Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ جون » قسط 192 بدیع التفاسیر

قسط 192 بدیع التفاسیر

قسط 192 ۔۔۔

التصدیق:اپنے اختیار سے خبر دینے والے کی طرف سچ کی نسبت کرنا۔
التصغیر:کسی اسم کے صیغہ میں معنی کی تبدیلی کیلئے ردوبدل کرنا، کبھی یہ اس کی کمی یا قلت بیان کرنے کیلئے کیاجاتاہے تو کبھی تکریم وپیار کی خاطر مثلاً:رجل سے رجیل
التطبیق: دومعارضین کو باہم ملانا۔
التطوع: فرض یاواجب کے علاوہ دوسرے اعمال۔
التطویل: اہل معنی ومراد سے زیادہ الفاظ کااستعمال۔
التعلیل:کسی بھی مؤثر(اثر کرنے والی شیٔ) کو اس کااثر دکھانے اور ظاہر کرنے سے ثابت کرنا۔
التعسف: غلط طریقہ اختیار کرنا اور ایسا کلام جس سے دلالت ظاہر نہ ہو۔
التعقید: ایسا مشکل کلام جو بآسانی سمجھ میں نہ آئے ایسا کبھی عبادت میں الفاظ کی بے ترتیبی کی وجہ سے ہوتا ہے، مثلا:حذف واضماد کا زیادہ استعمال وغیرہ اور کبھی ایسے الفاظ استعمال کیے جاتےہیں جن سے کثیر الاستعمال اور فوراً ذہن میں آنے والے معنی کے علاوہ کوئی دوسرا معنی مراد ہوتا ہے جس کیلئے کوئی واضح قرینہ یا شاہد بھی نہیںہوتا۔
التعریف: کسی ایسی چیز کا ذکر کرنا جس کی پہچان سے کسی دوسری چیز کی واقفیت حاصل ہو۔
التعجب: کسی چیز کے ظاہری سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ اس میں عجب(تعجب) کرنا۔
التعیین: ایسا امتیاز یاجدائی ہونا جس سے کوئی چیز اس طرح ظاہر وواضح ہوجائے کہ کوئی دوسری چیز اس کے مشابہ نظر نہ آئے۔
التعریض فی الکلام: جب کلام کی مراد ومطلب سامع کو اچھی طرح سمجھ آجائے۔
التعزیر: ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہ کی خاطر ایسی سزا جو شرعی حدو د سے کم ہو۔
التفھیم: بذریعہ الفاظ سامع کی سمجھ تک کوئی معنی ومفہوم پہنچانا۔
التفسیر: بمعنی کھولنا ،واضح اورظاہرکرنا ،شرعی اصطلاح میں کسی آیت کا معنی ،شان نزول یا اس میں مذکور قصہ وغیرہ کو بیان کرناتفسیرکہلاتاہے۔
التفکر: اندرونی دل کی ایسی روشنی جس سے نیکی وبدی،نفع ونقصان کی پہچان حاصل کی جائے۔
التقسیم: کسی چیز کو بانٹنا، حصے کرنا، یا تقسیم کرنا۔
التقریر والتحریر: کسی بھی معنی کے زبانی بیان کرنے کو تقریر اور لکھت میں بیان کوتحریر کہتےہیں۔
التقلید:بغیرکسی دلیل یاحجت کےکسی کے قول یافعل کی پیروی کرنا۔
التکرار: باربار ایک ہی بات لانایادہرانا۔
التلمیح: کلام میں کسی شعر یاقصے کی طرف اشارہ کرنا جس کا ذکر اس میں موجود نہ ہو۔
التنافی: ایک ہی وقت میں کسی جگہ دومخالفوں(ضدین) کا جمع ہوجانا مثلاً:سفیدی اورسیاہی یا عدم اور وجود۔
التنبیہ: جس سے سامعین کو معمولی غور کرنے کی وجہ سے مجمل کلام سمجھ میں آجائے، نیز ایسے قواعد کوبھی کہتےہیں جس سے مضمون میں مندرج بحث سمجھ میں آجائے۔
التنقیح: تحقیق وتفتیش اور کلام کو اس انداز سے مختصر کرنا کہ اس کا مطلب ومعنی واضح رہے۔
التنوین: نون ساکن یا اس کے برابر(مقابل) دوپیش، دوزبر یا دوزیر۔
التناقض: دوجملوں کے درمیان ایسا اختلاف کہ ایک کو سچا ماننے سے دوسرے کی تکذیب لازم آئے۔
التنزیل: حسب ضرورت رسول اللہ ﷺ کی طرف بواسطہ جبریل uقرآن مجید کانزول۔
التوضیح: جوباتیں کلام میں ظاہر نہ ہوں انہیں کھول کرواضح کرنا۔
التوجیہ: کلام کو اس انداز سےپیش کرنا کہ مدمقابل کاکلام رفع ہوجائے۔
التواتر: کسی خبر کا اتنے بزرگوں کی زبانی ثابت ہوجانا کہ ان کے جھوٹ پر متفق ہونے کاتصور بھی نہ کیاجاسکتاہویعنی محال ہو۔
التوابع:وہ اسماء جن کا اعراب صرف ان متبوعوں کی موافقت کی وجہ سے ہو یعنی وہ جن کے تابع ہیں اور وہ پانچ ہیں:تاکید،صفت،بدل، عطف بیان اور معطوف۔
التوریۃ: کسی کلام سے متکلم کی وہ مراد نہ ہوجوظاہرا سمجھ میں آتی ہو۔
الثقۃ:جس کے قول وفعل میں بھرپور اعتماد وبھروسہ کیاجائے۔
الثمامیۃ: ثمامہ بن اشر س کی جماعت جس کانظریہ ہے کہ ایہود ،نصاریٰ اور زندیق لوگ قیامت کے دن نہ جنت میں داخل ہونگے اور نہ جہنم میں بلکہ انہیں مٹی بنادیاجائے گا۔
الجاحظیۃ: عمرو بن بحر الجاحظ کی جماعت جو کہ ہرجوہر کوغیر فانی اور نیکی وبدی کو بندے کافعل کہتےہیں نیز ان کاکہنا ہے کہ :قرآن ایک جسم ہے جوکبھی مرد ہوتا ہے توکبھی عورت!
الجارودیۃ: یہ ابوالجارود کی جماعت ہے جن کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےعلیtکی امامت کے بارے میں واضح حکم دیا ہے یہ صحابہ کرام کو کافر قرار دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے علیtکی اقتداء نہیں کی۔
الجازمیۃ: جازم بن عاصم کی جماعت جو کہ شیعہ کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں۔
جامع الکلم: ایسامضمون جس کے الفاظ کم ہوں لیکن معانی ومطالب زیادہ نکلتے ہوں۔
الجبائیۃ: بصرہ کے معتزلہ یہ ابوعلی محمد بن عبدالوہاب الجبائی کی جماعت ہے جن کا کہنا ہے کہ (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ ایسے کلام کا متکلم ہے جو الفاظ وحروف سے جڑا ہوا ہے جس کو کسی نہ کسی میں پیداکرتا ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو دیکھا نہیں جاسکتا، ہر بندہ اپنے فعل کا خود خالق ہے، مرتکب کبیرہ نہ مؤمن ہے اور نہ کافر ،توبہ کے بغیر فوت ہوا تو ابدی جہنمی ہوگا، نیزاولیاء کی کوئی کرامت نہیں ہوتی۔
الجبریۃ: یہ لوگ بندے کے افعال کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں، ان میں سے بعض بندے کی اپنی کمائی کہتے ہیں مثلاً: اشعریہ اور بعض بلکل ہی انکار کرتے ہیں ،مثلاً:جہمیہ۔
الجحد: فعل مضارع پر جب حرف لم داخل ہوتا ہے اور اس کو جزم دیا جاتاہے اور معنی بھی ماضی والاہوجاتاہے۔
الجدل: ایسی دلیل یاقیاس جو ایسے مقدمات سے بنے جو کہ مشہور مسلمہ نہ ہوں نیز مدمقابل کے دلائل، اعتراضات وشبہات کے رد کو کہا جاتا ہے۔
الجزء:جس کے ساتھ کسی اور چیز کے ملنے سے کوئی اور جسم بن جائے ۔
الجسم: جو چند اشیاء کے مجموعہ سے بنے۔
الجعفریۃ: جعفر بن مشرب کی جماعت جو کہ اسکافیہ سےمشابہ ہے نیز ان کا کہنا ہے کہ امت مسلمہ کافاسق،زندیق اور یہود سے بدتر ہے، شرابی پرحد قائم کرنے کیلئے امت کا اجماع خطاء ہے، ایک دانہ چرانے والا فاسق اور تارک ایمان ہے۔
الجمع: وہ صیغہ جودوسے زیادہ کیلئے مستعمل ہو اگر اس کےآخر میں واؤ ماقبل مضموم یا’’ی‘‘ ماقبل مکسور ہوتو اسے جمع مذکر اگرآخر میں الف یا ت ہوتو جمع مؤنث کہتے ہیں، واحد کی بناء سالم ہو تبدیل شدہ نہ ہو جمع سالم، اگر صحیح یاتبدیل شدہ ہوتو اسے جمع مکسر کہاجاتاہے، اگر وہ لفظ دس یا اس سے کم افراد کیلئے استعمال ہوتا ہو اسے جمع قلت اور اگر دس سے زیادہ کیلئے استعمال ہوتو اسے جمع کثرت کانام دیاجاتاہے۔یہ دونوں قسم ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال ہوتے ہیں۔
الجنس: ہر وہ کلی جوزیادہ افراد پر بولی جائے جس کی حقیقتیں جداجدا ہوں۔
الجنون: عقل میں بگاڑ پیداہونا جس سے کوئی خلاف عقل قول یافعل صادر ہو۔
الجناجیۃ: عبداللہ بن معاویہ بن عبداللہ بن جعفر ذی الجناحین کی جماعت، جو تناسخ ارواح کے قائل ہیں یعنی مرنے والے کی روح کسی اور جسم میں منتقل کردی جاتی ہے، کہتےہیں کہ اللہ کی روح آدم uمیں منتقل ہوئی پھر شیش میں یہ سلسلہ انبیاء وائمہ میں چلتارہاحتی کہ وہ روح علیtمیں آگئی اور پھر ان کے امام عبداللہ بن معاویہ میں۔
الجھل: کسی چیز کے بارے میں ایسا عقیدہ یا نظریہ رکھنا جو اس کے خلاف ہو۔
الجھمیۃ: جہم بن صفوان کی جماعت جن کا کہنا ہے کہ بندے کے اختیار میں کوئی بھی عمل نہیں ہے یعنی وہ جمادات،پتھر وغیرہ کی طرح ہے تمام کام اللہ تعالیٰ خود کرتا ہے،اور جب لوگوں کو جنت اور جہنم میں داخل کردیاجائے گاتو پھر دونوں فناہوجائیں گے صرف اللہ تعالیٰ کا وجود ہی باقی رہے گا۔
الحافظۃ: ہر معلوم چیز کو یادرکھنے کی صلاحیت جو کہ دماغ کے پچھلے حصے میں ہوتی ہے۔
الحال: لغتاً ماضی کی انتہاء اور مستقبل کی ابتداء کو کہتے ہیں، اصطلاحاً جس سے فاعل ومفعول کی ہیئت ونمونہ معلوم ہو۔اگر وہ ہیئت ان کے ساتھ ہمیشہ سے ہے اور جداہونے والی نہیں تو انہیں حال مؤکدہ ورنہ اسے حال منتقلہ کہتے ہیں۔
الحائطیۃ: النظام کے پیرواحمد بن حائط کی جماعت جو کائنات کے لئے دوالٰہ مانتےہیں ایک قدم جو اللہ تعالیٰ ہے دوسرا محدث(نیا) وہ مسیح(u)ہے جو قیامت کے دن لوگوں سے حساب وکتاب لے گا۔
الحارثیۃ: ابوالحارث کی جماعت جو لوگوں کے افعال کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں سمجھتے۔
الحجۃ: بمعنی الدلیل جو دعویٰ کے صحیح ہونے پر دلالت کرے۔
الحد: بمعنی منع اور اصطلاحاً جس سےد وچیزوں کاآپس میں شریک ہونا یا الگ ہونا سمجھاجاسکے، نیز شریعت میں کسی جرم کیلئے مقرر کردہ سزا کو بھی کہتےہیں جس کی جمع الحدود ہے۔
الحدیث الصحیح: جس کو نقل کرنے والے راوی معتبر،عادل، ضابط اور مکمل حافظہ رکھنے والے ہوں، سندمتصل ہو یعنی درمیان میں کوئی بھی واسطہ ساقط نہ ہو،ایک راوی کا دوسرے راوی سے سماع ثابت ہو، وہ روایت علت وشذوذ سے محفوظ ہو، یعنی اس میں کوئی خفیہ سبب نہ ہو جس سے روایت ناقابل قبول بن جائے، راوی اپنے سے زیادہ ثقہ ومعتبر رواۃ کی مخالفت نہ کرتے ہوں۔(شرح النخبۃ ،ص:۲۴،۲۵)
فقہاء کے نزدیک ایسی روایت صحیح ہوتی ہے جس کے الفاظ رکاکت یعنی نامناسبت سے محفوظ ہوں، روایت کسی قرآنی آیت، حدیث متواتر اور اجماع کے خلاف نہ ہو، اس کے راوی معتبر ہوں، نیز صحیح کے مقابل یعنی جس میں صحیح کے شروط نہ پائے جائیں اسے ضعیف یا سقیم کہا جاتاہے۔
(جاری ہے)

 

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے