Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ جنوری » نماز جنازہ میں دوطرف سلام پھیرنے والی حدیث

نماز جنازہ میں دوطرف سلام پھیرنے والی حدیث

اور تحسین محدث البانی رحمہ اللہ اجودالجوائزفی تحسین التسلیمتین فی الجنائز

الحمدللہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ: اما بعد ۔۔۔ معزز قارئین کرام نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنا بھی سنت سے ثابت ہے اسی طرح دو طرف بھی؛ دو طرف والی احادیث جن کومحدث کبیر البانی رحمہ اللہ نے کتاب الجنائزمیں حسن کہا ہے بعض علماء نے اس تحسین کا انکار کیا ہے لیکن حق مع الالبانی ہے کما تری ؛ ان شاء اللہ
اس تحریر میں دونوں موقف مع الدلیل پیش خدمت ہیں۔
پہلا موقف اور دلیل : (عن معمر، عن الزهري قال: سمعت أبا أمامة بن سهيل بن حنيف يحدث ابن المسيب قال: «السنة في الصلاة على الجنائز أن يكبر، ثم يقرأ بأم القرآن، ثم يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم ثم يخلص الدعاء للميت، ولا يقرأ إلا في التكبيرة الأولى، ثم يسلم في نفسه عن يمينه»
(مصنف عبدالرزاق ح 6428) اسکی سند کے سارے روات ثقات ہیں۔
یعنی :جناب ابوامامہ t جنازہ میں سنت کا طریقہ ذکر کرتے ہوئے صرف دائیں طرف خفیہ ایک سلام کا تذکرہ فرماتے ہیں۔
اسکی تائید کیلیے جناب ابن عمر t کا موقوف اثرملتا ہے چنانچہ امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے فرمایا حدثنا علي بن مسهر، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر أنه كان «إذا صلى على الجنازة رفع يديه فكبر، فإذا فرغ سلم على يمينه واحدة» (مصنف ابن ابی شیبہ ح11491)
یعنی ابن عمر tنےجنازہ نماز میں صرف دائیں طرف ایک سلام پھیرا۔اسکی سند بالکل صحیح ہے ۔سند پر مختصر کلام پیش خدمت ہے ۔
(1)علی بن مسھر ۔۔۔)قال الذھبی:کان فقیھا محدثا ثقۃ)۔(الکاشف مع التقریب ص:446ط:المکتبۃ المعروفیۃ کوئٹہ)
(2)عبیداللہ ۔۔۔۔۔۔قال الحافظ(ثقۃ ثبت۔ التقریب، ت:4324)
(3)نافع ۔۔۔۔۔۔۔۔قال الحافظ(ثقۃ ثبت فقیہ مشھور۔التقریب،ت:7086)
اور سلف میں سے کئی ایک سےایک طرف سلام ثابت ہےلہذا ایک مسلم کیلیے اسکا انکار درست نہیں۔
دوسراموقف اور دلائل:دو طرف سلام پھیرنا بھی جائز ہے۔ دلائل پیش خدمت ہیں۔
الحدیث الاول:امام طبرانی رحمہ اللہ نے فرمایا حدثنا خلف بن عمرو العكبري، وأبو عقيل أنس بن سلم الخولاني، قالا: ثنا المعافى بن سليمان، ثنا موسى بن أعين، عن أبي عبد الرحيم، عن زيد بن أنيسة، عن حماد، عن إبراهيم، عن علقمة، والأسود، عن ابن مسعود قال: «خلال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعلهن، تركهن الناس، إحداهن تسليم الإمام في الجنازة مثل تسليمه في الصلاة» (المعجم الکبیر:ح10022 )
اس روایت کے ذکر کرنے کےبعد شیخ حمدی رحمہ اللہ نے فرمایا اس روایت کے بارے ھیثمی نے المجمع 3/34میں فرمایا ورجالہ ثقات امام نووی نےالمجموع 5/197 میں اسکی سندکو جید قرار دیا ہےشیخ البانی نے حسن کہا ہے)
یعنی:جناب ابن مسعودt نےفرمایاِِ:تین ایسی خصلتیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے لوگوں نے انہیں ترک کر دیا ہے ایک ان میں سےجنازہ میں امام کا اسطرح سلام پھیرنا جس طرح وہ (عام) نمازوں میں سلام پھیرتا ہے۔
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے حماد کی وجہ سے باقی سارے روات ثقات ہیں ،سند میں موجود روات پر مختصربحث پیش خدمت ہے۔
خلف بن عمرو العكبري ۔اسکے بارے امام ذھبی نے فرمایا (الشیخ المحدث الثقۃ الجلیل ۔سیر ،ت:300)۔
المعافی بن سلیمان۔قال الحافظ (صدوق ،التقریب، ت:6744 )قال الذھبی (ثقۃ،الکاشف مع التقریب ص:598)
موسی بن اعین۔ قال الحافظ(ثقۃ عابد، التقریب: 6944)
خالد بن یزید ابوعبدالرحیم ۔ قال الحافظ (ثقۃ فقیہ، التقریب:1491)
زید بن ابی انیسہ ۔قال الحافظ(ثقۃ لہ افراد، التقریب:2118) قال الذھبی(حافظ امام ثقۃ،الکاشف مع التقریب ،ص:211)
حماد بن ابی سلیمان۔ قال الذھبی(ثقۃ امام مجتھد کریم جواد، الکاشف مع التقریب ،ص:164) شیخ البانی نےفرمایا (فیہ کلام لایضر۔ السلسلہ الصحیحہ:ح191) یعنی اسکےبارے ایسا کلام ہے جو اسے نقصان نہیں پہچاتا۔
ابراھیم النخعی ۔اھل السنہ کے امام ثقہ محدث ہیں سب کتب رجال انکی تعدیل سے پُر ہیں۔
علقمہ اور اسود ۔ دونوں مشھورتابعی ،محدث ہیں ۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ۔جلیل القدر صحابی ہیں۔
اس سند پر کچھ علماء کرام نے اعتراض کیے ہیں جواب پیش خدمت ہے۔
پہلا اعتراض:حماد آخر میں مختلط ہوگیا تھا۔
جواب:اگر حماد کے اختلاط کو تسلیم بھی کیا جائےتو اسکو ابراھیم کے علاوہ دیگر کی روایات پر محمول کیا جائے گا۔اس حوالےسے کچھ دلائل پیش خدمت ہیں۔
اولا:علماء بعد الاختلاط بھی انکی ابراھیم سے ذکر کردہ روایات کو تسلیم کرتے تھے چنانچہ ابن سعد رحمہ اللہ نےفرمایا :
اخبرنا عفان بن مسلم(ثقۃ)عن سلام ابی المنذر (صدوق)عن عثمان البتی (ثقۃ):کان حماد اذا قال برایہ اصاب واذا قال عن غیر ابراھیم اخطا (الطبقات، ج6ص333 ط،دارالصادر بیروت) وسندہ حسن ۔ ان شاءاللہ۔
یعنی حماد جب اپنی رائےسے بولتا تھا تو ٹھیک بولتا تھا اور جب ابراھیم کے علاوہ سے بولتا تھا تو غلطی کرتا تھا۔اور یاد رہے کہ عثمان البتی کے قول کاتعلق حماد کی آخری زندگی سےہے کیونکہ عثمان کی وفات 148ھ میں ہےاور حماد کی 120ھ یعنی حمادآخری زندگی میں بھی ابراھیم سےدرست روایات بیان کرتا تھا ۔فافھم۔ شاید اسی وجہ سےامام بخاری رحمہ اللہ نے ابراھیم کی روایت جو حماد بیان کرے محفوظ کہا ہے چناچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ حَمَّادٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ , وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَبْرَأَ , وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَعْقِلَ ". سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ يَكُونَ مَحْفُوظًا. قُلْتُ لَهُ: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ حَمَّادٍ؟ قَالَ: لَا أَعْلَمُهُ.
(العلل الکبیر للترمذی۔۔۔ص،92۔593، ج2،ط، مکتبۃ الاقصی الاردن)
اس روایت کو حماد بن سلمہ نے بیان کیا ہے حماد بن ابی سلیمان سے انہوں نے ابراھیم سے ،چنانچہ امام ترمذی نےفرمایا میں نے محمد یعنی امام بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا آ پ نے فرمایا مجھے امید ہے کہ محفوظ ہے ،میں نےان سے پوچھا کیا اس روایت کو حماد کے علاوہ کسی نے بیان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا میں نہیں جانتا۔ اس قول سے اھم ترین مسئلہ معلوم ہوا کہ امام بخاری حماد کی متابعت کا علم نہ ہونے کے باوجود بھی انکی ذکر کردہ روایت جو ہے بھی عن کے ساتھ ،محفوظ کہہ رہے ہیں۔ اور یاد رہے حماد بن سلمہ کی وفات 167ھ میں ہے اور حماد بن ابی سلیمان کی 120ھ اور اسکا اس لسٹ میں نام نہیں ہے جنہوں نے اختلاط سے پہلے سنا ہے ( یہ نام شیخ زبیر رحمہ اللہ نے الفتح ،ص61میں تحریر فرمائے ہیں )یعنی اسکا سماع آخری زندگی میں ہے لیکن پھر بھی بخاری نے محفوظ کہہ دیا۔ففکر۔
اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں حماد کی روایات عن ابراھیم کو ذکر فرماکے صحیح قرار دیا اور ذھبی نے موافقت کی ہے دیکھیں مستدرک ح:3123،اور حماد کا شاگرد اس جگہ ابراھیم الصائغ ہےجس کی وفات 131ھ ہے اور اسکا اس لسٹ میں نام نہیں ہے جنہوں نے اختلاط سے قبل سنا ہےیعنی اسکے سماع کا تعلق حماد کی آخری زندگی سے ہے لیکن پھر بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
ثانیا:ابراھیم کی روایات کو یاد رکھنےکی وجہ شاید یہی ہے کہ حماد انکی روایات کو لکھتا تھا ،اور اختلاط یسیر والا راوی اس عارضہ سے قبل جب روایات لکھتا ہو اور ظاھر بات ہے ثقہ ہونے کی وجہ سے ضبط کتاب یعنی کتاب کی حفاظت بھی کرتا ہوگا اور بار بار دیکھنے کی وجہ سے غلطی کا احتمال جاتا رہ گیا۔چنانچہ امام احمد نے فرمایا :
حدثنا وکیع قال حدثنا شریک قال سمعت شیخا فی المسجد فوصفتہ فقال ذاک ابو صخرۃ جامع بن شداد قال رئیت حماد یکتب عند ابراھیم ۔۔(کتاب العلل لامام احمد،ج1،ص76 ،المکتبۃ الاسلامیۃ ترکیہ) سندہ صحیح ،اسی طرح ابن سعد رحمہ اللہ نے فرمایا:
اخبرنا یحیی بن عباد(صدوق)عن شریک(ثقۃ)عن جامع بن شداد (ثقۃ) قال :رایت حمادا یکتب عند ابراھیم فی الواح۔
(الطبقات:ج6ص332) ۔
ثالثا: حماد کاابراھیم کے حوالے پختہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ابراھیم کی وفات کے بعد لوگ ابراھیم سے صادر شدہ فتاواجات ان ہی سے پوچھتے تھے چناچہ ابن سعد رحمہ اللہ نے فرمایا :
حدثنا عبداللہ بن یونس (ثقۃ امام)قال حدثنا ابوبکر بن عیاش(ثقۃ)عن مغیرۃ(ابن مقسم الضبی،ثقۃ) قال لما مات ابراھیم اخذنا الحلال والحرام عن حماد عن ابراھیم(الطبقات:ج6ص332/333)
یعنی ابراھیم کی وفات کے بعد ھم لوگ ابراھیم سے ذکر کردہ حلال اور حرام کا حکم رکھنے والے مسائل حماد سے لیتے تھے۔
ابراھیم کی وفات 96 ھ میں ہے اور حماد کی وفات 120 ھ میں ہے یعنی ابراھیم کی وفات کے 24 سال بعد تک لوگ حماد کو معتمد سمجھتے تھے۔
اسی وجہ سے کئی علماء نےکئی مسائل حماد عن ابراھیم قبول کیےہیں منھم البخاری فی صحیحہ۔۔۔ اور ظاھر بات ہے حرمت اور حلت والے مسائل جو اصل دینیات ہیں ایک مختلط سے کیسے لیے جا سکتے ہیں؟؟
رابعا: حماد کا ابراھیم سے اس روایت میں پختہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ابراھیم خود بھی دو طرف سلام پھیرتا تھا ،جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
دوسرا اعتراض:حماد مدلس تھا۔
جواب:حماد طبقہ ثانیہ کا مدلس تھا جتنے بھی علماء نے طبقات تدلیس پر کتب لکھیں ہیں اجماعی طور پر اسے طبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیا ہے۔ اور ساتھ ہی سب نے اتفاقا یہ بات ذکر کی ہےکہ طبقہ ثانیہ کے مدلسین کا عنعنہ قبول ہے۔
چناچہ علم حدیث اور اصطلاح حدیث کے امام ابن حجر طبقہ ثانیہ کا حکم لکھتے فرماتے ہیں:
من احتمل الائمۃ تدلیسہ واخرجوا لہ فی الصحیح لامامتہ وقلۃ تدلیسہ فی جنب ما روی من الحدیث الکثیر
(النکت:257)
یعنی جن کی تدلیس کو ائمہ نے قبول کیا ہےاور انکی روایات کو صحیح میں لائے ہیں انکی امامت کی وجہ سےاوربہت ساری روایات میں سے چند میں تدلیس کرنے کی وجہ سے ۔ اسی طرح کا موقف ہے تدلیس پر کام کرنے والے ائمہ کا مثلا علامہ علائی،ابوزرعہ العراقی ،علامہ ابن سبط العجمی اور علامہ السید بدیع الدین الراشدی وغیرہ ۔ رحمہم اللہ جمیعا۔ کیونکہ ایک راوی جس سے ھزاروں احادیث مروی ہیں ان میں صرف دو ،تین میں تدلیس کردی تو اس وجہ سے اسکی ساری روایات کو مردود روایات کی ٹوکری میں ڈالنا کہاں کا انصاف ہے؟؟ اور جو علماء اس فن میں جھابذہ ہیں انکو پتہ چل ہی جاتا ہےجہاں کسی علت کی وجہ سے تدلیس کی گئی ہے اور وہ اس روایت کو رد کر دیتے ہیں ،ان تمام ترمعاملات اور تمام احادیث پر استدراک کرنےکےبعد علماء نے یہ فیصلہ کیا ہے لھذا اس مکمل کلیے کو ایک دو مثالوں کی وجہ سے رد کرنا درست نہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ بھی حماد کا عنعنہ قبول کرتے ہیں جیسا کہ ابھی کتاب العلل کا حوالہ گذرا اسی طرح صحیح بخاری میں بھی ہے چنانچہ صحیح بخاری باب قرائۃ القرآن بعدالحدث وغیرہ میں ابراھیم النخعی کا فرمان ذکر کیا فرمایا قال حماد عن ابراھیم ۔۔۔۔یعنی امام بخاری حماد کی عن کے باوجود اس اثرکو قال کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں قیل نہیں کہا گویا عند البخاری حماد کا عن مقبول ہے۔ اور یاد رہے قال امام بخاری کے ہاں صیغہ جزم(یقین) ہے۔جیسا کہ امام بخاری کے منھج کے بارے میں سب سے زیادہ مہار ت رکھنے والے محدث ابن حجر نے فرمایا(وتارۃ یجزم بہ کقال وتارۃ لایجزم بہ ک یذکر) مقدمۃ الفتح،ص21۔ اس سے بخوبی معلوم ہوا کہ یہ اثر امام بخاری کے ہاںصحیح ہے ، اسی طرح کی وضاحت علامہ نووی نے کی ہے کہ قال ، ذکر وغیرہ جو صیغہ معروف ہیں انکےلیے جزم کا حکم ہےجبکہ قیل وغیرہ کیلیے نہیں، اسی طرح علامہ سیوطی کا خیال ہے۔
(مختصرا من التدریب:ج1ص160)
اور یہ وضاحت کئی علماء سے ملتی ہے اسی طرح استاذنا المحدث عبد اللہ ناصر الرحمانی حفظہ اللہ کابھی یہی نظریہ ہے سمعنا منہ مرار،ہاں وہ اسانید جن کو تلقی بالقبول حاصل ہے وہ صرف مرفوع مسند احادیث ہیں۔ المستدرک علی الصحیحین میں امام حاکم رحمہ اللہ مذکورہ حماد عن ابراھیم عن الاسود والی سند ذکر کرنے کےبعد فرماتے ہیں (صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ) یعنی بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے امام ذھبی رحمہ اللہ نے بھی یہی وضاحت کی کہ یہ بخاری ومسلم کی شرط پر ہے(ح:3123)اس حوالہ سے یہ بات بخوبی معلوم ہوئی کہ عند الذھبی والحاکم یہ سند صحت کااعلی درجہ رکھتی ہے ، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عندالذھبی والحاکم بھی یہی خیال ہےکہ امام بخاری و مسلم کے ہاں حماد وابراھیم کا عنعنہ مقبول ہے تبھی تو انکی شرط پر کہا ہے۔ففکر ، اور قابل غور بات یہ ہے کہ امام حاکم نے حماد کو مدلس بھی قرار دیا ہےدیکھیں(المدخل الی الاکلیل ص46 بحوالہ الفتح ص 61للشیخ زبیر رحمہ اللہ )لیکن پھر بھی اسکی عنعنہ والی روایت کو صحیح کا اعلی درجہ قرار دیا ، اور یہ ایک جگہ نہیں بلکہ مستدرک میں کئی جگہوں پر ہے،گویاکہ عند الحاکم بھی سب مدلسین کا درجہ ایک نہیں تھا۔
اسی طرح ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا منھج ہے چنانچہ انہوں نے اپنے صحیح میں (ح:1372)میں حماد عن ابراھیم عن علقمہ والی سندکو ذکر کیا ہے اور یاد رہے اس روایت میں کچھ ایسے زیادہ الفاظ ہیں جو ابن خزیمہ میں دیگر اسناد سے نہیں ملتے،جیسے صلاۃاالاستسقاء میں ممبر سے اترنے کا تذکرہ ،اور باب بھی یہی باندھا گیا ہے ،گویاکہ حماد کا عنعنہ مقبول ہے عند ابن خزیمہ۔
اسی طرح امام ابن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ نے کہا:
سالت ابازرعۃ عن حدیث حماد عن ابراھیم عن ابی سعید الخدری عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم رواہ الثوری عن حماد عن ابراھیم عن ابی سعید موقوفا قال ابوزرعۃ الصحیح موقوف عن ابی سعید لان الثوری احفظ(العلل لابن ابی حاتم،1118 ج اول ص376 المکتبہ الاثریہ شیخوبورہ)
یہاں ابوزرعہ رحمہ اللہ نے حماد کے عنعنہ کے باوجود اسکے موقوف ہونے کو صحیح کہا ہے،اور ظاہر بات ہے علل حدیث کے بارے میں بات ہو رہی ہے اگر آج کے دور کی وضع کردہ یہ علت قادح ہوتی تو ابو زرعہ یہاں ضرور وضاحت کرتے۔۔۔۔ فتدبر،اسی طرح محدث العصر العلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی کا منہج ہے اس سند کے بارے میں انہوں نے اپنی السلسلہ الصحیحہ میں کئی جگہوں پر اس سند کا ذکر فرمایا ہے۔
اور بھی کئی علماء سے اس سند کا صحیح ہونا ثابت ہے مکمل حوالے ہم اپنی کتاب (مقالات جامعہ بدیع العلوم الاسلامیۃ)میں پیش کرینگے۔ ان شاء اللہ ،اللہ ہمیں شایع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
امام ابن حجر وغیرہ نے جو اسکے مدلس ہونے کےلیے مثال پیش کی ہے اس میں حماد نےمغیرہ بن مقسم کو تدلیس کرتے ہوئے گرا دیا ہے اور مغیرہ ثقہ امام ہے یعنی وہ کبھی تدلیس بھی کرتا تھا تو ثقات سے کرتا تھا اور اسی وجہ سے ابن حجر نے اسے طبقہ ثانیہ میں شمار کرتے ہوئے اسکی عنعنہ کو مقبول کہا ہے۔
نوٹ: تدلیس کے حوالے امام شافعی کے فرمان کو اکثر علماء نے رد کیا ہے یا تاویل کی ہے تفصیل کیلیے مقالات اثریہ للشیخ خبیب احمد حفظہ اللہ کا مطالعہ فرمائیں۔
معترضین سے سوال: جیسا کہ آپ کا خیال ہے کہ حماد کا عنعنہ ہر وقت مردود ہے تو جن محدثین نے اس سے اختلاط سے پہلے سنا ہے جیسا کہ سفیان رحمہ اللہ وغیرہ اور سفیان کی روایت حمادسےجسکو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی صحیح کہا ہے، وہ ساری روایات پیش کریں اوران میں کوئی ایک بتائیں جس میں تصریح سماع ہو حماد کا ابراھیم سے۔۔۔۔؟؟مسند احمد، جو امام احمد کی روایت کردہ احادیث کابڑا ذخیرہ ہے اس میں بھی سفیان کی روایات حماد عن ابراھیم ہیں تصریح سماع نہیں ۔ آخر وہ روایات کہان ہیں؟ کوئی ایک روایت دکھائیں؟؟ جس میں تصریح سماع ہو ۔اور مکمل کوشش کے باوجود مجھے ایک بھی ایسی روایت سفیان سےذکر کردہ نہیں ملی جس میں حماد کا ابراھیم سے تصریح سماع ہو، لھذا ثابت ہوا کہ یہ حکم عن والی روایات کےلیے ہی ہے۔واللہ اعلم ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس طرح کے اصولوں کو اگر اپنانا شروع کردیں اور طبقاتی تقسیم کا انکار کرتے جائیں تو معاملہ خطرناک ہوجائے گا کیونکہ حماد کی تقریبا سارے کتب حدیث کے اندرمذکور روایات عن ابراھیم ہی ہیں، تو اس طرح احادیث کا بڑا ذخیرہ اور ہزاروں فقہی مسائل ضایع ہو جائیں گے۔ مزید وضاحت کےلیے امام احمد کے فرزند نے اپنے والد کے علل کی کتاب میں ایک حدیث کی علت بیان کرتے امام احمد کا فرمان ذکر فرمایا چنانچہ لکھا ہے(ذکرت لابی حدیث محمد بن جابر عن حماد عن ابراھیم عن علقمۃ عن عبداللہ فی الرفع فقال ھذا ابن جابر ایش حدیثہ؟ ۔۔۔ ) ۔العلل لاحمد ص ،144ج اول،701 ، ط،المکتبۃ الاسلامیۃ ترکیۃ۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ علل حدیث کے بارے بات ہو رہی ہے اور امام احمد نے حماداور ابراھیم کی عن کے باوجود اس حدیث کو رد کرنے کی علت محمد بن جابر کا ضعیف ہونا بنایا نہ کہ عن۔ففکر
تیسرا عتراض : ابراھیم مدلس ہے اور عن سے بیان کر رہا ہے۔
جواب:یہ بھی درجہ ثانیہ کا مدلس ہے جس کا عنعنہ قبول ہے، اس حوالے سےبھی علماء کا وہی کچھ فرمانا ہے جو حماد کی عنعنہ کے حوالے سے گذرا اور اسکے عنعنہ کا تذکرہ بھی ضمنا آگیا۔ لیکن مزید وضاحت کےلئے کچھ اقوال پیش ہیں۔
امام ترمذی نے ایک سند ذکر کی جس میں ابراھیم عن الاسود عن عائشۃ رضی اللہ عنہا عن النبی ‏ﷺہے اور کہا میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے بارے پوچھا آپ نے فرمایایہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے موقوف صحیح ہے۔
( العلل الکبیر للترمذی ،ج2 ص 726)امام بخاری ابراھیم کی عن کے باوجود اسے موقوفا صحیح کہہ رہے ہیں ۔اسی طرح امام ترمذی نے ایک اور جگہ اس سند کو ذکر فرمایا اور امام بخاری سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا مجھے امید ہے کہ محفوظ ہے۔
(العلل للترمذی ج1،ص369)
اسی طرح ابوزرعہ رحمہ اللہ اس سند کو صحیح کہتے ہیں انکے فرمان کوابن ابی حاتم نے ذکر فرمایا (ھذا اصح یعنی حدیث سفیان عن الزبیر بن عدی عن ابراھیم عن الاسود عن عمر) العلل لابن ابی حاتم ج1 ص95 ،ط المکتبۃ الاثریہ شیخوبورہ۔ اسی طرح امام ترمذی اپنی سنن میں کئی ایک جگہوں پر ابراھیم کی عن والی روایت کو صحیح کہتے ہیں ۔اور امام دارمی بھی ابراھیم کی عن کو قبول کرتے ہیں امام ترمذی نے کہا :
(سالت عبداللہ بن عبدالرحمان فقال حدیث الاعمش عن ابراھیم عن علقمۃ عن عبداللہ اصح)العلل الکبیر ،ج1،ص150۔اور بھی کئی محدثین سے اس کا صحیح ہونا مذکور ہے لہذا ایک ذی شعور کےلئے منھج المحدثین عیاں ہو گیا۔ فللہ الحمد۔
الحدیث الثانی: امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّهِ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ نَافِعٍ الْأَشْعَرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: «صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَنَازَةٍ، فَسَلَّمَ، عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ» (المعجم الاوسط :4470)
سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ جنازہ نماز پڑھی پھر آپ نےاپنے دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرا ۔
سندمیںموجودرواۃ پر بحث پیش خدمت ہے۔
عبداللہ بن احمد بن حنبل۔۔۔یہ امام احمد بن حنبل کے فرزند ثقہ اورعظیم محدث ہیں۔ قال الحافظ:ثقۃ (ت:3205)
احمدبن حنبل۔۔۔۔ امام اھل السنہ والجماعہ ۔
خالد بن نافع الاشعری۔
اس میںضعف ہےلیکن اسکی روایت قابل متابعت ہے ابن حبان نےاسے ثقات میںذکرفرمایا ہے(کتاب الثقات:ت 7658)ابو حاتم نے کہا:لیس بقوی یکتب حدیثہ (الجرح والتعدیل،1604) یعنی قوی نہیں لیکن اسکی روایت کو لکھا جائے گا، (اعتبار کیلیے )۔امام حاکم نے اسکی روایت کومستدرک میں ذکر فرمایا ہے یعنی انکے ہاں اسکی روایت صحیح ہےدیکھیں ۔
( المستدرک:2954،5966)
اسی طرح علامہ زین الدین الحنفی(م879 )نے اسے اپنی کتاب (الثقات ممن لم یقع فی الکتب الستہ:ت3497 المکتبۃ الشاملۃ)میں ذکر فرمایا ہے۔لیکن کئی کبار محدثین نے اس پر جرح کی ہےحتی کہ ابوداؤد رحمہ اللہ نے فرمایا متروک الحدیث،لیکن امام ذھبی نے اسکا جواب دیتے فرمایا (ھذا تجاوز فی الحد فان الرجل قد حدث عنہ احمد بن حنبل ومسدد فلایستحق الترک) میزان الاعتدال:ت2468، اسی طرح کا فرمان ابن حجر نے ذکر کیا ہے لسان المیزان میںدیکھیں(ت:1592) یعنی :اسکو متروک کہنا حد سےتجاوز ہےکیونکہ اس سے امام احمد اور مسدد جیسے حدیث بیان کرتے ہیں ۔ یاد رہےکہ متروک راوی وہ ہوتا ہے جس کی روایت متابع بننے کی صلاحیت نہ رکھتی ہوگویا ابن حجر اور ذھبی کہہ رہے ہیں کہ اسکی روایت متابع یا شاھد بننے کے لائق ہے۔
(4)سعید بن ابی بردہ ۔۔۔۔۔یہ عظیم محدث اور سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کے پوتےہیں حافظ نے فرمایا :ثقۃ ثبت .
(التقریب: ت2275)۔
(5)ابوبردہ بن ابوموسی الاشعری۔۔۔۔۔۔یہ عظیم محدث اور سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کے فرزند ہیں انکا اصل نام عامرتھا ،کئی صحابہ کے شاگرد ہیں حافظ نے فرمایا :ثقۃ .
(التقریب: ت7925)
خلاصہ: اس روایت میں خالد کی وجہ سے ضعف ہے،لیکن شاھد بن کر پہلی حدیث کےلئے تقویت کا باعث بنتی ہے۔
الحدیث الثالث: أخبرنا أبو حامد بن أبي العباس الزوزني، ثنا أبو بكر الشافعي، ثنا محمد بن مسلمة، ثنا يزيد بن هارون، أنبأ شريك، عن إبراهيم الهجري، قال: أمنا عبد الله بن أبي أوفى على جنازة ابنته فكبر أربعا، فمكث ساعة حتى ظننا أنه سيكبر خمسا، ثم سلم عن يمينه وعن شماله , فلما انصرف، قلنا له: ما هذا؟ قال: ” إني لا أزيدكم على ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع ” , أو ” هكذا صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم "۔(سنن الکبری للبیھقی:6988)
یعنی:ابراھیم الھجری نے کہا ہمیں امامت کرائی عبدللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کے جنازہ میں۔۔۔۔پھر سلام پھیرا اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف پھر جب فارغ ہوئے ہم نےکہا یہ کیا ہے؟ تو فرمایا میں تمہارے سامنے نہیں اضافہ کر رہا اس سےجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا۔
بعض لوگوں نے اس حدیث کو تین علتوں کی وجہ سے مردود کہاہے،مختصر کلام پیش خدمت ہے۔
اس میں ابراھیم الھجری ضعیف ہے۔
جواب:ابراھیم الھجری ضعیف ہے لیکن اسکی روایت متابعت کے لائق ہے علماء کےاقوال پیش خدمت ہیں۔
اسکے بارےمیں امام سفیان الثوری کا فرمان ہے ،چناچہ امام ابن ابی حاتم نے فرمایا:
نا صالح بن أحمد بن حنبل نا علي – يعني ابن المديني – قال سمعت سفيان ابن عيينة يقول كان إبرهيم الهجري يسوق الحديث سياقة جيدة على ما فيه.
(الجرح والتعدیل :ت،417)اس فرمان کی سند سفیان تک سلسلۃ الذھب ہے۔
یعنی:ابراھیم حدیث کو بہت اچھا بیان کرتا تھا ہاں اس میں (کلام) ہے۔
اماابوحاتم نے فرمایا:لیس بقوی لین الحدیث (حوالہ سابقہ) یہ جرح کا ہلکہ درجہ ہے۔ ابن حجر نے فرمایا : لین الحدیث رفع موقوفات (التقریب،252)
اس جرح سے معلوم ہوا کہ اس کی روایت شاہد بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
دوسری علت : شریک مدلس ہے عن سے بیان کر رہا ہے۔
جواب: یہ درجہ ثانیہ کا مدلس ہے جس کا عنعنہ مقبول ہے علماء اسکی عن والی روایات اپنی صحیح کتابوں میں لائے ہیں۔جیسے المستدرک میں اسکی کئی روایات عن کے ساتھ ہیں، اور ذھبی نے بھی صحیح ہونے کی موافقت کی ہے۔ اسی طرح ابن حبان رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں کئی جگہوں پر اسکی روایات کو عن کے ساتھ ذکر کیا ہے ،حالانکہ ابن حبان تدلیس کے حوالے سے سخت موقف رکھتے تھے۔
تیسری علت : ابراھیم الھجری کے دوسرے شاگردوں نے یہ الفاظ ذکر نہیں کیے۔
جواب:جب شریک ثقہ ہے تو زیادۃ الثقہ مقبول ہے۔
خلاصہ: ابن مسعود والی روایت حسن درجے کی ہے ۔الحمدللہ اور مزید تائید کے لیے دیگر قابل متابع شواھد بھی مل گئے جس سےمسئلہ اور بھی مضبوط ہوگیا نیز مزید مضبوطی کےلیے ابراھیم النخعی کا اثر ملتا ہے جواھل السنہ کے امام اور پہلی صدی کے محدث ہیں امام ذھبی اور کئی علماء کا خیال ہے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا اگرچہ اس سے سماع نہیں کیا۔ امام ابن ابی شیبہ نے فرمایا:
حدثنا الفضل بن دکین (ثقۃ محدث من شیوخ البخاری )عن الحسن (ابن صالح الثوری ،ثقۃ) عن ابی الھیثم (صدوق ،قال الحافظ)عن ابراھیم انہ کان یسلم علی الجنازۃ عن یمینہ وعن یسارہ (المصنف: ح،11628، ط ،المجلس العلمی) ۔ نوٹ:اسی طرح عمومی دلائل یعنی جن میں باقی نمازوں میں سلام پھیرنے کا تذکرہ ہے وہ اسے مزید مضبوط بنا دیتے ہیں کیونکہ یہ بھی ایک نماز ہے۔
نوٹ :بعض علماء نے ایک طرف والی روایت کو شاذکہا لیکن دونوں قسم کی احادیث میں تطبیق ممکن ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی دونوں طرف اور کبھی ایک طرف سلام پھیرتے تھے ،لھذا شذوذ والا مسئلہ ختم ہوگیا۔
واللہ اعلم بالصواب۔

About ابو عبدالرحمٰن عبدالرزاق دل

Check Also

عقیدہ عصمت اور اسکی حقیقت

الحمدللہ وحدہ والصلوات والسلام علی من لا نبی بعدہ: چند دن قبل ایک تحریر نظر …

One comment

  1. نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنے کے دلائل بیھجیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے