Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ مئی » رمضان المبارک میں کرنے کے کام

رمضان المبارک میں کرنے کے کام

روزے

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۰

(البقرۃ:۱۸۳)

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جائو۔

(( عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَt قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِe کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ یُضَاعَفُ الْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا إِلٰی سَبْعِمِائَۃِ ضِعْفٍ قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّہُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ)) (رواہ مسلم: باب فضل الصیام)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: آدمی کے ہر اچھے عمل کا اجر دس سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔لیکن روزے کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں روزے دار کے لیے ہوں۔

((عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍ وw اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ e قَالَ اَلصِّیَامُ وَالْقُرْاٰنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَقُوْلُ الصِّیَامُ اَیْ رَبِّ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّھْوَۃَ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ وَیَقُوْلُ الْقُرْاٰنُ مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِالَّلیْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ قَالَ فَیُشَفَّعَانِ)) (رواہ احمد والطبرانی)

عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن روزہ اور قرآن بندے کے لیے سفارش کریں گے ، روزہ کہے گا اے میرے رب! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور بُری خواہشات سے روکے رکھا لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔قرآن مجید کہے گا، اے میرے رب! میںنے اس بندے کو تلاوت کی وجہ سے رات سونے سے روکے رکھا اس کے بارے میں میری بھی گذارش منظور فرما۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی سفارش قبول فرمائے گا۔

((عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍt قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِe اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ بَابًا یُقَالُ لَہُ الرَّیَّانُ یَدْخُلُ مِنْہُ الصَّائِمُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَا یَدْخُلُ مِنْہُ اَحَدٌ غَیْرُھُمْ))

 سہل بن سعد رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت کے ایک دروازے کا نام ہی باب الریان رکھ دیا گیا ہے جس سے روزہ دار قیامت کے دن گزرکر جنت میں داخل ہوں گے اس کے علاوہ کوئی دوسرا اس دروازے میں داخل نہیں ہو سکے گا۔(بخاری: باب الریان للصائمین)

یاد رہے کہ جہنم کے سات اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔

نمازِ تراویح:

نمازعبادات کی سرتاج، عجزو انکسا ری کا اظہار، خا لق کے قرب کا بہترین ذریعہ ، روح کی تسکین، طبیعت کا قرار، اللہ کی نصرت و حمایت اور گناہوں کے خاتمے کی ضمانت ہے ۔ حکم ہے کہ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد مانگا کیجیے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ ہر مشکل اور مصیبت کے وقت نماز پڑھا کرتے تھے۔

وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ۱ وَ اِنَّہَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ۰ ( البقرۃ:۴۵)

صبر او ر نماز کے سا تھ اللہ تعالی سے مدد طلب کرو، اللہ کا ڈر رکھنے والوںکے سو ا دوسروں پر بھا ری ہے۔

((اِذَاحَزَبَہُ اَمْرٌ صَلّی)) (مسند احمد)

 جب آپﷺ کو کسی پر یشا نی کاسا منا ہو تا تو آپ نماز پڑھتے ۔

آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:

((جُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِی فِی الصَّلَوۃِ))

(نسائی:کتاب الصلاۃ)

 نماز میری آنکھو ں کی ٹھنڈک ہے۔

((یَا بِلاَ لُ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاَرِحْنَا بِھَا))

اے بلا ل رضی اللہ عنہ ! نماز کا انتظا م کرو اوراس کے ذ ر یعے ہمیں سکون پہنچا ؤ۔(ابوداود:کتاب الصلاۃ)

(( عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَt قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہe مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ))

 ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی معظم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس آدمی نے رمضان کے روزے حالت ایمان میں ثواب کی نیّت سے رکھے، اس کے پہلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں،جس آدمی نے حالت ایمان میں طلبِ ثواب کے ٍلیے قیام کیا اس کے پہلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔  (متفق علیہ)

تلاوتِ قرآن مجیدکے فائدے

قرآن مجید راہنمائی کا روشن آفتاب، قلب و ذہن کے لیے نسخہ شاداب، مسائل اور مصائب کا تریاق، دفع امراض و حل المشکلات، اس کی تلاوت موجب ثواب و برکات، اس پر تدبر وتفکر کرنے سے مسائل کا ادراک حاصل ہوتا ہے اور اس پر عمل کرنے سے دنیا و آخرت شاد باد ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کثرت کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے۔ جو شخص تلاوت نہیں کرتا اس کا دل مردہ اور جس گھر میں تلاوت نہیں کی جاتی وہ ویران اور قبرستان کی مانند ہوتا ہے۔ نماز اور قرآن سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہیں۔

حدیث قدسی ہےکہ:

((یَقُوْلُ الرَّبُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مَنْ شَغَلَہ الْقُرْاٰنُ عَنْ ذِکْرِیْ وَسُؤَالِیْ أعْطَیْتُہ أفْضَلَ مَا أَعْطَیَ السَّائِلِیْنَ))

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جسے قرآن پاک کی تلاوت نے میرے ذکر اور دعامانگنے سے مصرو ف رکھا میں اسے مانگنے والے سے زیا دہ عطاکرونگا۔ (الترمذی: باب فضائل القرآن)

دعا کی فضیلت اور برکت:

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۱ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُوْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ۰

جب میرے بندے میرے بارے میں تم سے پوچھیں تو انہیں بتا ئیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ۔ہر پکار نے والے کی پکار کو جب  وہ مجھے پکارے تو میں قبول کرتا ہوں۔ لوگوں کو بھی چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔ (البقرہ:۱۸۶)

دعا عبادات کا خلاصہ، انسانی حاجات اور جذبات کا مرقع، بندے اور اس کے رب کے درمیان لطیف مگر مضبوط واسطہ، اس سے ضمیر کا بوجھ ہلکا اور پریشانیوںکا مداوا ہو تا ہے ۔ اس لیے دعا پورے انہماک، توجہ اور اصرار و تکرار کے ساتھ کرنی چاہیے۔ دعا مصائب سے محفوظ رہنے اور مشکلات سے نکلنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اﷲ تعالی کی رضا اور حکم یہ ہے کہ اُس سے براہِ راست اور بلاواسطہ مانگا جائے۔ اﷲ سے نہ مانگنا بدترین تکبر ہے۔ فوت شدگان کے واسطے ، وسیلے ،برکت ،حرمت اور صدقے سے دعا کرنا شرک ہے۔

((الدُّعَاء ُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ))  (ترمذی)

 دعا عبادت کا خلاصہ ہے ۔

((الدُّعَاء ُ سِلاَحُ الْمُؤْمِنِ)) (مستد رک حاکم)

 دعا مومن کا اسلحہ ہے ۔

نبی اکر م ﷺنے دعا کو عبادت کا اصل اور خلاصہ قرا ردیا ہے جبکہ بندہ مومن کو اپنی حفاظت کے لیے دعا کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی ترغیب بھی دی ہے یہی عبادت کی غرض و غایت اور اس کا مقصو د ہے ۔کیونکہ عبادت میں عاجزی، اپنے گنا ہوںکا اعتراف،اللہ تعالیٰ سے حاجات کی طلبی، مشکلات اور پریشانیوں سے بچنے کی درخواست، ہر قسم کے نقصانات اور مخالف کے شر سے محفوظ رہنے کی استدعا پھر اس میں اللہ تعا لیٰ کی کبریائی کااعتراف اور نبی اکر مﷺ پر درود شا مل ہو تا ہے، عبادت سے اللہ تعالی راضی اور بندے کی بندگی کا اظہا ر ہو تا ہے ۔

درود:

درود نبی ﷺ کے احسانات کا اعتراف، آپﷺ کی قربت و محبت کا وسیلہ، غموں اور پریشانیوں سے نجات کا ذریعہ، گناہوں کی معافی اور بلندء درجات ، روزِ محشر آپﷺ کی سفارش کا موجب، شر ط یہ ہے کہ درود کے الفاظ وہ ہوں جونبی eنے اپنی ذاتِ اقدس کے لیے پسند فرمائے ہیں۔ بہترین درود التحیات میں پڑھا جانے والا درودِ ابراہیمی ؑuہے، اس پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ ایسا درود جس میں الفاظ کی نسبت اﷲ تعالیٰ کی طرف نہ ہو وہ درود کہلوانے کا حقدار نہیںہو سکتا۔ آج کل درود ہزاری لکھی اور کئی مصنوعی درود تیار کیے گئے ہیں جو نبی محترم ﷺ کی شانِ والاصفات کے شایان شان نہیں کیونکہ من گھڑت ہیں ان سے پرہیز ہی کرنا چاہیے۔

درود پڑھو! ضرور پڑھو! مگر مسنون پڑھو۔

(( عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَt اَنَّ رَسُولَ اللہِ eقَالَ مَنْ صَلَّی عَلیَّ وَاْحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرًا)) (مسلم: باب الصلوۃ علی النبی)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جو مجھ پر ایک مر تبہ دردوبھیجتا ہے اللہ تعا لی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتاہے۔

نبی ﷺکے شرف و کمال کی انتہا ہے کہ خالق کائنات نے کسی کام کا اس طرح حکم نہیں دیا کہ یہ کام میری ذات ِعظیم بھی کرتی ہے، لہٰذا مومنوں کو بھی کرنا چاہیے۔

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓیِکَتَہ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۱ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۰(الاحزاب:۵۶)

اللہ اور اس کے ملائکہ نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی نبیﷺ پر درود وسلام بھیجا کرو۔

یہ آیت مبارکہ آنے کے بعد آپﷺ کے رفقائے گرامی نے عرض کیا آقائے تاجدار آپﷺ کی ذاتِ اطہر کے لیے نماز میں سلام التحیات کے الفاظ کی صورت میں ہمیں معلوم ہے لیکن درود کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہم آپﷺ کی ذاتِ اطہر کے لیے کن الفاظ میں اﷲ کی بارگاہ میںآپ کے لیے درود پڑھیں؟ آپﷺ نے درود پاک کے الفاظ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو آگاہ فرمایا۔

(مشکوٰۃ : کتاب الصلوٰۃ)

عبدالرحمن بن عوفرضی اللہ عنہ تفصیلات بیان کرتے ہیں کہ  ایک دن میں نبی محترم ﷺ کے ساتھ باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ چند قدم چلنے کے بعد اچانک آپﷺ اﷲ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گئے۔ میں تھوڑی دور جا کر آپ کے سجدے سے اٹھنے کا انتظار کرتا رہا لیکن سجدہ اسقدر طویل تھا کہ مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ شاید آپe کی روحِ پاک کو سجدے کی حالت میں اٹھا لیا گیا ہے۔ میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے جب آپ کے قریب پہنچا تو آپﷺ نے اپنا سرِ اقدس اٹھایا اور میری گھبراہٹ بھانپتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے ابنِ عوفرضی اللہ عنہ !یہ پریشانی کیسی ہے؟ میں نے اپنا احساس عرض کیا۔ آپ فرماتے ہیں: چند گھڑیاں پہلے میرے پاس جبرئیل تشریف لائے تو انہوں نے مجھے یہ کہا ہے۔ جو آپe پر درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے میں اس پر رحمت کروں گا جو آپﷺ پر سلام بھیجے گا اس پر میں سلام بھیجوں گا۔

(مسند احمد)

توبہ استغفار:

اللہ کی رضا کا حصول، گنا ہوں کی معافی کا ذریعہ اس سے ضمیر کا بوجھ ہلکا اورپریشانیوں سے نجات ملتی ہے، دنیا میں کشادگی اور آ خرت میں جنت نصیب ہو گی، سچی توبہ سے سیئات حسنات میں تبدیل ہوتی ہیں، توبہ و استغفار کرنے سے اللہ کے غضب سے آدمی محفوظ ہو جاتا ہے لہٰذا رمضان المبارک میں بالخصوص اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ، استغفار کرتے رہنا چاہیے۔

 شر ائط:گناہ پر ندامت ، گذشتہ پر معذرت اور آئندہ سے اجتناب۔

انسان انس اور نسیان سے مرکب ہے ۔ بھولنا بلکہ بار بار بھول جانا اس کی طبع اور فطرت میں شامل ہے اسی بنیا د رپر رسول محترم ﷺ نے فرمایا:

((نَسِیَ اٰدَمُ وَاَکَلَ مِنَ الشَّجَرَۃِ وَ نَسِیَتْ ذُرِّیَتُہُ)) (مشکوۃ: الإیمان بالقدر)

جناب آدم علیہ السلام سے خطاسر زدہوئی کہ انہوں نے درخت کاپھل کھالیااور ان کی اولادسے بھی غلطیاں ہوتی رہیں گی۔

اللہ تعالی کو کسی شخص کی غلطی اور گناہ پر اتنی ناراضگی نہیں ہوتی جتنا وہ غلطی کے تکرار اور اس پر اصرار کرنے سے ناراض ہوتا ہے۔ شیطان اور انسان پھر انسان اور مسلمان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مسلمان اپنی غلطی پر تکرار اور اصرار نہیں کرتا۔ ایسے خوش بخت حضرات کے بارے میں ارشاد ہوا:

((کُلُّ بَنِیْ آدَمَ خَطَّاء ٌ وَ خَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ))

 آدم کی ساری اولادسے گناہ سر زد ہو سکتاہے ۔ البتہ خطاکاروں میں بہترین وہ ہیں جومعافی مانگ لیتے ہیں۔ (مشکوۃ:باب التوبۃ )

اہل مکہ کی جسارت کی انتہا مگر

اللہ تعالیٰ سے معذرت کرنا جسے توبہ و استغفار کے نام سے یاد کیا گیا ہے اس کے بارے میں مکہ معظمہ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو تاریخ عالم میں آج تک رونما نہیں ہوا ۔ خدا کے نا فرمان مکے کے سردار بیت اللہ کے صحن میں جمع ہو رہے ہیں وہ غیظ و غضب میں اس قدر اندھے ہوئے جارہے ہیں کہ آگے بڑھ کر کعبۃ اللہ کے غلاف کو کھینچتے ہوئے رب ذوالجلال کی غیرت کو اس طرح چیلنج کرتے ہیں :

وَ اِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآء ِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۰

(الانفال: ۳۲)

 اے اللہ اگر واقعتاً یہ قرآن تیری طرف سے ہے تو پھر آسمان سے ہمارے اوپر پتھر برسا، یا ہمیں المناک عذاب میں مبتلا کر دے۔

اس واقعہ سے مکے میں کہرام مچ گیا ۔لوگوںکی نیندیں حرام ہو گئیں عورتیں بے قراری کے عالم میں چیخیں مارتی ہیں ۔ہر سننے والا خوف کے مارے یہ کہتاہوا سنائی دیتا ہے اب خدا کے غضب سے بچنے کی کوئی صورت باقی نہیں مگر اللہ تعالیٰ کا رحم و کرم ، فضل و تحمل اور توبہ و استغفار کی برکا ت دیکھیںعرش معلی سے جواب آتا ہے۔

وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَ اَنْتَ فِیْہِمْ۱ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ.(الأنفال:۳۳)

ان پراللہ تعالیٰ کے عذاب نہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ ان میں استغفار کرنیوالے مسلمان اور آپeکی ذات گرامی بھی موجود ہیں۔

استغفارکی چند دعائیں

رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۰

یارب معاف کیجیے اور رحم فرمائیے آپ سب سے زیادہ رحم فرمانے والے ہیں۔ (المومنون:۱۱۸)

(( أَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبِ وَّاَتُوْبُ إِلَیْہ))

میں اللہ سے ہر گناہ کی معافی مانگتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔(مشکوٰۃ: باب الاستغفار)

((اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ))

(مشکوٰۃ: باب السجود)

اے اللہ مجھے معاف کر دے اور مجھ پہ رحم فرما۔

((اَللّٰھُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ))

اے اللہ تو معاف کرنیوالے اور معافی کو پسند کرتا ہے اس لیے مجھے معاف فرما دیجیے۔  (مشکوٰۃ: کتاب العصوم)

سید الاستغفار

((اَللّٰھُمَّ أَنْتَ رَبِّیْ لَا إِلٰہَ إِلاَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَأَنَا عَبْدُکَ وَأَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ وَ أَبُوْء ُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَبُوْء ُ بِذَنْبِیْ فَا غْفِرْ لِیْ فَإِ نَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّاأَنْتَ))  (مشکوۃ : باب الاستغفار)

اے اللہ !تو ہی میرا رب ہے، میں تیرا عا جز بندہ ہو ں، میں تیرے ساتھ کیے گئے عہدو پیما ن کا اپنی ہمت کے مطا بق پابند ہوں میں تیری حفا ظت چا ہتا ہوں اپنی کمزریوں کے وبال سے، آپ کے جو مجھ پر احسانات ہیں میں انکا اعتراف کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کو تسلیم کرتا ہوں مجھے معا ف کیجیے کیو نکہ آپ کے علاوہ کو ئی معافی عطا کرنیوالا نہیں۔

ذکر کی حیثیت،ضرورت اور برکت :

ذکرروحانی و جسمانی بیماریوں کا علاج، قلب و نظر کا سکون اور اطمینان، مشکلات سے نکلنے کا آسان راستہ، اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی نصرت و حمایت کا ذریعہ، ذکرکرنے والے کا حریم کبریاء میں تذکرہ اور فلاح و کامیابی کا زینہ ہے لہٰذا رمضان اور اس کے بعد ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔

(عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃt قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ e إنَّ اللہَ تَعَالیٰ یَقُوْلُ أَنَا مَعَ عَبْدِیْ إِذَا ذَکَرَنِیْ وَ تَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ )

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اس وقت ہی اپنے بندے کے ساتھ ہو جاتا ہوں جب اس کے ہونٹ میری یادمیں حرکت میں آتے ہیں۔

(رواہ البخاری)

(( عَنْ عَائِشَۃَr قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ e یَذْکُرُ اللہَ عَلَی کُلِّ اَحْیَانِہِ)) (رواہ مسلم: باب ذکر اللہ تعالیٰ فی حال الجنابۃ)

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہر حال میںاللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔

وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.(الجمعۃ:۱۰)

اللہ کو بہت زیادہ یاد کیا کرو تاکہ تم کامیاب ہو جائو۔

فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ.(البقرۃ:۱۵۲)

تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوںگا۔

انفاق فی سبیل اﷲ

صدقہ رَدِّ بلا ، رزق میں اضافہ کا باعث توشہ آخرت،مال اور اعمال کی پاکیزگی کا ذریعہ، گناہوں سے معافی کا وسیلہ، یتیموںاور مسکینوں کا سہارا ہے۔ لہٰذا حسبِ استطاعت کچھ نہ کچھ فی سبیل اللہ خرچ کرتے ہی رہنا چاہیے۔

((اِنَّ الصَّدَقَۃَ لَتُطْفِئُ غَضْبَ الرَّبِّ وَتُدْفَعُ مَیْتَۃَ السُّوْء ِ))  (مشکو ۃ: باب فضل الصدقۃ )

صدقہ اللہ تعالی کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتاہے ۔

((بَادِرُوْا بِالصَّدَقَۃِ فَإِنَّ الْبَلاَء َ لَایَتَخَطَّاھَا))

صدقہ کیاکرو کیو نکہ صدقے کی وجہ سے مصائب ٹل جاتے ہیں۔

(مشکوٰۃ:باب الانفاق)

(( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍw قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللہِe اَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَیْرِ وَکَانَ اَجْوَدَ مَا یَکُوْنُ فِیْ رَمَضَانَ کَانَ جِبْرَئِیْلُ یَلْقَاہُ کُلَّ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ یَعْرِضُ عَلَیْہِ النَّبِیُّe الْقُرْاٰنَ فَاِذَا لَقِیَہُ جِبْرَئِیْلُ کَانَ اَجْوَدَ بِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَۃِ)) (رواہ البخاری: باب اجود ما کان النبی e یکون فی رمضان)

ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ صدقہ کرنے کے لحاظ سے سب سے زیادہ کشادہ ہاتھ تھے آپ سب سے زیاد ہ سخاوت رمضان المبارک میں کرتے تھے۔ جبرائیل رمضان المبارک میں ہر رات آپ سے ملاقات کرتے تو آپe حضرت جبریل علیہ السلام کو قرآن سناتے۔ جب آپ سے جبرائیل u ملاقات کرتے تو آپﷺ سخاوت میں تیز آندھی سے بھی زیادہ ہو جاتے۔

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہ لَہ وَ لَہٓ اَجْرٌ کَرِیْمٌ۰(الحدید)

کو ن ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ وہ بڑھا کر واپس کرے اور اس کے لیے بہترین اجر ہے ۔

(( عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَt قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ e اِنَّ اللہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَا ابْنَ اٰدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِی فُلَانًا مَّرِضَ فَلَمْ تَعُدْہُ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْعُدْتَّہُ لَوَجَدْتَّنِیْ عِنْدَہُ یَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اُطْعِمُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّہُ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْہُ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ اَطْعَمْتَہُ لَوَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِیْ یَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَسْقَیْتُکَ فَلَمْ تَسْقِنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اَسْقِیْکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ قَالَ اسْتَسْقَاکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِہٖ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ سَقَیْتَہُ وَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِیْ)) (رواہ مسلم: باب فضل عیادۃ المریض)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا تو تُونے میری بیمارپرسی نہ کی ۔بندہ عرض کرے گا۔ میرے پروردگار میں آپ کی بیمار پرسی کیسے کرتا؟ کیونکہ تو ہی تو ر ب العالمین ہے اس پر اللہ فرمائے گا۔ تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تونے اس کی بیمار پرسی نہ کی ۔ اگر تو اس کی بیمار پرسی کے لیے آتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تونے مجھے کھانا نہ کھلایا؟ بندہ جواب دے گا اے میرے رب! میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا تو تو جہانوں کو رزق دینے والا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گاتجھے معلوم نہیں میرے فلاں بند ے نے تجھ سے کھانا مانگامگر تو نے اس کو کھلانے سے انکار کردیا تھا۔کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کابدلہ میرے پاس پاتا۔ آدم کے بیٹے !میں نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔وہ عرض کرے گا اے میرے رب!میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو تو جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہیں پلایا۔ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو نے اس کو پانی پلایا ہوتا تو آج میرے پاس تو اپنے لیے مشروبات کا اہتمام پاتا۔

About میاں محمد جمیل ایم اے

Check Also

عقیدہ ختمِ نبوّت کے چار بنیادی تقاضے

﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ وَ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے