Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ فروری و مارچ » پہلا درس اور اولین استادرحمہ اللہ

پہلا درس اور اولین استادرحمہ اللہ

چند روز قبل فضیلۃ الشیخ استاد محترم داود شاکرحفظہ اللہ مرکز المدینہ تشریف لائے، نماز مغرب  کے بعد شیخ حفظہ اللہ نے انجام ِاہل خیر و اہل شر کے متعلق سورۃ البروج کے تناظر میں للہیت ، توکل و تقوی سے بھر پور درس دیا، درس کے بعد شیخ صاحب سے نشست ہوئی اور موضوع سخن  خود بخود فضیلۃ الشیخ استاد محترم ذوالفقار علی طاہر پہلا درس اور اولین استادرحمہ اللہ کی ناگہانی وفات  کی طرف مڑ گیا،تمام شرکاء مجلس اس اندوہناک صدمہ پر غمزدہ و رنجیدہ نظر آئے اور بقول شیخ داود شاکر حفظہ اللہ کے کہ ” جب بھی شیخ  طاہر رحمہ اللہ کا تذکرہ ہوتا ہے، زخم ہرے ہوجاتے ہیں”، دوران گفتگو شیخ داود شاکرحفظہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ اس دفعہ ماہنامہ دعوت اہل حدیث میں استاد محترم شیخ ذوالفقار علی طاہر رحمہ اللہ کی شخصیت و علمی خدمات کے ذکر خیر پر تحاریر شائع کرنے کا ارادہ ہے، اور شیخ حفظہ اللہ نے مجھ عاجز و ناچیز کو بھی اس حوالہ سے کچھ لکھنے کا حکم صادر فرمایا۔ اب جب لکھنے بیٹھا ہوں تو  ہاتھوں میں جنبش نہیں ہے،  لیکن ذہن کے پردہ پر بہت سے مناظر گھوم رہے ہیں ، ان ایام ِ رفتہ کی یادیں تازہ ہورہی ہیں جو شیخ aکی رفاقت میں گزرے ، المعہد السلفی میں طلبِ علم کا دور یقینا میری زندگی کا بہت قیمتی اور سنہرا دور تھا  جس کے سنہرے پن میں شیخ رحمہ اللہ کا عکس بہت نمایاں ہے، میں شیخ رحمہ اللہ کے ساتھ بہت قریبی تعلق کا دعویدار تو نہیں البتہ میرا شیخ کے ساتھ تعلق استاد اور شاگرد سے کہیں آگے کا ہے ، وہ دوست بھی تھے ، ناصح بھی تھے، خیر خواہ بھی تھے، جوں جوں سوچتا ہوں ذہن کے دریچے کھلتے ہیں اور  احساس ہوتا ہے کہ کس قدر عظیم شخصیت تھی جس سے ہم محروم ہوئے ہیں کہ :

شہر میں ایک چراغ تھا ، نہ رہا۔۔۔

میں یاد داشت کا بڑ اچور ہوں ، اسے خوبئ قسمت کہئے یا کچھ اور بہرحال معاملہ یہ ہے کہ بہت سی باتیں بہت جلد ذہن سے محو ہوجاتی ہیں، لیکن المعہد السلفی میں پہلا دن آج بھی بہت اچھی طرح ذہن میں تازہ ہے ، میں المعہد السلفی کی اولی کلاس کا پہلا طالب علم تھا، اس وقت المعہد السلفی مسجد صراط مستقیم تین ہٹی میں تھا، ادارہ کا پہلا دن تھا ، تعلیمی سرگرمیاں ابھی شروع نہیں ہوئی تھیں ، کلاسز کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا، مجھے شیخ داود شاکر حفظہ اللہ نے مسجد کے فرسٹ فلور پر قائم دفتر میں طلب کیا ، "نحو میر” تھمائی اور فرمایا کہ : "آپ ان شیخ کے پاس بیٹھ جائیں یہ آپ کو پڑھائیں گے”، جس جانب اشارہ ہوا تھا اس طرف نظر دوڑائی تو دیکھا کہ سفید لباس زیب تن کئے، کالی ٹوپی پہنے ، پرانے انداز کا پلاسٹک کے فریم والا چشمہ لگائے ایک بارعب شخصیت بیٹھی ہے جن کی شخصیت کی سب سے نمایا ں چیز وہ گھنی داڑھی تھی جس نے ان کے سینہ کو  ڈھانپا ہوا تھا ، میں اور میرے گلشن حدید کے ایک دوست محسن بھائی یا ارسلان بھائی  جن کو ادنی میں داخلہ ملا تھا ہم دونوں ہی شیخ کے سامنے  دو زانو بیٹھ گئے اورنحو میر کا پہلا درس” اما بعد : بداں ارشدک اللہ  تعالی کہ این مختصر یست مضبوط در ِ علم نحو” پڑھا، یہ فارسی زبان اورعربی نحو  پڑھنے کا میرا پہلا تجربہ تھا، سفرِ طلبِ علم کا آغاز تھا ، میرا پہلا درس تھا اور میرے اولین استاد فضیلۃ الشیخ ذوالفقار علی طاہررحمہ اللہ تھے، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔

پہلے درس سے شروع ہونے والا یہ تعلق المعہد السلفی میں  میرے طلب علم کے آخری دن تک قائم رہا، نحو وصرف اور حدیث و فقہ کے بہت سے اہم اسباق شیخ رحمہ اللہ ہی سے پڑھے، نحو میر ، علم الصرف اولین و آخرین، علم الصیغہ، ہدایہ، سنن نسائی ، اور حجۃ اللہ البالغہ سمیت کئی اہم کتابیں شیخ ہی سے پڑھیں اور سمجھیں تھیں، شیخ کو فارسی زبان پر عبور حاصل تھا ، فارسی کی تمام کتب کی تدریس شیخ ہی کے سپرد تھی، علم ِصرف و نحو میں بھی شیخ کو کمال مہارت تھی، خصوصا علمِ صرف کی تصاریف ، ابواب کی معرفت اور خصوصیات ابواب کے تعلق سے شیخ جیسی پختگی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔  تدریس ِ حدیث کی جانب بھی شیخ کی بڑی رغبت تھی اور بہت اہتمام بھی فرمایا کرتے تھے، مجھے یاد ہے کہ  چوتھی کلاس میں سنن نسائی  ہم نے شیخ سے پڑھی تو شیخ نے اس کتاب کی تدریس کا بڑا اہتمام کیا، پہلے امام نسائی رحمہ اللہ کا مکمل تعارف بیان فرمایا ، پھر سنن نسائی کا تعارف کرایا اور سنن کے تعلق سے امام نسائی کا منہج بیان کیا، اور تمام باتیں املاء کرائیں ، تمام طلبہ پر لازم کیا کہ وہ کاپیاں ساتھ لے کر آئیں اور درس کی تمام باتیں لکھیں، شیخ رحمہ اللہ سے ہم نے سنن نسائی مکمل پڑھی اور اس کی تکمیل کے لئے شیخ نے اضافی اوقات بھی وقف کر دئے، بسا اوقات ظہر کے بعد یا عصر کے بعد بھی تدریس فرماتے، اور اللہ تعالی کی توفیق سے سنن نسائی کی تکمیل میں سب سے زیادہ احادیث کی قراءت کا شرف میرے حصہ میں آیا۔

دوران تدریس شیخ رحمہ اللہ کا حدیث سے قلبی تعلق،اورائمہ حدیث و محدثین کا احترام واضح طور پر محسوس ہوتا تھا، جب بھی امام نسائی یا کسی اور محدث کا تذکرہ فرماتے تو ساتھ میں "رحمہ اللہ ” ضرور کہتے ، بڑے احترام سے تذکرہ کرتے،تراجم ابواب اور احادیث  ابواب سے ماخوذ مسائل میں بھی بہت عبور تھا جس سے شیخ کا فقہ الحدیث میں رسوخ معلوم ہوتا تھا، اسی طرح اگرکسی فرقہ یا مسلک کی جانب سے کسی حدیث کے انکار یا غلط تاویل کو بیان کرتے تو ساتھ میں بہت بھرپور علمی انداز میں اس کا رد فرماتے تھے۔ جبکہ روایتی فقہ اور مسائل ِ فقہ کو زیادہ اہمیت نہ دیتے ، مجھے یاد ہے کہ ہدایہ کی تدریس کے دوران خصوصا طہارت  کے ابواب میں جب بھی  مقلدین  کے نا معقول قسم کے من گھڑت مسائل کا ذکر ہوتا تو خوب ہنستے اور ایسے تبصرے فرماتے کہ طلبہ بھی ہنسنے پر مجبور ہوجاتے، اور شیخ رحمہ اللہ کا یہ طنزیہ و تمسخرانہ انداز فقط اس لئے تھا کہ طلبہ روایتی فقہ اور حدیث کے تضاد کواچھی طرح سمجھ لیںاوران کے اذہان میں یہ بات پختہ ہوجائے کہ اصل احکامات جن پر عمل پیرا ہونا ہے اور جن کا احترام واجب ہے وہ قرآن و حدیث  میں مذکور ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی جان لیں کہ روایتی فقہ نے کس طرح مسلمانوں کو ایسے بے سرو پا مسائل میں الجھا دیا ہےجن کا وقوع ہی نامکمنات میں سے ہے، جبکہ قرآن  وحدیث میں بیان کردہ مسائل حقائق و مصالح پر مبنی ہیں ۔

شیخ رحمہ اللہ بہت خوش طبع تھے، مزاج میں بڑے بذلہ سنج تھے ، طلبہ شیخaکی کلاس میں بڑے شوق سے جایا کرتے تھے کہ شیخ a اپنے طلبہ کو کبھی  بور نہیں ہونے دیتے تھے، المعہد السلفی کے کبار اساتذہ شیخ حافظ سلیم حفظہ اللہ شیخ داود شاکر حفظہ اللہ شیخ نصر اللہ صاحب حفظہ اللہ اور شیخ ذوالفقار طاہر رحمہ اللہ کی کلاس مسجد میں ہی لگا کرتی تھی، بسا اوقات دوران تدریس شیخ رحمہ اللہ کی حسِ ظرافت پھڑکتی اور کوئی ایسا جملہ فرمادیتے کہ کلاس کے تمام طلبہ کا قہقہہ بلند ہوجاتا ، دیگر کلاسوں کے طلبہ بھی متوجہ ہوجاتے اور جب قہقہہ کا مرکز معلوم ہوتا تو تمام طلبہ کے لبوں پر مسکراہٹ آجاتی ۔

آج یاد کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہمارے شیخ کو کیسے کیسے اوصاف  وخوبیوں سے نوازا تھا،  ویسے تو المعہد السلفی کے ہمارے تمام ہی اساتذہ تواضع و انکساری کا پیکر ہیں لیکن  شیخ کی تواضع کے انداز ہی نرالے تھے، بسا اوقات گرمیوں میں ہم شیخ رحمہ اللہ کے ساتھ لسی پینے  اور سردیوں میں گرم دودھ کا مزہ لینے جاتے تھے ، اس وقت گلستان جوہر اتنا آباد نہیں تھا، موسمیات کا علاقہ تھا جو معہد سے تقریبا دو، ڈھائی کلومیٹر دور تھا جہاں لسی اور دودھ ملا کرتا تھا ، شیخ aہمارے ساتھ پیدل آتے  جاتے ، اور شیخ رحمہ اللہ کا انداز ایسا ہوتا کہ کوئی محسوس ہی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ استاد شاگرد جارہے ہیں یا کوئی دوست اور ہم جولی ہیں ۔معہد سے فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ سے جب بھی تعطیلات میں پاکستان آنا ہوتا  اور شیخ رحمہ اللہ سے ملاقات ہوتی تو  بڑی محبت اور گرمجوشی سے ملتے ، اس قدر عزت و احترام سے پیش آتے کہ  مارے شرم کے ہمارے پسینے چھوٹ جاتے، اورشیخرحمہ اللہ کا یہ رویہ  اپنے تمام شاگردوں کے ساتھ تھا ۔ ایسے نرم طبع تھے کہ معہد میں تعلیم کے آٹھ سالوں میں شیخ رحمہ اللہ کو میں نے صرف ایک مرتبہ غصہ میں دیکھا  جب شیخ رحمہ اللہ نے دوران کلاس ایک طالب علم کو مار لگائی، اور اس وقت دیگر کلاسوں کے طلبہ کی آنکھوں میں حیرت واضح تھی اور سب یہی سوچ رہے تھے کہ یقینا اس طالب علم نے ہی کوئی ایسی بات یا معاملہ کیا ہوگا جو شیخ رحمہ اللہ جیسے نرم مزاج شخص کو بھی طیش دلا گیا، لیکن اس نرم خوئی کے باوجود بھی رعب اور دبدبہ ایسا تھا کہ اکثر اوقات دیگر اساتذہ کے سامنے جرات کرجانے والے طلبہ بھی شیخ کے سامنے بات کرتے ہچکچا جاتے تھے۔

المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کے حوالہ سے بھی شیخ رحمہ اللہ سے رابط رہتا تھا، خصوصا سندھی مطبوعات کے حوالہ سے ہمارا مرجع شیخ صاحب ہی ہوا کرتے تھے، حفظ و ناظرہ کے طلبہ کے لئے سندھی زبان میں شائع شدہ اسلامی نصاب ، سندھی حصن المسلم ، اور مکمل تفصیلی نماز نبوی کی پروف ریڈنگ اور اصلاح  شیخ رحمہ اللہ نے ہی فرمائی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصررحمانی حفظہ اللہ سے گزارش کی کہ سندھی زبان میں قرآن مجید کی ایسی جامع و مختصر تفسیر کی اشد ضرورت ہے جو سندھ کے موجودہ حالات، مسائل اور فتنوں کو مدنظر رکھ کر لکھی جائے ، تو  ایسی تفسیر کس شیخ سے لکھوائی جائے تو شیخ صاحب کی نظر انتخاب بھی شیخ ذوالفقار علی طاہر aپر ہی ٹھہری ،شیخ aنے اس حوالہ سے کچھ مہلت طلب کی ، گزشتہ دنوں جب شیخ aایک حادثہ  میں شدید زخمی ہوگئے تھے تو ہم عیادت کرنے گئے ، دوران گفتگو شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اب ہمت نہیں پڑ رہی ہے، طبیعت کا بھی معاملہ ہے آپ  فلاں فلاں شیخ سے اس حوالہ سے بات کر لیجئے ، ہم نے درخواست کی کہ شیخ اس کا حق بجا طور پر آپ ہی ادا کرسکتے ہیں ، ہماری التجا ہے کہ آپ اس حوالہ سے نظر ثانی کیجئے ،  وفات سے ایک ہفتہ قبل شیخ رحمہ اللہ نے ہمارے ساتھی شیخ جمشید کو یہ میسج کیا کہ میں نے استخارہ کر لیا ہے ، اور ان شاء اللہ پختہ ارادہ کرلیا ہے کہ تفسیر پر کام شروع کردوں گا ، آپ دعا کیجئے گا کہ اللہ تعالی ہمت و استقامت عطا فرمائے!!۔ یقینا اللہ تعالی نیتوں کو بخوبی جانتا ہے ، ہم تو یہی سوچتے ہیں کہ اللہ تعالی نے بغیر لکھے ہی شیخ صاحب کے نامہ اعمال  میں تفسیر کا اجر ڈال دیا ہے۔

شیخ رحمہ اللہ ایک بڑی علمی شخصیت ، صائب الرائے ، اور سلفی المنہج تھے اور اس کے ساتھ ساتھ بلند پایہ خطیب بھی تھے، بڑی زود اثر تقاریر فرمایا کرتے تھے، جامع گفتگو فرماتے جو بسا اوقات سامع کے دل میں اتر جایا کرتی، شیخaکی  ایک تقریر مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے جو آپ نے گلشن حدید کی مسجد خالد بن ولید میں فرمائی ، تقریر کا موضوع جنت اور جنتی تھا ، اس میں ایک جملہ جو  شیخ نے کہا اور مجھے آج بھی یاد ہے کہ ” جنت ایک پاکیزہ مقام ہے ، وہاں ناپاک اور آلودہ لوگ داخل نہیں ہوسکتے ، صرف وہی داخل ہوسکے گا جو گناہوں سے پاک اور طاہر ہوگا”، یا اللہ ہمارے شیخ بھی طاہر تھے ، انہیں اسم بامسمی بنادے ، ان کی لغزشوں سے درگزر فرما ان کی حسنات کو قبول فرما ، انہیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لے، ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنا دے، اور روز محشر ہماری اور ان کی ملاقات جنت الفردوس میں کروادے ۔

آمین۔

About شیخ عثمان صفدر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے