Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » ‎شمارہ جولای » المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ(قسط 3)

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ(قسط 3)

قسط نمبر: 3

صوفیاء کی باتیں پیش نہ کریں

(۲۴) گھمن :’’ہم نے بہت سی مشہور کتابوں کا تذکرہ کردیا ہے غیرمقلدین کو چاہئے کہ اگرہمارے عقائد معلوم کرنے ہیں تو ان کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں،صوفیاء کی باتیں پیش نہ کریں،صوفیاء کی باتیں دین میں حجت نہیں ہوتیں۔‘‘(ص:۳۱)

جواب: گھمن صاحب نے‘‘چند اصولی باتیں‘‘ کرتے ہوئے یہ بات لکھی ہے ،گویا یہ بھی کوئی اصول ہے حالانکہ وہ خود اپنے اس اصول کی پابندی نہیں کرتے ،ہم سے تو کہتے ہیں کہ’’صوفیاء کی باتیں پیش نہ کریں‘‘ خود کرتے ہیںاور ان سے لوگوں کے’’عقائد‘‘ بھی طے کرتےہیں، چنانچہ اپنی کتاب’’فرقہ بریلویت…کا تحقیقی جائزہ‘‘میں ایک عنوان قائم فرمایا:’’فرقہ بریلویہ کے گستاخانہ عقائد‘‘اس سے چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:

1لکھا ہے:’’عقیدہ نمبر12حضور ﷺ کو خد ا کہنے کا ایک اور پیرایہ‘‘مولوی محمدیار ایک دوسرے مقام پرحضورﷺ کے بارے میں رقمطراز ہیں ….(دیوان محمدی ،ص:۲۰۵)

(فرقہ بریلویہ کا تحقیقی جائزہ ،ص:۳۴۸)

حالانکہ’’خواجہ محمدیار‘‘بریلویوں کے ہاں’’صوفی بزرگ‘‘ ہیں، لیکن گھمن اور ان سے پہلے بھی ان کے علماء نے بھی ان اشعار سے ان کی بدعقیدگی بیان کی جیسے ان کے ’’امام اہل سنت‘‘ سرفراز خان صفدر صاحب نے اپنی کتاب ’’گلدستہ توحید‘‘ (ص:۱۷،۷۲)

2’’عقیدہ نمبر13گھمن صاحب نےانہی صوفی صاحب کے کلام سے نقل کیا ۔(فرقہ بریلویہ کا تحقیقی جائزہ ،ص:۳۴۹)

3’’عقیدہ نمبر21’’خداخواجہ فرید کے روپ میں‘‘

(بحوالہ ہفتہ اقطاب،ص:۱۰۱)

(فرقہ بریلویہ کا تحقیقی جائزہ ،ص:۳۵۲)

4گھمن نے بریلویوں کا’’عقیدہ نمبر22’’خدا کی تصویر‘‘بھی ان کے صوفی محمدیار کےکلام سے پیش کیا۔

(فرقہ بریلویہ کا تحقیقی جائزہ ،ص:۳۵۳)

5گھمن صاحب نےلکھا:’’عقیدہ نمبر25‘‘خدا کی پیدائش کا عقیدہ‘‘ بریلویوں کاعقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ۳۵۰ھ کوپیداہوئے۔(معاذ اللہ ثم معاذاللہ) تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضرت ابوالحسن الخرقانی کی پیدائش ۳۵۲ھ کوہوئی اور بریلوی حضرات بیان کرتے ہیں کہ:

(حضرت ابوالحسن الخرقانی )نےیہ بھی فرمایا کہ میں اپنے رب سےد و سال چھوٹاہوں۔(فیوضات فریدیہ ،ص:۷۸)

6گھمن نے لکھا:’’عقیدہ نمبر 28خدا سے کشتی کرنےکاتصور‘‘ حضرت ابوالحسن الخرقانی نے فرمایا کہ صبح سویرے اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ کشتی کی اور ہمیں بچھاڑ دیا۔(فوائد فریدیہ ،ص:۷۸)

7گھمن صاحب نے لکھا:’’عقیدہ نمبر41حضرت یحی منیری رحمۃ اللہ کو حضرت خضرعلیہ السلام پر ترجیح دینا۔

حضرت یحیٰ منیری (۷۸۲ھ)سلسلہ فردوسیہ کے ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں…..مولانااحمدرضاخان ،حضرت یحی منیری کو ایک پیغمبر پر کس طرح ترجیح دیتے ہیں،انہوں نے اپنے اس عقیدہ کو اس کہانی میں یوں لپیٹا ہے:مولانا احمدرضاخان فرماتے ہیں:

حضرت یحی منیری کا ایک سچامرید دریا میں ڈوبنے لگا،امدا د کے لئے اپنے پیر کو یا د کیا ،اتنے میں ایک صاحب آئے اور کہنے لگے لاؤہاتھ میں نکال دوں،مرید نے پوچھاتم کون ہو؟کہامیں خضرعلیہ السلام ہوں، اس مرید نے کہا ڈوب جانابہتر ہے مگر جوہاتھ یحی منیری کے ہاتھ میں جاچکا ہے کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں جائے گا،ابھی مرید کا یہ جملہ پورا بھی ہونے پایاتھا کہ خضرعلیہ السلام غائب ہوگئے اور یحی منیری موجود تھے،فرمانے لگے شاباش ایک مرید کو اپنے پیر کا اتنا ہی پکا معتقد ہونا چاہئے اورہاتھ پکڑ کے پار کردیا۔(سوانح اعلیٰ حضرت …ص:۱۳۳)

…مولانا احمدرضاخان نے ڈوبنے کی مذکورہ حکایت کی تائید کی ہے اور ایک ولی کو ایک نبی کے مقابلہ میں لائے ہیں ،کیا یہ شانِ نبوت میں گستاخی نہیں؟ (فرقہ بریلویت ،ص:۳۶۲،۳۶۳)

قارئین کرام!یہاں دیوبندیوں کے’’متکلم اسلام‘‘ الیاس گھمن صاحب کے انداز گرفت پر غور فرمائیں لکھا ہے:

’’اپنے اس عقیدہ کو اس کہانی میں یوں لپیٹا‘‘مطلب واضح ہے کہ کہانی کہانی میں بھی’’عقیدہ‘‘ لپیٹا جاتاہے،بس اسی طرح علماء دیوبند نے اپنی کہانیوں میں جن عقائد کو لپیٹا ہے ہم ان کی وہ کہانیاں پیش کرکے اس عقیدہ کوظاہرکرتے ہیں،جس طرح آپ نے اس پر عنوان باندھا ہم بھی عنوان دیتے ہیں، جس طرح آپ نے یحی منیری صاحب کی کرامت سمجھ کراسے نظرانداز نہیں کیا ہم بھی نہیں کرتے ،پھر جس طرح آپ نے اس قصہ سے’’شانِ نبوت میں گستاخی‘‘ دریافت کی ہم بھی کہانیوں میں موجودشرک،کفر،بدعت یا گستاخی کا پتہ بتاتے ہیں تو ہم مجرم اور آپ ٹھہرے’’متکلم اسلام آف دیوبند‘‘بہت خوب

لوانصف الناس لاستراح القاضی!

المختصر کہ کرامتی کہانی اور حکایت بھی اگراصول وعقائد سے ٹکرائیں تو اس پر اعتراض قائم ہوتا ہے۔

8گھمن صاحب نےلکھا:’’عقیدہ نمبر56حضور حضرت معین الدین کی صورت میں‘‘ کوٹ مٹھن ضلع راجن پور پاکستان میں ایک شخص میاں جمعہ کی بیوی فوت ہوگئی، وہ بہت اداس تھا،کہتے ہیں کہ اس کی تسلی کے لئے حضور اکرم ﷺ اسے خواب میں ملے،یہ واقعہ ان لوگوں کے اپنے الفاظ میں سنیے:

رات کوخواب میں میاں جمعہ کو محبوب خداﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ہے،لیکن حضور ﷺ نےاپنے چہرہ انور پر نقاب ڈالاہواہے، جس وقت میاں جمعہ قدم بوس ہوتا ہے اورحضور پاک ﷺ چہرہ مبارک سےکپڑا اٹھاتے ہیں توعین شہنشاہ مولانا محمد معین الدین کا چہرہ سامنے آجاتاہے۔(ہفت اقطاب،ص:۱۱۹)

فرقہ بریلویت…..ص:۳۷۰)

دیکھ لیجئے قصہ’’خواب‘‘ کا ہے جیسا کہ گھمن صاحب نے خود اپنے الفاظ میں لکھا اور محولہ عبارت سے بھی نقل کیا اور پھر کتاب صوفیاء کی باتوں پر مشتمل ہے مگر گھمن صاحب نے اسے بغیر پس وپیش بلاتردد ’’عقیدہ‘‘ کا عنوان دے ڈالا،لیکن جب اپنی باری آتی ہے توفوراًسے پہلے کہہ دیتے ہیں کہ’’یہ خواب ہے، یہ توخواب ہے‘‘خواب پر اختیارنہیں’’لہذا‘‘ خواب قابل گرفت نہیں۔

جی ہاں ہمیں معلوم ہے کہ خواب پر اختیار نہیں اوریہ بھی کہ اختیار میں نہ ہونے کے سبب خواب قابل گرفت ومؤاخذہ بھی نہیں۔ لیکن یہ بات بھی تو یاد رکھنا چاہئے کہ اچھاخواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور براخواب شیطانی وسوسہ ہے اور رسول اللہ ﷺ نے ہمیںبرے خواب،آگے بیان کرنے سے روکا ہے،چنانچہ ابوسعید الخدریtفرماتے ہیں:

 أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ رُؤْيَا يُحِبُّهَا، فَإِنَّمَا هِيَ مِنَ اللَّهِ، فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ عَلَيْهَا وَلْيُحَدِّثْ بِهَا، وَإِذَا رَأَى غَيْرَ ذَلِكَ مِمَّا يَكْرَهُ، فَإِنَّمَا هِيَ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ شَرِّهَا، وَلاَ يَذْكُرْهَا لِأَحَدٍ، فَإِنَّهَا لاَ تَضُرُّهُ»(صحیح بخاری ،کتاب التعبیر ،باب الرؤیا من اللہ، رقم الحدیث:۶۹۸۵)

کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایساخواب دیکھےجو اسے پسندہو،تودراصل یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے اس پر اللہ کی حمد(وشکر) بیان کرے اور وہ اسے بیان کرے، اور جب وہ اس کے علاوہ کچھ دیکھے جوا سے ناپسند ہو تو وہ دراصل یہ خواب شیطان کی طرف سے ہے، اس کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرے ،اور اس کاذکر کسی سے نہ کرے، پس وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔

اس قسم کی اور بھی احادیث ہیں جن میں برے وناپسندیدہ ،مکروہ خوابوں کو آگے بیان کردینے کی ممانعت ہے ، اب کسی بھی مؤمن کے لئے اس سے زیادہ مکروہ وناپسندیدہ بات کیاہوگی کہ تمام انسانوں سے زیادہ اس کے محبوب رسول ﷺ کے حسین ترین مبارک چہرہ کے بجائے ان کے لئے کسی اور کے چہرے کا ذکرکیاجائے۔

گھمنی فارمولے کے مطابق اکابردیوبند گستاخ ہیں

قارئین کرام! گھمن صاحب نے اپنی کتاب کے’’باب سوم‘‘ میں ’’فرقہ بریلویہ کے گستاخانہ عقائد‘‘کے عنوان سے مندرجہ بالاعقائد پیش کئے ہیں ،ص:۳۴۳تا۳۹۹تک کل:۹۲باتوں کو عقیدہ کہہ کر پیش کیا انہی میں عقیدہ نمبر:۵۶بھی ہے جس میں ایک خواب نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ کوخواب میں دیکھا توآپ ’’معین الدین کی صورت میں تھے‘‘ نعوذباللہ ،گویاخواب ہونے کے باوجود بھی دیوبندیہ کے’’متکلم اسلام‘‘ الیاس گھمن صاحب کے نزدیک یہ ’’گستاخانہ عقیدہ‘‘ قرارپایا،اب ملاحظہ کیجئے علماء دیوبند کیاارشاد فرماتے ہیں:

رسول اللہ ﷺ میانجیو نورمحمد کی صورت میں (نعوذباللہ)

1دیوبندیہ کے حکیم الامت ،مجدد الملت، اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنے پیر امداداللہ تھانوی صاحب کے احوال میں لکھا:

اور درمیان روضہ شریفہ ومنبر کریمہ کی ’’روضۃ من ریاض الجنۃ‘‘ اس کی شان ہے مراقبہ فرمایا،معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ قبرِ مقدس سے خود سے بصورت میانجیو صاحب قد س سرہ نکلے اور عمامہ لپٹا ہو اور تراپنے دست مبارک میں لیے ہوئے تھے میرے سر پر غایت شفقت سے رکھ دیا اور کچھ نہ فرمایا واپس تشریف لے گئے۔(امداد المشتاق الی اشرف الاخلاق ،ص:۱۹،مطبع مکتبہ رحمانیہ لاہور)

اب اس عبارت پرغور فرمائیے جس کے لکھنے والے یوبند کے ہاں’’مجدد‘‘ کے درجہ کوپہنچے ہوئے عالم ہیں، بہشتی زیور زسمیت کوئی ایک کتب ورسائل کے مؤلف ہیں ،عام آدمی یا صوفی محض نہیں، اور قصہ بھی خواب کا نہیں عین بیداری کا ہے کہ’’مراقبہ‘‘ سوتے میں تو کرنہیں سکتے تھے جاگتے میں کیاتھا اور رسول اللہ ﷺ اپنی قبر مبارک سے نکلے تو ان کے بقول ان کے پیر نورمحمد جھنجھانوی صاحب کی صورت میں نکلے۔ نعوذباللہ

گھمن صاحب!اب بتائیں کہ رسول اللہ ﷺ کو کسی مولانا معین الدین کی صورت میں پیش کرنا وہ بھی خواب میں’’گستاخانہ عقیدہ‘‘ ہے تو اشرف علی تھانوی صاحب دیوبندی کا رسول اللہ ﷺ کو اپنے سلسلہ کے ایک پیر نورمحمد جھنجھانوی صاحب کی صورت میں پیش کرنا اوروہ بھی جاگنے کی حالت میں ’’گستاخانہ عقیدہ‘‘ کیوں نہیں؟؟؟

گھمن صاحب اگربریلویہ کو نیچادکھانے کے لئے اس پر ’’گستاخی‘‘ کا فتویٰ نہیں لگایاتھا بلکہ واقعی طور پر رسول اللہ ﷺ کی شان وعظمت ،مقام ومرتبہ اور محبت کی بناء پر شرعی اصول وقواعد کی روشنی میں اسے گستاخی قرار دیا تو اکابردیوبند کے دربار میں آکر یہ محبت کم نہیں ہوگی اسے بھی آپ ’’گستاخی‘‘ ہی قراردیں گے وگرنہ آپ کا انصاف ودیانت بہرحال واضح ہوہی جائے گا۔مزیدسنئے:

اشرف علی تھانوی صاحب نے ’’ضمیمہ فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘لکھا تھا اور خود اپنے حکم سےاسے اپنی سوانح حیات میں شائع بھی کرایا چنانچہ لکھا ہے:

’’فیصلہ ہفت مسئلہ نمبر۶۸کے متعلق علاوہ ضمیمہ مرقومہ مولانا گنگوہی قدس سرہ کے احقر نے بھی ضمیمہ لکھا تھا جو مستقل چھپ کر شایع ہوچکاتھا…اب مل گیا ہے، اس کو نایاب ہونے کے سبب اس جگہ نقل کیاجاتاہے آئندہ اس ضمیمہ کو فیصلہ ہفت مسئلہ کاجزوبناکرشائع کرنامناسب ہے، اشرف علی ۲۵محرم ۵۵ھ(اشرف السوانح ۳؍۴۰۷،مطبوع ،دارالاشاعت کراچی)

اس’’ ضمیمہ ‘‘ کے بعد تھانوی صاحب نےلکھا:

نوٹ:

یہ دونوں ضمیمے (گنگوہی وتھانوی) توقواعد شرعیہ پر مبنی ہیں، اب ان کی تائید ایک رؤیائے صالحہ سے جس کا لقب حدیث میں مبشر آیا ہے، نقل کی جاتی ہے،صاحب رؤیاجناب مولانا حافظ محمد احمد صاحب مہتمم دار العلوم دیوبند رحمۃ اللہ علیھا بن حضرت مولانا محمدقاسم صاحب قدس سرہ ہیں، اور صاحب روایت ان کے خلف الصدق مولوی حافظ قاری محمد طیب صاحب مہتمم حال مدرسہ موصوفہ ہیں، وھی ہذہ بعین عبارۃ الراوی وھی رؤیا عجیبۃ مشتملۃ علی حقائق غریبۃ.

نحمدہ ونصلی

احقر نے اپنے حضرت والدصاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ سےذیل کا واقعہ سنا ہے،فرماتے تھے:

’’جس زمانہ میں فیصلہ ہفت مسئلہ ‘‘چھپا اور اس کی نسبت حضر مرشد عالم حاجی امداداللہ قدس سرہ کی طرف تھی،اس لئے ہم لوگوں کو سخت ضیق پیش آئی، موافقت کرنہیں سکتے تھے،اورمخالفت میں حضرت کی نسبت سامنے آتی تھی،حیرانی تھی ،اسی دوران میں،میں نے (حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے) خواب دیکھا:

’’ایک بڑا دیوان خانہ ہے اور اس میں حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تشریف رکھتے ہیں، میں بھی حاضرہوں اور’’ہفت مسئلہ‘‘ کا تذکرہ ہے، حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرمارہےہیں:

’’بھائی علماء اس میں تشددکیوں کررہے ہیں؟ گنجائش توہے۔‘‘

میں عرض کررہاہوں:

حضرت گنجائش نہیں ہے ورنہ مسائل کی حدودٹوٹ جائیں گی۔

ارشاد فرمایا:

یہ تو تشدد معلوم ہوتاہے۔

میں نے پھر بھی بہت ہی ادب سے عرض کیا:

حضرت جو کچھ بھی ارشاد فرماتے ہیں  درست ہےمگر حضرات فقہاء رحمھم اللہ تعالیٰ تو اس کے خلاف ہی کہتے ہیں۔

حضرت والد صاحب فرماتےہیں:

خواب میں میں ردوقدح بھی کررہاہوں لیکن حضرت کی عظمت میں ایک رتی برابرفرق نہیں دیکھتاتھا، اسی ردوقدح میںآخر حضرت نے ارشاد فرمایا:

اچھابات مختصر کرو:اگرخوصاحب شریعت فیصلہ فرمادیں،پھر؟

میں نےعرض کیا:ـ

حضرت اس کے بعد کسی کی مجال ہے کہ خلاف چل سکے۔

فرمایا: اچھاان شاءاللہ اسی جگہ خود حضرت صاحب شریعت ہی ہمارے تمہارے درمیان میں فیصلہ فرمادیں گے۔

والد صاحب نے فرمایا:

اس بات سے مجھے بیغایت مسرت ہورہی ہے کہ آج الحمدللہ! حضرت صاحب شریعت ﷺ کی زیارت نصیب ہوگی۔

اور اسی کے ساتھ حضرت حاجی صاحب کی عظمت اور زیادہ قلب میں بڑھ گئی کہ حق تعالیٰ نے ہمارے بزرگوں کو یہ درجہ عطافرمایا کہ وہ اپنے معاملات میں براہِ راست حضور ﷺ کی طرف رجوع بھی کرسکتے ہیں،اور حضور ﷺ کو اپنے یہاں بلابھی سکتے ہیں۔

تھوڑی دیر میں حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نےا رشاد فرمایا:

لوتیاربیٹھو،حضور تشریف لارہے ہیں۔

اتنے میں میں نے دیکھا کہ آگے آگے حضرت ﷺ ہیں اور پیچھے پیچھے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا مجمع ہے، حضور کی شان ہے کہ حلیہ مبارک ہوبہوحضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، نینوکاکرتا باریک بلا کسی بنیائن وغیرہ زیب تن ہے جس میں سے بدن مبارک چمک رہا ہےگویا شعائیں سی پھوٹ رہی ہیں، سرمبارک پر ٹوپی پنج کلیا ہے جو سر پر کانوں تک منڈھی ہوئی ہےاور چہرۂ انور نہایت مشرق اور اسقدر چمک رہا ہے جیسے چمکتا ہواکندن سوناہوتا ہے،حضور جب دیوان خانہ میں داخل ہوئے توحضرت حاجی صاحب سروقد ایک کونے میں ادب سے جاکھڑے ہوئے اور میں ایک دوسرے مقابل کےکونے میں ادب وہیبت سے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا،حضور کنارہ کاٹ کرمیری طرف تشریف لائے اور بالکل میرے قریب پہنچ کر میرے کندھے پر دستِ مبارک رکھا اور زور سے فرمایا:

حاجی صاحب یہ لڑکا جو کچھ کہہ رہا ہے درست کہہ رہا ہے۔

اس پر میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور ساتھ ہی حضرت حاجی صاحب کی عظمت اور بھی زیادہ بڑھ گئی کہ ہمارے بزرگوں کو اللہ نے کیا رتبہ عطافرمایا ہے کہ حضور ﷺ کس بے تکلفی سے تشریف لائے اور کس بے تکلفی اور عنایت سے انہیں مخاطب فرماتے ہیں۔

اورحضرت حاجی صاحب کی حالت یہ ارشاد مبارک سن کر یہ ہو ئی :

بجاودرست بجاؤ درست کہتے کہتے جھکتے ہیں اور اپنے قدموں کے قریب تر سر لے جاکر پھر سیدھے کھڑے ہوتے ہیں، اور پھر بجاؤ درست بجاؤ درست کہتے کہتے اسی طرح جھکتے ہیں اور پھر سیدھے کھڑے ہوتے ہیں۔

سات مرتبہ اسی طرح حضرت حاجی صاحب نے کیا اور مجلس پر سکوت کا عالم ہے، سارا مجمع کھڑا ہے کہ حضور ﷺ ہی خود کھڑے ہوئے ہیں، جب یہ سب کچھ ہوچکا تووالد صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کی یہ شفقت وعنایت دیکھ کر جرأت کی اور عرض کیا:

حضور حدیثوں میں جو حلیہ مبارک ہم نے پڑھا ہے، اس وقت کا حلیہ مبارک تواس کے خلاف ہےیہ توحضرت گنگوہی کاحلیہ ہے۔

ارشاد فرمایا:

اصل حلیہ ہماراوہی ہے جو تم نے حدیثوں میں پڑھا ہے لیکن اس وقت ہم نے مولاناگنگوہی کاحلیہ اس لئے اختیار کیا کہ تمہیں ان سے محبت ومناسبت ہے۔

اس جواب پر مجھے حضرت گنگوہی سے اور زیادہ محبت وعقیدت بڑھ گئی اور اپنے اکابر کے درجاتِ قرب واضح ہو ئے،چند منٹ پھر سکوت رہا اور حضرت حاجی صاحب غایت ادب وتعظیم سے سرجھکائے ہوئے کھڑے ہوئے تھے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:

حاجی صاحب اب ہمیں اجازت ہے؟

حاجی صاحب نے ادب سےعرض کیا:

جومرضیٔ مبارک ہو۔

بس حضور ﷺ مع سارے مجمع کے اسی راہ سے تشریف لے گئے جس راستے سے تشریف لائے تھے ، اور میری آنکھ کھل گئی۔

یہ خواب میں نے (والد صاحب)حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لکھ کر بھیجا ،معلوم ہوا کہ حضرت پر اس خواب سے ایک کیفیت بیخودی کی طاری ہوئی اور کچھ اس قسم کے الفاظ فرمائے:

کاش یہ خواب لکھ کر قبر میں میرے ساتھ کردیاجائے تومیرے لئے دستاویز ہوجائے۔(احقر محمد طیب عفرلہ)

(اشرف السوانح ۳؍۴۰۹تا۴۱۱وفی نسخۃ :۳؍۳۴۷تا۳۵۰)

یہ خواب دیکھنے والے قاسم نانوتوی صاحب کے بیٹے اور اپنے وقت میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولوی حافظ محمد احمد صاحب ہیں، اس کے راوی اپنے وقت میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم دیوبندیہ کے ’’حکیم الاسلام‘‘مولوی قاری محمد طیب ،اس کے ناقل اشرف علی تھانوی صاحب اور مؤید دیوبندیوں کے پیرپیراں،رحمۃ للعالمین امداداللہ تھانوی صاحب ہیں اس کے علاوہ دیوبندیوں کے ایک ’’فقیہ العصر‘‘ مفتی رشید احمد لدھیانوی نے بھی اپنے ’’احسن الفتاویٰ‘‘ میں مکمل نقل فرمایا یہ سب اکابر علماء دیوبند ہیں۔

اس خواب میں نعوذباللہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے بزرگ رشید احمد گنگوہی صاحب کی صورت ظاہرکیاگیا(نعوذباللہ) او الیاس گھمن صاحب بریلویہ کے خلاف اس بات کورسول اللہ ﷺ کی گستاخی کے تحت پیش کرچکے ہیں تو گھمنی فارمولہ کے مطابق ان کے مذکورہ بالاتمام اکابرگستاخانہ عقیدہ کے حامل تھے ،باقی تبصرہ ہم نظرانداز کرتے ہیں۔

علماء دیوبند کی کتب میں اس سے بھی زیادہ خطرناک خواب کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن فی الوقت یہ موضوع نہیں بس انہیں آئینہ دکھاتے ہوئے یہ دومثالیں عرض کی ہیں، الغرض کہ مذکورہ بالا آٹھ مثالوں سے ثابت ہے کہ صوفیاء کی کتب وباتیں بھی جب عقیدہ والی باتوں پرمشتمل ہوں تو انہیں عقیدہ کے طور پر پیش کیاجاتاہے گھمن اپنے معاملہ میں اس سے روکنے کے باوجود دوسروں کے معاملہ میں ایسا کرجاتے ہیں اور یہ بات تو اپنی جگہ واضح ہے کہ جس بات میں عقیدہ والا معاملہ پایاجائے گا اسے’’عقیدہ‘‘ ہی کہاجائے گا اور اگر اس میں قرآن وحدیث کی مخالفت ہوتو اسے غلط عقیدہ ہی کہیں گے۔

(جاری ہے)

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

گھمن صاحب کی تیسری خیانت  قارئین کرام! گھمن صاحب نےا پنی اس کتاب کے ص:۵۳پر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے