احکام ومسائل

نانی کی وراثت

محترم جناب مفتی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گزارش یہ ہے کہ میرے نانا کاانتقال ہوچکا ہے ،ان کی وراثت میںایک مکان تھاجو میرے نانا کے نام تھا میری والدہ کا بھی انتقال ہوچکا ہے ،نانا کے مرنے کے بعد ابھی ایک سال پہلے نانی کا انتقال ہوا ہے، پھر یہ مکان میری بڑی خالہ کےنام کروایا،اور اس مکان کو بیچ دیاجوکہ 6.000.000لاکھ ،میں فروخت ہوا ،ان میں حصے دار ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں، اور ایک بیٹی مرحومہ ہے، مرحومہ کے پانچ بچے ہیں ،دوبیٹیاں اور تین بیٹے اور اس مرحومہ کا انتقال میری نانی کے سامنے ہوا تھا اور نانی اپنے بچوں کے سامنے کہتی تھیں کہ میں اس مرحومہ بیٹی کے بچوں کو بھی حصہ دونگی۔

اس مسئلہ میں راہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ جائیداد ان ورثاء کے درمیان کیسےتقسیم ہوں گی۔(سائل:عبدالواحد)

J

الجواب بعون الوہاب

صورت مسئولہ برصحت سؤال

سائل عبدالواحدنے اپنےنانا کی وراثت کے تعلق سے جوصورت حال تحریر کی ہے، اس کی وضاحت ہم ذیل میں قدرے تفصیل سے تحریر کرتے ہیں،بتوفیق اللہ تعالیٰ وعونہ سب سے پہلے نانا کی وراثت سے ان کی بیوہ اوراولاد میں تقسیم کی جائے گی لہذا پہلے مرحوم کے ترکہ 60لاکھ سے ان کی بیوہ کاحصہ نکالا جائے گا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:[فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ ](النساء:۱۲) یعنی مرحوم کی اولاد ہونے کی صورت میں ان کی بیویوں کاحصہ آٹھواں ہے، مرحوم کے کل مال سے آٹھواں حصہ ان کی بیوہ کودیاجائے گا جو کہ 7,50,000ساڑھے سات لاکھ روپے ہے ،پھر بقیہ ساڑھے باون لاکھ روپے کو بموجب فرمان باری تعالیٰ :

[لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ۝۰ۚ ](النساء:۱۱)

یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولادوں کےتعلق سے تاکیداً حکم دیتا ہے کہ بیٹے کاحصہ بیٹی کی بنسبت دوگناہے۔

مذکورہ قاعدہ کےمطابق کل مال چھ(6)حصوں میں تقسیم کردیا جائے ہر ایک بیٹی کے حصہ میں 8,75,000آٹھ لاکھ پچھتر ہزار روپے اور بیٹے کے حصے میں 17,50,000ساڑھے سترہ لاکھ روپے آئیں گے۔

اس کے بعد نانی یعنی مرحومہ کی بیوہ کے حصے میں جو رقم آئی تھی اس کو مذکورہ قاعدے جو کہ سورہ نساء کی آیت نمبر11میں بیان ہوا ،پانچ (5)حصوں میں تقسیم کردیاجائے اس لئے کہ ایک بیٹی فوت ہوچکی تھی، یوںہر ایک بیٹی کے حصہ میں والدہ کے حصے میں سے 1,50,000 ڈیڑھ لاکھ روپے آئیں گے ،جبکہ ایک بیٹے کو تین لاکھ (3.00.000) ملیں گے۔

اور اگر تینوں بیٹیاں اور ایک بیٹا اپنی والدہ محترمہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے جیسا کہ وہ یہ کہتی تھیں کہ میں اپنی مرحوم بیٹی کے بچوں کو بھی حصہ دوں گی ،اگر تینوں بیٹیاں اپنے اپنے حصے میں سے 25ہزار روپے نکالیں اور بھائی اپنے حصے میں سے 50,000روپے نکالیں تو یہ ٹوٹل رقم ایک لاکھ پچیس ہزار (1,25.000)روپے بن جاتی ہے،جوکہ مرحومہ کے ترکہ میں جمع کردی جائےتو یہ بہتر ہوگا،حسن سلوک کے اعتبار سے بھی اور والدہ محترمہ کی وصیت کو پورا کرنے کے اعتبار سے بھی۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب.

رب کریم ہمیں جمیع معاملات میں قرآن وسنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

کورٹ میرج

محترم جناب مفتی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مفرور لڑکیاں بغیر اذن ولی کے شادیاں کرتی ہیں کیا ان شادیوں میں نکاح ہوتا ہے یانہیں؟

کچھ وقت گزرنے کے بعد ولی کو قائل کرنے کے بعد کیاتجدید نکاح کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں؟ مدلل جواب سے رہنمائی فرمائیں۔(سائل :امام الدین)

J

الجواب بعون الوہاب

صورت مسئولہ برصحت سؤال

جہاں تک بغیر ولی کے نکاح کا مسئلہ ہے تو اس بارے میں نصوص شرعیہ سے یہی واضح ہوتا ہے کہ بغیر ولی کی اجازت کےنکاح منعقد نہیں ہوتا۔

دلیل نمبر۱:ارشاد باری تعالیٰ ہے:[وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۝۰ۭ](البقرہ:۲۲۱)

یعنی تم مشرکین کے نکاح میں نہ دو(اپنی بہن یابیٹی کو) جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔

دلیل نمبر۲:ارشاد باری تعالیٰ ہے:[فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ ]

(البقرۃ:۲۳۲)

یعنی تم(اولیاء کو خطاب ہے) ان عورتوں کو جن کو ان کے شوہروں نے ایک طلاق دی ہے اور عدت گزر چکی ہے دوبارہ اس شوہر سے نکاح سے نہ روکوجبکہ یہ باہم رضامند ہوگھربساناچاہتے ہو،ان دونوں آیات میں وضاحت کے ساتھ ولی کی اہمیت کو بیان کیاجارہاہے۔

دلیل نمبر۳: رسول اللہ ﷺ کافرمان:[لانکاح الابولی] (جامع ترمذی) یعنی بغیر ولی کے نکاح نہیں ہوتا۔

دلیل نمبر۴: مزید ایک روایت میں فرمایا:

[ایما امرأۃ نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل](جامع ترمذی)

یعنی جو عورت بھی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ،اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔(تین مرتبہ یہ کلمات دہرائے)

مذکورہ دلائل کی روشنی میں بغیر ولی کی اجازت کے جو نکاح ہوگا وہ شرعادرست نہیں ہے اگر بعد میں ولی راضی بھی ہوجائے تو پھر تجدید نکاح ہوگا، کیونکہ پہلانکاح ہی نہیں ہواتھا۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب.

رب کریم ہمیں جمیع معاملات میں قرآن وسنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

About حافظ محمد سلیم

مفتی جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

احکام ومسائل

مسئلہ وراثت محترم جناب مفتی صاحب! گزارش یہ ہے کہ وراثت کے معاملے میں کچھ رہنمائی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے