احکام ومسائل

مطلقہ کے بچوں کی کفالت

محترم جناب مفتی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا نام محمد طارق ہے، میرا ایک مسئلہ ہے، میری شادی ۲۰۰۶؍۱۲؍۲کو ایک عورت سےہوئی جس کانام سارہ بانو ہے، تقریبا(۵)سال تک وہ میرے نکاح میں تھی اس کے بعد گھریلوناچاقی کی وجہ سے ہم دونوں میں علیحدگی ۲۰۱۱؍۱؍۲۴میں ہوئی، اس عورت سے میرے دوبچے ہیں، ایک لڑکی جس کی عمر۱۰سال ہے اور ایک لڑکا جس کی عمر۸ سال ہے جوکہ اس عورت کے پاس ہیں، اب اس عورت نے دوسری شادی کی ہے اس بات کو تقریبا ایک سال ہوگیا مجھے اپنے بچوں سے نہ ملنے دیتے ہیں اور نہ بچوں کو میرے پاس آنے دیتےہیں اور شروع میں۱۶مہینے تک میں نے بچوں کاخرچہ دیا ہے اس کے بعد ان لوگوں نے خرچہ لینے سے منع کردیا اور تقریبا ایک سال پہلے میں نے بچوں کے لئے کورٹ میں کیس بھی کیا ہے اس سلسلے میں مجھے فتویٰ دیں کہ شریعت کے مطابق یہ بچے کس کے پاس رہیں گے اگر بچے میرے پاس رہیں تو میں ان کی پرورش اچھے طریقے سے کرسکتاہوں۔(سائل: محمد جمیل)

J

الجواب بعون الوہاب

صورت مسئولہ برصحت سؤال

سائل محمد جمیل صاحب نے سن2006ء میں سائرہ نامی خاتون سے شادی کی جن سے ان کے دوبچےبھی ہیں،بچے ابھی تک ان کی سابقہ اہلیہ کے پاس ہیں جبکہ وہ دوسری جگہ نکاح بھی کرچکی ہیں، اب بچوں کے تعلق سے شرعی رہنمائی یہ ہےکہ بچوں پر زیادہ حق باپ کا ہے:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

[فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ۝۰ۚ ]

یعنی: اگر وہ تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو تم انہیں اس کی اجرت دو۔(الطلاق:۶)

یہ آیت کریمہ طلاق کے بعد احکام کے تناظر میں بیان ہورہی ہے، جس میں دودھ پلانے پر ماؤں کو اجرت لینے کا اختیار ہے اگر زیادہ حق اس بچہ پرماؤں کاہوتا تو دودھ پلانے پر انہیں اجرت کا حکم نہ دیاجاتا۔ نیز رسول اللہ ﷺ نے اس خاتون کو جسے اس کے شوہر نے طلاق دے دی تھی اور اب وہ اس سے اپنابیٹا بھی لینا چاہتا تھا اس بچے کے تعلق سے اس خاتون نے اپنی قربانیوں کاذکربھی کیا اس پر آپﷺ نے فرمایا:(أنت احق بھا ما لم تنکحی) تو اس بچے کی زیادہ حق دار ہے جب تک تو نکاح نہ کرے۔ یہ واقعہ مسند احمد، ابوداؤد، اور مستدرک حاکم وغیرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔

مذکورہ دلائل کی رو سے سائل کی سابقہ اہلیہ کا رویہ شرعا قابل مذمت ہے انہیں اپنا رویہ درست کرناچاہئے اور بچوں کو اس کے باپ سے دور نہیں کرناچاہئے۔

نیزوالد کو حق ہے کہ بچوں کو اپنی تحویل میں لے کر ان کی اچھی تعلیم وتربیت کاانتظام کرے، مزید بہتری کے لئے قانونی ماہرین سے مل کر اپنا شرعی حق حاصل کرے۔ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب.

About حافظ محمد سلیم

مفتی جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

احکام ومسائل

مسئلہ وراثت محترم جناب مفتی صاحب! گزارش یہ ہے کہ وراثت کے معاملے میں کچھ رہنمائی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے