مساجد کے۔ اس روایت کے مطابق سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے طور پر نماز پڑھنے کےلئے سفر کے خلاف یہی حدیث پیش فرمائی۔

توخود ہی غوروفکر کے بعد جواب دیں کہ یہ زیارت کے لئے سفر سے منع کرنے والوں کی تردید ہے یا مکمل تائید؟

(جاری ہے)

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

گھمن صاحب کی تیسری خیانت  قارئین کرام! گھمن صاحب نےا پنی اس کتاب کے ص:۵۳پر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے