Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ مارچ » بدیع التفاسیر قسط 189

بدیع التفاسیر قسط 189

۔ قسط 189 ۔۔۔ احسن الکتاب فی تفسیر ام الکتاب

الغرض:صوفیوں کی تفاسیر انتہائی خطرناک مضامین سے بھرپور ہیں ایک مسلمان کے لئے ایسی تفاسیر کا مطالعہ خطرہ سےخالی نہیں ہے صوفی حضرات یہ دعویٰ بھی کرتےہیں کہ قرآن کے ظاہری معنی کے علاوہ باطنی معنی بھی ہے جس کے لئے ایک روایت بھی پیش کرتےہیں جو کہ سیوطی نے الاتقان ۲؍۱۸۴میں بحوالہ فریابی اس طرح نقل کی ہے:
حدثنا سفیان عن یونس عن عبید عن الحسن قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکل آیۃ ظھر وبطن ولکل حرف حد ولکل حد مطلع.
یعنی ہر آیت کاظاہر اور باطن ہوتاہے۔
اولاً:مگر یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہے کیونکہ حسن بصری نے آگے اپنی سند بیان نہیں کی ہے۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
یرویٰ عن الحسن البصری موقوفا ومرسلا.
(مجموعہ فتاویٰ شیخ الاسلام ،ص:۲۳۲ص۱۳)
یعنی یہ روایت مرسل یاموقوف یعنی حسن بصری کااپناقول ہے۔
دوم: اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیاجائے تو اس کامعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ظاہر سے مراد گزشتہ اقوام کی خبریں اور واقعات ہیں کہ ان کی نافرمانی کی وجہ سے ان پر کئی قسم کے عذاب نازل ہوئے اور یہ ایک قسم کی خبر ہےجوہمارے لئے ظاہر کردی گئی ہے اور ایسے واقعات میں ہمارے لئےخوف وعبرت سمائی ہوئی ہے کہ ہم ایسے واقعات سن کر اللہ تعالیٰ سےڈریں اور اس کی نافرمانی سے باز آجائیںکہ کہیں ہمارے اوپر بھی ایسے عذاب نازل ہوں یہی معنی امام اللغۃ ابوعبید القاسم بن سلام المتوفی (۲۲۴ھ)نے بھی کیا ہے۔(الاتقان ۲؍۱۸۵)
نیز اس سے یہ مراد بھی لیاجاسکتاہے کہ قرآن مجید سے نئے نئے مسائل معلوم ہوتے رہیں گے جیسا کہ چوتھی فصل میں ذکر ہوا مگر باطنی فرقے والوں کے معانی قرآن مجید کو اپنی خواہش کے مطابق استعمال کرنے کے لئے ہوتے ہیںمثلاًباطنی شیعہ آیت:[وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰہُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ۝۱۲ۧ ](یسین:۱۲)میں امام سے مراد علی کو لیتے ہیں، اور آیت :[تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَہَبٍ وَّتَبَّ۝۱ۭ ] (اللھب:۱) میں ابولہب کے دونوں ہاتھوں سے مرا د دوخلیفے ابوبکر وعمرکو لیتے ہیں۔معاذاللہ۔آیت: [ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّۃَ الْكُفْرِ۝۰ۙ] (التوبۃ:۱۲)سے مراد طلحہ وزبیرکو لیتے ہیں۔معاذ اللہ اور آیت: [وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُوْنَۃَ فِي الْقُرْاٰنِ](بنی اسرائیل:۶۰) کا معنی بنوامیہ کرتے ہیں۔
اور باطنی صوفی آیت:[اِذْہَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰي۝۲۴ۧ ] (طہ:۶۴)سےمراد قلب اور آیت:[اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً۝۰ۭ ](البقرۃ:۶۷) سےمراد اپنانفس اور موسیٰuسے اللہ تعالیٰ کے ہم کلام ہونے سے مراد اندورنی فیض وعقل اور وہ درخت جس سے موسیٰuنے کلام سنا،اور الوادی المقدس سے مراد ایسے قلبی احوال جو معرفتیں حاصل ہونے سے تبدیل ہوتےرہتے ہیں،لیتے ہیں اور باطنی فلاسفر ملائکہ وشیاطین سے مراد نفسانی قوتیں اور آخرت میں کئے وعدوں سے سمجھانے کے خاطر مختلف امثلہ مراد لیتے ہیں۔(مجموعہ فتاویٰ شیخ الاسلام ۱۳؍۲۳۷،۲۳۸)
حالانکہ اس قسم کے معانی میں نہ لغت کادخل ہے نہ حدیث اور نہ ہی صحابہ کرام سے ایسا کوئی اشارہ ملتا ہے بلکہ صرف ذاتی ذوق، رائے یا ہواء نفسانی کی کارفرمائی ہے اسی لئے علماء اہل سنت کے نزدیک ایسی تفسیر کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ سیوطی الاتقان ۲؍۱۸۱میں لکھتے ہیں کہ:
واما کلام الصوفیۃ فی القرآن فلیس بتفسیر.
یعنی قرآن مجید کے بارے میں صوفیوں کاکلام تفسیر میں شمار نہیں ہوتا۔
نیزشرح عقائد نسفیہ ،ص:۱۵میں ہے کہ
والنصوص من الکتاب والسنۃ تحمل علی ظواھرھا ما لم یصرف عنھا دلیل قطعی والعدول عنھا ای عن الظواھر الی معان یدعیھا اھل الباطن وھم ملاحدۃ وسموا الباطنیۃ لا دعائھم ان النصوص لیست علی ظواھرھا بل لھا معان باطنیۃ لایعرفھا الا ھم وقصدھم بذلک نفی الشریعۃ بالکلیۃ الالحاد ای میل وعدول عن الاسلام واتصال والتصاق بکفر لکونہ تکذیبا للنبی علیہ السلام فیما علم مجیئہ بالضرورۃ.
یعنی نصوص شرعیہ (قرآن وحدیث) کو اپنے ظاہری معانی پر ہی محمول کیاجائے گا کسی قطعی دلیل کے بغیر ان کاکوئی دوسرا معنی نہیں لیا جاسکتا جس طرح باطنی فرقے والے ظاہری معنی کوچھوڑ کر باطن معنی لیتے ہیں جس کے بارے میں ان کاخیال ہے کہ وہ باطنی معنی اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی نہیں جانتا یعنی وہ معنی ہم (باطنیوں)کوخصوصی طورپر بتایا گیا ہے۔درحقیقت ایسا باطنی معنی مراد لینا الحاد یعنی دین سے خارج ہوکرکفر سے ملنا ہے اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس دعویٰ میں نعوذباللہ جھوٹا ثابت کرنا ہے کہ آپ نے فرمایا:میں تمہیں(دین،قرآن) سکھانے کیلئے آیاہوں اب اگرصوفی حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے اور سمجھائے ہوئے طریق کے علاوہ بھی ہمیں قرآن سمجھا سکتےہیں تو پھرآپصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی کیاضرورت تھی؟ لہذا ان صوفیوں کے بتائے ہوئے معانی ومفاہیم کاکوئی اعتبار نہیں ہے۔
ناظرین!یہ صوفی اور باطنی بڑی جرأت کے ساتھ یہاںتک کہہ دیتے ہیں کہ امت کے سلف سےلیکرخلف تک کوئی بھی ہم سے زیادہ علم رکھنے والانہیں ہےبلکہ بعض تویہاں تک دعویٰ کردیتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کو اللہ تعالیٰ کی معرفت،انبیاء سے بھی زیادہ حاصل ہے۔پھر جس طرح چاہیں قرآن مجید کے معانی کو پھیرتے رہتے ہیں۔مثلاً: [مِمَّا خَطِيْـــٰٔــتِہِمْ اُغْرِقُوْا](نوح:۲۵) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسے قدم اٹھائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم کے سمندر میں مستغرق ہوگئے اور لفظ عذاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ العذوبۃ سےمشتق ہے جس کامعنی مٹھاس اورلذت ہے، اور آیت:[اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْہِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝۶ خَتَمَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰي سَمْعِہِمْ۝۰ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ۝۰](البقرۃ:۶تا۷)
کی تفسیراس طرح کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو آپ اپنے ظاہری علم سے کتنا ہی ڈرائیں مگر وہ تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر ایسی مہر لگاکرمضبوط کردیا ہے اور جو علم ومعرفت انہیں عطا کردی ہے اس کےسواء وہ کسی ظاہری علم کو سمجھتے ہی نہیں اوران کی آنکھوں پر ایسا پردہ حائل ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ نہ کوئی نظرآتا ہے اور ہی وہ کسی دوسرے کی بات سنتےہیں۔
اور آیت:[وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ](بنی اسرائیل:۲۳)کی تفسیر میںکہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مقدربنادیاہےکہ اس کے علاوہ کسی کا وجود ہی نہیں ہے اس لئے کسی دوسرے کی عبادت کاتو سوال ہی پیدانہیں ہوتاپھر چاہے تو بچھڑے کی عبادت کرےیا کسی اور کی،وہ غیراللہ کی عبادت تصور نہیں کی جائےگی کیونکہ اس کے علاوہ کوئی موجود ہی نہیں ہے، اس قسم کی تفسیر وتاویلات کے بارے میں مسلمان ہی نہیں بلکہ یہودی اور نصرانی بھی سمجھتے ہیں کہ یہ انبیاء o کی تعلیمات کے سراسرمنافی ہیں۔
(مجموعہ فتاویٰ شیخ الاسلام، ۱؍۲۳۱،۲۴۰)
اپنے ایمان وعقیدے کو بچانے کیلئے ایسی تفاسیر سے اجتناب کرنا بہت ضروری ہے۔
ساتویں فصل
تفسیربالرأی کابیان
اس سے متعلق امام ترمذی نے اپنی سنن ۲؍۱۱۹ابواب تفسیر القرآن باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن برأیہ میں تین احادیث روایت کی ہیں:
(۱) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ فِي القُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.(الرقم:۲۹۵۰)
(۲) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اتَّقُوا الحَدِيثَ عَنِّي إِلاَّ مَا عَلِمْتُمْ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ قَالَ فِي القُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. (الرقم:۲۹۵۱)
(۳) عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ فِي القُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ. (الرقم:۲۹۵۲)
احادیث کاخلاصہ یہ ہے کہ جس شخص نےعلم ومعرفت کے بغیر اپنی رائے سے قرآن مجید کی تفسیر کی وہ اپناٹھکانہ جہنم میں سمجھے ،اور جس نے رائے سے قرآن کی تفسیر کی اگر اس کی تفسیر صحیح اور دلائل کے موافق ہو پھر بھی وہ مخطی ہے، صحابہ کرامy نے بھی رائے سے قرآن کی تفسیر کرنے کی سخت مذمت فرمائی ہے ،چنانچہ حافظ ابن قیم نےاعلام الموقعین۱؍ ۵۳ طبع مصر میں بحوالہ عبدبن حمید سیدناابوبکر سے روایت نقل کرتےہیں کہ:
ای ارض تقلنی وای سماء تظلنی ان قلت فی آیۃ من کتاب اللہ برأیی او بما لااعلم.
(شعب الایمان ۳؍۵۴۰ح۲۰۸۲،سنن سعید بن منصور التفسیر ۱؍۱۶۸ح۳۹طبع دار العصیمی الریاض)
یعنی کونسی زمین مجھے جائے پناہ دے گی اور کونساآسمان مجھ پر سایہ کرے گا اگر میں کسی قرآنی آیت کے بارے میں علم ومعرفت کے بغیر اپنی رائے سے کوئی کلام کروں۔
ص:۵۵میں امیرعمر سے بحوالہ ابن وھب ذکر کرتے ہیں کہ :
اتقوا الرأی فی دینکم وفی روایۃ عن محمد بن سلام الخشفی ایھا الناس اتقوا الرأی فی الدین.
یعنی دینی مسائل میں رائےسے بچو اور رائے کوجھوٹا ،غیرمعتبر اورمہتم جانو۔
نیزص:۵۹میں بحوالہ عبدبن حمید ،ابن عباس سے روایت نقل کرتےہیں کہ :
قال من قال فی القرآن برأیہ فلیتبوأمقعدہ من النار. (جامع ترمذی:۲۹۵۱)
یعنی جوشخص قرآن میں اپنی رائے سے گفتگوکرے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھ لے۔
الغرض:رائے سےتفسیر کرنااتنابڑا گناہ ہے کہ انسان خود بھی گمراہ ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو بھی گمراہ کرتاہے۔
ناظرین!تفسیر بالرأی اسےکہتے ہیں جس کے لئے کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو اس اجمال کی تفسیر اس طرح ہےکہ کوئی شخص کسی آیت کی ایسی تفسیر کرتا ہے جو قرآن کے سیاق وسباق کےخلاف ہو یا قرآنی مضمون اس کے معارض ہویاکوئی صحیح حدیث اسے رد کرتی ہو یاصحابہ وتابعین یعنی سلف صالحین کی مشہور ومعروف تفسیر اس کے خلاف ہو یا وہ مشہور اسلامی عقیدے کو رد کرتی ہو، اور لغت وعربی قواعد کے خلاف ہو تو وہ تفسیر محض خیالی اور رائے پر مشتمل تصور کی جائے گی اور بلادلیل ہونے کی وجہ سے وہ باطل اور مردود ہوگی، سیوطی نے اتقان ۲؍۱۸۰ میں ابن الانباری سے اوپر مذکور احادیث میں سے پہلی دواحادیث کی شرح نقل کی ہے:
أَحَدُهُمَا مَنْ قَالَ فِي مُشْكَلِ الْقُرْآنِ بِمَا لا يعرف من مذهب الْأَوَائِلِ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ فَهُوَ مُتَعَرِّضٌ لِسُخْطِ اللَّهِ تَعَالَى وَالْآخَرُ- وَهُوَ الْأَصَحُّ- مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ قَوْلًا يَعْلَمُ أَنَّ الْحَقَّ غَيْرُهُ .
یعنی اس کے دو مطلب ہیں پہلا یہ کہ وہ قرآن کے مشکل مقامات کی ایسی تفسیر کرے جوصحابہ ،تابعین وسلف صالحین سےمعروف نہ ہو یہ بندہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے سامنے ہیں،دوسرا یہ کہ وہ عمداً ایسی تفسیر کرے جو وہ خود بھی حق کے خلاف سمجھتاہواور تیسری روایت کی تشریح میں نقل کرتےہیں:رائے سے مراد ہواءِ نفسانی ہے لہذاجوشخص اپنی رائے سے تفسیر کرے جوسلف صالحین سےماخوذ نہ ہو اگر اس کی تفسیر صحیح بھی ہو تو وہ حکمت قرآنی سے اعراض کرنے والاہوگاکیونکہ اس نے اپنی تفسیر کی بنیاد صحیح طریقے پر نہیں رکھی، سیوطی نےعلماء سے نقل کیا ہے کہ ایک مفسر کیلئے پندرہ قسم کے علوم کا جاننا ضروری ہے:
(۱)الفاظ کے لغوی معنیٰ ومفہوم یعنی علم لغت پر دسترس رکھتاہو۔
(۲)علم النحو کو جانتاہوکیونکہ اعراب(زبر،زیر،پیش) کی تبدیلی سے معنی میں بڑی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔
(۳)علم الصرف صیغوں اور ان کی بناوٹ کی پہچان کے بغیر صحیح ترجمہ نہیں کرسکتا۔
(۴)علم الاشتقاق،یعنی فلاں کلمہ کس کلمہ سے مشتق ہےمثلا:’’المسیح السیاحۃ‘‘(سیرکرنا) سے یا’’المسیح‘‘ (ہاتھ پھیرنا) سے ماخوذ ہے۔
(۵،۶،۷)علم معانی ،بیان اور بدیع:علم معانی سے کلام کوباہم ربط دینے سے اس کے فوائد وخاصیات معلوم ہونگے، بیان سے یہ خاصیات معلوم ہونگی کہ فلاں عبارت میں اس عبارت سے زیادہ فصاحت و بلاغت ہے اور بدیع سے کلام بہتری ،خوبی اور اچھی ترتیب کے طرق معلوم ہونگے کہ کس عبارت میں حسن ترتیب ،نظم ونسق اور پختگی کس طریقے سے ہے۔
(۸)علم قرأت :یعنی قرآن مجید کوصحیح طرح سے پڑھنا جانتاہونیز مختلف قرأتوں میں سے صحیح اور رائج قرأت کی تمیز کرسکے۔
(۹)دینی عقائد، قواعد واصول جوقرآن مجید سے بیان شدہ ہیں ان کاعلم رکھتاہو، اس طرح وہ قرآن کی تفسیر کرتے وقت صحیح وغلط تشریح ومطلوب کو پہچان سکے گا۔
(۱۰)اجتہاد کے اصول وقواعد سے باخبرہو تا کہ قرآن مجید سے استنباط احکام واستخراج مسائل میں غلطی نہ کرے۔
(۱۱)آیات کے شان نزول وقرآنی قصص کا اسے علم ہو تا کہ صحیح تفسیر کرنے میں اسے آسانی ہو۔
(۱۲)ناسخ ومنسوخ کے بارے میں علم رکھنا بھی ضروری ہےتاکہ محکم یعنی ثابت شدہ احکامات کو سمجھ سکے۔
(۱۳)دین کی سمجھ یعنی آیات واحادیث کو سمجھنے کی استعداد رکھتا ہو۔
(۱۴)علم حدیث کاجاننا ضروری ہے تاکہ مجمل یامبہم احکامات کی صحیح تشریح کرسکے۔

(۱۵)اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے علمی ملکہ ودیعت ہوتاکہ اسے قرآن کے سمجھنے اور سمجھانے میں شرح صدرحاصل ہو، کیونکہ امام ابوبکر ابی الدنیا فرماتےہیں کہ :
قرآن سے نکلنے والے مسائل وعلوم ایک ایساسمندرہیں جن کا کوئی کنارہ ہی نہیں ہے، ان پندرہ علوم کوذکر کرنے کے بعد لکھتےہیں کہ:
فَهَذِهِ الْعُلُومُ- الَّتِي هِيَ كالآية لِلْمُفَسِّرِ لَا يَكُونُ مُفَسِّرًا إِلَّا بِتَحْصِيلِهَا فَمَنْ فَسَّرَ بِدُونِهَا كَانَ مُفَسِّرًا بِالرَّأْيِ الْمَنْهِيِّ عَنْهُ وَإِذَا فَسَّرَ مَعَ حُصُولِهَا لَمْ يَكُنْ مُفَسِّرًا بِالرَّأْيِ الْمَنْهِيِّ عَنْهُ.
یعنی یہ علوم ایک مفسر کے لئے آلہ کار کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے حاصل کیے بغیر کوئی مفسر نہیں بن سکتا اگر ان کے بغیر کوئی تفسیر کرے گا تو وہ تفسیر بالرأی شمار ہوگی جس کی ممانعت وارد ہے۔
(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے