Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ فروری و مارچ » زمین کھاگئی آسماں کیسے کیسے

زمین کھاگئی آسماں کیسے کیسے

الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول  ﷲ (ﷺ) وبعد!

میراروحانی فرزند ذوالفقار علی طاہرaمجھے،اپنے دیگراساتذہ،تمام شاگردوں ،ساتھیوں،گھروالوں اور پوری جماعت کوسوگوار چھوڑ کر اپنی آخری منزل کو روانہ ہوگیا۔

3جنوری2018ء کا دن جمعیت اہل حدیث کی تاریخ میں رنج والم سے بھرپور ایک ناقابل فراموش دن شمار ہوگا،آج سے جماعت، المعہد السلفی کی اور مجلہ دعوت اہل حدیث کے قارئین کی محرومی اور یتیمی کے تکلیف دہ سفر کا آغاز ہوگیا معلوم نہیں یہ زخم کب اور کیسے مندمل ہوگا

ماکان قیس ھلکہ ھلک واحد

ولکنہ بنیان قوم تھدما

یعنی(ذوالفقار طاہر) کی موت،ایک فرد کی موت نہیں، بلکہ جماعت کی بنیادیں ڈھادینے والی ایک تلخ حقیقت ہے۔

کسی عزیز کی موت پر جتنے بھی آنسوبہائے جائیں،ضائع ہی ہوجاتےہیں ،قدرت کافیصلہ اٹل ہے، جانے والے لوٹ کر نہیں آسکتے۔

امیرالمؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ اپنے طلاب کے حلقہ میں تشریف فرماتھے انہیں ایک مکتوب موصول ہوا، جسے کھول کر پڑھا، گردن جھک گئی اور آنکھوں سے آنسؤوں کی جھڑیاں بہہ نکلیں، عظیم محدث عبدالبر بن عبدالرحمٰن الدارمی رحمہ اللہ کی موت کی اطلاع تھی، زبان پر بے ساختہ یہ شعر آگئے:

عزاء فما یصنع الجازع

ودمع الأسی أبدا ضائع

بکی الناس من قبل أحبابھم

فھل منھم أحد راجع

عزیزوںکے بچھڑجانے پر جزع فزع کرنے والاکیاکرسکتاہے، اس پُرملال گھڑی کے آنسو ضائع ہی جاتے ہیں ،آج سے قبل بھی لوگ اپنے پیاروں کو روئے،مگرکیا کوئی بچھڑنے والابھی لوٹ کرواپس آیاہے؟

حضرات! ایک عالم کا  بچھڑجانامحض اس کی شخصیت ،شکل وصورت یا دم ولحم کافقد نہیں ،بلکہ اس کے سینے میں محفوظ وموجزن میراث نبوت کا فقدان ہوتا ہے۔ امت صرف اس کی شخصیت سے محروم نہیں ہوتی ،بلکہ اللہ رب العزت کی عطاکردہ اس کے حصہ کی میراثِ نبوت سے محروم ہوجاتی ہے، بلکہ بربادی کے دھانے پر جاپہنچتی ہے۔

حبرِ    امت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ قولہ تعالیٰ:[اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا۝۰ۭ ](الرعدـ:۴۱)

کی تفسیر میں فرمایا کرتے تھے:

خَرَابُهَا بِمَوْتِ فُقَهَائِهَا وَعُلَمَائِهَا وَأَهْلِ الْخَيْرِ مِنْهَا.

یعنی زمین کی ویرانی اور بربادی علماء اور فقہاء اور اہل خیر کی وفات سے ہوتی ہے۔بقول شاعر

الارض تحیا اذا ما عاش عالمھا

حتی یمت عالم منھا یمت طرف

زمین اس وقت زندہ وشاداب رہتی ہے جب تک اس کا عالم زندہ رہے،جب عالم کا انتقال ہوجائے تو زمین کا ایک حصہ بھی ساتھ ہی مرجاتا ہے اور مرجھاجاتاہے۔

زمین کی تمام تر شادابی علماء کے وجود سے ہے،اسی لئے شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہaنے علماء کی مجالس کو،زمین پر اللہ تعالیٰ کی جنتیں قرار دیا ہے،ان کی یہ بات نبیﷺ کی اس حدیث سے ماخوذ ہوسکتی ہے:(اذا مررتم بریاض الجنۃ فارتعوا)یعنی:جب تمہارا جنت کے باغات کے پاس سے گذرہوتوضرور (اس باغ کے)پھل کھالیاکرو،جب صحابہ کرام نے ان باغات کی بابت دریافت کیاتو آپ نے ارشاد فرمایا:(حلق الذکر)یعنی:ذکر کے حلقے۔

واضح ہوکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کا سب سے ارفع واعلیٰ حلقہ وہ مجالس ہیں جن میں قرآن وحدیث کے احکام ومواعظ بیان کیے جائیں،ایسے حلقات یقیناً سامعین کے قلوب کی حیات ثابت ہوتے ہیں،نیز زمین کا ذرہ ذرہ مستفید ہوتارہتاہے،گویا زمین اور اہلِ زمین کی حیات علماء کے وجود کے ساتھ منسلک ہے،علماء کے چلے جانے سے زمین کا نور بھی ختم ہوجاتاہے اور اہل زمین کے قلوب بھی بنجرہوناشروع ہوجاتے ہیں،اسی لئے حافظ ابن قیمaنے اس شہر سے ہجرت کرنا فرض قراردیا ہےجس میں کوئی عالم نہ ہو۔

مشہورتابعی سعید بن جبیررحمہ اللہ نے تو علماء کی موت کو امت کی ہلاکت قراردیاہے،جبکہ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے کسی عالم کی موت کو اسلام میں ایک ایسا رَخنہ کہا ہے جو کبھی پُر نہ ہوسکے۔

شیخ ذوالفقار علی طاہررحمہ اللہ کی اچانک رحلت،ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے،جماعت کے لئے،معہد کے لئے،طلبۃ العلم کے لئےاور ان عامۃ الناس کے لئے جو ان کے علمی دروس سے روحانی غذا حاصل کرتے تھے۔وہ ایک انتہائی کامیاب مدرس تھے،فنِ تدریس سےسچالگاؤتھا،جس کتاب کی تدریس کی ذمہ داری انہیں سونپی جاتی،اس کاحق اداکردیتے،طلبہ ان کی تدریس سے انتہائی مطمئن دکھائی دیتے۔

دراصل میں ہمیشہ اساتذہ کی میٹنگ میں اس نکتے پر بہت زوردیاکرتاتھا کہ آج کے دورمیں سچے،مخلص اور حقیقی مدرسین کا قحط ہے،لہذا آپ سب نے ایک کامیاب مدرس کے طورپہ اپنے آپ کو منواناہے؛کیونکہ تدریس ہی تأصیل ہے،یعنی ایک ذوالفقارعلی طاہر اپنی تدریس کے ذریعے 100ذوالفقارعلی طاہر تیارکرسکتاہے،میں اکثر مدرسین کے سامنے اپنی مثال پیش کرتا کہ مجھے تدریس کا انتہائی شوق تھا،لیکن نہ معلوم کب اور کیسے مجھے عمومی دعوتی پروگراموںمیں اُلجھادیاگیااور تدریس سے دورکردیاگیا،جس کامجھے ہمیشہ رنج وملال رہتا ہے۔

اس نصیحت کو میرے احساسات کے مطابق سب سے زیادہ شیخ ذوالفقار علی طاہر نے سمجھا اور قبول کیا،وہ گمنام رہ کر ایک کامیاب مدرس بننا چاہتے تھے اوربڑی تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے،ان کا اچانک ہم سے بچھڑ جانا،اللہ رب العزت کی تقدیر کا فیصلہ ہے،ہم پوری طرح راضی برضاء ہیں،لیکن اپنے اس دیرینہ رفیق اور روحانی فرزند کے فراق پر بہت ہی غمگین وحزین ہیں۔

ہم نے بہت سی اہم ذمہ داریاں انہیں سونپ رکھی تھیں،اب کوئی ایسی شخصیت دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی جو ان کی جگہ سنبھال کر ان ذمہ داریوں کا حق اداکرسکے،فرحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ وتغمدہ برحمتہ ورضوانہ وأدخلہ فسیح جنانہ.

جس طرح ایک عالم کی زندگی بڑی شان وبان اورحفاوت وسعادت سے مالامال ہوتی ہے،اسی طرح اس کی موت بھی انتہائی عالی شان ہوتی ہے، وہ علم کی صورت میں اپنے پیچھے صدقہ جاریہ کےانمول اورانمٹ خزانے چھوڑ جاتاہے۔جس میراثِ نبوت کو زندگی بھر لوگوں میں تقسیم کرتارہتا ہے وہ ڈھیروںاجرکی صورت میں اس کی مغفرت اور درجات کی بلندی کا باعث بنتی رہتی ہے،یہ سلسلہ نہ تو رکتا ہے نہ تھمتاہے،بلکہ روزافزوں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور ممکن ہےقیامت تک قائم ودائم رہے۔

وہ جنازہ کتناخوش نصیب ہوتا ہے جسے کندھادینے والے اور آخری منزل تک پہنچانے والے علماءِ کرام اور طلبۃ العلم کے پاکیزہ ہاتھ ہوں، ذوالفقار علی طاہرکا جنازہ اسی حقیقت کا پوری طرح عکاس تھا،جنازےکے موقع پر علماء اور بالخصوص ان کے طلاب کی سسکیاں اب تک کانوں میں گونج رہی ہیں،یہ وہ بے اختیار بہنے والے آنسوہیںجنہیں دیکھ کر واقعی یقین کرناپڑاکہ رسول اللہ ﷺ کے علوم ومعارف کا ایک حقیقی وارث ایک خلقِ کثیر کو یتیم چھوڑ کر اپنی آخری منزل کی طرف روانہ ہوگیا،اللہ رب العزت ان کی اس آخری منزل کے تمام مراحل کو آسان فرمادے۔

سب سے نمایاں خوبی

شیخ ذوالفقار علی طاہررحمہ اللہ کی میرے نزدیک سب سے نمایاں خوبی جمعیت اہل حدیث سندھ کے ساتھ وفاداری تھی،شیخ العرب والعجم علامہ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کے ساتھ نیز ان کے منہج کے ساتھ والہانہ محبت تھی،فتنوںکے اس دور میں چندٹکوں کی خیرات وصول کرکے بہت سے لوگوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کرلیں ،شیخ العرب والعجم جیسی مخلص اور محسن شخصیت کوفراموش کردیا،جمعیت اہل حدیث سندھ کے منہج سے دوری اختیار کرکے ایک ایسے منہج سے منسلک ہوگئے جسے ان کے قلوب شاید کبھی قبول کرنے پر تیار نہ ہوں،مگر دنیا کی لالچ کا ستیاناس ہو کہ چند بیکار اور کھوٹے سکوں کی خاطر ایک ایسےمنہج کو بیچ دیاگیا جس کی ایک دنیا قدردان ہےاور دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرتی ہے(یبیع دینہ بعرض من الدنیا)

ذوالفقارعلی طاہر استقامت کا پہاڑ تھے،ان کے پائے ثبات میں کبھی معمولی سی لغزش یا ادنیٰ سا ارتعاش پیدانہ ہوا،جمعیت اہل حدیث سندھ کے ساتھ قلبی لگاؤان کی سیرت وسوانح کا ایک ایساامتیازی نشان ہےکہ جس سے ہمارے دل ان کی محبت وعقیدت سے لبریزہوگئے اور انہیں ایک قدآور شخصیت بنادیا،ان کی یہ خوبی لائقِ تحسین بھی ہے اورتمام طلاب واصحاب کے لئے قابلِ تقلید بھی۔(واللہ المستعان)

شیخ ذوالفقار علی طاہرکے اچانک سانحۂ ارتحال سے ہرحلقہ کسی نہ کسی طور محرومی کا شکاردکھائی دیتاہے:

علماءِ کرام ایک انتہائی مخلص اورمحبتیں نچھاورکرنے والے دوست سے محروم ہوگئے۔

طلبۃ العلم ایک انتہائی کہنہ مشق ،تجربہ کار اور بے حد مشفق ومہربان شیخ سے محروم ہوگئے۔

عامۃ الناس ایک بلندپایہ خطیب اور دردِ دل رکھنے والے عظیم داعی سے محروم ہوگئے۔

باذوق قارئین ان اداریوں اور مضمونوں سے محروم ہوگئے جو شیخ ذوالفقار aکے ایک جداگانہ اسلوب کا شاہکار ہوتے تھے،جنہوں نے مجلہ (دعوت اہل حدیث)کو چارچاند لگادیئے۔

یہ تمام پسماندگان مدتِ مدیدہ تک ان کی کمی محسوس کرتے رہیں گےاور شاید ایک عرصہ تک انہیں بھلاناممکن نہ ہوگا۔

میں اپنی ذات کی حد تک بات کروں تو ان کے انتقال کے باعث کئی حوالوں سے اپنے آپ کو تنہامحسوس کرتاہوں،وہ میرے انتہائی مؤدب شاگرد تھے ،ان کے رگ وریشہ میں میرا اکرام واحترام پیوست تھا،جوہمیشہ ان کی قدرمیں اضافے کاموجب بنتا،وہ میرے بہت ہی مخلص مشیرتھے، سندھ میں جنم لینے والے بعض مسائل کے حل میں ہمیشہ میری نمائندگی کرتے اور کامیاب فیصلے صادر کرکے واپس آتے،وہ فیصلے سب کے لئے قابلِ قبول ہوتے،ہمارے درمیان کچھ باتوں کے حوالے سے ایک مذاق کا تعلق بھی تھا،جس پر ہم دونوں بڑے محظوظ ہوتے اور دیر تک ہنسی یا مسکراہٹ کا تبادلہ ہوتارہتا۔

ذوالفقار علی طاہر اور اللہ تعالیٰ کی محبت

شیخ ذوالفقار علی طاہرایک عرصہ سے کچھ امراض کاشکار ہوچکے تھے، جوہمارے لئے انتہائی تکلیف دہ تھے،لیکن ان کا کمال کا صبرکرنایقیناً ان کے لئے گناہوں کی بخشش اور درجات کی بلندی کا باعث ہوگا،اس موضوع پر بےشمار احادیث موجود ہیں،بیماریوں میں مبتلاہونااور ان پر شرعی حدود وقیود کےمطابق صبرکرنا،اللہ تعالیٰ کی رضاکاموجب ہے،جس سے تمام گناہ جھڑ جاتے ہیںاور یہ چیز بھی بندے کے مناقب کا حصہ بن جاتی ہے،رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:(یبتلی الرجل علی قدرِ دینہ)یعنی:بندہ اپنےدین کے بقدر آزمایاجاتاہے،سو     ان کی دائمی بیماریاں ایک طویل ابتلاء کی نشاندہی کرتی ہیں،جو ان کے دین کی شدت وصلابت اور اللہ تعالیٰ کی رضاء ومحبت کا مظہرِاتم ہیں۔فرحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ.

حضرات قارئین!ہم بحیثیت اہل حدیث ہونے کے اپنے فوت شدگان پر مستقل رونے دھونے نہیں بیٹھاکرتے،اس قسم کے حوادث پر صبرورضاہمارا منہج ہے،مرنے والوں کے محاسن ومناقب کے ذکر کا فائدہ یہ ہے کہ پسماندگان انہیں اپناکر جانے والےکی کمی پورا کرنے کی کوشش کریں،اس حوالے سے ہماری پہلی گزارش ان کی اہلیہ محترمہ سے ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اس طویل جدائی پر دامنِ صبر تھام لیں اور ان کی اولاد جو ان کی زیرِ تربیت ہے کو ذوالفقارعلی طاہر بنانے کی کوشش کریں،اپنی تمام تر توانائیاں اس ارفع واعلیٰ مقصد کی خاطر بروئے کار لاتے ہوئے ایک سچی محنت کا آغاز کردیں،جماعت کی مکمل راہنمائی اور ہرقدم پر تعاون آپ کا ہم رکاب ہوگا،ان شاء اللہ تعالیٰ۔

ہماری دوسری گزارش شیخ ذوالفقار علی طاہررحمہ اللہ کے بھائیوں سے ہےکہ وہ بھی اس پاکیزہ ہدف کے حصول کے لئے میدان میں اتریں اور ان کے بچوں کو خصوصی توجہ دیتے ہوئے انہیں ان کے والدِمرحوم کے مشن پر گامزن کریں ۔واللہ ولی التوفیق

ہماری تیسری گزارش ذوالفقارطاہر کے بیٹوں سے ہے کہ وہ اپنے والدaکے مشن کی آبیاری کرتے ہوئے ان کے نام کو زندۂ جاوید بنادیں، اسی طرح ان کا حقِ خدمت اداہوسکے گااور یہی چیز ان کے درجات کی رفعت میں ایک نمایاں کردار ادا کرے گی۔(وفقکم اللہ لکل خیر )

ہماری چوتھی گزارش شیخ ذوالفقار طاہر کے طلاب سے ہے کہ وہ اپنے شیخ کی تابندہ ودرخشندہ روایات کے امین بنتے ہوئے محنت کا آغاز کردیں ، اللہ تعالیٰ اپنی توفیق سے آپ کو ان کا نعم البدل بنادے۔(وماذلک علی اللہ بعزیز)

یہ تمام طلبۃ العلم یقیناً شیخ ذوالفقار علی طاہر کے لئے ایک بہترین صدقہ جاریہ ہیں،نیز ان کے تمام سامعین جو ان کے علم سے دن رات استفادہ کرتے رہتے تھے بھی ان کی قبر اور آخرت کا قیمتی اثاثہ ہیں،اپنے شیخ کے لئے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھیں نیز جماعت کے لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ جمعیت اہل حدیث سندھ کو اس صدمہ سے سنبھلنے کی توفیق عطافرمادے ،اور اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ ٹھکانہ عطافرمادے۔(اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ )

رحم اللہ امرأ قال آمینا

About الشیخ عبدﷲ ناصر رحمانی

امیر جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

اربعینِ نووی

حدیث نمبر:33 ،قسط نمبر72 عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے