احکام ومسائل

G.152
محترم جناب حافظ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماءِ دین ،اس مسئلے میں کہ آئے دن ہمارے معاشرے میں شادی کے کچھ عرصہ کے بعد بیوی روٹھ کر میکے آکر بیٹھ جاتی ہے شوہر یا اس کے گھر والے منانے آتے ہیں تو بھی وہ واپسی کیلئے یا تو ایسا مطالبہ کرتی ہے جو شوہر کے بس میں نہیں ہوتا یا وہ گھر بسانا ہی نہیں چاہتی اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ اس کو نان نفقہ بھی دیا جائے ا س طرح کے کئی کیس کورٹ میں بھی زیربحث آتے ہیں میرے ساتھ بھی یہی مسئلہ درپیش ہے، مسئلے کا صحیح حل قرآن وسنت کی روشنی میں تحریر فرمادیں۔ (سائل :زیدکورنگی)
J
الجواب بعون الوہاب
صورت مسئولہ برصحت سؤال
سائل زید کی اہلیہ اپنی مرضی سے شوہر کے گھر سے میکے میں آکر رکی ہوئی ہیں جبکہ زید اس کو بسانا چاہتا ہےتو اب بلا کسی وجہ اور جواز کے زید کی اہلیہ کا اپنے والدین کے گھر ٹھہرنا اور نان نفقہ کا مطالبہ کرنا شرعاً و اخلاقاً درست نہیں ہے۔ اگر انہیں زید کے ساتھ نہیں رہنا تو اس کا شرعی و قانونی حل خلع ہے۔ وہ خلع حاصل کر کے اپنے والدین کے گھر میں رہے یا پھر اپنا گھر آباد کر لیں۔
شوہر کے ذمہ قرآن و سنت کی رو سے بیوی کو کھلانا، پلانا ،پہنانا، علاج و معالجہ اور دیگر جائز ضروریات ہیں اور شوہر کو چاہئے کہ وہ ان حقوق کو صحیح طور پر ادا کرے۔
یہ تمام حقوق بیوی کو اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب وہ بیوی بن کر شوہر کے ساتھ رہے۔ اور اپنی ذمہ داری کو احسن طریقہ سے نبھائے۔
اس سلسلہ میں امام ابوبکر عبداللہ بن ابی شیبہ، جن کی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ کےنام سے معروف ہے،اس میں بعض فتاویٰ تابعین ذکر کئے گئے ہیں۔
طارق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شعبی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ایک عورت شوہر سے ناراض ہوکر گھر سے نکل جائے تو کیا اس کے لئے نفقہ ہے؟ امام شعبی رحمہ اللہ نے جواب دیا : [ «لَا، وَإِنْ مَكَثَتْ عِشْرِينَ سَنَةً»] یعنی اس کے لئے کوئی نفقہ نہیں ہے اگر چہ وہ بیس سال تک ٹھہری رہے۔
اسی طرح امام ہارون رحمہ اللہ فرماتے ہیں :[سَأَلْتُ الْحَسَنَ، عَنِ امْرَأَةٍ خَرَجَتْ مُرَاغِمَةً لِزَوْجِهَا، لَهَا نَفَقَةٌ؟ قَالَ: «لَهَا جَوَالِقُ مِنْ تُرَابٍ»]یعنی : میں نے حسن بصری رحمہ اللہ سے اس عورت کے بارے میں پوچھا جو شوہر سےروٹھ کر چلی جائے، کیا ا س کے لئے نفقہ ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : اس کے لئے مٹی کے ٹکڑےہیں ۔
امام شعبہ رحمہ اللہ نے اپنے شیخ حکم اور حماد رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی یہی نقل کیا ہے کہ ایسی خواتین کے لئے جو بلا جواز شوہر کی نافرمانی کرتے
ہوئے (اپنے ماں باپ کے)گھر بیٹھ جاتی ہیں ، ان کے لئے کوئی خرچہ وغیرہ نہیں ہے۔

امام شعبی رحمہ اللہ کا ایک اور فتویٰ مزید ان الفاظ کے ساتھ بھی ذکر ہوا ہے فرماتے ہیں :[لَيْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ يُنْفِقَ عَلَى امْرَأَتِهِ إِذَا كَانَ بِالْحَبْسِ مِنْ قِبَلِهَا] یعنی مرد پر بیوی کا خرچہ دینا واجب نہیں ہے جب شوہر کے پاس نہ آنے میں بیوی قصور وار ہو۔ (بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ جلد 10 کتاب الطلاق)
رب کریم ہمیں جمیع معاملات میں قرآن و سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

About حافظ محمد سلیم

مفتی جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

احکام ومسائل

مسئلہ وراثت محترم جناب مفتی صاحب! گزارش یہ ہے کہ وراثت کے معاملے میں کچھ رہنمائی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے