Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ دسمبر » اہل حدیث وشیعیت میں توافق کااتہام اورحقیقت قسط 3

اہل حدیث وشیعیت میں توافق کااتہام اورحقیقت قسط 3

بعد میں آنے والے کئی لوگ صحابہ سے افضل ہیں
اس عنوان کے تحت غازی پوری صاحب فرماتے ہیں:
’’امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام صحابہ کرام yساری امت میں سب سے افضل ہیں اس مسئلہ میں اہل سنت والجماعہ کے درمیان کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔لیکن غیرمقلدین کا عقیدہ،اہل سنت والجماعت کے خلاف ہے، ان کے عقیدہ کی تشریح مولاناوحیدالزمان اپنی کتاب’’ہدیۃ المھدی‘‘ میں یوں کرتےہیں:
’’نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم….لیکن یہ اس امرکومستلزم نہیں ہے کہ بعد کی صدیوں میں آنے والاکوئی بھی شخص قرون سابقہ میں گزرنے والے لوگوں سے افضل نہیں ہوسکتا…الخ (کچھ دیر، ص:272،آئینہ ،ص:221،وقفہ، ص:193)
جواب:امت کے اس اجماع سے اہل حدیث بھی خارج نہیں، الحمدللہ اہل حدیث کا بھی اس پر اتفاق ہے، افسوس کہ غازی پوری صاحب ہم پر الزام واتہام کے لئے’’ھدیۃ المھدی‘‘ ایسی کتاب ہی کا سہارا لیتے ہیں جو بقول اس کے مؤلف کہ’’کل مسائل میں کسی فریق کے موافق نہیں‘‘ اور علماء دیوبندکی گواہیوں کے مطابق کبار علماء اہل حدیث نے اسے قبول نہیں کیاتھا۔ اگرغازی پوری صاحب اپنے الزامات میں سچےہیں تودیگرعلمائے اہل حدیث کی کتب سے یہ عقیدہ نکال کر دکھادیں۔
پھرمصیبت بالائےمصیبت کہ وحیدالزمان صاحب کی بات بھی سیاق وسباق میں رکھ کربغیر تروڑ مروڑ وکتربیونت کے ایسے جیسے وہ ہیں پیش نہیں فرماتے بلکہ واضح طور پر ہاتھ کی صفائی دکھاجاتےہیں اس کی کئی ایک مثالیں آپ پہلے ملاحظہ فرماچکے ہیں مزید دیکھئے: اس مقام پر وحیدالزمان صاحب نے فصل کاآغاز یوں فرمایا:
’’اصحابہ کلھم خیار لانتکلم فیھم ولانطعن فیھم ولانقول انھم کانوا معصومین بل نکف عن مساویھم ونطھر السنتنا عن الطعن فیھم اتباعا لحدیث النبی ﷺ وخیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم‘‘
’’صحابہyسب کے سب خیار ہیں ہم ان پر کلام نہیں کرتے نہ ہی ان پر طعن کرتے ہیں اور نہ یہ کہتےہیں کہ وہ معصوم تھے بلکہ ہم ان کے مساوی (کے ذکر سے) رک جاتے ہیں اور اپنی زبانوں کو ان پر طعن سے پاک رکھتےہیں نبی ﷺ کی حدیث کی پیروی کرتےہوئے کہ اور بہترین لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کے تھے،پھر وہ جو ان کے بعد آئیں پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔‘‘
(ھدیۃ المھدی،ص:90)
لیکن غازی پوری صاحب نے یہ بات نقل نہیں کی کیونکہ ان کامقصد تواہل حدیث کو شیعہ کے ہم آہنگ ثابت کرنا تھا اور یہ عبارت بلاشبہ ان کا یہ مقصد فوت کردیتی ہے۔تو اسے بیان ہی نہیں کیا۔پھر اوپر جو عبارت نقل کی حاشیہ میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’(اس بدعتی) نواب حیدرآبادی کی تردید کے لئے یہ ابن ماجہ کی روایت کافی ہے جس میں ابن عمرؓفرماتے ہیں کہ:
’’اصحاب محمد کو گالی نہ دو کہ صحابی کا تھوڑی دیرقیام تمہارے بڑے ولی کے عمر بھر کے عمل سے بہتر ہے۔‘‘
(کچھ دیر، ص:273،آئینہ ،ص:222،وقفہ، ص:193)
جواب:غازی پوری ـصاحب !اگر علم ومعرفت اور نشرِ سنت میں افضل کہناگالی ہے تو غور سے دیکھیں آپ کے علامہ ابن عابدین الشامی الحنفی
’’اما سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ فھو إن کان أفضل من أبی حنیفۃ من حیث الصحبۃ فلم یکن فی العلم والاجتہاد ونشرالدین وتدوین أحکامہ کأبی حنیفۃ وقد یوجد فی المفضول ما لایوجد فی الفاضل‘‘
رہے سلمان الفارسیtتو وہ صحبت کے لحاظ سے اگرچہ ابوحنیفہ سے افضل ہیں لیکن وہ علم،اجتہاد،نشردین اور تدوین احکام میں ابوحنیفہ کی مانند نہیں تھے کبھی مفضول میں ایسی فضیلت پائی جاتی ہے جو فاضل میں نہیں پائی جاتی‘‘
(فتاویٰ شامی ۱؍۴۱،۴۲۔مطبوعہ رشیدیہ کوئٹہ پاکستان وفی نسخۃ ۱؍۵۱مطبوعہ کراچی)
جی غازی پوری صاحب کیا یہاں بھی آپ انہی جذبات کامظاہرہ کرتے ہوئے اسی طر ح کاتبصرہ فرماتےہوئے اپنے ان بزرگ علامہ شامی حنفی کو’’مبتدع‘‘ قراردیں گے اور ان کی ان باتوں کو گالیاں کہیں گے؟ اگرنہیں اوریقینا نہیں تو پھر وحیدالزمان صاحب کو مبتدع اور ان کی اس بات کےخلاف ’’گالیاں دینے والی روایت‘‘ نقل فرمانے کا کیامقصد؟جبکہ وحیدالزمان صاحب بھی صحابہ yکے سب وشتم کی مذمت کرچکے ہیں۔
اگر حبِ صحابہyکی محبت کےجذبات سےسرشار ہوکر یہ سب لکھا ہے تو ان دونوں کی ایک جیسی بات کیلئے دومختلف فتوے دینا ممکن نہیں۔ اور محض اہل حدیث دشمنی میں اتنے پارسابننے کی کوشش فرمائی ہے تو آپ اپنے ہی بزرگ کے خلاف کیوںلکھنے لگے۔ جہاں تک ہمارا معاملہ توہم صاف کہتے ہیں دونوں کی یہ بات مناسب نہیں ہے۔
غازی پوری صاحب کی خیانت
اس کے بعد غازی پوری صاحب نے’’ویقول‘‘ کہہ کر وحید الزمان کی ایک اور عبارت نقل فرماتے ہوئے لکھا:
’’ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:’’لیکن ممکن ہےکہ بعض اولیاء کو ایسی دوسری وجوہ سے فضیلت حاصل ہو جو صحابی کو حاصل نہ ہو‘‘
(کچھ دیر، ص:272،آئینہ ،ص:222،وقفہ، ص:193)
عباسی صاحب(مترجم کتاب) یہ ایک اور مقام نہیں ۔یہی مقام ہے بس درمیان سے وہ عبارت چھوڑ دی ہے جس سے غازی پوری دعویٰ کا ابطال ونقصان ہوتا ہے۔ملاحظہ کیجئے:درمیان میں لکھا ہے:
’’قال الشیخ الجیلانی من اصحابنا انہ لایبلغ الولی درجۃ الصحابی قلت: وھو قول الجمہور من اصحابنا والمحقق ان الصحابی لہ من فضیلۃ الصحبۃ مالایحصل للولی‘‘
ہمارے اصحاب میں سے شیخ جیلانی نے فرمایا کہ ولی صحابی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا۔میں کہتاہوں:ہمارے جمہور اصحاب کا یہی قول ہےاور تحقیق شدہ بات ہے کہ صحابی کے لئے(نبیuکے)صحبت کی جو فضیلت ہےوہ کسی ولی کوحاصل نہیں ہوسکتی۔‘‘(ھدیۃ المھدی،ص:90)
پھرآگے وہی عبارت ہے جوغازی پوری صاحب نے نقل کی۔ خود ہی سوچئے غازی پوری صاحب کی یہ حرکت خیانت ہے کہ نہیں کہ ایک ہی عبارت سے مفیدمطلب بات نقل کردیتےہیں اور درمیان میں اپنے دعویٰ اورمقصد کے خلاف عبارت چھوڑدیتےہیں ایسی خیانتوں کے بل بوتے جناب چلے ہیں تمام اہل حدیث کو شیعہ قرار دینے۔ الغرض غازی پوری صاحب کی مستدل کتاب ہی میں جمہور اہل حدیث کا موقف واضح کردیا گیاہےکہ’’کوئی ولی کسی صحابیtکے مقام ومرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ پھروحیدالزمان صاحب کی اس عبارت سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بعض جزوی فضیلتوں کاذکرکررہے ہیں۔
پھرغازی پوری صاحب فتویٰ لگاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’ان کا یہ کلام گمراہی اور جمہور امت کی مخالفت پرمبنی ہے جس کا اہل سنت والجماعت کے کلام سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے ہاں شیعہ عقائد وخرافات کے ساتھ ضرور ہم آہنگ ہے۔‘‘
(کچھ دیر، ص:272،آئینہ ،ص:222،وقفہ، ص:193)
اگر یہ کلام گمراہی اور جمہور امت کی مخالفت پراور شیعہ عقائد کی خرافات کے ساتھ ہم آہنگ ہے تو پھر آپ کے علامہ ابن عابدین الشامی صاحب ردالمختار بھی علم، اجتہاد،نشردین وتدوین احکام میںاپنے امام ابوحنیفہaکو رسول اللہ ﷺ کے صحابی سیدنا سلمان فارسیtپر فوقیت دے چکے ہیں ۔اور وحیدالزمان سے پہلے یہ کام انہوں نے کیا ہے تو ان کے بارے میں بھی یہی کچھ ارشاد فرمائیں گے، اس سے تو آپ کے امام ربانی گنگوہی بھی فتوے دیا کرتے تھے اور آپ کے ہاں’’تخصص فی الافتاء‘‘ کے متخصص فاضل درس نظامی طلبہ کے زیر مطالعہ رہتی ہے ہم نے تونہیں دیکھا کہ کسی دیوبندی عالم نے یہ عبارت نقل فرماکر اس پر گمراہی اور شیعہ عقائد کی خرافات سے ہم آہنگ ہونے کا فتویٰ دیا ہو۔
غازی پوری صاحب اور ان کے ہمنواؤں سے درخواست ہے کہ ان کی نظر سےاپنے کسی مفتی کا ایسا فتویٰ گزراہوتومطلع فرمائیں۔ البتہ آپ کی منطق سے تو علامہ شامی بھی شیعہ ثابت ہوں گے۔
وحیدالزمان صاحب اور احترام صحابہy
غازی پوری صاحب نے اپنی ہیرپھیر کے ساتھ وحید الزمان صاحب کی کتاب ’’ھدیۃ المھدی‘‘ سےچند اقتباسات نقل کرکے تمام اہل حدیث کو شیعہ بنانے کی جو مذموم کوشش کی اس کاحساب انہیں اللہ کے ہاں دیناہوگا۔جبکہ اہل حدیث ان کی ایسی کتابوں سے متفق نہیں ہیں۔
ذیل میں ہم ان کی اسی کتاب سے صحابہ کرام yکے ادب واحترام ومحبت سے متعلق چند اقتباسات نقل کررہے ہیں جو یقینا ان کی نگاہوں سے گزرے ہوں گے کہ انہی صفحات سے اقتباسات نقل کیے لیکن انہیں خاطر میں نہیں لائے کہ دعویٰ کا ابطال ہوتا ہے۔
وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں:
’’فالحق ان جھات الفضیلۃ مختلفۃ ولکل منھم فضیلۃ علی الاخرین بجھۃ خاصۃ بہ فابوبکر خیرھم باعتبار القدم فی الاسلام وطول الصحبۃ مع النبی ﷺ فی السفر والحضر وعمر خیرھم باعتبار جودۃ الرأی فی السیاسۃ المدنیۃ واشاعۃ الاسلام وجلادۃ القلب ونظم الحکومۃوعثمان خیرھم باعتبار النصرۃ المالیۃ والحیاء والحلم وکون بنتی النبیﷺ تحتہ ولذا لقب بذی النورین وعلی خیرھم بالنظر إلی قرب القرابۃ من النبی ﷺ والشجاعۃ فی الحروب ‘‘الخ
پس حق بات یہ ہے کہ جہات فضیلت مختلف ہیں ان میں سے ہر ایک کی دوسرے پر ایک خاص جہت سے فضیلت ہے، بس ابوبکرt ان میں سب سے بہتر ہیں، اسلام میں سب سے پہلے داخل ہونے اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ سفروحضر میں مصاحبت کے اعتبار سے۔ اور عمرtان میںسب سے بہتر ہیں سیاست مدنیہ اور نشراشاعتِ اسلام میں عمدہ رائے اور ہمت وصبر واستقلالِ قلبی اورنظم حکومت کے اعتبار سے۔ عثمانtان میں سب سےبہتر ہیںمالی نصرت،حیاء، حلم اور نبی کریم ﷺ کے دوصاحبزادیاں یکے بعد دیگر ان کے نکاح میں آنے کے اعتبار سے اور اسی لئے یہ ذوالنورین سے ملقب ہوئے۔اور علیtان میں سب سے بہتر ہیں نبی ﷺ کے قریب ترین قرابت دار ہونے اور جنگوں میں شجاعت کے اعتبار سے۔
(ھدیۃ المھدی:،ص:95,96)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’فصل :من السنۃ تولی اصحاب رسول اللہ ﷺ وحبھم وذکر محاسنھم والترحم علیھم والاستغفار لھم، وکف اللسان عن مساویھم وماشجر بینھم ،واعتقاد فضلھم ،ومعرفۃ سابقتھم فی الاسلام ،والاعتراف بحقوقھم والتشکر لمساعیھم فی الدین ،وتفضیل من انفق منھم قبل الفتح وقاتل علی من انفق بعدہ وقاتل قطعی ثابت بالکتاب وتفضیل اھل بدر علی غیرھم ثابت بالسنۃ الصحیحۃ، وما عداھما من التفصیلات امارات ظنیۃ قیاسیۃ أو ماثورۃ عن الصحابۃ وبعضھا اجماعیۃ بالاجماع الظنی السکوتی کتفضیل الخلفاء الاربعۃ علی بقیۃ العشرۃ المبشرۃ وتفضیل العشرۃ المبشرۃ علی بقیۃ المھاجرین الاولین من اھل بدر، وتفضیل المھاجرین علی الانصار ،وتفضیل اھل بیعۃ الرضوان علی ماعداھم‘‘
’’فصل رسول اللہ ﷺ کے صحابہyسےد وستی رکھنااور ان سے محبت، ان کے محاسن(خوبیوں) کا تذکرہ کرنا، ان کے لئے دعائے رحمت،ان کے لئے استغفار،ان کے مساوی اورمشاجرات (اختلافات) باہمی کے بیان سے زبان کو روکے رکھنا، ان کی فضیلت کا معتقد رہنا، اسلام میں ان کے آگے بڑھ جانے کی معرفت، ان کے حقوق کا اعتراف، دین کے سلسلہ میں کی جانے والی ان کی کوششوں کا احسان مند،(شکرگذار) رہنا،سنت میں سے ہے۔ اسی طرح ان میں سے فتح مکہ سے قبل انفاق وقتال کرنے والوں کی ان پر جنہوں نے فتح کے بعد انفاق وقتال کیا، فضیلت یقینی ہے قرآن مجید سے ثابت ہے۔ اور صحابہ میں اہل بدر کی دیگر تمام صحابہ پرفضیلت سنن صحیحہ سے ثابت ہے۔ ان کے علاوہ جو دیگرفضیلتیں دی جاتی ہیں وہ ظنی اور قیاسی علامات ہیں یاصحابہyسےمروی ہیں، ان میں سے اجماع سکوتی ظنی کے ساتھ اجماعی ہیں جیسے خلفاء اربعہ کی بالترتیب فضیلت عشرہ مبشرہ(دس وہ صحابہ جنہیں نام بنام جنت کی خوشخبری ملی)پر، اور عشرہ مبشرہ کی دیگر تمام اولین مہاجرین اہل بدر پرفضیلت، اور مہاجرین کی انصار پر فضیلت اور بیعت رضوان والوں کی اپنے علاوہ دیگر تمام صحابہ پر فضیلت۔‘‘
(ھدیۃ المھدی،ص:98)
ایک دوسری فصل میں وحید الزمان صاحب لکھتےہیں:
’’فصل :وکذلک اھل الحدیث یحبون ازواج النبی ﷺ امہات المؤمنین کلھن ویؤمنون انھن ازواجہ فی الدنیا والآخرۃ ،ویخصون من بینھن خدیجۃ لانھا ام اکثر اولادہ، اول من أمن بہ وعاضدہ علی امرہ بنفسہ ومالہ ورأیہ، وکان لھا منہ المنزلۃ العلیۃ ،والصدیقۃ بنت الصدیق لانھا کانت احب ازواجہ الیہ وانزل اللہ سبحانہ فی برائتھا آیات متعددہ‘‘
’’فصل اسی طرح اہل حدیث نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات gسے محبت کرتے ہیں وہ سب کی سب مؤمنین کی مائیں ہیں، اور اہل حدیث ایمان رکھتےہیں کہ یہ دنیاوآخرت میں نبی ﷺ کی ازواج ہیں، وہ ان میں سے سیدہ خدیجہ کو منفرد مانتے ہیں کہ وہ نبی ﷺ کے اکثر اولاد کی ماں تھیں، اور سب سے پہلی (خاتون) ایمان لانے والی، آپﷺ کے امر پر اپنے مال وجان اور رائے سے نصرت کرنے والی تھیں۔ اور آپ کو نبی ﷺ کے ہاں ایک بلند رتبہ حاصل تھا، اور سیدنا ابوبکرالصدیق کی صاحبزادی کو بھی منفرد مانتےہیں چونکہ وہ نبی ﷺ کی سب سے محبوب زوجہ تھیں اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ کی برأت میں متعدد آیات نازل فرمائیں۔(ھدیۃ المھدی،ص:100)
ان تمام اورگزشتہ صفحات میں مذکور چندعبارات پر نظر رکھنے والے، اس شخص وحیدالزمان صاحب کو رافضی وشیعہ وہی کہہ سکتے ہیں جو ان باتوں سے واقف نہ ہوں۔ بالاستیعاب یہ کتاب نہ پڑھی ہو یا تعصب وعداوت اورمذہبی جانبداری میں مبتلاءہوکر ان حقائق کو نظرانداز کربیٹھا ہو،کیا شیعہ ایسے ہی ہوتے ہیں جو خلفاء راشدین کو برحق امام مانتے ہوں ان کے فضائل ،مناقب ومساعی کو قبول کرتے ہوں، ان سے محبت اور ولاء کو لازم جانتے ہوں، تمام ازواج مطہرات کو امہات المؤمنین اور ان کے احترام کے قائل ہوں، اللھم لا.واللہ نہیں۔امید ہے کہ غازی پوری صاحب اپنے پراپیگنڈائی طریق سے بازآکر علمی وتحقیقی انداز اختیار فرمالیں گے اور جائز تنقید فرمائیں گے۔
ہاں یہ بات اپنی جگہ بالکل بجاودرست ہے کہ کاتب وحی سیدنا معاویہtکی شان میں وحیدالزمان صاحب نے سخت نامناسب بلکہ گھٹیاانداز اختیار کیا جوکہ غلط اور باطل ہے ہم ان کی ایسی اور دیگر تمام غلطیوں سے بری وبیزار ہیں۔ اس بحث سے اہل حدیث پر جھوٹے اورغلط الزامات کی تردید مقصود ہے۔

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

گھمن صاحب کی تیسری خیانت  قارئین کرام! گھمن صاحب نےا پنی اس کتاب کے ص:۵۳پر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے