Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ اگست » البیک اتنامشہور کیوں؟؟؟

البیک اتنامشہور کیوں؟؟؟


البیک سرزمین حجاز کامشہور ترین ریسٹورنٹ کیوں ہے اور وہاں ہر وقت اس قدر رش کیوں لگارہتا ہے؟یقیناً اس کے پیچھے کوئی بہت بڑا راز ہے !لوگ اس طرح ٹوٹ کر پڑتے ہیں کہ سب اندازے لگانا شروع کردیتے ہیں۔کوئی کہتا ہے البیک ریسٹورنٹ والاخاص قسم کے مصالحے لگاکر بروسٹ تیار کرتا ہے، یوں کسی کا کہنا ہے کہ البیک والوں کی مرغی ہی خاص ہوتی ہے۔ آخر اس کے پیچھے کیا راز ہے؟ کیوں ہر کوئی البیک کے پیچھے پاگل ہوئے جارہا ہے !خریداروں کی بھیڑ کی اصل وجہ جاننے کیلئے بہت سے لوگ بے تاب تھے۔ مگر البیک کے مالک شکورابوغزالہ نے اس راز کو راز ہی رہنے دیا، یہاں تک کہ وہ اس راز کو اپنے سینے میں لئے موت کے دروازے سے داخل ہوکر اللہ رب العزت کے ہاں جاپہنچے۔ ابوغزالہ کی وفات کے بعد ایک فلاحی ادارے نے اس راز سے پرد ہ اٹھاکر سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس خیراتی ادارے کے لوگ ابوغزالہ کی وفات کےبعد فکر مند تھے کہ اب کیاہوگا؟ جو شخص باقاعدگی کے ساتھ ہمارے ادارے کا مالی بوجھ اٹھاتاتھا،وہ تو اب اس دنیا میں نہیںرہا۔انہوں نے اپنی اس پریشانی کا ذکر ابوغزالہ کے بیٹوں سےکیا جو اپنے والد کی جگہ اب ریسٹورنٹ چلارہے تھے، ان لوگوں کی باتیں سن کر ابوغزالہ کے بیٹوں کو پہلی بار معلوم ہوا کہ ان کے والد فروخت ہونے والے ہر پیکٹ کی آمدنی سے ایک ریال اللہ کی راہ میں صدقہ دیا کرتےتھے۔ اس بات کو انہوں نے انتہائی خفیہ رکھاہوا تھا۔ شاید انہیں معلوم تھا کہ آدمی کوصدقہ وخیرات اور نیک اعمال کا اجر اس کی وفات کے بعد بھی اسے قبر میں ملتارہتا ہے۔انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت بھی ایسی ہی کی تھی تاکہ ان کے بعد بچے بھی نیکی کے کاموں میں بڑھ چرھ کرحصہ لیتے رہیں۔اپنے والد کے اس عمل کو جاننے کے بعد بیٹے حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، چند ہی لمحوں بعد انہوں نے خیراتی ادارے کے لوگوں پر اپنی بات واضح کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ہم اپنے والد کے اس عمل کو رکنے نہیں دیں گے ۔ وہ ہر پیکٹ پر ایک ریال صدقہ کرتے تھے ہم دوریال صدقہ کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
یہ بات سنتے ہی ایک شخص کے منہ سے بے اختیار اللہ اکبر کا کلمہ بلند ہوا اور کہا: آپ کے والد نےاللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے کاروبار کو خوب چمکادیا اور برکت ڈال دی ۔ اس اجر سے انہیں اللہ جنتوں میں بھی داخل کرے گا۔ ان شاء اللہ
اللہ بڑے فضل کا مالک ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ كَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ۝۰ۭ وَاللہُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۲۶۱ ] ترجمہ:جو لوگ اپنےمال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویاجائے اور اس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھادیاتاہے، اور اللہ تعالیٰ کشادگی والااور علم والا ہے۔(البقرہ:۲۶۱)

About وحید عبداللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے