Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » ‎شمارہ اگست » المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

قسط نمبر 4

کرامات اولیاء اور اکابرین دیوبند

امام طحاویaکرامات پر گفتگو کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

ونؤمن بماجاء من کراماتھم ،وصح عن الثقات من روایاتھم.

ہم ان کی کرامات پر ایمان لاتے ہیں جو ان کی روایات میں سے ثقہ راویوں سےثابت ہیں۔(العقیدۃ الطحاویہ)

کرامات کا ثقہ راویوں سے ثابت ہونا بھی ضروری ہے ،جس طرح لوگوں نے من گھڑت احادیث گھڑی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ کرامات گھڑ رکھی ہیں اپنے بزرگوں کی عظمت وہیبت بڑھانے کے لئے۔

سرفرازخان صفدرنے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی ایک کرامت کے متعلق لکھا:

’’انہوں نے یہ افسانے بھی تراش رکھے ہیں مثلا یہ کہ حضرت پیرصاحبؒ نے بارہ سال کے بعد ایک بڑھیا کےلڑکے کاغرق شدہ بیڑا دریا سے نکال پارکیاتھا۔‘‘(تنقید متین برتفسیر نعیم الدین،ص:39)

پھر اگلی سطور میں اس کی یہ حقیقت بیان کی کہ بڑھیا کالڑکا بارہ سال تک گمراہ ہوگا بڑھیا کے کہنے پر شیخ رحمہ اللہ نے وعظ ونصیحت کرکے اس کی اصلاح کردی اور پھر لکھا:

’’مگرعوام کالانعام نے رائی کاپہاڑ بناکر اس سے حسی دریا اور حسی بیڑا سمجھ کر کچھ کا کچھ بنادیا۔(تنقید متین برتفسیر نعیم الدین،ص:40)

مطلب بریلویہ کی بیان کردہ’’کرامت‘‘ افسانہ ہوگئی اور عوام کالانعام کاکارنامہ!!! مزید سنئے دیوبندیہ کے’’امام ربانی‘‘ رشیداحمدگنگوہی صاحب کے فتاویٰ میں ایک سوال اورجوابی فتاوٰی ملاحظہ کیجئے:

مشرکانہ حکایات پراعتقاد

سوال:ان کرامتوں کاکیاحکم ہے ؟

1حضرت غوث اعظم قدس سرہ کے ایک مرید نے انتقال کیا، اس کابیٹا روتاہوا آپ کے پاس آیا، آپ نے اس کے حال پر رحم فرماکر آسمان چہارم پرجاکر ملک الموت سے روح مرید کومانگا، ملک الموت نے جواب دیا کہ خداتعالیٰ کے حکم سے روح آپ کے مرید کی قبض کی ہے۔آپ نے فرمایا: میرے حکم سے چھوڑ دے ،جب ملک الموت نے نہ دی تو آپ نے زبردستی زنبیل تمام روحوں کی جواس دن قبض کی تھیں چھین لی ،تمام روحیں پرواز کرکے اپنے اپنے جسد میں داخل ہوئیں ،ملک الموت نےخدائے تعالیٰ کے پاس فریاد کی کہ ایک شخص مجنون نے زنبیل روحوں کی چھین لی، فرمایا وہ ادھر کو تونہیں آتا ؟عرض کیا نہیں آتا۔کہا اچھا ہوا جوواپس گیا ورنہ اگر ادھر کوآتا توحضرت آدم سےلے کر اس وقت تک جتنے مرے ہیں سبکے زندہ کرنےکوکہتا تومجھےسب زندہ کرنے پڑتے،رسیدہ بودبلائے ولے بخیر گذشت۔

2ایک عورت حضرت عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا یاحضرت مجھے بیٹا دو، آپ نے فرمایا کہ تیری تقدیر میں لوح محفوظ میں نہیں ہے۔ اس نے عرض کی اگر لوح محفوظ میں ہوتا توتمہارے پاس کیوںآتی؟ آپ نے اللہ تعالیٰ سےکہا یاخدا تو اس عورت کو بیٹا دے،حکم ہوا اس کی قسمت میں لوح محفوظ میں بیٹا نہیں ہے کہا ایک نہیں دو دے، جواب آیا ایک نہیں تودوکہاں سے دوں؟ کہا تو تین دے، کہا جب ایک بھی نہیں توتین کہاں سے اس کی تقدیر میں  بالکل نہیں،جب وہ عورت ناامید ہوئی غوث اعظم نے غصہ میں آکر اپنےدروازہ کی خاک تعویذ بناکر دےدی اور کہا تیرے سات بیٹے ہوں گے ،وہ عورت خوش ہوکرچلی گئی اور اس کے سات بیٹےہوئے۔

بعدوفات حضرت عبدالقادرجیلانی، ایک بزرگ نے آپ کو خواب میں دیکھا ،کہا منکرنکیر کے جواب سے آپ نے کیوں کر رہائی پائی، جناب شیخ نےفرمایا یوں پوچھو منکرنکیر نےمیرے سوالوں کےجواب میں کیونکر رہائی پائی، جس وقت میرے پاس قبر میں آئے میں نے ان کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے اور کہا یہ بتلاؤ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم زمین میں اپناخلیفہ پیداکریں گے تو تم نے یہ کیوں کہا اے اللہ! تو ایسے شخص کو پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد پیدا کرےگا شاید تم نے اللہ تعالیٰ کو مشورت طلب ٹھہرایا۔‘‘

جواب: ان الحکم الاللہ.(حکم بجز اللہ تعالیٰ کےکسی کانہیں) یہ کرامات مندرجہ سوال بت پرستوں کے سے عقیدہ والوں کے ہیں، قد جاءنی الحدیث من رأی منکم منکرا فلیغیر بیدہ ومن لم یستطع فبلسانہ ومن لم یستطع فبقلبہ ولیس وراء ذلک حبۃ خردل من الایمان.(حدیث میں ہے:جو تم میں سے کوئی گناہ دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اور جو نہ کرسکے تو اپنی زبان سے اور جو نہ کرسکے تو اپنے دل سےاور اس سے کم تو ایمان رائی کے دانہ کےبرابر بھی نہیں)جو لوگ ان کرامات شرکیہ مذکورہ کو حق جانتے ہیں اس عقیدہ شرکیہ کفریہ پر ہیں سراسرمخالف قرآن وحدیث کے ہیں اور مثل بت پرستوں کے عبدالقادر پرست ہیں، بندہ کو خدا اعتقاد کرتے ہیں العیاذباللہ

بلکہ اس واحد وقہار وقیوم وجبار کو بندہ کے آگے مجبور جانتے ہیں، ایسے عقیدہ والے قطعی کافر اور مشرک ہیں اگر وہ کوئی ابتدائے تمیز سے اس عقیدہ پر ہےتو پرانا کافر ہے جب تک اس کفریہ عقیدہ سے توبہ نہ کرلے اور تجدید اسلام کلمہ شہادت سے نہ کر ے مسلمان نہیں، قال اللہ تعالیٰ [اِنَّہٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَيْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُ۝۰ۭ وَمَا لِلظّٰلِــمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝۷۲](اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا: کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں کی کوئی مدد کرنے والانہیں۔)(المائدۃ:۷۲)اگر کسی مسلمان کے گناہوں سے ساری زمین لبریز ہو اور شرک نہ ہوتو حق جل جلالہ اس کے بخشنے کا وعدہ فرماتا ہے اپنی رحمت سے مگر مشرک کافرہرگز نہ بخشا جائے گا۔[اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۝۱۱۶] (النساء:۱۱۶)(اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت نہیں فرمائےگا کہ اس کے ساتھ شریک کیاجائے اور اس کے علاوہ جس کی چاہے مغفرت فرمائے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کیاتو وہ بے شک بڑی دور کی گمراہی میں پڑگیا۔)اور جو لوگ اول عقیدہ توحید کا رکھتے تھے اور بعد میں اس شرکیہ عقیدہ پر ہوگئے ہیں تو ان کے پہلے نیک عمل سب برباد ہوگئے، اگر اسی کفر پر مرجائیں تودوزخی ہیں بموجب فرمان واجب الاذعان الٰہی کے [وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِہٖ فَيَمُتْ وَھُوَكَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۲۱۷](اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے مرتد ہوجائے اور وہ کفر کی حالت میں ہی مرجائے تو ان کے اعمال دنیاوآخرت میں برباد ہوگئے اور وہ جہنمی ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے)(البقرہ:۲۱۷)

نعوذباللہ من شرالکاذبین المبتدعین الباطلین الطاغین الفاسقین واللہ اعلم بالصواب فاعتبروا یااولی الباب حررہ الفقیر محمد حسین الدھلوی عفااللہ عنہ.(ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں جھوٹوں کے شر سے جو بدعتی اور باطل پر ہیں سرکش اور فاسق ہیں ،واللہ اعلم بالصواب ،عبرت حاصل کرو،اے عقلمندو)

یہ حکایات لااصل ہیں اعتقاد کے لئے یقینی باتیں درکارہیں، معتقد ان باتوں کا یانادان ہےیاکجرو، مسلمانوں کوبہرحال ایسی باتوں سے اعتقاد ہٹانا چاہئے اور سچے اور پکے مسلمانوں کے عقائد دل میں جمانے چاہئیں، فقط محمد ناظر حسن عفی عنہ مدرس مدرسہ اسلامی میرٹھ شہر۔

کرامت مذکورہ کامعتقد مخالف قرآن واحادیث کا ہے ایسے اعتقاد سے پرہیز کرنالازم ہے ،فقط محمد مسعود نقشبندی

الجواب صحیح محمد عبیداللہ الجواب صحیح عبدالحق

ایسے عقائد مشرکین ومبتدعین کے ہیں جو اب مجیب کا اور مواہیر ودستخط صحیح ہیں حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ الجواب صحیح والرائے نجیح۔الغرض جناب شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ ،ولی کامل فی زعمنا ہیں صاحب کرامات ہیں مگر عوام کالانعام جہلا لوگوں نے ہزار ہاحکایات اکاذیب گھڑ رکھی ہیں منجملہ ان کے جو سوال میں درج ہیں اور انہی کے لگ بھگ یہ کرامت بھی افترا کی ہوئی ہے کہ بارہ برس کے بعد کشتی مع برات ڈوبی ہوئی نکالی، سو اس کی بھی کچھ اصل نہیں ہے ،غرضیکہ ایسے عقیدے شرکیہ بدعیہ سے توبہ کرنی چاہئے ورنہ ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

حررہ العاجز ابومحمد، عبدالوہاب الفنجانی الملتانی

خادم شریعت رسول الاواب ابومحمدعبدالوہاب

جواب بہت صحیح ہے۔

الجواب صحیح سید محمد اسمعیل فرید آبادی بقلم خود

جواب بہت صحیح ہے۔

مولوی زبیرالرحمٰن صاحب

جواب بہت صحیح ہے۔

سیدمحمد عبدالحمید

جواب بہت صحیح ہے۔

سیدعطاءالرحمٰن عفی عنہ

عبدالجبار حیدرآبادی ،جواب صحیح ہے روح چھینا غلط ہے اعتقاد اس پر باطل ہے۔

بمہر وقلم امیراحمد عفی عنہ

مخفی نہ رہے کہ مفتی جزاہ اللہ خیرا الجزاء نے جو جواب دیا ہے اللہ وحدہ، لاشریک لہ کے پوجنے والوں اوراس کے رسول برحق کے ماننے والوں کو کافی ووافی ہے، البتہ ضال مضل مشرک ومبتدع کہ جس کے دل اور آنکھ اور کان پر شقاوت وبدبختی کی مہر ہے اس کا کوئی علاج نہیں ہے، فی الواقع جوشخص ایسی کرامتوں لااصل لہ کا پیران پیر یا کسی دوسرے ولی وفقیر سے کہ جو مقدورات باری تعالیٰ وتصرفات قادر مطلق سے ہیں قائل ومعتقد ہے اس کے مشرک ہونے میں کوئی شک نہیں، خدابے چون وچرا کے حکم وقدرت کے مقابلہ میں کسی نبی وولی کی کچھ پیش نہیں چلتی، وہ حاکم ساراجہان محکوم وہ خالق اور سب مخلوق ،پھر کون اس شہنشاہِ دوجہان کے حکم کو رد کرسکتا ہے، اپنے کلام معجز میں بیان فرماتا ہے :[قُلْ مَنْۢ بِيَدِہٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُوَيُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۸ ]یعنی فرمایا: اللہ صاحب نے کہ کون ہے وہ شخص جس کے ہاتھ میں قابوہرچیز کا اور وہ حمایت کرتا ہے اس کے مقابل کوئی نہیں حمایت کرتا جو جانتے ہو وہی کہہ دیں گے اللہ ہی ہے پھر کہاں سے خبط میںپڑ جاتے ہو۔(المؤمنون:۸۸)اور شیخ عبد ا لقادر محدث دہلوی شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں:

لیس الفاعل والقادر والمتصرف الاھو.یعنی اللہ تعالیٰ واولیاء اللہ ھم الفانون المالکون فی فعلہ تعالیٰ وقدرتہ وسطوتہ لافعل لھم ولاقدرۃ ولاتصرف ا لآن ولاحین کانوا حیا فی الدار الدنیا.

یعنی قادر اور فاعل اور متصرف کوئی نہیں مگر اللہ اور اولیاء اللہ فانی اور گم ہیں اللہ کےفعل میں اور اس کی قدرت اورغلبہ میں نہ ان کا کوئی فعل ہے نہ قدرت نہ تصرف نہ اب یعنی عالم برزخ میں اور نہ جبکہ زندہ تھے دنیا میں، پس اس آیت اور عبارت شیخ موصوف سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو عالم میں تصرف کرنے کی قدرت نہیں دی اور کوئی کسی کی حمایت نہیں کرسکتا ،پس ایسی کرامت پیرانِ پیر کی طرف منسوب کرنا محض تہمت وافتراء ہے، واللہ اعلم بالصواب

فقط حررہ حمایت اللہ عفا اللہ عنہ جلیسری

ایسی حکایت وکرامات جن میں خداکے ساتھ مقابلہ یا اس کے  کاموں میں کسی قسم کادخل بے جابخلاف مرضی حق تعالیٰ کے ہومحض افترا وبہتان ان بزرگوں پر ہے،انبیاء وصدیقین وشہداء وصلحاء اورملائکہ سب اس کے حکم کے آگے دم بخود ہیں،قال اللہ تعالیٰ :[بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ۝۲۶ۙ لَا يَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ يَعْمَلُوْنَ۝۲۷ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا يَشْفَعُوْنَ۝۰ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَہُمْ مِّنْ خَشْيَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ۝۲۸ ۞ وَمَنْ يَّقُلْ مِنْہُمْ اِنِّىْٓ اِلٰہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذٰلِكَ نَجْزِيْہِ جَہَنَّمَ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِــمِيْنَ۝۲۹ۧ ]یعنی وہ بندے ہیں جن کو عزت دی ہے اس سے بڑھ کر نہیں بول سکتے اور وہ اس کے حکم پر کام کرتے ہیں ،اس کو معلوم ہے جوان کے آگے اور پیچھے ہےاور وہ سفارش نہیں کرتے مگر اس کی جس سے وہ راضی ہو اور وہ اس کی ہیبت سے ڈرتے ہیں اور جو کوئی ان میں کہے کہ میں خدا ہوں سوائے اس کے اس کو ہم بدل دیں دوزخ یوں ہی ہم بدلہ دیتے ہیں ظالموں کو۔

بزرگان بزرگی نہادہ زسر(بزرگوں نے بزرگی سر سے اتار کر رکھ دی)

فقط حررہ العاجز ابوعبدالرحمٰن محمد عفی عنہ

الجواب صحیح محمد عبدالحکیم عفی عنہ ،جواب صحیح ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے [فَسُبْحٰنَ الَّذِيْ بِيَدِہٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۸۳ۧ ](پس پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں سب چیزوں کا قبضہ ہے اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے)فقط حررہ عطاءاللہ عفی عنہ، یہ جواب صحیح ہے ۔ ابومحمد سلیم الدین ،ہذا جواب صحیح ،الجواب صحیح ابوعبداللہ محمد نعمت اللہ نصیر آبادی ،جواب صحیح ہے ،دستخط محمد فقیر اللہ الفنجانی شاہپوری ،خادم شریعت متین محمد سلیم الدین عفی عنہ دینا جپوری۔

مندرجہ بالافتاویٰ میں مفتیان کرام نے سوال میں مذکور کرامت کے نام پر بیان کردہ خرافاتی قصوں  کو ’’بت پرستوںوالے عقائد اور کفر وشرک اور’’عقیدہ توحید‘‘ کے منافی قرار دیا اور ان کے خلاف قرآن مجید اور احادیث کی نصوص پیش کیں اور بعض نے صاف لکھا:

’’کرامت مذکورہ کامعتقد مخالف قرآن واحادیث کا ہے ایسے اعتقاد سےپرہیزلازم ہے‘‘

اب گھمن صاحب کیا کہیں گے ان کے اکابرین بزرگ کرامات خوارقِ عادت کےمنکر تھے اور ان پر اعتراضات کرتے تھے یا اس صحیح فکر کواپنائیں گے قرآن وحدیث وعقیدہ توحید کے منافی کرامات پر اعتراض کیاجاسکتا ہے؟اب مزید سنئے ،مولوی ارشاد حسین رام پوری صاحب نے بھی گھمن کی طرح ’’کرامات‘‘ کی آڑ لیتے ہوئے ان کا دفاع کیا تو دیوبند یہ کے’’امام ربانی‘‘ گنگوہی صاحب نے ان کا تعاقب کیا پہلے رامپوری صاحب کا فتوی ملاحظہ کیجئے:

الجواب، واللہ سبحانہ الموفق للصواب، یہ کرامتیں جو سوال میں مرقوم ہیں اس کا رد وانکار نہیں ہوسکتا اس واسطے کہ اس میں کوئی امرخلاف شرع اور خلاف عقیدہ اہل اسلام نہیں ہے اور ایک کرامت اخیرہ’’اقتباس الانوار‘‘ میں جو معتبر کتاب ہے احوال حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں منقول ہے اور دوکرامتیں جو پہلی ہیں وہ میری نظر سے کسی کتاب میں نہیں گزریں لیکن کتب احوال حضرت ممدوح میں بہت کثیر ہیں اور میں نے ان کو بالاستیعاب نہیں دیکھا پس ممکن ہے کہ کسی صاحب نے نقل کی ہوں، بہرحال انکار کرنے کی کوئی وجہ وجیہ نہیںمعلوم ہوتی اور حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ سے ایسی کرامتیں بیشتر صادر ہوئی ہیں اور یہ کرامتیں ان کے کمال اور شرف کے سامنے کچھ مقدار نہیں رکھتیں، ان کا کمال اس سے بھی بہت زیادہ ہے اور یہ امر اہلِ معرفت پر مخفی نہیں ہے۔’’اقتباس الانوار‘‘ میں ہے:

’’واز آں حضرت ہر جنس کرامات نقل کردہ اند تصرف درظواہر خلق وبواطن ایشان واجرائے حکم برانس وجن واطلاع ضمائر واظہار سرائر وتکلم بخواطر واطلاع بربطائجن ملک وملکوت وکشف حقائق جبروت واسرارلاہوت واعطاء مواہب علیہ وامداد عطایالاریبیہ وتقلب وتصرف حوادث ودوائر وتصرف اکوان اثبات الٰہی واتصاف بصفت احیاء واماتت وابراء اکمہ وابرص وتصحیح مرضی وطی زمان ومکان ونفاذ امر درزمین وآسمان ونیز برآب وطیران درہوا وتصرف ارادت مردم ،انتہی‘‘

(اور حضرت غوث پاک سے ہر قسم کے کرامات نقل کئے ہیں مخلوق کے ظاہروباطن میں تصرف اور انسان وجن پر ان کے حکم کا جاری ہونا اور دلوں پر اطلاع پانا اور چھپی ہوئی باتوں کا ظاہر کرنا اور دلوں سے بات کرنا اور ملک وملکوت کی باطنی باتوں پر اطلاع پانا اور حوادث میں الٹ پلٹ کرنا اور اس میں تصرف کرنا اور اثبات الٰہی کے اکوان میں تصرف کرنا اور زندہ کرنے اور مارنے کی صفت سے متصف ہونا اور کوڑھی ومادرزاد اندھے کو اچھا کرنا ،مریضوں کو تندرست کرنا اور زمان ومکان کو طے کرنا اورزمین وآسمان میں آپ کے امرکانافذ ہونا بلکہ پانی پر بھی اور ہوا میں اڑنا اور لوگوں کے ارادے میں تصرف کرنا۔(ترجمہ کتاب کے حاشیے سے ماخوذ ہے۔صدیق)

العبد، فقط واللہ سبحانہ اعلم وعلمہ اتم۔

مہر مولوی ارشاد حسین رام پوری(فتاویٰ رشیدیہ ،تالیفات رشیدیہ ،ص:60تا61)

اس فتویٰ میں رامپوری صاحب نے گھمن صاحب کی طرح ’’کرامات‘‘قرار دیکر انہیں ناقابل ردوانکار قرار دیا توگنگوہی صاحب نے اس فتویٰ کا تعاقب فرماتے ہوئے لکھا:ـ

’’مولوی ارشاد حسین صاحب سے تعجب ہے کہ ظاہران حکایت کوخصوصا پہلی حکایت کو خلافِ شرع نہیں جانتے ،حق تعالیٰ سے غالب ہونا اور امر حق تعالیٰ کو رد کردینا اور خدا تعالیٰ کا شیخ قدس سرہ سے ڈرنا، تو صاف اس سے واضح ہے اور پھر بھی خلاف قاعدہ شرع کے یہ نہیں تو معلوم نہیں وہ کونسا امر ہے کہ خلاف ہوتا ہے، اگر کوئی تاویل مولوی صاحب فرماکر یہ جواب لکھتے تو مضائقہ نہ تھا مگر صاف طور پر ان کو تسلیم کرنا تھا یہ مستبعد ہے علماء سے کہ عوام کی غوایت کو ایسا لکھنا کافی ہے، بہرحال یہ حکایات بظاہر خود کفر اور خلاف قاعدہ شرع کے ہیں خصوصا پہلی حکایت کہ مسلمانوں کو ایسا عقیدہ نہ کرنا چاہئے اور کمالاتِ شیخ کی عبودیت وبندگی اور عجز تام بدرگاہ حق تعالیٰ کے ہوتا ہے نہ ایسی حکایات واہیہ آپ کی شان رفیع تسلیم ورضا وفنا پیش حق تعالیٰ واوامر حق تعالیٰ کے ہے چنانچہ ان کے کلمات فتوح الغیب سے واضح لائح ہے نہ کہ مقابلہ امر حق تعالیٰ کا اور مخاصمہ ذات پروردگار کے ساتھ معاذاللہ الحاصل ا ن حکایات کی کوئی اصل نہیں یہ واضح کسی ملحد کی ہیں اور شانِ بزرگان سے بعید ہے کہ ایسی حکایات لکھیں یا اس پر عقیدہ کریں اور جو عبارت مولوی صاحب نے نقل کی ہے اس سے کرامات کا واقع ہونا ثابت ہے نہ مقابلہ وبرابری ومکابرہ حق تعالیٰ کے ساتھ، لاحول ولاقوۃ الاباللہ مسلمان ایسے عقائد سے احتراز رکھے۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم، کتبہ الاحقر رشید احمد گنگوہی (فتاویٰ رشیدیہ، تالیفات رشیدیہ ،ص:60)

گنگوہی صاحب نے اس فتویٰ میں صا ف لکھا کہ ’’یہ حکایات بظاہر خود کفر اورخلاف قاعدہ شرع کے ہیںخصوصا پہلی حکایت کہ مسلمانوں کو ایسا عقیدہ نہ کرناچاہئے۔

گھمن صاحب!کچھ سمجھے کہ سوال تو ہواتو’’کرامتوں‘‘ کے بارے میں اور فتویٰ میں گنگوہی صاحب نے لکھا:’’ایساعقیدہ نہ کرناچاہئے‘‘ معلوم ہوا کہ کسی قصہ کو ’’کرامت‘‘ کےنام پر بیان کردینے کا یہ مطلب قطعا نہیں ہرگز نہیں کہ اس کا تعلق اب عقیدہ سے نہ رہا،یہ کسی طفل مکتب کا فتویٰ نہیں بلکہ دیوبندیوں کے’’امام ربانی، فقہ العصر، قطب الارشاداور محدث‘‘ گنگوہی صاحب کا فتویٰ ہے۔

مزید سنئے آگے مولوی قاسم علی مراد آبادی صاحب فرماتے ہیں:

فی الحقیقت حکایات مندرجہ سوال کو سائل کرامات حضرت شیخ قدس سرہ اعتقاد کرتا ہے حکایات کا ذبہ مردودۃ الشرع ہیں نہ کرامات مقبولہ حاشا وکلا شان حضرت غوث اعظم قدس سرہ کے ہرگزہرگز مقتضی اس کے نہیں ہے کہ ایسے امور مخالف شرع’’بطور کرامت‘‘ان سے صادر ہوویں کہ منافی ولایت ولی ہیں اس لئے کہ ولی اس مومن کو کہتے ہیں کہ جو عارف بذات اللہ والصفات ہوکر حسب امکان عبادت پرمواظبت کرے اور گناہوں اور شہوات ولذات سے کنارہ کش ہوکرپس اپنے کو عاجز ومغلوب اور ذات احدیث کوقادر وغالب اعتقاد کرنا اور مخالف اس کے عملا بھی کاربند نہ ہونا لازم الولی ہے بناء علیہ جو کہ حکایات اولیٰ اور ثانیہ سے عجز ومغلوبیت خالق الارض والسموات اور غلبہ حضرت شیخ قدس سرہ کاونیز بزور رد کر دیناحکم حضرت رب العالمین کا صریح لازم ہے اور یہ منافی ولایت۔ پس کرامات حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالیٰ سے ہونا ان حکایات کا بالبداہۃ باطل ہے، جوشخص ایسا اعتقاد کرے وہ ملحد ہے، نعوذباللہ من ذ لک نہایت تعجب ان علماء سے ہے کہ جو ان حکایات کاذبہ کو کرامات حضرت شیخ قدس سرہ سے قرار دے کر عوام کالانعام کو گمراہ کریں، نعوذباللہ من شرور انفسنا ومن سیات اعمالنا، فقط

حررہ محمد قاسم علی عفی عنہ مراد آبادی

(فتاویٰ رشیدیہ ،تالیفات رشیدیہ، ص:60تا61)

الغرض یہ طویل فتویٰ جس میں کئی اہل علم نے حصہ لیا اور اکتیس علماء ومفتیان نے اس پر دستخط کرکے اس کی تصدیق وتائید کی اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ’’کرامات‘‘ کےنام پر قرآن وحدیث کی مخالفت جائز نہیں۔

ہم بھی کرسکتے ہیں!

 گھمن’’جس طرح نصیب شاہ،طالب الرحمن یا دیگر مقلدین نے کیا ہے ہم بھی کرسکتے ہیں بالکل ایسی باتیں علمائے غیرمقلدین کی بھی ہیں، اگرغیرمقلدین کا ایسا ہی طرز رہاتو ان شاءاللہ جلد ہی ایک ایسی کتاب اسی طرح کے عنوانات لگاکرشائع کردی جائے گی۔‘‘

(ص:32)

جواب:جی ہاں ایسا کرسکتے ہیں اور سکتے کیا دیوبند مقلدین اور خود الیاس گھمن صاحب نے ایساکیا بھی ،مثال کے طور پر ماسٹرامین اوکاڑوی،ابوبکر غازی پوری اور خود گھمن صاحب کی کتاب ’’فرقہ اہل حدیث پاک وہند کا تحقیقی جائزہ‘‘ دیکھ لیں جو اس کتاب سے پہلے 2008میں شائع ہوئی۔اس کا باب چہارم ہے’’فرقہ اہل حدیث (پاک وہند) کے عقائد ونظریات پھر ،ص:149تک کئی عنوان قائم کرکے مختلف اہل حدیث وغیر اہل حدیث علماء کی کتب کے اقتباسات نقل کئے ہیں اسی طرح ’’باب ششم‘‘ میں بھی کیا ہے، اب اس سے زیادہ اور کیا کرلیں گے کچھ حوالوں اورصفحات کا اضافہ؟کرلیجئے لیکن آپ کی اس عبث جدوجہد کافائدہ اس لئے نہیں کی ایک تو ایسی کتب وشخصیات کے حوالے پیش کئے ہیں جو اہل حدیث کے ہاں سرے سے معتبر نہیں جیسے وحیدالزمان صاحب کی ’’ھدیۃ المھدی ،نزل الابرار، لغات الحدیث وغیرہ یا حکیم فیض عالم صدیقی صاحب کی کتب صدیقہ کائنات وغیرہ یا عنایت اللہ اثری کی کتب جن کی اہل حدیث پہلے ہی تردید کرچکے ہیں۔

باقی جن معتبر اہل علم کی کتب سے کچھ عبارات نقل کی ہیں ان میں اگر کوئی بات غلط ہےتو ہم ایسی باتوں کو غلط ہی کہتے ہیںباطل تاویلات کے ذریعےنہ انہیںدرست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں نہ ہی آپ کی طرح ’’کرامات‘‘ کا نام دے کر انہیں تقدس کا درجہ دیتے ہیں، اگر آپ کرامات کےنام پر کوئی ایسی چیز پیش کریں علماء اہل حدیث کی کتب سے جو نصوص قرآن وسنت کے خلاف ہوں تو ہم صاف الفاظ میں ایسے قصوں کو غلط ہی قرار دیں گے۔

 گھمن:باقی مسائل شرک وبدعت میں علمائے دیوبند کا صحیح نظریہ کیا ہے وہ ہماری اس موضوع پر لکھی ہوئی کتاب سے معلوم ہوجائے گا…جن میں چند کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

ازالۃ الریب عن عقیدۃ علم الغیب ….تبرید النواظر تحقیق الحاظر والناظر…. تحقیق مسئلہ مختار کل یعنی دل کاسرور…. نور وبشر :افادات…. گلدستہ توحید…. تنقید متین برتفسیر نعیم الدین…. اس کے علاوہ بدعات کی تردید میں’’راہ سنت‘‘ ،’’باب جنت‘‘ حکم الذکر بالجہر، اخفاء الذکر، درود شریف پڑھنے کا طریقہ وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔(ص:32,33)

جواب: پھر ان کتب سے انحرافات کی مثالیں دیکھنا ہوتو ہماری کتاب’’کچھ دیر مقلدین دیوبند کےساتھ‘‘ ملاحظہ فرمائیں کہ دیوبندی حضرات بریلویہ کے مقابلہ میں کس طرح پیش آتے ہیں اور اپنے اکابر کے سامنے کیسے ڈھیر ہوجاتے ہیں اور اپنے تمام اصول فراموش کربیٹھتے ہیں یاجانتے بوجھتے چشم پوشی سے کام لیتے ہیں۔

 گھمن:مسئلہ وحدۃ الوجود میں ہمار ا موقف وہی ہے جو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی aنے اپنی مختلف کتابوں میں لکھا۔(ص:33)

جواب: مسئلۃ وحدۃ الوجود کے بارے میں علماء دیوبند کے نظریات پر ہم اپنی کتاب ’’کچھ دیر مقلدین دیوبند کے ساتھ‘‘ میں بحث کرچکے ہیں اس سلسلہ میں غازی پوری صاحب نے نواب صدیق حسن خان aوغیرہ کے حوالے سے جو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ان کا جواب بھی عرض کردیا ہے۔

 گھمن:بزرگوں کی کرامات، کشف والہام ،رویائے صالحہ وغیرہ قرآن وسنت سے ثابت ہیں اور خود غیر مقلد علماء کی کتابیں ایسے واقعات سےبھری پڑی ہیں مثلا:الحیات بعدالمماۃ…مآثر صدیقی… والقاء المنن نواب صدیق حسن خان کی سوانح عمریاں، سوانح عمری مولوی عبد اللہ غزنوی مع مجموعہ مکتوبات ،سوانح حیات مولانا غلام رسول قلعہ میاں سنگھ… جو علمائے غیرمقلدین کے متعلق لکھی گئی ہیں الحمدللہ ہماری ان سب پر نظر ہے اگر فرقہ غیرمقلدین کا یہی طرز رہا توپھر ہم بھی لکھنا جانتے ہیں یہ سیلاب روکنا ان کے لئےمشکل ہوجائے گا۔(ص:34,35)

جواب: نہ کرامات سے انکار ہے نہ ہی رویائے صالحہ سے لیکن ان کے نام پر قرآن وحدیث اور عقیدہ توحید سے متصادم قصے ہیں ان کی تردید کرتے ہیںباقی آپ نے مذکورہ بالاکتب کا جومفصل تذکرہ کیا اس کے جواب میں اتنا ہی کافی ہےکہ یہ سب انسانی کاوشیں ہیں جوغلطیوں سے منزہ ومبرانہیں ان میں موجود کوئی بات کتاب وسنت سے متصادم موجود ہے تو وہ مردود ہے،ہم اس کی دفاع نہیں کریں گے،غلطی کے جواب میں غلطی پیش کرکے اسے صحیح مان لینے کی دعوت باطل ہے۔

تعویذات اور دم وغیرہ کی بحث

 گھمن:غیرمقلدین کے علماء نے اس کام میں بڑا حصہ لیا ہے علمائے دیوبند کےہاں تو کچھ بھی نہیں، حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی aکی اعمال قرآنی پر اعتراض کرنے والے پہلے اپنے گھر کی خبر لیں ،اگر زیادہ نہیں تو کتاب التعویذات المعروف الداء والدواء جو ان کے چودھویں صدی کے مجدد سید نواب صدیق حسن خان نے لکھی ہے دیکھ لیں۔(ص:35)

جواب: مقلدین دیوبند نے تعویذات پر بہرحال زیادہی کام کیا ہے، تفصیل کے شائقین حضرات ’’کچھ دیر مقلدین دیوبند کے ساتھ‘‘ دیکھ لیں اس میں اس عنوان پر کافی بحث ہوچکی ہے جوبات غلط ہے وہ ہمارے یاآپ کے گھر میں آکرتقدس کادرجہ قطعاً نہیں حاصل کرسکتی ، فافھمہ جیدا .

 گھمن:بہرحال بات عقائد علمائےدیوبند سے شروع ہوئی  ہم نے عقائد علمائے دیوبند سے متعلق چند بنیادی باتیں یہاں مقدمہ میں عرض کردی ہیں۔

(ص:36)

جواب:جی ہاں!بات تو عقائد سے شروع ہوئی لیکن گھمن صاحب نے اپنے خیال کے مطابق کچھ بنیادی باتیں کی ہیں ان کی حقیقت ہم نے بھی عرض کردی ہے آگے ان کے عقائد کی متفقہ دستاویز ’’المہند‘‘ پر گفتگوہوگی۔ ان شاءاللہ

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ.

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

گھمن صاحب کی تیسری خیانت  قارئین کرام! گھمن صاحب نےا پنی اس کتاب کے ص:۵۳پر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے