حقوق والدین


[وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا۝۰ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ كِلٰـہُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا۝۲۳ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا كَـمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا۝۲۴ۭ ](بنی اسرائیل:۲۳،۲۴)
ترجمہ:اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔
ا نسان پر دو قسم کے حق ہیں ایک حقوق اللہ،دوسرا حقو ق العباد۔ حقوق اللہ میں اگر انسان سستی کرتا ہے ،کوتاہی کامظاہرہ کرتا ہے تو یہ اللہ کی مرضی ہے چاہے تو معاف کردے اور اگر چاہے تو سزا دے،لیکن حقوق العباد کا تعلق بندوں سے ہے جب تک صاحب حق اپنا حق معاف نہ کرے تب تک معاف نہیں ہوسکتی بندوں میں سے سب سے زیادہ حق والدین کے ہیں اس لئے والدین کی نافرمانی کرنا ایک عظیم گناہ ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
رضا الرب تبارک وتعالیٰ فی رضا الوالدین وسخط اللہ تبارک وتعالیٰ فی سخط الوالدین(رواہ البزار)
یعنی اللہ تعالیٰ کی رضامندی والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔
یعنی جس سے والدین راضی ہیں اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہے اور والدین جس سے خفاہیں اللہ تعالیٰ اس سے خفا ہے اور پھر والدین میں سے والدہ کامقام ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ماں تین حرفوں پر مشتمل ہے مگر معنی کے اعتبار سے ایک انسان کی مکمل داستان حیات ہے ۔ماں،ایک کتاب ہے جس کے ہرورق پر اولاد کے لئے سلامتی تندرستی امن اور ترقی کی دعائیں لکھی ہوئی ہیں، ماں تحفہ ہے خالق کائنات کا دنیاوالوں کیلئے۔
ما ں ایک عظیم رشتہ ہے ،ماں ایک بہترین رہبر ہے ، ماں سراپہ محبت ہے۔
ارشاد ربانی ہے:[وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ۝۰ۚ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰي وَہْنٍ ](لقمان:۱۴)
وہ ماں جو بڑی دکھ کے ساتھ بچے کو اٹھاتی ہے اور ہرو قت اس کو اٹھائے ہوتی ہے کتنی تکلیف ،کتنا دکھ، کتنا غم اور کتنا الم اور پھر ایک یا دو گھنٹے کی بات نہیں ،ایک دو دن کابوجھ نہیں ،ایک دو ہفتے کاتذکرہ نہیں ایک دوماہ کا رونانہیں بلکہ یہ تو تقریبانوماہ کا طویل ترین عرصہ ،کتنی تکلیف سہتی ہے؟ہائے لیٹنا مشکل، بیٹھنا مشکل، چلنا مشکل، سونا مشکل، جاگنا مشکل، کھاناپینا مشکل، اور پھر کچھ کھاتی ہے تو بچے کے ،پیتی ہے تو بچے کیلئے، کبھی سینے میں جلن اور کبھی جسم میں درد ہورہا ہے ایک ایک لمحہ مشکل سے گزررہا ہے ،ایک ایک دن پہاڑ کی طرح کٹتا ہے اور صرف اسی پر بس نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
[ وَّوَضَعَتْہُ كُرْہًا] بڑی تکلیف کے ساتھ ماں بچے کو جنم دیتی ہے۔
کتنی تکلیف، کتنا دکھ، کتنا غم جان نکلنے کا عالم ہے جسم کا ایک ایک جوڑ ٹوٹاہواہے ،ایک ایک رگ میں محشر برپا ہے ،جسم کا بال بال دکھ و درد میں جکڑاہوا ہے ،نالے آسمان کو چیرتے ہیں اور آہیں جگر کو چھیدتی ہیںاور ایساکیوں؟ اس لئے تو اولاد کو کہتے ہیں لختِ جگر ،یعنی جگر یادل کا خون کیا لہو کے سوا دل چل سکتا ہے نہیں کبھی بھی نہیں ایساکیوں نہ ہو کہ جسم کا ایک ٹکڑا الگ کیا جارہا ہے ۔
ادب المفرد میں امام بخاری بیان کرتےہیں کہ ایک مرتبہ ابن عمر بیت اللہ کا طواف کررہے تھے تو انہوں نے ایک نوجوان کو دیکھا اپنی بوڑھی ماں کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے بیت اللہ کا طواف کررہا ہے تو اس نے ابن عمر کو دیکھ کر کہا اے عمر(t)کے بیٹے کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ہے تو ابن عمر نے جواب دیا کہ اے نوجوان تو نے اپنی ماں کی ایک آہ کا بھی بدلہ ادا نہیں کیا۔
طبرانی شریف میں روایت ہے کہ سیدنا بریدہ بیان کرتےہیں ایک مرتبہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتاہے :
یار سول اللہ میں ایک ماہ تک اپنی بوڑھی ماں کو پیٹھ پر بیٹھا کر ایسے گرم اور تپتے ہوئے پتھروں پرچلتاہوں اگر ان پر گوشت ڈالاجائے تووہ جل کر کباب بن جائے ،کیا میں نے اپنی ماں کا حق اداکردیا؟
توآپﷺ نے جواب دیا:اے نوجوان شاید تو نے ان جھٹکوں میں سے ایک جھٹکے کا حق ادا کردیا ہے جوجھٹکے تیری ماں نے تیری پیدائش کے وقت دردوں کی شدت کی وجہ سے لیے تھے کہ کتنا درد، ماں اس طرح تڑپتی ہے جس طرح پانی سے نکلی ہوئی مچھلی پانی کے لئے تڑپتی ہے اور یہ دکھوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا اللہ پاک آگے فرماتے ہیں:
[وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا۝۰ۭ ] ماں کا بچے کو پیٹ میں اٹھانا اور پھر دودھ پلانا یہ تمام مدت ملاکر تیس ماہ بنتی ہیں وہ ماں جس نے اپنے جسم سے تیرے جسم کی تعمیر کی اور اپنے خون کا ایک ایک قطرہ سینچ سینچ کرتیرےجسم کی تکمیل کی اپنی تمام توانائیاں تیرے نام کیں ،اپنی راحتیں تجھ پر نثار کیں ،اپناآرام تجھ پر قربان کیا ،اپنی نیندیں تجھ پر حرام کیں، اپنا پیار ،اپنی شفقت اپنی محبت والفت اور تجھے کیا معلوم کہ ایک وقت ایسا تھا کہ تو چل نہ سکتا تھا وہ تیرے پاؤں بن گئی، تو پکڑ نہ سکتاتھا وہ تیرے ہاتھ بن گئی، تو دیکھ نہ سکتا تھا وہ تیری آنکھیں بن گئی، تو سن نہ سکتا تھا وہ تیرے کان بن گئی، تو بول نہ سکتا تھا وہ تیری زبان بن گئی، تو سمجھ نہ سکتا تھا وہ تیرا شعور بن گئی، تیری ایک سسکی پر وہ مچل جایا کرتی تھی اور تیرے ایک آنسوؤں پر تڑپ جایا کرتی تھی ،تیری آہیں اسے گھایل کرتی تھیں اور تیری تکلیف اسے رلایا کرتی تھی اور تجھے کیا معلوم تو آرام سے سوجایا کرتا تھا وہ جاگا کرتی تھی کہیں میراجگر جاگ نہ جائے اور اس کی نیند خراب نہ ہو اس لئے تو پر سکون ہوتا تھا وہ بے سکون ہوتی تھی ،تجھے کیا معلوم کہ وہ خود بھوکی رہتی تھی لیکن تجھے اپنے خون سے تیارشدہ دودھ پلایا کرتی تھی ،خود گیلی جگہ پر سوتی تھی تجھے سینے پر سلایا کرتی تھی ،خود سردی کی تیز ہواؤں میں کانپتی تھی لیکن تجھے سردی سے بچایاکرتی تھی ،خود گرم دوپہر میں جلتی تھی لیکن تجھے دھوپ سے بچایا کرتی تھی۔
تاریخ میں ایک نوجوان کا واقعہ ملتا ہے کہ جس نے اپنی بوڑھی ماں کو کندھے پر بیٹھا کر حج کرایا بیت اللہ کاطواف کیا،صفامروہ پے دوڑ لگائی ،منی ومزدلفہ میں قیام کیا، عرفات کےمیدان میں دعائیں کیں، ملتزم کو چمٹ کر رویا ،حجر اسود کو بوسہ دیا ،مقام ابراھیم پر نماز ادا کی اور اپنے گناہوں کی رب سے بخشش مانگی ،ارکانِ حج ادا کرنے کے بعد دل میں خیال مچلا کہ شاید میںنے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ہے اسی شب خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والاکہہ رہا ہے کہ اے نوجوان تو کیا سمجھتا ہے کہ تو نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ہے؟
تجھے کیا معلوم توچھوٹا سا بچہ تھا ،سردی کی ایک اندھیری رات میں تو نے پاخانہ کردیا تھا تیری ماں غریب تھی اس ایک بستر کے علاوہ کوئی اوربسترنہ تھا اے نوجوان تیری ماں نے اس بستر کو دھویا ،ساری شب (رات) خود اس گیلے بستر پر لیٹی رہی لیکن تجھے اپنے سینے پر سلائے رکھا اے نوجوان تو نے ابھی اس ایک رات کا بھی بدلہ ادا نہیں کیا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: «أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أُمُّكَ» قَالَ: ” ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أَبُوكَ» (صحیح مسلم:2548)
ترجمہ: یعنی اے اللہ کے رسول میری خوش خُلقی اور حسن سلوک کا لوگوں میں سے کون زیادہ حقدار ہے؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:تیری ماں ۔عرض کیا پھر کون ؟فرمایا:تیری ماں۔چوتھی بارپوچھا پھر کون؟ تو آپﷺ نے فرمایا :تیرا باپ۔
یہ بات اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ماں کی خدمت کا حق باپ کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کی مجلس میں والدین کے حقوق بیان فرمارہےتھے توصحابی نے عرض کیا یارسول اللہ :
وان ظلماہ.اگر وہ ظالم ہوں توبھی؟
مانا کہ وہ ظالم ہیں تو مظلوم ہے ،مانا کہ وہ زیادتی کرتےہیں، مانا کہ وہ ستمگر ہیں ،لیکن یارواللہ کے نزدیک والدین کا اتنا بلند مقام ہےکہ اللہ پاک اس بات کو پسند نہیں کرتاکہ کسی وجہ سے ماں کی تقدیس پر آنچ آئے اور باپ کی بزرگی پر حرف آئے ،اللہ کے پیارے نبیﷺ فداہ ابی وامی جواب دیتے ہیں اس نوجوان کو
وان ظلماہ.
تین مرتبہ کہا اگرچہ وہ ظالم کیوں نہ ہوں اس کے باوجود ان کی عزت ،ان کی توقیر ،ان کا درجہ اور ان کا مقام ،ان کی رفعت ، ان کی عظمت ، ان کی بزرگی ،ان کی برتری ، ان کی شان ، ان کی آن ، ان کا ادب، اور ان کا احترام اپنی جگہ پر مسلم ہے۔
اور کیوں نہ ہوں
رب السموات والارض ارشاد فرماتے ہیں:
[فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا۝۲۳ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا كَـمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا۝۲۴ۭ ] ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔
یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرامین ہیں اور ہماری حالت کیا ہے ہم ان سے لڑائی جھگڑا کرتےہیں ، اور آنکھیں نکال کر ان کو گھورتے ہیں تمہیں نہیں معلوم کہ جب ماں کی بات نہیں مانتے تو ماں کے دل پر کیا گذرتی ہے ، جب ماں سسکتی ہے تو کائنات ساکت ہوجاتی ہے ، جب ماں کے دل سے آہ نکلتی ہے تو فضاؤں اور ہواؤں میں اضطراب پیدا ہوجاتا ہے ،جب ماں کی آنکھ سے آنسو ٹپکتا ہے تو آسمانوں میں بھونچال آجاتا ہے ، جب ماں کے لبوں سے بددعا نکلتی ہے تو وہ آسمانوں کو چیرتی ہوئی عرش عظیم سے جاٹکراتی ہے۔
خدارا! اپنے والدین کے حقوق پہچانیے ،ان کو ادا کیجئے، ان کا کہا مانیے، ان کی دعائیں لیجیے، ان کی خدمت کیجیے، ان کا ادب واحترام کیجیے اور اللہ سے دعا کیجئے :
[رَّبِّ ارْحَمْہُمَا كَـمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا۝۲۴ۭ ] vvvvvvvvvvvvvv
vvvvvvvvvvvv

About مولاناعبدالعزیزنظامان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے