Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ جون » زکوٰۃ کی فرضیت، فضیلت، اہمیت اوراحکام

زکوٰۃ کی فرضیت، فضیلت، اہمیت اوراحکام

لفظ’’زکوٰۃ‘‘ کالغوی مفہوم پاکیزگی اوراضافہ ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے مفہوم کے مطابق اس عبادت سے انسان کامال پاک بنتا ہے جبکہ دوسرے مفہوم کے مطابق زکوٰۃ ادا کرنے سے نہ صرف اجروثواب میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ مال میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں زکوٰۃ ادا کرنے کے چند احکامات:
[اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۲۷۷ ](البقرۃ:۲۷۷)
ترجمہ:بے شک جو لوگ ایمان کے ساتھ (سنت کے مطابق) نیک کام کرتے ہیں، نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب تعالیٰ کے پاس ہے، ان پر نہ تو کوئی خوف ہے، نہ اداسی اور غم۔
حدیث رسول: نبی ﷺ نے فرمایا:
” بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ "(صحیح بخاری:۸صحیح مسلم:۱۱۱)
اسلام کی پانچ بنیادیں ہیں (جس میں سے ایک) زکوٰۃ ادا کرنا(ہے)۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے نقصانات:
[وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۳۴ۙ يَّوْمَ يُحْمٰي عَلَيْہَا فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُكْوٰي بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ۝۰ۭ ہٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ۝۳۵ ](التوبۃ:۳۴،۳۵)
ترجمہ:اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے ،جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزه چکھو ۔
حدیث رسول ﷺ: رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہےکہ :
” مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ – يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ – ثُمَّ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ، ثُمَّ تَلاَ: (لَا يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ) ” الآيَةَ(صحیح بخاری:۱۴۰۳)
’’قیامت کے روز زکوٰۃادا نہ کرنے والوں کا مال ودولت گنجا سانپ (یعنی انتہائی زہریلا ) بناکر ان پر مسلط کردیاجائے گاجو انہیں مسلسل ڈستارہے گا اور کہے گا:میں تیرامال ہوں، میں تیراخزانہ ہوں۔
زکوٰۃ کے مصارف:
سورۃ التوبۃ،آیت:۶۰میں، اللہ تعالیٰ نے آٹھ قسم کے لوگوں کو زکوٰۃ کامستحق قراردیاہے، جس کی تفصیل مختصرا یہ ہے:
1فقیر: فقیر وہ ہے جومحتاج اور ضرورت مند ہو،جس کے پاس درہم ودینار ،روپیہ وپیسہ ،گھربار،مال وزرنہ ہواور نہ اس کاکوئی کاروبار ہو، قلاش اور خستہ حال ہو۔
2مسکین: مسکین وہ ہے جس کے پاس ضروریات زندگی کے لئے ناکافی مال ہو اور بیشک ایسے شخص کا گھربار اور کاروبار بھی ہومگر پھر بھی وہ باوقار زندگی کے لئے ناکافی ہو۔
3عاملین زکوٰۃ: زکوٰۃ کا تیسرا مصرف ’’عاملین زکوٰۃ‘‘ ہیں جو زکوٰۃ کی وصولی اور اس کے حساب کتاب کے ذمہ دار ہیں۔
4تالیف قلب: ایسے کافر کوزکوٰۃ میںسےمال دیاجاسکتا ہے جس سے یہ توقع ہو کہ وہ مال لے کرمسلمان ہوجائیگا اور اہل ایمان کے دفاع میں تعاون کرےگا اس کے علاوہ نو مسلم کو بھی اسلام پرپختہ کرنے کےلیے زکوٰۃ میں سے مال دیاجاسکتا ہے۔
5گردنیں آزاد کرانا: یہ ان لوگوں کی آزادی کے لئے ہے جو غلام ہیں۔(آج کل غلاموں کا سلسلہ نہیں ہے) یا دشمن کی قید میں ہیں۔
6ادائے قرض: مقروض لوگوں کوقرض کے بوجھ سے نجات دلانا، مقروض غریب ہو، فقیر ہویابے روزگار،زکوٰۃ کی اس مد میں سے اس کاقرض ادا کیاجاسکتا ہے۔
7فی سبیل اللہ: اس سے جہاد کی جملہ ضرورتوں کو پوراکیاجاسکتا ہے، اسلحہ خریداجاسکتا ہے، زیرتربیت عسکری مجاہدین کی خوراک لباس، علاج معالجہ وغیرہ پر زکوٰۃ کو خرچ کیاجاسکتا ہے۔
8مسافر: زکوٰۃ کی رقم کاحقدار صرف غریب مسافر ہی نہیں بلکہ غنی اور دولت مند شخص بھی اگردوران سفر زادِ راہ اور دیگر سفری ضروریات کا محتاج ہوجائے تو اس پر بھی زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے تاکہ وہ باوقار طور پر منزل تک پہنچ سکے۔
زکوٰۃ کے غیرمستحق:
1نبی اکرم ﷺ کی آل کےلئے زکوٰۃ حلال نہیں۔
2غیرمسلموں کو زکوٰۃ دیناجائز نہیں۔
3غنی اور صحت مند آدمی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔
4والدین، اولاد اور بیوی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔
وہ اشیاء جن پر زکوٰۃ واجب ہے:
1سونا جس کانصاب ساڑھے سات تولہ ہے۔
2چاندی جس کانصاب ساڑھے باون تولہ ہے۔
3سونے چاندی کے زیراستعمال زیورات
4تجارت کامال(نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابرہے)
زکوٰۃ کی شرح:
بلحاظ وزن یابلحاظ قیمت مندرجہ بالاپراڑھائی فیصد (یعنی سو روپے پراڑھائی روپے ) ہے اور یہ ایک سال گزر جانے پر ادا کی جائے گی۔
نوٹ: اس کے علاوہ زمین کی پیداوار (یعنی عشر) شہد کی پیداواراور دفن شدہ خزانہ دریافت ہونے پر،معدنیات کی آمدنی پر اور جانوروں یعنی :اونٹ ،گائے ،بکری وغیرہ پر بھی زکوٰۃ ہے جس کانصاب علماء سے جب اور جس طرح کی ضرورت ہو پوچھاجاسکتاہے۔
وماعلیناالاالبلاغ

About حافظ صہیب ثاقب

Check Also

ماہِ ذی الحج کی اہمیت

ذی الحج کامہینہ حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ ماہِ ذی الحج میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے