Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ نومبر » اربعینِ نووی حدیث نمبر 24 قسط 56

اربعینِ نووی حدیث نمبر 24 قسط 56

یقول الإمام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ فی باب تحریم الظلم: حدثنا عبداللہ بن عبدالرحمن بن بھرام الدارمی، حدثنا مروان(یعنی ابن محمد الدمشقی) حدثنا سعید بن عبد العزیز عن ربیعۃ ،عن أبی إدریس الخولانیٍ، عن أبی ذر، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، فیما روی عن اللہ تبارک وتعالیُٰ: یا عبادی! إنی حرمت الظلم علی نفسی وجعلتہ بینکم محرما، فلا تظالموا،یا عبادی ! کلکم ضال إلا من ھدیتہ، فاستھدونی أھدکم، یاعبادی!کلکم جائع إلا من أطعمتہ، فاستطعمونی أطعمکم، یا عبادی! کلکم عار إلا من کسوتہ، فاستکسونی أکسکم، یاعبادی! إنکم لن تبلغوا ضری فتضرونی، ولن تبلغوا نفعی فتنفعونی، یاعبادی! لو أن أولکم وآخرکم ،وإنسکم وجنکم ،کانوا علی أتقی قلب رجل واحد منکم ما زاد ذلک فی ملکی شیئا، یاعبادی!لو أن أولکم وأخرکم وإنسکم وجنکم ،کانوا علی أفجر قلب رجل واحد مانقص ذلک من ملکی شیئا،یاعبادی لو أن أولکم وأخرکم وإنسکم وجنکم قاموا فی صعید واحد فسألونی، فأعطیت کل إنسان مسألتہ، مانقص ذلک مما عندی إلا کما ینقض المخیط إذا أدخل البحر، یاعبادی!إنما ھی أعمالکم أحصیھا لکم، ثم أوفیکم إیاھا، فمن وجد خیرا فلیحمد اللہ ، ومن وجد غیر ذلک فلایلومن إلا نفسہ.ی
اس حدیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں،بروایت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نقل فرمایا ہے،امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اپنی جامع میں، بتغییرِالفاظ اسے ذکرفرمایا ہے، اس کے علاوہ یہ حدیث مسنداحمد بن حنبل میں، ابوذر غفاری رضی االلہ عنہ کی مسند میں موجودہے۔ امام طبرانی رحمہ اللہ نے،ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت سے ،اس حدیث کو بیان فرمایا ہے،مگر اس کی سند ضعیف ہے۔
اس حدیث کے بہت سے خصائص ہیں،امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’ھو أشرف حدیث لأھل الشام‘‘یعنی: شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔اس حدیث کے تمام راویوں کا تعلق شام کے شہر دمشق سے ہے؛اسی لئے اس حدیث کو مسلسل بالدمشقیین کہاجاتاہے،اوریہ چیز سند کے لطائف ومحاسن میں شمار ہوتی ہے؛کیونکہ جب کسی حدیث کی سند کے تمام راوی ایک ہی شہر کے ہوں تو ان کے آپس میں لقاء کا معاملہ آسانی سے ثابت ہوجاتاہے،برعکس اس کے کہ سند کے رواۃ کے علاقے مختلف ہوں،مثلاً شاگرد بغداد کاہواور اس کاشیخ نیشاپورکاہوتو پھر ان کے آپس کے لقاء کا اثبات قدرے مشکل ہوجاتاہے؛کیونکہ بغداد اور نیشاپور میں ہزاروں میل کی مسافت پائی جاتی ہے۔اسی لئے شارحینِ حدیث،اثناءِ شرح اگر کسی سند کے تمام راوی ایک علاقے کے پاتے تو اس چیز کو لطائفِ اسناد میں بطورِ خاص ذکر کرتے،مثلاً: یوں کہتے:رواۃ ھذا الحدیث کلھم بصریون یاشامیون یا حجازیون وغیرہ،حافظ ابن حجرaکی فتح الباری شرحِ صحیح بخاری میں جابجا اس نمونے کا کلام موجودہے۔
اس حدیث کے اشرف ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ابوذرغفاریtکے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،چنانچہ امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کان أبو إدریس الخولانی إذا حدث بھذا الحدیث جثا علی رکبتیہ .
واضح ہوکہ امام احمد بن حنبل کے قول کے مطابق اس حدیث کے اشرف ہونے، نیز ابوادریس خولانی کے اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے دوزانو بیٹھنے کی وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ نے اسے اربعین نوویہ میں شامل فرمایاہے،اور حافظ ابن رجب الحنبلی البغدادی نے اس حدیث کوبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم میں شمار کرتے ہوئے،اس کی نفیس شرح فرمائی ہے،اربعین نوویہ کی شرح کے ضمن میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اورشیخ عبدالمحسن بن حمد العبادdنے بھی اس کی عمدہ شرح کا اہتمام فرمایاہے،اس کے علاوہ مصر کے عالم شیخ سعید بن عبد العظیم نے بھی (شرح أشرف حدیث لأھل الشام )کے نام سے،ایک مستقل رسالہ میں اس حدیث کی شرح اور بیانِ فوائد کا اہتمام کیاہے۔
جس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب تعالیٰ کی طرف منسوب فرمادیں،اسے حدیثِ قدسی کہاجاتاہے، توگویا حدیثِ قدسی ہر وہ حدیث ہے،جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب عزوجل سے روایت فرمائیں۔
قرآن وحدیث دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، [وأنزل اللہ علیک الکتاب والحکمۃ] [وماینطق عن الھوی۔ان ھو إلا وحی یوحی] (ألا إنی أوتیت القرآن ومثلہ معہ)
مگر حدیث قدسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا اس کی تشریف وتکریم کا مظہر ہے۔ اس بارہ میں علماء کی مختلف آراء ہیںکہ حدیثِ قدسی کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں،راجح قول یہی ہے کہ حدیثِ قدسی کا معنی ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے ،اورالفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں۔
حدیثِ قدسی کا قرآن مجید سے یہی فرق ہے کہ قرآن مجید لفظاً ومعنیً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے،جبکہ حدیثِ قدسی، معنیً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اورالفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں۔
حدیثِ قدسی کا دیگر احادیث سے فرق یہ ہے کہ عام احادیث قولاًیا فعلاً رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہیں، جبکہ حدیثِ قدسی کو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے روایت فرماتے ہیں،اس نسبت میں حددرجہ کی تشریف ہے اور پوری کائنات میں یہ سب سے پاکیزہ سند ہے کہ اکرم الاولین والآخرین،اللہ تعالیٰ رب العالمین والٰہ العالمین سے براہِ راست روایت فرمارہے ہیں۔
اس لحاظ سے حدیثِ قدسی بہت زیادہ لائقِ توجہ اور متقاضیٔ اہتمام ہے، اور ممکن ہے اسی وجہ سے تابعی ابوادریس الخولانی سے اس حدیث کی روایت کا تقاضہ کیاجاتا تو وہ دوزانو بیٹھ کر سنایاکرتے۔
یہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسنِ ادب کی بڑی عمدہ مثال ہے، اور یہ درحقیقت ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم وتعظیم ہے، ہر مسلمان پر یہ بات واجب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کاپہلو ہمیشہ ملحوظ رکھے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کا اولین تقاضا یہی ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے علماً وفہماً وعملاً واداءً تعلق قائم رکھے۔
امام مالک رحمہ اللہ کے پاس جب طلابِ علم،سماعِ حدیث کیلئے آتے تو آپ باقاعدہ غسل کرکے،نفیس ترین لباس زیبِ تن فرماکے،خوشبوؤں میں معطر ہوکر باہر تشریف لاتےاوربڑی ہیبت اوروقار کے ساتھ احادیث بیان فرماتے،ان سے اس بارہ میں پوچھاگیا تو فرمایا:أحب أن أعظم حدیث النبی ﷺ. یعنی میری یہ خواہش اورچاہت رہتی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی تعظیم کرتارہوں۔امام مالکaتو راہ چلتے یا راستہ میں کھڑے کھڑے حدیث بیان کرنا بھی خلافِ ادب تصور کرتےتھے۔
ابن العربی رحمہ اللہ فرمایاکرتے تھے: ’’حرمۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میتا کحرمتہ حیا وکلامہ المأثور بعدموتہ فی الرفعۃ مثال کلامہ المسموع من لفظہ‘‘
یعنی:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم،آپ کی وفات کے بعد بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح زندگی میں،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی احادیث کی رفعت وعظمت بالکل ایسی ہی ہے،جیسے وہ احادیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سامنے بیٹھ کر آپ کی زبانِ مبارک سے سن رہے ہیں۔
سعید بن المسیب بیماری اورنقاہت کی وجہ سے لیٹے ہوئے تھے، ان سے ایک حدیث کی بابت پوچھاگیا تو اُٹھ کر بیٹھ گئے اور حدیث بیان کی۔
عبداللہ بن مبارک پیدل کہیں تشریف لے جارہے تھے،ان سے ایک حدیث کے بارہ میں سوال کیاگیا،توفرمایا:’’لیس ھذا من توقیر العلم‘‘ یعنی: یہ علم(حدیث) کی توقیر کے منافی ہے۔
واضح ہو کہ اس حدیث کی عظمت کے پیشِ نظر ہم نے بتوفیق اللہ اس کی ایک مبسوط شرح ترتیب دی ہے،جو ’’شرح حدیث ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ ‘ ‘کےنام سے مطبوع ہے،ہم اپنے مجلہ’’دعوت اہل حدیث‘‘ کے قارئین سے اس شرح کی طرف مراجعت کی گذارش کرتے ہیں، مجلہ میں حدیث کا ترجمہ پیش کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں:
ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے،جو وہ اپنے رب تعالیٰ سے روایت فرماتے ہیں،بیان فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
اے میرے بندو!بے شک میں نے اپنی ذات پر ظلم کو حرام کیاہواہے،اور اسے تمہارے لئے بھی آپس میںحرام قرار دیتاہوں،پس تم ظلم نہ کرو۔
اے میرے بندو!تم سب کے سب گمراہ ہو،مگر جسے میں ہدایت دوں، پس صرف مجھ ہی سے ہدایت طلب کرو،میں ہی تمہیں ہدایت دونگا۔
اے میرے بندو!تم سب کے سب بھوکے ہو،مگر جسے میں کھلاؤں، پس مجھ ہی سے کھانا طلب کرو،میں سب کو کھلاؤنگا۔
اے میرے بندو!تم سب کے سب برہنہ ہو،مگر جسے میں لباس پہناؤں، پس مجھ سے ہی لباس طلب کرو،میں ہی تمہیں لباس پہناؤنگا۔
اے میرے بندو!بلاشبہ تم سب کے سب دن رات گناہ کرتے ہو،اور میں ہی تمام گناہوں کو معاف کرنے والاہوں،پس مجھ سے استغفار کرو،میں ہی تمہارے گناہوں کو معاف کرونگا۔
اے میرے بندو!اگر تمہارے تمام اگلے اور پچھلے اور تمام انسان وجن،ایک سب سے بڑے متقی انسان کے دل کا روپ دھار لیں تومیری بادشاہت میں کچھ اضافہ نہ کرسکیں گے۔
اے میرے بندو!اگر تمہارے تمام اگلے اور پچھلے اور تمام انسان وجن،ایک سب سے بڑے فاسق وفاجر انسان کے دل کا روپ دھارلیں ،تو میری بادشاہت میں سے کچھ کمی نہ کرسکیں گے۔
اے میرے بندو!اگر تمہارے تمام اگلے اور پچھلے اور تمام انسان وجن،ایک میدان میں جمع ہوکربیک وقت مجھ سے (جوچاہیں )مانگنے لگیں،اور میں اسی وقت سب کا سوال پورا کردوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں ہوگی،جو سوئی کے سمندر میں ڈبوکر نکالنے سے ،اس سمندر میں واقع ہوتی ہے۔
اے میرے بندو!تمہارے اعمال ہی ہیں جنہیں میں تمہارے لئے شمار کررہا ہوں،پھر ان اعمال کا تمہیں پوراپورا بدلہ دونگا،لہذا جوشخص اپنے اعمال میں نیکیاں پاتا ہے وہ خوب اللہ تعالیٰ کا شکراداکرتارہے ،اورجوشخص برائیاں پاتاہے وہ صرف اپنے آپ کو ملامت کرتارہے۔
آپ نے یقیناً یہ محسوس کرلیاہوگا کہ اس حدیث کے دس جملے ہیں اور ہرجملے کاآغاز ایک بہت ہی محبت بھرے خطاب سے ہوتا ہے:یعنی :یاعبادی!اے میرے بندو!
اس خطاب کا بالتکرار آنا اسی حدیث کا خاصہ ہے،اس خطاب میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے بڑا پیارجھلکتاہے،جس سے حدیث کی اہمیت وافادیت مزید بڑھ جاتی ہے،اور حدیث مزید توجہ واہتمام کا تقاضاکرتی ہے۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے (عبادی )کالفظ ہمیشہ اسی محبت وتکریم کی غمازی کرتاہے، بطورِ نمونہ چندآیاتِ کریمہ پیش خدمت ہیں:
(۱)[نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ] (الحجر:۴۹)
ترجمہ:میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والااور بڑا ہی مہربان ہوں۔
(۲)[وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْٓ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ](الشعراء:۵۲)
ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو نکال لے چل تم سب پیچھا کیے جاؤ گے۔
(۳)[اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْہِمْ سُلْطٰنٌ۝۰ۭ وَكَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا۝۶۵ ](الاسراء:۶۵)
ترجمہ:میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں۔ تیرا رب کارسازی کرنے والاکافی ہے۔
(۴)[وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُہَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ](الانبیاء:۱۰۵)
ترجمہ:ہم زبور میں پند ونصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (ہی) ہوں گے۔
(۵)[وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶](البقرہ:۱۸۶)
ترجمہ:جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔
(۶)[قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۝۵۳ ](الزمر:۵۳)
ترجمہ:(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت والاہے۔
(جاری ہے۔)

About الشیخ عبدﷲ ناصر رحمانی

امیر جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

اربعینِ نووی

حدیث نمبر:33 ،قسط نمبر72 عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے