Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ مئی » اربعینِ نووی حدیث نمبر:23 قسط:52

اربعینِ نووی حدیث نمبر:23 قسط:52

حدیث نمبر:23

قسط:52

درسِ حدیث

(۳) وَسُبْحَانَ اللهِ والحَمْدُ للهِ تَمْلآنِ – أَو تَمْلأُ – مَا بَيْنَ السَّمَاءِ والأَرْضِ.

یعنی:اور(سبحان اللہ والحمدللہ) آسمان اور زمین کے درمیان موجود سارے خلاءکوبھردیتےہیں۔
یہاں ان دونوں کلمات (سبحان اللہ اورالحمدللہ) کواکٹھا پڑھنے کی عظیم الشان فضیلت واردہے،اور وہ یہ ہے کہ یہ دونوں کلمات آسمان اور زمین کے مابین موجود سارے خلاء کو بھردینے والے ہیں،یہ بہت بڑا خلاءہےجو ان دونوں کلمات کی فضیلت اور رفعتِ شان کو اجاگر کرتا ہے، اس خلاء کی وسعت کا مسنداحمد کی ایک حدیث سے اندازہ ہوتاہے، چنانچہ عبداللہ بن عباس wفرماتے ہیں:ایک دن رسول اللہﷺ نے صحابہ کی ایک جماعت سے پوچھا:(ھل تدرون کم بین السماء والأرض؟)یعنی:کیا تم جانتے ہوکہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟صحابہ کرام نے عرض کیا:(اللہ ورسولہ اعلم)
تورسول اللہﷺ نے فرمایا:

(بینھما مسیرۃ خمسمائۃ سنۃ وبین کل سماء إلی سماء مسیرۃ خمسمائۃ سنۃ،وکثف کل سماء مسیرۃ خمسمائۃ سنۃ )

یعنی:زمین وآسمان کے مابین پانچ سوسال کی مسافت کا فاصلہ ہے،ہرآسمان سے دوسرے آسمان تک بھی پانچ سو سال کی مسافت کافاصلہ ہے،اور ہرآسمان کی اپنی موٹائی بھی پانچ سو سال کی مسافت کے بقدرہے۔(مسنداحمد۱؍۲۰۶،۲۰۷مستدرک حاکم ۲؍۳۱۶،امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد قراردیاہے۔)
یہ حدیث مبارک اللہ رب العزت کے فضل وعطاء کی وسعت کی بڑی واضح دلیل ہے،چنانچہ ایک مرتبہ (سبحان اللہ والحمدللہ) کہہ دینے سےیہ تمام خلاء اجروثواب سے بھرجاتاہے۔
واضح ہو کہ یہ عظیم الشان فضیلت محض ان کلمات کے تلفظ یا نطق سے حاصل نہیں ہوسکتی،بلکہ اس کے حصول کیلئے چندامور کالحاظ ضروری ہے، اور یہ تمام امور عمومی ادلہ سے ثابت ہیں:
1ان کلمات کی ادائیگی اخلاصِ نیت سے ہو۔
2ان کلمات کی ادائیگی،ان کے معانی کے صحیح فہم کے ساتھ ہو۔
3ان کلمات کو اداکرنے والے کاعقیدہ، اسی صحیح فہم سے مطابقت رکھتاہو،مخالفت کا کوئی عنصرنہ ہو۔
4صدق ویقین کا پہلوبھی موجودہو،جس کامعنی یہ ہے کہ جو ثواب حدیث میںمذکور ہےاسےیقینِ کامل کے ساتھ سچاجانتاہو،اس ثواب کے حصول میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہ ہو۔
5بندے کا عمل بھی ان کلمات کے مقتضیٰ کے مطابق ہو۔
6پوری استقامت کے ساتھ زندگی بھر کیلئے ان تمام امور سے منسلک رہنے والاہو؛تاکہ یہ ثوابِ عظیم قائم رہے اور کسی مرحلے پر ضائع نہ ہونے پائے۔
(سبحان اللہ والحمد للہ)کامعنی
واضح ہو کہ ان دونوں کلمات میں نفی اور اثبات جمع ہوگئے ہیں، جو ایمان کے مرکب ہونے کی دلیل ہے،یعنی ایمان میں کچھ امور کا تعلق نفی سے ہے، جن کاترک لازم ہے ،جبکہ کچھ امور کا تعلق اثبات سے ہے، جن کااقرار واعتراف نیز اختیار کیے رکھنا لازم ہے۔
(سبحان اللہ )میںنفی جبکہ (الحمدللہ) میںاثبات کا معنی ہے۔
(سبحان اللہ )کلمۂ تنزیہ ہے،جس کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہے،اس کی ذات ایسی کامل واکمل ہے جس میں کسی قسم کا کوئی نقص نہیں،اس کی تمام صفات نیز تمام اعمال ایسے کامل واکمل ہیں جن میں کسی قسم کے نقص کا کوئی شائبہ نہیں،نیز اس کی ذات اور اس کے جملہ افعال نیز جملہ صفات، مخلوقات کی مشابہت ومماثلت سے پاک ہیں۔
واضح ہو کہ اس کے کسی معاملے میں،اس کا کوئی شریک مقرر کرنا، خواہ وہ زندہ یامردہ کوئی انسان ہویاحجروشجرہو،فرشتہ ہو،نبی یاولی ہویا کوئی جن ہو،ان میں سے کسی کو،کسی معاملہ میں اس کا شریک مقرر کرنا، اس کی جناب میںسب سے بڑا نقص ہے؛کیونکہ شراکت داری کمزوری کا مظہرہوتی ہے۔
(الحمد للہ )ایجابی کلمہ ہے،جو اس حقیقت پر قائم ہے کہ جملہ محامد کا مستحق،صرف اللہ رب العزت ہے،اس کے سواکوئی نہیں۔
ہرقسم کی حمداس امر کی متقاضی ہے کہ ذاتِ محمود،ہر قسم کے صفاتِ کمال کا مالک ومستحق ہو،جس کا مطلب یہ ہوگا کہ کیونکہ کوئی غیراللہ کسی صفتِ کمال کامستحق نہیں ہے،لہذا وہ حمد کا مستحق بھی نہیںہوسکتا،اور چونکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تمام صفاتِ کمال کا مالک ومستحق ہے،لہذا وہی ہر قسم کی تعریف کےلائق ہے،دوسرا کوئی نہیں۔
اس عظیم الشان عقیدے سے قرآن مجیدکاآغاز ہوتا ہے:

[اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱ۙ ]

سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والاہے ۔
واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ہر قسم کی حمد کے مستحق ہونے کا ایک انتہائی اہم او رلازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ اسی ذات کو ہر قسم کی نعمت کا عطاکنندہ مانا جائے،وہی ہر شیٔ کا خالق اور مالک ہے ،وہی جملہ امور کی تدبیرفرماتا ہے،اور تمام نعمتیں عطافرماتاہے:

[وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ ](النحل:۵۳)

تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اسی کی دی ہوئی ہیں۔
واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کا تعلق زبان سے بھی ہے ،چنانچہ زبان سے (الحمد للہ ) کہہ کر اس کا شکر بجالایاجائے،نیز عمل سے بھی ہے،جس کا معنی یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے؛کیونکہ وہی منعمِ حقیقی ہے،چنانچہ اس کی نعمتیں پالینے کے باوجود،اس کی نافرمانی اختیارکرلینا بہت بڑے خسارے اور حِرمان کا موجب ہوسکتاہے،والعیاذباللہ
حدیث کےاس جملے کا ماحصل یہ ہے کہ ان دوکلمات (سبحان اللہ والحمد للہ)کا اکٹھا ذکرکرنا بہت بڑی فضیلت کا حامل ہے،دیگر بہت سی احادیث میںبھی ان کے اکٹھےذکر کا ثوابِ عظیم اور فضل عمیم ثابت وواردہے:
صحیح مسلم میں ابوذرغفاریtسے مروی ہے،رسول اللہﷺ سے پوچھاگیاکہ سب سے افضل ذکرکیاہے؟فرمایا:(ما اصطفی اللہ لملائکتہ أو لعبادہ: سبحان اللہ وبحمدہ)(صحیح مسلم:2731)
یعنی:سب سےافضل ذکر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں یا سارے بندوں کیلئے پسندفرمالیا:(سبحان اللہ وبحمدہ)
سیدناابوذرغفاریtسے ہی مروی ہے،رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایا:تمہیں بتلاؤں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب ذکر کونساہے؟عرض کیا:جی ہاں،رسول اللہﷺ نے فرمایا:(إن أحب الکلام إلی اللہ سبحان اللہ وبحمدہ)(حوالۂ مذکور)
یعنی:بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب ذکر (سبحان اللہ وبحمدہ)ہے۔
سیدناابوھریرہtسے مروی ہے،رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

(من قال سبحان اللہ وبحمدہ فی یوم مائۃ مرۃ ،حطت خطایاہ ،وإن کانت مثل زبد البحر)(صحیح بخاری:3405صحیح مسلم:2691)

یعنی:جوشخص دن میں سوبار(سبحان اللہ وبحمدہ)کہہ لے،اس کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں،خواہ وہ سمندر کی جھاگ کی برابر کیوں نہ ہوں۔
سیدناابوھریرہ سے ہی مروی ہے،رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

(من قال حین یصبح وحین یمسی سبحان اللہ وبحمدہ مائۃ مرۃ، لم یأت أحد یوم القیامۃ بأفضل مما جاء بہ،إلا أحد قال مثل ما قال أو زاد علیہ )(صحیح مسلم:2692)

یعنی:جوشخص صبح اور شام سوبار(سبحان اللہ وبحمدہ)کہہ دے، قیامت کے دن کوئی شخص اس سے افضل عمل نہیں لاپائے گا، سوائے اس انسان کے جو اسی جتنا یا اس سے زیادہ کہہ ڈالے۔
سیدناابوھریرہ سے مروی ہے،رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

(کلمتان حبیبتان الی الرحمن خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم)

(صحیح بخاری:6406صحیح مسلم:2694)
یعنی:دوکلمات ایسے ہیں جو رحمٰن کو پیارے ہیں،زبان پر ہلکے ہیں، اور (قیامت کے دن) میزان میں بھاری ہونگے :سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم.
جابربن عبداللہ الانصاری سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(من قال سبحان اللہ العظیم وبحمدہ غرست لہ نخلۃ فی الجنۃ)(جامع ترمذی:3464صحیح ابن حبان:826مستدرک حاکم 501/1)

یعنی:جس شخص نے ایک دفعہ( سبحان اللہ العظیم وبحمدہ) کہہ دیااس کا جنت میں ایک کھجور کادرخت لگادیاجائے گا۔
واضح ہو کہ کسی بھی ذکر میں تسبیح اور تحمید کے جمع ہونے کی فضیلت پر مشتمل بے شمار احادیث موجود ہیں،جن کیلئے مطولات کی طرف رجوع کرلیاجائے۔(واللہ تعالیٰ ولی التوفیق)
(جاری ہے)

About الشیخ عبدﷲ ناصر رحمانی

امیر جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

اربعینِ نووی

حدیث نمبر:33 ،قسط نمبر72 عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے