Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ ستمبر » قسط 195 بدیع التفاسیر

قسط 195 بدیع التفاسیر

قسط 195 ۔۔۔ احسن الکتاب فی تفسیر ام الکتاب شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

الطاعۃ: اتباع(پیروی) کرتے ہوئے کسی حکم کی موافقت کرنا۔
الطبع: غیرارادی طور پر کسی حالت کا انسان کے اوپر واقع ہونا نیز طبع باء کے جزم کے ساتھ وہ طبیعت یا فطرت جس پر انسان کو پیداکیا گیا ۔
الطریق: وہ راستہ جسے صحیح وسالم نظر کے ساتھ دیکھ کر اپنے مقصود تک پہنچنا ممکن ہو ۔
الطریقۃ: وہ راستہ جس پر شریعت کےمطابق سلف صالحین گامزن رہے، صوفیوں کے نزدیک ایک خاص طریقہ ہے جس کے ان کے پاس مختلف درجات ہیں۔
الظاھر: وہ کلام جس کی مراد سننے سے ظاہر معلوم ہو، فقہاء کے نزدیک جس کی مراد سمجھ میںآئے اسے ظاہر کہتے ہیں مگر اس میں تخصیص وتاویل کا احتمال موجودہو۔
الظرفیۃ: کسی چیز کا دوسری چیز میں داخل ہونا حقیقی ہومثلاً: الماء فی الکوز ،کوزے میں پانی ہے، یا مجازی ہومثلاً: النجاۃ فی الصدق، سچ میں نجات ہے۔
الظن:ایسے غالب گمان کو کہتے ہیں جس میں دوسری طرف کا احتمال بھی موجود ہونیز کبھی شک اور کبھی یقین کو کہاجاتاہے۔
العامل: جس کے داخل ہونے سے کلمے کاآخری اعراب معلوم ہو یا تبدیل ہوتارہے۔
العادۃ: لوگوں میں عام جاری ہونے والی رسم جسے باربار کیاجائے۔
العاذریۃ: ایک فرقہ جو لوگوں کو فروعی مسائل میں عدم واقفیت پر معذور تصور کرتے ہیں۔
عبارۃ النص:وہ معنی یامفہوم جس کیلئے عبارت کاسیاق ہو۔
العبث: ایسا عمل جس کا کوئی فائدہ نہ ہو یا کرنے والے کی اس سے کوئی صحیح غرض یا مقصد نہ ہو۔
العجمہ: جو کلمہ عربی وزن پر نہ ہو۔
العدل: نہ بڑھانا اور نہ گھٹنا بلکہ دونوں کےد رمیان انصاف کرنا، علماء نحو کے نزدیک کسی اسم کا اپنے اصلی صیغہ سے نکل کر کسی دوسرے صیغے کی طرف آنا پھراگر وہ کسی قاعدے وقانون کےتحت ہو تو عدل حقیقی ہوگا ورنہ عدل تقدیری۔
العدد: گنتی کو کہتے ہیں جس میں اکائیاں او دہائیاں یا دونوں جمع ہوتی ہیں۔
العرض: ہر موجود چیز جو اپنے محل کی محتاج ہو اور اس سے قائم رہے مثلاً:رنگ اس کے قائم ہونے کیلئے ضروری ہے کہ کوئی جسم ہو۔ نیز عرض چوڑائی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
العروض: کسی شعر کے پہلے مصرعہ کاآخری حصہ نیز یہ ایک مشہور فن ہے جس کے اشعار کے اوزان سے متعلق بحث ہوتی ہے۔
(محیط الدائرہ،ص:۲)
العرف: ایسا عمل جسے طبیعتیں قبول کریں، عقل کی گواہی کےساتھ دل اس پر مطمئن ہو نیز جس کا بہتر اور اچھاہونا معروف ہو۔(المفردات للراغب،ص:۳۲۵)
العزیمۃ: بمعنی پختہ ارادہ، شرعی اصطلاح میں دینی مسائل کے اصلی حکم کو کہتے ہیں۔
العصبۃ: اس کی جمع عصبات ہے میت کے وہ ورثاء جن کا تعلق اس کے (داداکی طرف کے)رشتہ داروں سے ہو مگر ان کے لئے شریعت میں کوئی حصہ مقرر نہ کیاگیاہو۔
العصمۃ: قدرت وطاقت(اسباب وسائل) رکھتے ہوئے بھی گناہوں سے بچنا۔
العطف: وہ تابع جو اپنے متبوع کے ساتھ کسی ایسے معنی پر دلالت کرے جس سے کوئی نسبت مقصود ہو مثلاً:قام زید وعمرو.اس مثال میں عمروتابع اور زید متبوع ہے دونوں کی طرف قیام(کھڑا ہونے) کی نسبت کی گئی دونوں کےد رمیان واؤ کو حرف عطف کہتے ہیں۔
العقل: وہ روحانی جوہر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں تخلیق فرمایا ہے نیز ایسی قلبی روشنی جس سے حق وباطل کے درمیان تمیز کی جاسکے اور جس سے اشیاء کی حقیقتیں معلوم کی جائیں، نیز وہ قوت جو علم ومعرفت کو قبول کرنے کیئے تیار ہونے والی ہو۔جس علم سے اس قوت کے ذریعے فائدہ حاصل کیاجاسکے اسے عقل کہاجاتاہے۔
(المفرادت الراغب،ص:۳۴۶)
العقائد: العقیدہ کی جمع جس سے مقصود صرف اعتقاد ہو۔
العلۃ: جس پر کسی چیز کا وجود موقوف ہو، جس جگہ یہ پیش آئے تو اس میں تبدیلی واقع ہو، اس لئے بیماری کو علت کہاجاتاہے کہ ا س سے انسان کی حالت بدل جاتی ہے۔
العلم: بمعنی جاننا، ایسا پکا اعتقاد جو وقوعہ کے مطابق ہو اور علم کی دو قسمیں ہیں،القدیم جو اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات کےساتھ قائم ہے یہ انسانی علم کے ساتھ مشابہ نہیں ہے بلکہ بے مثال ہے، دوسرا مخلوق کاعلم ہے جسے حادث کہاجاتاہے، جس میں عربی کے احوال سے بحث ہو اسے علم المعانی کہتے ہیں،علم البیان وہ ہے جس سے ایک ہی معنی کو متعدد طریقوں سے لانا معلوم ہو اور ان میں دلالت بھی واضح ہو، علم بدیع جس کے صحیح واضح ہونے کے ساتھ اس کی بہتری وخوبصورتی معلوم ہو، نیز علم الکلام وہ ہے جس میں اسلامی قواعد کے تحت کسی موجود کے اعراض ذاتیہ سے بحث کی جائے۔
العمریۃ: عمرو بن عبید کی جماعت جو عثمان وعلیwکے معاملے میں دونوں جماعتوں کوفاسق کہتے ہیں۔
العموم: کسی لفظ کا اپنے تمام افراد کو شامل ہونا یااحاطہ کرنا۔
العنصر:اس کی جمع العناصر ہے وہ چار اصل زمین،پانی،آگ اور ہواء جن کے ملنے سے مختلف الطبع اجسام بنتے ہیں۔
العنادیۃ: جو اشیاء کی حقیقتوں کواعتقاد کے تابع قراد دیتے ہیں مثلاً: جس چیز کوہم نے جوہرسمجھا وہ جوہر ،جسے قدیم سمجھا وہ قدیم اور جسے حادث سمجھا وہ حادث ہے۔
العھد: کسی چیز کو یاد کرنا او دل میں بٹھانا، اسی طرح پختہ ارادے کو بھی کہاجاتاہے، نیز ایسی چیز کاذہن میں آنا جس کا پہلے ذکر نہ ہو اسے عہد ذہنی اورجس کاذکر پہلے سےموجود اسے عہد خارجی کہتے ہیں۔
الغایۃ: جس کی وجہ سے کسی چیز کا وجود ہو۔
الغربۃ: ایسا نامانوس کلمہ جس کامعنی ظاہر نہ ہو نہ ہی وہ عام مستعمل ہو۔
الغریب: وہ روایت جس کی سند میں کسی نہ کسی زمانہ(طبقہ) راوی ایک سے زیادہ نہ ہو۔
الغرابیۃ: جو علیtکو رسول اللہ ﷺ سےاس قدر مشابہ قرار دیتے ہیں کہ جس طرح دو کوّے آپس میں مشابہ ہوتے ہیں،ایسی قبیح تشبیہ دینے کی وجہ سے ان کا نام الغرابیۃ مشہور ہے، کہتے ہیں کہ اسی تشبیہ کی وجہ سے جبریلuسےغلطی ہوئی کہ وہ محمدﷺ کی طرف چلاگیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے علی tکی طرف بھیجاتھا۔
الغفلۃ: نفس کا ہرخواہش کے تابع ہونا نیز کسی چیز کےذہن میں نہ آنے کو بھی کہتے ہیں۔
غیرمنصرف: وہ کلمہ جس کے آخر میں تنوین یاکسرہ(زیر) نہ آئے اس لئے کہ اس میں منع صرف کے (۹) اسباب میں سے دو سبب یا ایسا کوئی ایک سبب جو دوکے قائم مقام ہوتا ہے،وہ موجود ہو ،وہ نواسباب یہ ہیں:
(۱)عدل(۲) وصف(۳) تانیث (۴)معرفہ (۵)عجمہ (۶)جمع(۷)ترکیب(۸)وزن فعل(۹)الف ونون زائدتان
الفاسد: بمعنی الباطل جواصلاً درست نہ ہو یا وہ چیز جوشرعاً صحیح نہ ہو۔
الفاعل: جس کی طرف فعل کی نسبت کی جائے یا کسی فعل کے مشابہ کی نسبت کی جائے جو اس کے ساتھ قائم ہو۔
الفرض: جس کا ترک کرنا موجب عذاب یا ملامت ہو، بعض فقہاء نےیہ تعریف کی ہے کہ :جس کاثبوت ایسی قطعی دلیل سے ہو جسمیںکوئی شک وشبہ نہ ہو۔
الفرائض: ایسا علم جس سے میت کے ترکہ کی تقسیم کیلئے مقررہ حصص معلوم ہوں ۔
الفراسۃ: لغتاپختہ اور تحقیقی نظر کو کہتے ہیں، اصطلاحاً قرائن سے کسی چیز کو معلوم کرنا ۔
الفرد: جو ایک چیز کے علاوہ کسی دوسری کو شامل نہ ہو۔
الفرع: جو کسی اصل پر مبنی ہو۔
الفرقان: ایسا تفسیری علم جوحق وباطل میں تمیز کرے۔
الفصاحۃ: بمعنی ظاہر کرنا یا بیان کرنا اصطلاحاً وہ جس میں کوئی بھی نامانوس لفظ نہ ہونہ ہی مضمون خلاف عقل ہو، سلسلہ کلام اور اس کی ترکیب کمزور نہ ہو،نیز دوران گفتگو ایسے کلام کو کہتے ہیں جس میں متکلم کی ادائیگی الفاظ وغیرہ واضح ہو۔
الفعل: کسی بھی کام کو کہاجاتاہے، علماء نحو کے نزدیک وہ کلمہ جو خود اپنا معنی بیان کرے اور اس میں تین زمانوں میں سے کوئی زمانہ پایا جائے۔
الفقہ: لغتاً ہر وہ کلام جس سے متکلم کی مراد سمجھ میں آئے، فقہاء کی اصطلاح میں وہ علم جس میں تفصیلی دلائل کے ذریعہ شرعی احکام معلوم کرنا۔ امام ابن خزیمہ کتاب التوحید صغیر،ص:۲۲میں فرماتے ہیں کہ:
ولایکون الفقیہ فقیھا حتی یعلم الادب والحدیث ویقرأ تفسیر القرآن والناسخ والمنسوخ….آہ
یعنی: جب تک کسی عالم کو ادب،حدیث،تفسیر اور ناسخ ومنسوخ کا علم نہ ہو اسے عالم قرار نہیں دیاجاسکتا۔
الفلسفہ: عموماً یہ کلمہ حکمت ودانائی کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے مگر لغتِ یونان میں اس کامعنی یہ ہے: التشبیہ بباری تعالیٰ علما وعملا(حاشیہ عین القضاۃ علی المیبندی،ص:۱۱)یعنی علم وعمل میں باری تعالیٰ کے مشابہ ہونا اس فن سے یہی مراد ہے۔
الفھم: مخاطب کے کلام سے ذہن میں کوئی معنی سمجھنا۔
القانون: وہ کلی امر جو اپنے تمام اجزاء پر منطبق ہو جس سے اس کے احکام معلوم ہوں اسے القاعدہ بھی کہاجاتاہے۔
القافیۃ: شعر کاآخری حرف یاجملہ۔
القدیم: ایسے موجود کو کہتے ہیں جس کاوجود کسی اور چیز پرموقوف نہ ہو۔
القدریہ:وہ جماعت جن کانظریہ ہے کہ بندہ اپنے فعل کاخود خالق ہے، کفر وگناہ کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے نہیں ہے۔
القرینہ: جس سے مطلوب چیز کی طرف اشارہ کیاجائے۔
القضیہ: وہ قول جس کے متکلم کو سچایاجھوٹا قراردیناصحیح ہو۔
القضاء: بمعنی الحکم، اصطلاحاً شرعی حکم یافیصلے کو کہاجاتاہے۔
(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے