اداریہ

مولانا ولی رازی کاغلط نظریہ

الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول ﷲ (صلی اللہ علیہ وسلم) وبعد!
قارئین کرام! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
سب سے پہلےروز نامہ امت کراچی مورخہ3مارچ 2017ء کی اشاعت میں شایع شدہ مولاناولی رازی کے مضمون’’ایک بدوی صحابیؓ اور امام ابوحنیفہؒ‘‘سے ایک طویل اقتباس ملاحظہ ہو:
’’یہ بات توہر مسلمان جانتابھی ہے اور مانتا بھی ہے کہ انبیائے کرام کے بعد تمام صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین دین کے اعتبار سے پوری امت میں زیادہ علم رکھنے والے ہیں ان کے مقابلے میں کوئی کتنا ہی بڑا عالم ہو،محدث ہو، مفسرہو، ان سے افضل نہیں ہوسکتا۔لیکن یہ بات اکثر لوگ نہیں جانتے کہ ہرصحابی کا ہرامتی سے علم کے اعتبار سے بڑا ہونا ضروری نہیں، بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ جوصحابہ کرام فقیہ اور عالم ہیں ،وہ امت کے علماء اور فقہاء سے افضل ہیںاور جوصحابہ کرام میں عوام ہیں وہ امت کے عوام سے علم میں بڑے اورافضل ہیں۔یہاں ایک اشکال یہ ہوتا ہے کہ ایک بدوی صحابی جنہوں نے مسجد نبوی میں سب کے سامنے پیشاب کردیاتھا، کیا ان کا علم امام ابوحنیفہ سے زیادہ عمیق تھا؟ ظاہرہے کہ امام ابوحنیفہ کا علم ان صحابی سے زیادہ بڑھاہواتھا۔ ان صحابی کے علم کاحال تو اسی واقعے سے معلوم ہوگیاکہ انہوں نے تین کام فقہ کے خلاف کیے۔ اول تو سب کے سامنےپیشاب کیا۔ دوم سب کے سامنے سترکھولا۔ سوم یہ کہ مسجد میں پیشاب کیا اور مسجد بھی کون سی جوحرم نبوی ہے ۔اب اگر ان صحابی کو امام ابوحنیفہ سے بڑا عالم کہاجائے تو عقل،علم اور مشاہدے کے خلاف ہوگا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امام صاحب کا علم اور فقہ ان کے لیے کمال تھا۔ مگر ان صحابی کا کمال فقہ میں نہیں تھا، ان کاکمال اس سادگی ہی میں تھا، وہ گاؤں گوٹھ کے رہنے والے نئے نئے اسلام لاکر مدینہ منورہ تشریف لائے تھے۔ جاہلیت کے زمانے کی عادات تھیں، یہاں آکرسادگی ہی کی وجہ سے یہ عمل کرلیا، ہرمعاملے کی ایک اداہوتی ہے، وہ ہر معاملے میں نہیں چلتی۔ اگر ان صحابی کو امام ابوحنیفہ سے زیادہ فقیہ کہاجائےگا تو اس میں امام ابوحنیفہ کی بھی تنقیص لازم آئے گی اور ان صحابی کی بھی تنقیص ہوگی۔ ممکن ہے کہ آپ کو تعجب ہو کہ ان کی تنقیص کس طرح ہوگی؟یہ تنقیص اس طرح ہوگی کہ جس شخص میں جو کمال واقع میں نہیں ہے اس کی طرف اس کمال کو منسوب کرنا اس کے ساتھ مسخراپن کرنا ہے۔ ایک شخص جوبدصورت ہے اس کو آپ کہیں کہ آپ تو یوسف ثانی ہیںتو یہ مسخراپن ہوگایانہیں؟ اس کو تووہ شخص خود بھی براسمجھے گا کہ اس کامذاق اڑایا جارہا ہے۔ اسی طرح اگر ان صحابی سے کہاجائے کہ آپ تو بڑے فقیہ ہیں تو یہ کہنا ان کی شان میں گستاخی ہے۔‘‘
قارئین! آپ نے مولانا ولی رازی صاحب کاموقف ملاحظہ فرمایایعنی امام ابوحنیف علم وفقہ میں ان بدوی صحابی سے افضل ہیں، ہاں شانِ صحابیت میں وہ بدوی صحابی امام ابوحنیفہ سے افضل ہیں۔ جبکہ ہماراموقف مولاناولی رازی صاحب کے موقف کے بالکل برعکس ہے یعنی وہ بدوی صحابی شانِ صحابیت کے ساتھ ساتھ علم وفقہ میں بھی امام ابوحنیفہ سے افضل وبرترہیں۔ وہ اس طرح کہ ان بدوی صحابی نے اس موقعہ پر جوکچھ کیا وہ لاعلمی کی وجہ سے کیاجیسا کہ سنن ابن ماجہ حدیث:529میں مذکور ہے اور حافظ زبیرعلی زئی نے اسے حسن قراردیا ہے اس کے بعد یقینی طور پر دیگرصحابہ کرام کی طرح انہوں نے اپنی پوری زندگی وحی الٰہی(قرآن وحدیث) کے مطابق بسر کی اور جوشخصیت زبانِ نبوت علی صاحبھا الصلاۃ والسلام سے وحی سنے،سمجھے اور پھر اس پر عمل کرےاس سے بڑھ کر کوئی اورغیرصحابی عالم وفقیہ نہیں بن سکتا۔
اور ہمارے پاس سنن ابن ماجہ کی حسن درجہ کے ساتھ ایک حدیث موجود ہے جس میں اس بدوی صحابی کے فقیہ ہونے کاتذکرہ ہے،ملاحظہ ہو:

دَخَلَ أَعْرَابِيٌّ الْمَسْجِدَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ، ….. ثُمَّ وَلَّى، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، فَشَجَ يَبُولُ، فَقَالَ: الْأَعْرَابِيُّ بَعْدَ أَنْ فَقِهَ،
فَقَامَ إِلَيَّ بِأَبِي وَأُمِّي، فَلَمْ يُؤَنِّبْ، وَلَمْ يَسُبَّ، فَقَالَ: «إِنَّ هَذَا الْمَسْجِدَ لَا يُبَالُ فِيهِ، وَإِنَّمَا بُنِيَ لِذِكْرِ اللَّهِ وَلِلصَّلَاةِ.(سنن ابن ماجہ وسندہ حسن عند محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ)

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور ایک بدوی شخص مسجدمیں داخل ہوا……پھر وہ مسجد کے ایک کونے میں جاکرپیشاب کرنے لگا، وہ بدوی صحابی فقیہ بن جانے کے بعد کہاکرتے تھے کہ میرے ماں باپ آپصلی اللہ علیہ وسلم پرقربان ہوں آپ نےمجھ پر کوئی سختی نہیں کی اورنہ ہی برابھلاکہا بلکہ فرمایا یہ مسجد اللہ کے ذکراور نماز کیلئے بنائی گئی ہے۔اس میں پیشاب نہیں کیاجاتا۔
معلوم ہوا کہ وہ بدوی صحابی وحی پر عمل پیرارہہ کر تفقہ فی الدین کامقام پاچکے تھے۔
جس واقعہ کی بناء پر مولاناولی رازی صاحب بدوی صحابی کو فقاہت میں امام ابوحنیفہ سے کم تر قراردے رہےہیں، اس واقعہ سے امت کو کتنے ہی مسائل کاعلم ہوا جیسا کہ فقہ السنہ کی کتب میں دیکھاجاسکتاہے،خصوصاً نجاست گرنے کی وجہ سے مسجد کی تطہیر کامسئلہ۔
ان بدوی صحابی سے یہ واقعہ لاعلمی وعدم واقفیت کی بناء پر سرزدہوا،آیئے اس حوالہ سے اقوالِ علماء ملاحظ فرمائیں:
حافظ ابن حجر فرماتےہیں:کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ بے علم کے ساتھ نرمی سے پیش آنا اور اسے بغیر کسی سختی کے ضروری باتوں کی تعلیم دینی چاہئے جبکہ وہ ضدی اورہٹ دھرم نہ ہو، بالخصوص وہ تالیف قلبی کا محتاج بھی ہو۔(فتح الباری۱؍۳۲۵)
امام نووی اسی حدیث کی شرح میںلکھتے ہیں:
وفیہ الرفق بالجاھل وتعلیمہ مایلزمہ من غیر تعنیف ولاایذاء اذا لم یأت بالمخالفۃ استخفافا او عنادا.(شرح نووی لصحیح مسلم،ص:۱۳۸)
اس عبارت کا بعینہ وہی معنی ومفہوم ہےجواوپر فتح الباری کی عبارت کامذکور ہوا۔
شیخ عبدالرحمٰن بن عبداللہ السحیم شرح عمدۃ الاحکام میں رقمطراز ہیں:
ومن ھھنا احتمل ما صدر منہ لبعدہ عن العلم
یعنی ان بدوی صحابی سے جوکچھ صادرہوا وہ (اب تک)علم سے دوری کی بناء پر تھا۔
شیخ ابن باز اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتےہیں:
اس واقعہ سے متعدد فوائد معلوم ہوئے ان میں سے یہ بھی کہ لاعلم شخص کے ساتھ نرم برتاؤ کرنا، اس پر عجلت نہ کرنااور لاعلم شخص کے ساتھ نرمی تیسیر سے ہے اور اس پر شدت تنگی سے ہے اگرصحابہ اس پر سختی کرتے تو وہ اسلام سے متنفر ہوجاتااور اسلام میں داخل ہونے کو ناپسند سمجھتا،یہ نرمی اس کی تالیفِ قلبی، مسلمان بھائیوں کیلئے محبت، اسلام کی رغبت اوراسلام میں داخل ہونے کا سبب بنی.(www.binbaz.org.sa/noor/8977)
قارئین کرام!ہم فقہ حنفی کو امام عالی مقام امام ابوحنیفہ aکی طرف منسوب تصور کرتے ہیں اس لئے کہ فقہ حنفی کی سند امام ابو حنیفہaتک نہیں پہنچتی بلکہ انہوں نے ایک مرتبہ قاضی ابویوسف aکو اپنی ہر بات لکھنے سے سختی سے منع فرمایاتھا۔ (تاریخ یحیی بن معین روایۃ الدوری 607/2ت2461وسندہ صحیح بحوالہ فتاویٰ علمیہ از محدث العصر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ 191/1)
لیکن چونکہ مولاناولی رازی صاحب فقہ حنفی کے قائل وفاعل ہیں اور اسی فقہ کی وجہ سے انہوں نے ایک صحابی کو محض سادگی والاقراردیا ہے اور ان کی طرف فقہ کی نسبت کرنے کو ان کی تنقیص قراردیاہے، لہذا اس فقہ کی چندجھلکیاں ملاحظ ہوں کہ وہ وحی کے کس قدرمتصادم ہے وہ وحی جس پر ان بدوی صحابی سمیت تمام صحابہ عمل پیراتھے:
(۱)خرج رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم بالناس الی المصلیّٰ لیستسقی فصلی بہم رکعتین …..
یعنی: رسول اﷲ نمازِاستسقاء کیلئے لوگوں کے ساتھ عیدگاہ کی طرف نکلے جہاں آپ e نے دو رکعت نماز پڑھائی ….(صحیح بخاری۱؍۱۳۹)
قال ابو حنیفۃ لیس فی الاستسقاء صلاۃ مسنونۃ فی جماعۃ .
ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ استسقاء میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مسنون نہیں ہے۔(ہدایہ اولین ۱؍۱۷۶)
(۲)ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لیس فی حب ولا تمر صدقۃ حتی یبلغ خمسۃ اوسق.
یعنی: رسول اﷲ نے فرمایا کہ دانے اور کھجور جب تک پانچ وسق تک نہیں پہنچ جاتے تب تک ان میں زکوٰۃ نہیں۔
(نسائی ج۱ کتاب الزکـٰوۃ بــاب زکـٰـــوۃ الحبوب صفحہ:۳۴۴ رقم الحدیث ۲۴۸۷)
قال ابوحنیفۃ فی قلیل ما اخرجتہ الارض وکثیرہ العشر…….الا القصب والحطب والحشیش۔
یعنی امام ابوحنیفہ نے فرمایا سرکنڈے اور گھاس کے علاوہ زمین کی ہر پیداوار پر، وہ کم ہو یا زیادہ ،زکوٰۃ ہے۔(ہدایہ اولین۱؍۲۱۰)
(۳)قال رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ان من الحنطۃ خمرا و من الشعیر خمرا و من التمر خمرا و من الزبیب خمرا و من العسل خمرا.
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گندم، جو، کھجور، انگور اور شہد سے شراب بنتی ہے۔(ترمذی ۲؍۹)
ان ما یتخذ من الحنطۃ والشعیر والعسل والذرۃ حلال عند ابی حنیفۃ .
یعنی گندم، جو، شہد اور جوار سے شراب بنانا ابوحنیفہ کے نزدیک حلال ہے۔(ہدایہ اخرین ۴؍۴۹۶)
(۴)صلّـٰی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم الظہر بذی الحلیفۃ ثم دعا بناقتہ فاشعرہا فی صفحۃ سنامہا الایمن .(مسلم۱؍۴۰۷)
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں ظہر کی نماز پڑھائی پھر اپنی اونٹنی کا اشعار کیا یعنی اس کی کوہان کے دائیں طرف کو نشان کیلئے چیرا۔
ولا یشعر عند ابی حنیفۃ ویکرہ.
یعنی ابوحنیفہ کے نزدیک اشعار نہیں کیا جاسکتا بلکہ مکروہ ہے۔(ہدایہ اولین ۱؍۲۶۲)
(۵)عن حذیفۃ قال نہانا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم … عن لبس الحریر والدیباج وان نجلس علیہ.
سیدنا حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ e نے ہمیں ریشم اور دیباج کا لباس پہننے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا۔(بخاری ۲؍۸۶۸)
اور ابوداؤد میں ہے:لا ترکبوا الخز.
یعنیـ(رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) ریشم کے کپڑے پر نہ بیٹھو۔
ولا بأس بتوسدہ والنوم علیہ عند ابی حنیفۃ .
یعنی:ابوحنیفہ کے نزدیک ریشمی تکیہ پر ٹیک لگانے اور ریشمی بستر پر سونے میں کوئی حرج نہیں۔(ہدایہ ۴؍۴۵۶)
مولاناولی رازی صاحب یہی ہے وہ فقہ جس کی وجہ سےآپ نے ایک صحابی کو غیر فقیہ قراردیا؟؟؟
آخر میں ہم آپ سے یہی گذارش کریں گے کہ آپ کو روزنامہ امت کی صورت میں عوام الناس سے رابطہ کا ایک بہترین اور مؤثر میدان میسر ہے اسے درست انداز سے استعمال کرتے ہوئے عوام الناس کواخلاقیات اور باہمی اتحاد، اتفاق ویگانگت کادرس دیں، اسلام اور وطن عزیز پاکستان سے محبت کا درس دیں آج وطن عزیز کو انتشار نہیں اتحاد کی ضرورت ہے اور عربی مقولہ :انزلوا الناس منازلھم.پر عمل کرتے ہوئےاسلام کے خدمتگار اسلاف کو ان کے شایانِ شان مقام دیں۔
اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔

سید امین شاہ راشدی سے امیرمحترم کی تعزیت

25فروری2017ء بروز ہفتہ محدث دیارِ سندھ علامہ سید ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی کی صاحبزادی ،سیدامین شاہ راشدی کی والدہ انتقال کرگئیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون .
امیرمحترم فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی طبیعت کی ناسازی کےبسبب جنازہ میںشرکت نہیں فرماسکے، البتہ یکم مارچ2017ء بروز بدھ بعدنمازعصر امیرمحترم نے سیدامین شاہ راشدی سے ان کی رہائش گاہ واقع کالی موری حیدرآباد جاکر ان سے تعزیت کی۔ تعزیت کے موقعہ پر اپنی مختصر گفتگو میں آپ نے فرمایا:میں اپنے آپ کو محدث دیار سندھ علامہ سید ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی aکا روحانی فرزند تصور کرتاہوں، مرحومہ میری بہن تھیں، اللہ تعالیٰ ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرماتے ہوئے ان کے درجات بلندفرمائے اور انہیں اعلیٰ علیین میں بلند مقام عطا فرمائے۔ اب ان کی اولاد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کیلئے دعائیں کریں اور زیادہ سے زیادہ اعمالِ صالحہ بجالائیں اور یاد رکھیں کہ اولاد والدین کیلئے بہترین صدقہ جاریہ ہے۔
آج اس گھر میں آکر مجھے محدث دیارسندھ یاد آگئے، یہ وہی گھر ہے جہاں محدث دیارسندھ بیٹھ کر علمی موتی بکھیر رہے ہوتے ،آج یہاں ہر چیز جوں کی توں ہے اگر نہیں توہمارے مربی ،ہمارے شیخ یہاں نہیں ہیں، ایک عربی شاعر نے کیاخوب منظرکشی کی ہے:
اذا زرت ارضا بعدطول اغتیابھا
فقدت صدیقا والبلاد کما ھی

یعنی:
ایک عرصے کےبعد جب دوست کے گھرجاناہوتاہے

تو شہر جوں کا توں ہے بس دوست نہیں ہے

اللہ تبارک وتعالیٰ شاہ صاحب کی تمام خدمات کوشرفِ قبولیت عطافرمائے، ان کے درجات بلندفرمائے، ان کی قبر کومنور اور وسیع فرمادے۔ آمین

About شیخ ذوالفقارعلی طاہررحمہ اللہ

.سابق ناظم امتحانات جمعیت اہل حدیث سندھ اور ایڈیٹر دعوت اہل حدیث اردو مجلہ ٣ جنوری ٢٠١٨ کو ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے ‏اللهم اغفر له، وارحمه، وعافه، واعف عنه، وأكرم نزله، ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا، كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس، وأبدله داراً خيراً من داره، وأهلاً خيراً من أهله، وزوجاً خيراً من زوجه، وأدخله الجنة، وأعذه من عذاب القبر، ومن عذاب النار

Check Also

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے

کاوش : شیخ عبداللہ محمدی (مدرس : مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث ،ساماروموری) خطبہ مسنونہ کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے