قرآن سے علاج

محترم قارئین ! رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

 مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلاَّ أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً.

اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی شفا نازل نہ کی ہو۔ ( صحیح بخاری : 5678 )

شفا و علاج کے حوالے سے سب سے بہترین چیز اللہ رب العالمین کی بابرکت کتاب قرآن حکیم ہے ۔

اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ لَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ  اِلَّا خَسَارًا .

یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے ۔  ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی ۔

(سورہ بنی اسرائیل : 82)

نیز ارشاد ہے :

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ  مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ وَ ہُدًی  وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ .

اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے  اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لئے شفا ہے  اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے ۔

(سورہ یونس : 57)

نیز ارشاد ہے :

قُل هُوَ لِلَّذينَ آمَنوا هُدًى وَشِفاءٌ .

کہہ دیجئے ! کہ یہ ( قرآن ) تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے ۔(سورہ فصلت : 44)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے ك:

أَنَّ رَسُولُ اللهِ  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌دَخَلَ عَلَيْهَا وَامْرَأَةٌ تُعَالِجُهَا أَو تَرْقِيهَا ، فَقَال: عَالِجِيْها بِكِتَاب الله.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان كکے پاس آئے تو ایک عورت ان كکا علاج کر رہی تھی یا انہیں دم کر رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کا علاج اللہ كکی کتاب كکے ذریعے كکرو۔

(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ : 2317)

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

فَكُنْتُ أُعَالِجُ نَفْسِي بِالْفَاتِحَةِ، فَأَرَى لَهَا تَأْثِيرًا عَجِيبًا.

میں نے سورہ فاتحہ سے اپنا علاج کیا اور میں نے شفا کے حوالے سے اس کی بڑی عجیب تاثیر دیکھی ہے۔(الجواب الکافی : 1/9)

قرآن کریم کی آیات ، حدیث رسول اور اثر سلف سے یہ بات بخوبی واضح ہو چکی کہ اللہ تعالی نے مومنوں کے  بیماریوں کے لیے قرآن حکیم میں شفا رکھی ہے ۔

لہذا اب آئیے مختلف امراض کے حوالے کے قرآن مجید کی تاثیر ملاحظہ فرمائیے ۔

1 سورۂ فاتحہ سے زہر کا علاج

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ دوران سفر وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنا لیں، لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار صحیح نہیں ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا : چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آ کر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑ کی چیز ان کے پاس ہو۔ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا : بھائیو ! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی ہے لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟ ایک صحابی نے کہا : قسم اللہ کی ! میں اسے دم کروں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا ، اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیردم نہیں کرتا، آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور ’’الحمد لله رب العالمين‘‘پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا ۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کر دی۔ کسی نے کہا : اسے تقسیم کر لو، لیکن جنہوں نے دم کیا تھا، وہ بولے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کر لیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ سب حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ قَدْ أَصَبْتُمُ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .

تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ (صحیح بخاری  : 2276)

2سورہ فاتحہ سے جنون کا علاج

خارجہ بن صلت تمیمی رضی اللہ عنہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں :

أَقْبَلْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْنَا عَلَى حَيٍّ مِنْ الْعَرَبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّا أُنْبِئْنَا أَنَّكُمْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِ هَذَا الرَّجُلِ بِخَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَهَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ دَوَاءٍ أَوْ رُقْيَةٍ فَإِنَّ عِنْدَنَا مَعْتُوهًا فِي الْقُيُودِ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقُلْنَا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَاءُوا بِمَعْتُوهٍ فِي الْقُيُودِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً كُلَّمَا خَتَمْتُهَا أَجْمَعُ بُزَاقِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتْفُلُ فَكَأَنَّمَا نَشَطَ مِنْ عِقَالٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَعْطَوْنِي جُعْلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَا حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كُلْ فَلَعَمْرِي مَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ  .

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے اور عرب کے ایک قبیلہ کے پاس آئے تو وہ لوگ کہنے لگے : ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ اس شخص کے پاس سے آ رہے ہیں جو خیر و بھلائی لے کر آیا ہے تو کیا آپ کے پاس کوئی دوا یا دم ہے؟ کیونکہ ہمارے پاس ایک دیوانہ ہے جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے، ہم نے کہا : ہاں ! تو وہ اس مجنون کو بیڑیوں میں جکڑا ہوا لے کر آئے، میں اس پر تین دن تک سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کرتا رہا، اور وہ صحیح ہو گیا جیسے کوئی قید سے چھوٹ گیا ہو، پھر انہوں نے مجھے اس کی اجرت دی ۔ میں نے کہا : میں نہیں لوں گا جب تک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہ لوں، چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : کھاؤ ! قسم ہے مجھے عمر دینے والے کی ! لوگ تو جھوٹا دم کر کے کھاتے ہیں تم نے تو جائز دم کر کے کھایا ہے ۔ (سنن  ابي داود  : 3901)

ایک روایت کے لفظ ہیں :

الْآيَتَانِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ مَنْ قَرَأَهُمَا فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ .

جو شخص رات کو سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے وہ اس کے لیے (ہر شئی سے) کافی ہو جاتی ہیں ۔ (صحیح بخاری : 4008)

3معوذتين سے زہر کا علاج

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كکہ ،

لَدَغَتِ النَّبِيَّ  صلی اللہ علیہ وسلم عَقْرَبٌ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَلَمَا فَرَغَ قَالَ : لَعَنَ اللهُ الْعَقْرَبَ ، لَا تَدَعُ مُصَلِّيًا ، وَلَا غَيْره ، ثم دَعَا بِمَاءٍ وَمِلْحٍ ، وَجَعَل يَمْسَحُ عَلَيْهَا ، وَيَقْرَأُ : قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ قُلۡ ہُوَ اللّٰه اَحَدٌ  .

نبی صلی اللہ علیہ وسلم كکو نماز كکی حالت میں ایک بچھو نے ڈس لیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت كکرے، نمازی اور غیر نمازی كکا لحاظ ہی نہیں كکرتا۔ پھر پانی اور نمک منگوایا اور زخم پر ملنا شروع كکر دیا اور (سورۃ الکافرون، الفلق اور الاخلاص) پڑھنے لگے(سلسلۃالاحاديث الصحیحۃ : 2337)

4معوذتين سے جنات اور نظر بد کا علاج

سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كکہ ،

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنَ الْجَانِّ وَعَيْنِ الْإِنْسَانِ حَتَّى نَزَلَتِ الْمُعَوِّذَتَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا نَزَلَتَا أَخَذَ بِهِمَا وَتَرَكَ مَا سِوَاهُمَا .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنوں اور انسان کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے ، یہاں تک کہ معوذتین ( سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ) نازل ہوئیں، جب یہ سورتیں اتر گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو لے لیا اور ان کے علاوہ کو چھوڑ دیا ۔(سنن ترمذی : 2058)

5معوذتين سے جادو کا علاج

سیدنا زید بن ارقم  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كکہ ،

ایک ( یہودی ) شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتا تھا ، اس شخص نے آپ پر جادو کی گرہیں لگا کر ایک انصاری کے کنویں میں رکھ دیں ۔ آپ اس جادو کی وجہ سے کچھ دن بیمار رہے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے  آپ چھ ماہ بیمار رہے دو فرشتے آپ کی عیادت کرنے آئے، ایک آپ کے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا آپ کے پاؤں کے پاس ، ایک نے کہا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے کہا : فلاں یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتا تھا، اس نے آپ پر جادو کر دیا ہے، اور فلاں انصاری کےکنویں میں پھینک دیا ہے۔ اگر آپ وہاں کسی آدمی کو بھیجیں اور وہ اس گرہ کو اس میں سے نکال لے تو وہ دیکھے گا کہ کنویں کا پانی زرد ہوچکا ہے۔ پھر جبریل علیہ السلام آپ کے پاس معوذتین لے کر آئے اور کہنے لگے : فلاں یہودی نے آپ پر جادو کر دیا ہے اور وہ جادو فلاں شخص کے کنویں میں ہے ، آپ نے ایک آدمی کو بھیجا اور ایک روایت میں ہے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا انہوں نے دیکھا کہ پانی زرد ہو چکا ہے ۔ انہوں نے وہ گرہیں اٹھائی اور آپ کے پاس لے آئے  جبریل علیہ السلام نے آپ سے کہا : آپ آیت پڑھتے جائیں اور گرہ کھولتے جائیں ۔

فَجَعلَ يَقْرَأ وَيَحِل فَجَعَلَ كُلَّمَا حَلَّ عُقْدَةً وَجَدَ لِذَلِكَ خِفَّةً فَبَرَأَ، وفي الطريق الأخرى فَقَامَ رَسُول اللهِ كَأَنَّمَا نَشَطَ مِنْ عِقَالٍ .

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہ کھولی اور قرآن پڑھنا شروع کردیا اور گرہ کھولتے رہے آپ جب بھی کوئی گرہ کھولتے تو آپ تخفیف محسوس کرتے پھر آپ تندرست ہوگئے اور دوسری روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کھڑے ہوگئے جس طرح رسیوں سے کھولے گئے ہوں ۔(سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ : 2894)

ایک روایت میں ہے :

سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ،

خَرَجْنَا فِي لَيْلَةِ مَطَرٍ وَظُلْمَةٍ شَدِيدَةٍ نَطْلُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ لَنَا فَأَدْرَكْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَصَلَّيْتُمْ ؟ فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ قُلْ فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْ،‏‏‏‏ فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا أَقُولُ ؟ قَالَ :‏‏‏‏ قُلْ :‏‏‏‏ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏حِينَ تُمْسِي وَحِينَ تُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ.

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بارش کی ایک سخت اندھیری رات میں نماز پڑھانے کے لیے تلاش کرنے نکلے، تو ہم نے آپ کو پا لیا، آپ نے فرمایا : کیا تم لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے کوئی جواب نہیں دیا، آپ نے فرمایا : کچھ کہو اس پر بھی ہم نے کچھ نہیں کہا ۔ آپ نے پھر فرمایا : کچھ کہو ( پھر بھی ) ہم نے کچھ نہیں کہا ۔ پھر آپ نے فرمایا : کچھ تو کہو ! میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا کہوں ؟ آپ نے فرمایا : قل هو الله أحد اور معوذتین تین مرتبہ صبح کے وقت، اور تین مرتبہ شام کے وقت کہہ لیا کرو تو یہ تمہیں ( ہر طرح کی پریشانیوں اور بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ) کافی ہوں گی۔ (سنن ابی داؤد : 5082)

ایک روایت ميں ہیں :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :

أنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ،‏‏‏‏ نَفَثَ فِي يَدَيْهِ،‏‏‏‏ وَقَرَأَ،‏‏‏‏ وَمَسَحَ بِهِمَا جَسَدَهُ .

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر لیٹتے تو اپنے دونوں ہاتھوں میں پھونک مارتے، اور معوذتین : قل أعوذ برب الفلق ، قل أعوذ برب الناس پڑھتے اور انہیں اپنے جسم پر پھیر لیتے ۔ (سنن ابن ماجۃ : 3875)

6سورہ اخلاص سے وسوسوں کا علاج

سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كکہ ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لوگ ایک دوسرے سے برابر سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا، اللہ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ لہٰذا تم میں سے کسی کو اس سلسلے میں اگر کوئی شبہ گزرے تو وہ یوں کہے : میں اللہ پر ایمان لایا ۔

(نیز فرمایا :

فَإِذَا قَالُوا ذَلِكَ فَقُولُوا : اللَّهُ أَحَدٌ ‏‏‏‏اللَّهُ الصَّمَدُ ‏‏‏لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ‏‏‏‏وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ‏‏‏‏، سورة الإخلاص آية ، ثُمَّ لِيَتْفُلْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏وَلْيَسْتَعِذْ مِنَ الشَّيْطَانِ  .

جب لوگ ایسا کہیں تو تم کہو : الله أحد ، الله الصمد ، لم يلد ولم يولد ، ولم يكن له كفوا أحد . اللہ ایک ہے وہ بے نیاز ہے ، اس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے ۔ پھر وہ اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوکے اور شیطان سے پناہ مانگے ۔ (سنن ابی داؤد : 4721 ، 4722)

محترم قارئین ! آپ نے قرآن حکیم کی تاثیر اور اس کی برکتیں ملاحظہ فرمائیں تو اب آئیں اس عظیم  کتاب کی تلاوت کریں ، اسے حفظ کریں اور اس پر عمل کرکے اپنے دکھ درد کا علاج کریں ۔اور دنیاوی واخروی کامیابی سے ہمکنارہوںاللہ تعالیٰ توفیق عطافرمائے۔

About منظور احمد جمالی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے