Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » ‎شمارہ اگست » شائستہ،  پُروقار اندازِ گُفتگو 

شائستہ،  پُروقار اندازِ گُفتگو 

معزز قارئین  کرام!

ہمیں آپس میں دھیمیں ،پرُوقار اور شائستہ لہجہ میں بات کرنی چاہیے،چونکہ نرم لہجہ اور نرمی سے گفتگو کرنے سے ہمارے دل میںاچھا اثر پیدا ہوتا ہے،اگر دل میں غصّہ اور نفرت ہو تو قریب بیٹھا ہو ا شخص بھی دور جاکر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔غُصّہ،غضب، تعصب، حسد،بغض ، عناد و نفرت کی وجہ سے دلوں میں مزید فاصلے بڑہ جاتے ہیں جبکہ محبت بھرا رویّہ نرم گفتار دل و دماغ پر انتہایٔی خوشگوار اثر چھوڑتے ہیں، اس لیٔے اگر آپ کسی کی دل میں جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو  پُر تشددشور و غل بھیانک اور غصّے بھری آواز سے نہیں بلکہ نرم گفُتاری  باوقار دھیمی گفتگو سے بات کرنی چاہیے ،چونکہ بادلوں کی ہولناک گرج و چمک سے دل تو دھل جاتے ہیں جبکہ نرم بارش کی باوقار بوندوں سے جسم پر پڑنے والے ٹھنڈے قطرے سکون قلب  عطا کرتے ہیں غصّے کو ’لمحاتی پاگل پن ‘بھی کہا جاتا ہے، چونکہ تجربہ شاھد ہے کہ غصّہ و غضب سے مغلوب الغضب ہوجانا اور قابو سے باہر ہوئے جذبات ایک ایسی خوفناک آندھی اور طاقت کی مانند ہوتے ہیں جو پہلے اپنے آپ کو پھر آس پاس والوں کو تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، کبھی تو غصّہ میں کیٔے ہوئے چند لمحات کے فیصلے برسوں تک بھگتنا پڑتے ہیں، کبھی تو چند لمحات کے جذباتی فیصلوں کے باعث مردوزن میں قتل وغارت جیسے سنگین جرائم وقوع پذیر ہوجاتے ہیں۔تجربہ شاہد ہے کہ فورا ً  غصّہ میں بے قابو ہوکر طلاق دے دینا پھر پچھتاوے کے بعد مُفتی صاحبان کی حاضریاں دیتے رہنا کوئی اچھا کام نہیں ، کبھی تو غضبناک ہونے سے، بلڈپریشر، دماغی فالج اور ہارٹ اٹیک جیسے موذی امراض جسم و جان سے چمٹ پڑتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ’کہ بے قابو غصّہ ہاتھ میں پکڑے ایسے جلتے کوئلے کے ماند ہے جس سے بیک وقت پورا گھرانہ خاکستر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، سچ تو یہ ہے کہ بلاشبہ غُصّہ و غضب دوسرے کی خطا کی سزا اپنے آپ کو دینے کے برابر ہے، مثلاً خود اپنے گھر میں ہر وقت خوف و دہشت کی علامت بنے رہنا ، گھر میں داخل ہوتے ہی گھر والوں کے پسینے چھوٹ جانا ،کلیجہ منہ کو آجانا ، ہرگز معیاری و متوازی زندگی نہیں، ایک جہاندیدہ دانا ہستی کا قول کتنا سچ ہے کہ ’ اپنے جذبات پر خود حکومت کرو نہ کہ تمہارے جذبات تم پر حکومت کرنے لگیںگے، اور تم بے بس بن جاؤگے‘ مشتعل دماغ مصائب و مسائل میں بے پناہ اضافے کا باعث بنتا ہے۔ غُصّہ ایک ایسی خوفناک چنگاری ہوتی ہے جو ابتدائی مراحل میں اگر بجھائی نہ جائے تو  آگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے، غُصّہ ہماری سوچ سمجھ عقل و شعُور کے دروازے تک بند کردیتا ہے، غُصّہ جہالت سے شروع ہوکر پیشیمانی اور ندامت پر جاکر اختتام پذیر ہوتا ہے، غُصّہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کی علامات تکبر ،غُروراور احساس برتری ہوا کرتی ہیں جو مذہبی و اخلاقی لحاظ سے انتہائی مذموم عمل ہے۔ دیکھا جائے تو غُصّہ کی حالت میں انسان کی آنکھیں،کان اور چہرے سُرخ ہوجایا کرتے ہیں، گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں، زبان قینچی کی صورت اختیار کر لیتی ہے دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہوجاتا ہے پھر بدحواسی کے عالم میں گالم گلوچ،الزام تراشی،ہاتھاپائی،مارپیٹ،طلاق، قتل و غارت حتیٰ کہ کبھی تو ’خودکشی‘ کی نوبت بھی آجاتی ہے، غصیلے لوگ پورے معاشرے سے کٹ کر اپنی ضد، انا،لایعنی مباحث اور شکوک و شبہات کے مکمل مریض  بن جاتے ہیں، پھر تنہائی، مایوسی، ناامیدی اور قنوطیت ان کا مقدر بن جاتی ہے، آئے دن ہمارے ہاں جرائم و تشدد پر مبنی ڈرا مے اور فلمیں دیکھتے ہوئے ہماری تحریروں،تقریروں،محاضرات علمیّہ، مجالس اور عدلیہ کے فیصلوں میں بھی غُصّہ جھلکتا ہوا نظر آتا ہے، سیاسی لیڈر جس بے رحمی وشقاوت قلبی سے حریف مخالف کو نیچا دِکھانے کے درپے ہوتے ہوئے جس بدتمیزی اور سفاکی سے ایک دوسرے کی کردار کُشی کرتے ہیں، تقاریر میں گلہ پھاڑتے ہوئے بدترین اخلاقی گراوٹ کے مظاہرے کرتے نظر آتے ہیںوہ کسی سے مخفی نہیں اور نہ ہی کسی مہذب قوم کا یہ شیوہ ہے ،جبکہ دیگر باوقار زیورِ تعلیم سے آراستہ زیرک و ذہین قومیں آپس کے اختلافات، تنازعات کا ہر وقت جائزہ لیتے ہوئے گہمبیر مسائل کا حل نکال کر اعتدال کی راہ اختیار کر تے ہیں تاکہ کسی صورت میںشدید تنازعات،لڑائی  جھگڑے اور قتل وغارت کی کبھی نوبت تک نہ آئے ۔بلاشبہ زندہ معاشروں میں بعض اوقات اختلافات اور تنازعات بھی جنم لیتے ہیں مگر وہ پیھم رواں دواں زندگیوں پر مؤثر نہیں ہوتے، قوم کے باشعور ذہین و زیرک افراد ان کا ڈٹ کر خوبصورت حل بھی تلاش کر لیتے ہیں جس کے باعث سفاکی،انارکی،انتشار و افتراق اور خونریزی کی نوبت نہیں آتی بلکہ باشعور اَقوام و ملل اختلافات تنازعات بڑے شان ،شعّور  اور شائستگی سے برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں،بلکہ وہ تنقید کے باعث بھی آپے سے باہر ہونے کے بجائے اسے مناسب اہمیت دیتے ہوئے اختلاف کرنے والوں سے خوشگوار ماحول میں مذاکرات افہام وتفہیم سے محبت کی راہ پالیتے ہیں، اس طرح یہ معاشرہ زعفران بن کر فکر و فہم، شعور و آگہی کی معطر لہریں اٹھتی نظر آتی ہیں، پھر یہ سماج افکار نُو کے تازہ پھولوں سے معطر ہوجاتا ہے اور محبت و خُلوص اور وُسّعت قلبی کی دلرُبا خوشبو سے پورا معاشرہ مہک اٹھتا ہے لیکن افسوس ہمارے مزاجوں میں اعتدال ،بردباری، سنجیدگی کے بجائے اشتعال ،انتقام اور تصادم کے اجزاء طاقت ور ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مثلاًبعض حضرات غُصّے میں  اتنے لال پیلے ہوجاتے ہیں کہ اگر ان لوگوں کو انکی وہ ’وڈیوز‘ نارمل حال میں دکھائی جائیں تو یہ حضرات یقینا شرم کے مارے پانی پانی ہوکر آپکے سامنے آنے کی بھی ہمت نہیں کریں گے ویسے دیکھا جائے تو غُصّے غضب اور چڑچڑاپن کی کئی وجوہات ہیں:

جن میں تعلیم و تربیت کی کمی،خوفِ خدا کا فقدان، بے روزگاری، ناانصافی،خاندانی رقابتیں، رنجشیں،تلخ مزاجی، تکبر و غرور، جھوٹی اناپرستی، عدم برداشت اورکسی ذات کے خلاف منفی جذبات کی فراوانی نمایاں نظر آتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے سچے مخلص بندے اور حقیقی متقین ہمیشہ عاجزی،انکساری،تواضع اور خاکساری اپنائے ہوئے تکبر اور غُرور کے مرض سے ہمیشہ کلیۃً محفوظ رہتے ہیںچونکہ خود غُصّہ بیج ہے تکبر اور اناپرستی کا۔

اپنی ذات،نفس ،مقام و مرتبہ، خاندان و جاہت، رنگ و نسل اور قوّت و اقتدار پر فخر کرنے والااپنے آپ کو دوسری مخلوق سے ہمیشہ بالاتر سمجھتے ہوئے حق کو پائمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو دوسروں سے ہر لحاظ  بلند و بالا تصور کرتا ہے، جبکہ انسان کو غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کتنا رؤف و رحیم، حلیم و کریم ہے کہ ہم جیسے لاتعدادانسانوں کی نافرمانیاںاور قصور ہمیشہ سے معاف کرتا رہتا ہے۔ لہذا فقط رضائے الٰہی کے خاطر دوسروں کی خطاؤں کو درگذر کرنا نظر عفّو سے نوازنا  رحمان الرحیم کا بیحد پسند یدہ فعل ہے، ایسے حالات و واقعات میں دینی، سیاسی اور سماجی باوقار قائدین کرام کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ ہمیشہ شیرین اور ملائم لہجہ اپنائیں نرم گُفتاری کو سماج میں فروغ دیں۔

ہمیشہ الزام تراشی،دشنام طرازی،گالم گلوچ، بغض و عناد اور تَعصّب و تکبر سے بچتے ہوئے آپس میں مل جل کر گفت و شنید سے مسائل کا حل ڈھونڈیں شائستہ اور باوقار لہجہ اپنائیں، اور اپنے سماج میں قوت برداشت پیدا کریں  اس طرح افتراق و انتشار غُصّہ و غضب کے ساتھ ساتھ ہیجاں میں بھی کمی واقع ہوگی، باہمی اعتماد اور اسلامی رشتے اور اخوت کے بندھن میں سب لوگ یکجا ہوجائیں گے۔

ایسے میں ہمیں براہ راست قرآن و سنت اور آپﷺ کی سیرت و سوانح سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ جیسا کہ ’نفسیات‘ ایک وسیع قابل ذکر اور اہم علم ہے جس کی بنیاد آج سے ۱۴۰۰ سال قبل آنحضرت ﷺ نے رکھی۔آیاتِ ربانی اور احادیث رسولﷺ نفسیاتِ انسانی کے مبادی اُصول وضع کرنے میںکلیدی کردار ادا کرتے ہیں جس سے تعمیر انسانیت  ہوئی ، چونکہ مہذب گُفتگو کرنا اسلام کا ایک زرین اُصول ہے ، اگر تاریخ کا بغائیر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہذب گُفتگو ہی نے اقوام و افراد کو اسلام کا گرویدہ بنایا، چناچہ ارشاد خداوندی سے  واضح ہوتا ہے کہ لوگوں سے اچھے انداز میں گُفتگو کرو، (البقرہ)

تم فرعون کے پاس جاؤ تو اس سرکش سے بھی ’نرمی‘ سے بات کرو شاید وہ سمجھ لے یاڈر جائے ( طٰہٰ۴۳،۴۴) اور یہ کہ مسلمان جب غضبناک ہوتے ہیں تو وہ معاف کرتے ہیں(الشوریٰ) ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ کہ کیا انسان دیکھتا نہیں کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا پھر وہ صریح جھگڑالو بن گیا(یٰسین۷۷)ایسے ہی احادیث نبویہﷺ سے بھی مہذب متمدن شائستہ گفتگو کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے، حضرت عبداللہؓ نے بیان کیا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ’مسلمانوں کو گالی دینا فسق اور جنگ کرنا کفر ہے (بخاری۴۸) ایک اور جگہ جہنم میں جانے والے گناہوں میں ایک گناہ زبان کی بدکلامی شرم گاہ کی خباثتوں کو قرار دیا گیا ہے (ابن ماجہ۴۲۴۶) مزید یہ کہ حضرت سیدنا جریرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی نرمی اور مہذب انداز سے محروم کردیا گیا وہ خیرکثیر سے محروم کر دیا گیا (مسلم۱۶۵۹۸) سب سے افضل اس کا اسلام ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں(بخاری) قرآن و سنت سے جو بات واضح ہو کے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ امت مسلّمہ کی شناخت نرم شائستہ اور مہذب گفتگو سے ہے، چونکہ عظیم قومیں تہذیب ،شائیستگی اور وقاراپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتی لِھٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہر لمحہ مہذب او رشاندارشائستہ گفتگو کی عادت اختیار کریں، سورۃ احزاب میں ارشاد خداوندی ہے کہ ’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو سیدھی بات یعنی مہذب اور شائستہ گفتگو کیا کرو اللہ تعالیٰ تمہارے تمام امور کو سنوار دے گا اور تمہارے تمام گناہ معاف کرے گا‘ مزید یہ کہ سورۃ البقرہ میں ارشاد الٰہی ہے کہ ’قول معروف ‘یعنی مہذب گفتگو اور درگذر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل آزاری ہو، صحیح مسلم میں ایک جگہ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ مہذب گفتگو کرے یا خاموش رہے۔ اسلام میں جہاں مہذب گفتگو کا حکم آیا ہے وہیں فضول لغو لایعنی باتون سے باز رہنے کی بھی تاکید آئی ہے، قرآن عظیم کی روشنی میں کسی نادان کا بھی جواب تلخی سے نہ دیا جائے بلکہ ہر حال میں سلامت روی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، دراصل یہ نرم باوقار شائستہ کلام مخاطب کے قلب پر اثر انداز ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیاں لڑائی جھگڑا اور فساد پیدا نہیں ہوتا، مقصد کہ ایسے فقرے جن میں لَعن، طَعّن ، تَحقّیر و تضّلیل تُرش روئی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہو اُن سے محفوظ رہنا چاہیے بے تکی لَغو باتوں سے حتیٰ المقدور بچنا چاہیے، انسان کی زبان اس کا ذریعہ ’اظہارمافی الضمیر‘ ہے  پھر اس کا اظہار بھی خوشگوار و خوبصورت ہی ہونا چاہیے تویقیناً یہ سلگتی ہوئی دنیا بھی جنت نظیر بن جائے گی۔انسان کی زبان ایسی باوقار اور قیمتی متاع ہے کہ شیرین شائستہ اور مہذب ہو تو کائنات میں دوستی اور محبت کی خوشگوار فضا قائم  ہو گی ، اگر یہ تیز تلخ ،تُرش، طعن وتشیع کی حامل ہو تودشمنیاں اور عداوتیں ہی جنم لیتی ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول کیا خوبصورت ہے کہ ’تلوار کا زخم تو وقت کے ساتھ بھر سکتا ہے، مگر زبان کا دیا ہوا زخم ہمیشہ تر و تازہ ہی رہتا ہے‘اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن عظیم، احادیث رسولﷺ اور سیرت النبیﷺ سے کما حقہٗ استفادہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکے زندگی کے ہر شعبہ حیات میں انفرادی، اجتماعی،معاشی و معاشرتی،مادی و روحانی، سیاسی و سماجی، قومی و بین الاقوامی مواقع پر باوقار، مہذب، شائستہ اور شیرین گفتگو کو اپنا شعار بنا سکیں۔آمین یا ربَ العٰلمین۔

About پروفیسر مولابخش محمدی

پروفیسر مولابخش محمدی،مٹھی تھرپارکر

Check Also

آزادی کے نام پر عریانی کافروغ

افسوس مغرب کی بے رحم آندھی نے مشرقی عورت کا پردہ، عزت، وقار، عصمت کو …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے