Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ اگست » فتنۂ غامدیت قسط:25(آخری)

فتنۂ غامدیت قسط:25(آخری)

حافظ صلاح الدین یوسف قسط:25 (آخری)
مشیر:وفاقی شرعی عدالت پاکستان


فتنۂ غامدیت
جوپیرہن اس کاہے وہ مذہب کاکفن ہے


(۶) اگر عورت خلع مانگے اور مرد اس پر راضی نہ ہو تو قاضی اس کو حکم دے گا کہ اسے چھوڑ دے۔ تمام روایات میں یہی آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین نے ایسی صورتوں میں مال قبول کرکے عورت کو چھوڑ دینے کاحکم دیا ہے۔ اور قاضی کاحکم بہرحال یہی معنی رکھتا ہے کہ محکوم علیہ اس کے بجالانے کاپابند ہے۔حتی کہ اگر وہ بجانہ لائے تو قاضی اس کو قید کرسکتا ہے۔ شریعت میں قاضی کی حیثیت صرف ایک مشیر کی نہیں ہے کہ اس کا حکم مشورہ کے درجہ میں ہواورمحکوم علیہ کو اس کے ماننے یا نہ ماننے کا اختیار ہو۔قاضی کی اگر یہ حیثیت ہوتولوگوں کے لئے اس کی عدالت کا دروازہ کھلاہونامحض بے معنی ہے۔
(۷) خلع کاحکم نبی ﷺ کی تصریح کےمطابق ایک طلاق بائن کا ہے یعنی اس کےبعد زمانہ عدت میں شوہر کو رجوع کاحق نہ ہوگا۔ کیونکہ حقِ رجوع باقی رہنے سے خلع کامقصد ہی فوت ہوجاتا ہے،نیز چونکہ عورت نے جو مال اس کو دیا ہے وہ عقدنکاح سے اپنی رہائی کے معاوضہ میں دیا ہے،اس لئے اگر شوہرمعاوضہ لےلے اور اس کورہائی نہ دے تو یہ فریب اور دغاہوگی جس کو شریعت جائز نہیں رکھ دسکتی۔ ہاں اگر عورت دوبارہ اس کے ساتھ نکاح کرناچاہے تو کرسکتی ہے ،کیونکہ یہ طلاق مغلظہ نہیں ہے۔ جس کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کیلئے تحلیل شرط ہے۔
(۸) خلع کےمعاوضہ کی تعیین میں اللہ تعالیٰ نے کوئی قید نہیںلگائی ہے، جیسے معاوضے پر بھی زوجین راضی ہوجائیں اس پر خلع ہوسکتا ہے، لیکن نبی ﷺ نے اس کو ناپسند فرمایا کہ شوہر خلع کے معاوضہ میں اپنے دیئے ہوئے مہر سے زیادہ مال لے۔آپﷺ کا ارشاد ہے:لایأخذ الرجل من المختلعۃ اکثر مما اعطاھا.
سیدنا علی نےبھی بالفاظِ صریح اس کو مکروہ فرمایا ہے۔
ائمہ مجتہدین کا بھی اس پراتفاق ہے، بلکہ اگر عورت اپنے شوہر کے ظلم کی وجہ سے خلع کامطالبہ کرے تو شوہر کے لئے سرے سے مال ہی لینا مکرو ہ ہےجیسا کہ ہدایہ میں ہے :وان کان النشوز من قبلہ یکرہ لہ ان یاخذ منھا عرضا.
ان تصریحات کو دیکھتے ہوئے اس باب میں اصول شرع کے ماتحت یہ ضابطہ بنایاجاسکتا ہے کہ اگر خلع مانگنے والی عورت اپنے شوہر کا نشوز ثابت کردے ،یا خلع کے لئے ایسے وجوہ ظاہر کرے جو قاضی کے نزدیک معقول ہوں تو اس کو مہر کے ایک قلیل جز یا نصف کی واپسی پر خلع دلایاجائے۔ اور اگر وہ نہ شوہرکانشوز ثابت کرے نہ کوئی معقول وجہ ظاہر کرے تو اس کے لئے پورامہر یا اس کا ایک بڑاحصہ واپس کرنا ضروری قرار دیاجائے، لیکن اگر اس کے رویے میں قاضی کو ذواقیت کے آثار نظرآئیں تو قاضی سزا کے طور پر اس کو مہر سے زیادہ دینے پر مجبور کرسکتاہے۔

مسئلہ خلع میں ایک بنیادی غلطی:

خلع کی اس بحث سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ قانونِ اسلامی میں عورت اور عورت کے حقوق کے درمیان کس قدر صحیح توازن قائم کیاگیا ہے۔ اب یہ ہماری اپنی غلطی ہے کہ ہم نے اپنی عورتوں سے خلع کے حق کو عملاً سلب کرلیا۔ اور اصولِ شرع کے خلاف،خلع دینے یا نہ دینے کو بالکل مردوں کی خواہش پر منحصر ٹھہرادیا۔
اس سےعورت کی جوحق تلفیاں ہوئیں اورہورہی ہیں ان کی ذمہ داری خدا اور رسول کے قانون پر قطعاً نہیں ہے۔ اگر اب بھی عورتوں کے اس حق کا استقرار ہوجائے تو وہ بہت سی گتھیاں سلجھ جائیں جو ہمارے ازدواجی معاملات میں پیدا ہوگئی ہیں،بلکہ گتھیوں کا پیداہونا ہی بند ہوجائے۔
عورت سے خلع کے حق کو جس چیز نے عملاً بالکل سلب کرلیا ہے، وہ یہ غلط خیال ہے کہ شارع نے خلع کا معاملہ کلیۃً زن وشوہر کے درمیان رکھا ہےاور اس میں مداخلت کرناقاضی کے حدودِ اختیار سے باہر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خلع دینا نہ دینا بالکل مرد کی مرضی پر موقوف ہوگیا ہے، اگر عورت خلع حاصل کرنا چاہے اورمرد اپنی شرارت یا خودغرضی سے نہ دینا چاہے تو عورت کے لئے کوئی چارۂ کار نہیں رہتا ،لیکن یہ بات شارع کے منشاء کے بالکل خلاف ہے،شارع کایہ منشاء ہرگز نہ تھا کہ معاملہ ٔ نکاح کے ایک فریق کو بالکل بے بس کرکے دوسرے فریق کے ہاتھ میں دے دے، اگر ایسا ہوتا تو وہ بلند اخلاقی وتمدنی مقاصد فوت ہوجاتے جو اس نے مناکحت کے ساتھ وابستہ کئے ہیں۔
جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیاجاچکا ہے ، اسلامی شریعت میں قانون ازواج کی بناء ہی اس اصل پر رکھی گئی ہے کہ عورت اور مرد کا ازدواجی تعلق جب تک پاکیزگی ٔ اخلاق اور مودت ورحمت کے ساتھ قائم رہ سکتا ہو اس کا استحکام مستحسن اور ضروری ہے اور اس کوتوڑنا یا تڑوانے کی کوشش کرنا سخت نامحمود ہے اور جب یہ تعلق دونوں کے لئے، یاد ونوں میں سے کسی ایک کے لئے اخلاق کی خرابی کا سبب بن جائے یا اس میں مودت ورحمت کی جگہ نفرت وکراہت داخل ہوجائے تو پھر اس کا توڑنا ضروری ہےاور اس کاباقی رہنا اغراض شریعت کے خلاف ہے اس اصل کے ماتحت شریعت نےمعاملۂ نکاح کے دونوں فریقوں کو ایک ایک قانونی آلہ ایسا دیا ہے جس سے وہ عقدنکاح کے ناقابل برداشت ہوجانے کی صورت میں حل وعقد کاکام لے سکتے ہیں۔ مرد کے قانونی آلہ کانام طلاق ہے جس کے استعمال میں اسے آزاد اختیار دیاگیا ہےا وراس کے بالمقابل عورت کے قانونی آلہ کا نام خلع ہے جس کے استعمال کی صورت یہ رکھی گئی ہے کہ جب وہ عقد نکاح کوتوڑنا چاہے تو پہلے مرد سے اس کا مطالبہ کرے اور اگر مرد اس کامطالبہ پورا کرنے سےانکار کرے تو پھر قاضی سے مدد لے۔
زوجین کے حقوق میں توازن اسی طرح قائم رہ سکتا ہے اور خدا اور رسول نے درحقیقت یہی توازن قائم کیا تھا۔ مگرقاضی کے اختیار سماعت کو درمیان سے خارج کرکے یہ توازن بگاڑ دیاگیا کیونکہ اس طرح وہ قانونی آلہ جو عورت کود یاگیا تھا قطعاً بے کار ہوگیا ،اور عملاً قانون کی صورت بگڑ کر یہ ہوگئی کہ مرد کو ازدواجی تعلق میں حدود اللہ کے ٹوٹنے کا خوف ہو یا یہ تعلق اس کے لئے ناقابل برداشت ہوجائے تو وہ اسے قطع کرسکتا ہے ،لیکن اگر یہی خوف عورت کو ہویاازدواجی تعلق اس کے لئے ناقابلِ برداشت ہوجائے تو اس کے پاس اس تعلق کو قطع کرانے کا کوئی ذریعہ نہیں تاوقتیکہ مرد ہی اس کو آزاد نہ کردے وہ مجبور ہے کہ بہرحال اس تعلق میں بندھی رہے ،خواہ حدود اللہ پر قائم رہنا اس کے لئے محال ہی کیوں نہ ہوجائے اور مناکحت کے شرعی مقاصد بالکل ہی کیوں نہ فوت ہوجائیں، کیا کسی میں اتنی جسارت ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی شریعت پر اتنی کھلی ہوئی بے انصافی کاالزام عائد کرسکے؟ یہ جسارت اگر کوئی کرے تو اسے اقوالِ فقہاء سے نہیں بلکہ کتاب وسنت سے اس کاثبوت پیش کرناچاہئے کہ اللہ اور رسول نے خلع کے معاملہ میں قاضی کو کوئی اختیار نہیں دیا ہے۔

مسئلہ خلع میں قاضی کے اختیارات:

قرآن مجید کی جس آیت میں خلع کا قانون بیان کیا گیا ہے اس کو پھر پڑھیئے:
[فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ۝۰ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِہٖ۝۰ۭ ](بقرۃ:۲۲۹)
’’اگر تم کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ان دونوں (یعنی زوجین) پر اس میںکوئی مضائقہ نہیں کہ وہ (یعنی عورت) کچھ فدیہ دے کرعلیحدگی حاصل کرلے۔
اس آیت میں خود زوجین کا ذکر توغائب میں کیاگیا ہے لہذا لفظ خفتم(اگر تم کوخوف ہو) کے مخاطب وہ نہیں ہوسکتے ،اب لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اس کے مخاطب مسلمانوں کے اولی الامر ہیں اور حکم الٰہی کا منشا یہ ہے کہ اگرخلع پرزوجین میں باہمی رضامندی حاصل نہ ہو تو اولی الامر کی طرف رجوع کیاجائے اس کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جو ہم اوپر نقل کرچکے ہیں، نبی ﷺ اور خلفائے راشدین کے پاس خلع کے دعوے لے کرعورتوں کاآنا اور آپ کا ان کی سماعت کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ جب زوجین میں خلع پرراضی نامہ نہ ہوسکے،توعورت کو قاضی کی طرف رجوع کرنا چاہئےاب اگر فی الواقع قاضی اس معاملہ میں صرف سماعت کا اختیار رکھتا ہو مگرمرد کے راضی نہ ہونے کی صورت میں اس سے اپنافیصلہ منوانے کا اختیار نہ رکھتا ہوتو قاضی کو مرجع قراردینا سرے سے فضول ہی ہوگا۔ کیونکہ اس کے پاس جانے کا نتیجہ بھی وہی ہے جو نہ جانے کا ہے لیکن کیااحادیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ قاضی اس معاملہ میں بے اختیار ہے؟ نبیﷺ اور خلفائے راشدین کے جتنے فیصلے اوپر منقول ہوئے ہیں، ان سب میں یاتوصیغہ ٔ امر آیا ہے جیسے:’’طلقا‘‘(اسے طلاق دے) ،’’فارقھا‘‘(اس سے جدا ہوجا) اور ’’خل سبیلھا‘‘(اس کو چھوڑدے) یا یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے مرد کو حکم دیا کہ ایسا کرے۔اور ابن جریر نے ابن عباس سےجو روایت نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ’’ففرق بینھما‘‘ پھر آپ نے ان کو جداکردیا۔ اور یہی الفاظ اس روایت میں بھی ہیں جو خود جمیلہ بنت ابی بن سلول سے منقول ہے اس کےبعد یہ شبہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ قاضی خلع کے معاملہ میں حکم دینے کامجاز نہیں۔
رہایہ سوال کہ اگر شوہر اس حکم کومحض مشورہ سمجھ کر ماننے سے انکار کردے توکیاقاضی اس سے جبراً اپناحکم منواسکتا ہے؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ نبی ﷺ اورخلفائے راشدین کے عہد میں تو ایسی کوئی مثال ہم کو نہیں ملتی ،کہ آپ نے کوئی فیصلہ صادر کیاہو اور کسی نے اس سے سرتابی کی جرأت کی ہو۔
لیکن سیدناعلی کے اس فیصلہ پر ہم قیاس کرسکتے ہیں ،جس میں آپ نے ایک ہیکڑ شوہر سے فرمایاتھا:
لست ببارحۃ حتی ترضی بمثل ما رضیت بہ.
یعنی تجھے نہ چھوڑاجائے گا جب تک تو بھی اس طرح حکمین کا فیصل قبول کرنے پر راضی نہ ہو جس طرح عورت راضی ہوئی۔
اگرقاضی ایک شوہر کو حکمین کافیصلہ تسلیم کرنے سے انکار پر حراست میں رکھ سکتا ہے تو وہ خود اپنافیصلہ منوانے کے لئے توبدرجہ اولی قوت استعمال کرنے کاحق رکھتا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کے معاملات میں سے صرف ایک خلع ہی کا مسئلہ ایسا ہو جسے قاضی کے اس حق سے مستثنی قرار دیاجائے، فقہ کی کتابوں میں متعدد جزئیات ایسی ملتی ہیں جن میں قاضی کو اختیار دیاگیا ہے کہ اگر شوہر اس کے حکم سے طلاق نہ دے تو قاضی خود تفریق کرادے ،پھر کیوں نہ خلع کے مسئلہ میں بھی قاضی کو یہ اختیار حاصل ہو؟
آگے چل کرجومباحث بیان ہوں گے ان سے یہ حقیقت اور بھی زیادہ واضح ہوجائے گی کہ عنین(نامرد) اور مجبوب(مقطوع الذکر) اورخصی اور جذامی اور مبروص (کوڑھی)اور مجنون شوہروں کے مسئلہ میں فقہائے کرام نے ضوابط بیان کئے ہیں اور اسی طرح خیار بلوغ اور بعض دوسرے مسائل میں جو اجتہادی قوانین مقرر کئے گئے ہیں ،ان کی موجودگی میں تو نہایت ضروری ہوگیا ہے کہ عورتوں کو خلع دلانے کے پورے اختیارات قاضی کوحاصل ہوں۔ ورنہ جو عورتیں ایسے حالات میں گرفتار ہوجائیں، اس کے لئے بجزاس کے اور کوئی صورت ہی نہیں رہتی کہ یا تو وہ تمام عمر مصیبت کی زندگی بسرکریں، یاخودکشی کرلیں۔ یا اپنے داعیاتِ نفس سے مجبور ہوکر فواحش میں مبتلاہوجائیں ،یامجبورا مرتدہوکر قیدِ نکاح سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کریں، توضیح مدعا کے لئےہم یہاں ایک مثال پر اکتفاء کرتے ہیں۔
عنین کے معاملہ میں فقہی مسئلہ یہ ہے کہ اس کو ایک سال تک علاج کی مہلت دی جائے گی ،اگر علاج کے بعد وہ ایک مرتبہ بھی ہم بستری پر قادر ہو گیا حتی کہ اگر ایک مرتبہ اس نے ادھوری مباشرت بھی کرلی.

1 تو عورت کو فسخ نکاح کاحق نہیں ہے،بلکہ یہ حق ہمیشہ کے لئے باطل ہوگیا ۔ اگرعورت کو نکاح کے وقت معلوم تھا کہ وہ نامرد ہے اور پھر وہ نکاح پراضی ہوئی تو اس کو سرے سے قاضی کے پاس دعویٰ ہی لے جانے کا حق نہیں

2 اگر اس نے نکاح کے بعد ایک مرتبہ مباشرت کی اور پھر نامرد ہوگیا تب بھی عورت کو دعویٰ کاحق نہیں

3۔ اگر عورت کونکاح کے بعد شوہر کے نامرد ہونے کاعلم حاصل ہو اور وہ اس کے ساتھ رہنے پر اپنی رضامندی کااظہار کردے تب بھی وہ ہمیشہ کے لئے خیار فسخ سے محروم ہوگئی۔4ان صورتوں میں عورت کاخیار فسخ تو یوں باطل ہوگیا اس کے بعد ایسے ناکارہ شوہر سے چھٹکاراحاصل کرنے کی دوسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ وہ خلع کرلےمگر وہ اس کو مل نہیں سکتا،کیونکہ شوہر سے مطالبہ کرتی ہے تو وہ اس کاپورامہر بلکہ مہر سے کچھ زائد لے کر بھی چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا،اور عدالت سے رجوع کرتی ہے تو وہ اس کو مجبور کرکے طلاق دلوانے یا تفریق کرنے سے انکار کردیتی ہے ،اب غور کیجئے کہ اس غریب عورت کاحشر کیاہوگا ؟بس یہی نا کہ یا تو خودکشی کرکے، یا عیسائی راہبات کی طرح نفس کشی کی زندگی بسر کرے اور اپنے نفس پر روح فرسا تکلیفیں برادشت کرے، یا قید نکاح میں رہ کر اخلاق فواحش میں مبتلا ہو۔ یا سرے سے دین اسلام ہی کو خیرباد کہہ دے ۔ مگر کیا اسلامی قانون کامنشاء بھی یہی ہے کہ عورت اس حالات میں کسی حالت میں مبتلا ہو؟ کیا ایسے ازدواجی تعلق سے شریعت کے وہ مقاصد پورے ہوسکتے ہیں جن کے لئے قانونِ ازدواج بنایاگیا تھا؟ کیا ایسے زوجین میں مودت ورحمت ہوگی؟ کیا ان کے گھر میں خوشی اور راحت کے فرشتے کبھی داخل ہوسکیں گے؟کیا وہ باہم مل کر تمدن کی کوئی مفید خدمت کرسکیں گے؟ کیا یہ قید نکاح کسی حیثیت سے بھی احصان کی تعریف میں آسکے گی اور اس سے دین اور اخلاق اور عفت کا تحفظ ہوگا؟ اگر نہیں تو بتایاجائے کہ ایک بے گناہ عورت کی زندگی برباد ہونے یامجبوراً اس کے فواحش میں مبتلا ہوجانے ،یا دائرہ دین سے نکل جانے کا وبال کس کے سر ہوگا؟خدا اور رسول تو یقیناً بریٔ الذمہ ہیںکیونکہ انہوں نے اپنے قانون میں ایسا کوئی نقص نہیں چھوڑا ہے۔

قضائے شرعی:

طلاق اور خلع کی بحث میں قانونِ اسلامی کی جوتفصیلات بیان کی گئی ہیں، ان سےیہ بات عیاںہوجاتی ہے کہ یہ قانون اس قاعدہ کلیہ پر وضع کیا گیا ہے کہ عورت اور مرد کا ازدواجی تعلق اگر قائم رہے تو حدود اللہ کی حفاظت اور مودت ورحمت کے ساتھ قائم رہے جس کو قرآن میں امساک بالمعروف کے جامع لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اگر اس طرح ان کا باہم مل کر رہنا ممکن نہ ہو تو تسریح باحسان ہونا چاہئے ،یعنی جو میاں بیوی سیدھی طرح مل کر نہ رہ سکتے ہوں وہ سیدھی طرح الگ ہوجائیں اور ایسی صورتیں پیدا نہ ہونے پائیں کہ ان کے اختلاف سے نہ صرف ان کی اپنی زندگی تلخ ہو،بلکہ خاندان میں فتنے برپاہوں ،سوسائٹی میں گندگی پھیلے، اخلاقی مفاسد کی اشاعت ہو، اور آئندہ نسلوں تک ان کے برےاثرات متعدی ہوجائیں ،انہیں خرابیوں کا سدِ باب کرنے کے لئے شریعت نے مرد کو طلاق کا اور عورت کو خلع کاحق دیا ہے۔ تاکہ اگر وہ چاہیں توخود تسریح باحسان کے اصول پر عمل کرسکیں [1]لیکن بہت سی ایسی جھگڑالوطبیعتیں بھی ہوتی ہیں جو نہ امساک بالمعروف پر عمل کرسکتی ہیں اور نہ تسریح باحسان پرآمادہ ہوتی ہیں ،نیز ازدواجی معاشرت میں ایسی صورتیں بھی پیش آجاتی ہیں جن میں زوجین کے درمیان یاتوحقوق کے باب میں اختلاف واقع ہوتا ہے ،یاامساک بالمعروف اور تسریح باحسان دونوں پر عمل کرنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا،اس لئے شریعت نے طلاق اور خلع کے علاوہ ایک تیسرا طریقہ بھی حقوق کے تصیفے اور حقوق اللہ کی حفاظت کے لئے مقرر کردیا ہےجس کانام قضاء شرعی ہے۔(حقوق الزوجین ،ص۵۸تا۸۰)

(۹) مولانا قاضی محمد اویس خان ایوبی(آزاد کشمیر)

یہ بھی ایک حنفی عالم اور مفتی ہیں، ان کا ایک فاضلانہ مقالہ حق خلع کے اثبات میں’’الشریعہ‘‘ (جون ۲۰۱۵ء)میں شائع ہوا ہے جوان کی کتاب ’’مقالات ایوبی‘‘ میں شامل ہے ۔
اس میں نہایت پرزورانداز میںحنفی علماء کے حق خلع کے انکار والے موقف پرسخت تنقید کی گئی ہے ،بلکہ دارالعلوم کراچی، جامعہ بنوریہ(کراچی)جامعہ فاروقیہ(کراچی) تینوں بڑے بڑے جامعات کے مفتیان کرام کو رگیداگیا ہے جنہوں نے ان کے حق خلع کے اثبات والے فتوے اور عدالتی بیان کو ہدف تنقید بنایا تھا اور ان مفتیان کو چیلنج کیا ہے کہ وہ ان کے دلائل کا جواب دیں ورنہ ان دار العلوموں کو غلط سلط فتوے دے کر بٹہ نہ لگا ئیں۔
اہل علم اس کاخود مطالعہ فرمائیں تاکہ حنفی علماء کے فقہی جمود کا اندازہ کیاجاسکے۔

(۱۰) اسلامی نظریات کونسل کی طرف سےحق خلع کاانکار

۲۸مئی۲۰۱۵ءکے روزنامہ اخبارات میں اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ بیان پڑھ کر توہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جس میں اس کے چیئرمین نے بھی یہ اعلان کردیاکہ شوہر کی رضامندی کے بغیر یک طرفہ خلع لینا جائز نہیں اور عدالتوں کی بابت کہا کہ وہ یک طرفہ طور پر خلع کی ڈگری جاری نہیں کرسکتیں، حالانکہ عدالتوں کوتومجبوراً خلع کافیصلہ کرناپڑتا ہے،علاوہ ازیں عورت عدالت کی طرف رجوع ہی اس وقت کرتی ہے جب ناپسندیدہ یاظالم خاوند سے گلوخلاصی کی کوئی صورت ہی اس کونظر نہیں آتی اور خاوند کسی صورت بھی طلاق دینے پرآمادہ نہیں ہوتا۔
آخرعدالتیں کس مقصد کے لئے ہیں؟دنیابھر کے مظلومین دادرسی کے لئے عدالت ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں،کیا عورت ہی ایک ایسی ہے کہ وہ دادر سی اور اپناحق وصول کرنے کے لئے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاسکتی؟ اور اگر کوئی عورت ایسا کرتی ہے تو فرمایا جارہا ہے کہ عدالتیں مظلوم عورت کو اس کاحق نہ دیں بلکہ عورت کوظالم مردکے شکنجۂ ستم میں کسارہنے دیں۔
کیاخوب فیصلہ ہے؟ یہ اسلامی کونسل ہے یا حنفی کونسل ؟ اسلام نے تو عورت کو یہ حق دیا ہے ،البتہ حنفی علماء عورت کو اس کا یہ حق دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اسی طرح نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے اپنے اسی بیان میں عورت کو تفویض طلاق دینے کے حق کی بھی حمایت کی ہے،حالانکہ یہ بھی غلط ہے اور اللہ کے دیے ہوئے حق خلع کے مقابلے میں ایک نئی شریعت سازی ہے جیسا کہ اس پر مفصل بحث پہلے گزر چکی ہے۔
بہرحال مذکورہ دس مثالوں سے واضح ہے کہ علمائے احناف یقیناً عورت کے حق خلع کےمنکر ہیں جب کہ قرآن وحدیث کی واضح نصوص سے یہ ثابت ہے ۔علمائے احناف میں سے جن کے اندر فقہی جمود زیادہ نہیں ہے ،انہوں نے بہرحال اس کوتسلیم کرلیا ہے۔ کثراللہ امثالھم.


حاشیہ:

[1] یہاں اس بات کو بھی سمجھ لیناچاہئے کہ اسلامی شریعت میاں اور بیوی کے باہمی جھگڑوںکاپبلک میں علانیہ برسرِ عدالت آنا پسند نہیں کرتی، اس لئے اس نے عورت اور مرد دونوں کیلئے ایسے قانونی چارۂ کا رکھ دیئے ہیں کہ حتی الامکان گھر کے گھر ہی میں وہ اپنے جھگڑے نمٹالیں۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانابالکل آخری تدبیر ہے جب گھر میں فیصلہ کرلینے کا کوئی امکان نہ ہو۔

About حافظ صلاح الدین یوسف

Check Also

فتنۂ غامدیت قسط:۲۳

 قسط:۲۳ موجودہ علمائے احناف ومفتیان کرام سے استفسار کرلیا جائے؟ جب مسئلے کی نوعیت یہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے