احکام ومسائل

گورنمنٹ کا مسجدکو سیل کرنا

محترم جناب حافظ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیافرماتے ہیں محترم مفتی صاحب اس مسئلہ کے متعلق کہ مسجد کیلئے ایک پلاٹ لیاجاتاہے اور اس پر تعمیر کا کام کیاجاتاہےتوکچھ شرپسند لوگوں کی طرف سےمسلکی تعصب کامظاہرہ کیا جاتا ہے جس پر گورنمنٹ بسا اوقات مسجد کو سیل کردیتی ہے آپ سے استفسار یہ کرنا ہے کہ گورنمنٹ کے اس اقدام کی شرعی حیثیت کیا ہے؟(ایک سائل)

الجواب بعون الوہاب
صورت مسئولہ برصحت سؤال
یوں توساری زمین مسلمانوں کے لیے مسجد بنادی گئی ہے، لیکن مسجد شرعی اصطلاح میں اس جگہ کوکہتے ہیںجس کو نماز کے لئے وقف کردیا جائے جہاں دن میں پانچ مرتبہ مخصوص کلمات کے ساتھ جسے اذان کہتے ہیں کے ذریعے اللہ کی عبادت کیلئے بلایاجاتاہے جسے نماز کہتے ہیں،نماز باجماعت کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن کرنا، نیز بچوں کی دینی تعلیم کاہونا، اعتکاف اور دینی پروگرام جن سے عوام الناس کی اصلاح ہو یہ وہ اعمال ہیں جو مسجد میں کیے جاتےہیں اور مسجد کا مقصد بھی مسلمانوں کو دینی حوالے سے سہولت دیناہوتاہے۔
کسی جگہ پر قبضہ کرکے مسجد بناناشرعاً درست نہیں ہے، نیز مسجد کو عام لوگوں کی گزرگاہ پر بھی بنانا درست نہیں ہے، البتہ محلوں ،بستیوں میں مسجد بنانا ضروری ہے اس بارے میں ام المؤمنین عائشہr روایت کرتی ہیںکہ(امر رسول اللہ ﷺ ببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب)(رواہ ابوداؤد)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ محلوں میں مساجدبنائی جائیں اور انہیں صاف ستھرارکھاجائے اور اس میں خوشبوکااستعمال کیاجائے۔
حدیث رسول سے یہ مسئلہ واضح ہوا کہ ہر محلے میں نمازیوں کی سہولت کے لئے مسجد بنوائی جائے۔ یوں بھی اہل ایمان کی شان قرآن مجید نے بیان فرمائی ہے:
[اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ](التوبہ:۱۸)
ترجمہ:اللہ کی مسجدوں کی رونق وآبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں۔
ایک مسجد جس میں مذکورہ تمام امور یعنی نماز،خطبۂ جمعہ، بچوں کی تعلیم وتربیت اور لوگوں کی راہنمائی کیلئے دروس کا اہتمام کیا جاتا ہے نیز اہل علاقہ میں سے غیر متعصب لوگ اس عمل پر خوش ہوتےہیں کہ ان کے بچوں کی دینی تعلیم کا معقول بندوبست ہوگیا ہے۔ اب اس کاسیل کرنا یا اس کوگرانا شرعاً واخلاقاً دونوں طرح قابل مذمت ہے اور عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
[وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللہِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِہَا](البقرہ:۱۱۴)
ترجمہ:اس شخص سے بڑھ کر ﻇظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے۔
لہذا مسجد کے حوالے سے معاملات میں وسعت رکھنی چاہئے یہ کسی کی ذاتی جائیداد کا مسئلہ نہیں ہے ،اللہ کے گھر کی بات ہے۔
مذکورہ آیت میں وہ شخص مخاطب ہے جو لوگوں کو مسجد میں آنے سے روکتا ہے اور اس کو ویران کرناچاہتا ہے ، یہ انتہائی درجہ کا ظلم ہے جو لاشعوری میں مسجد کو سیل کرکے کیاجاتا ہے امید ہے کہ فرمان باری تعالیٰ اور فرمان رسول پر سنجیدگی سے غور کرکے ایسا کام نہیں کیاجائے گا جو مسلمانوں کے سروں کوشرم سے جھکادے۔
ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب
رب کریم ہمیں جمیع معاملات میں قرآن وسنت کی روشنی میں عمل کی توفیق عطافرمائے۔

About حافظ محمد سلیم

مفتی جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

احکام ومسائل

مسئلہ وراثت محترم جناب مفتی صاحب! گزارش یہ ہے کہ وراثت کے معاملے میں کچھ رہنمائی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے