Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ اکتوبر » غیض وغضب کے وقت صبرواعتدال

غیض وغضب کے وقت صبرواعتدال

پیارومحبت ،خوشی ومسرت، غصہ ونفرت، غیض وغضب یہ تمام جذبات انسانی زندگی کے ساتھ ہمیشہ منسلک رہتے ہیں، ان کاموزوں ومناسب انداز ہی انسان کو ایک کامیاب انسان بناتا ہے، ان تمام انسانی جذبات میں سب سے زیادہ آتشیں جذبہ’’غصے‘‘ کا اظہار ہے جو نہ صرف انسان کے عقل وشعور کو وقتی طور پر مفلوج کرکے ر کھ دیتا ہے ،بلکہ غصہ انسان کو جذبات کے ہاتھوں سے بے قابو بناکرجذبہ انسانیت سے محروم کردیتا ہے، یہ آتش ناک وصف جس سے مغلوب ہوکر انسان وہ کچھ کر بیٹھتا ہے جو عام حالات میں کرنے کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا، غصہ پر قابو پانا اور حالت غیض وغضب میں ضبط وبرداشت سے کام لینا، باوجود قدرت وطاقت کےکسی سے انتقام نہ لینا سلف صالحین کے اوصاف حمیدہ میں شمار ہوتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

[ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ يَغْفِرُوْنَ   ](شوری:۳۷)

اور جب وہ غضبناک ہوتے ہیں(تو) معاف کردیتے ہیں۔

اس سلسلہ میں نبی آخر الزماں ﷺ کی حیات طیبہ مکمل طرح حسن اخلاق اور حسن معاشرت کامثالی نمونہ ہے، آپ کی پاکیزہ زندگی سے بے شمار ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ جب آپ نے اختیارات وقدرت کے باوجود عفو ود رگزر سے کام لیا، واقعہ طائف ہو، صلح حدیبیہ ہو، میثاق مدینہ یا فتح مکہ ہو ،ہر موقع پر آپ نے مثالی معافی اور اخلاق حسنہ کا مظاہرہ کیاجو پوری تاریخ انسانیت میں درخشاں حیثیت کا حامل ہے، سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عا لم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہیں غصہ بہت دیر سے آتا ہے اور دیر میں دور ہوتا ہے،بعض ایسے بھی ہیں کہ جنہیں غصہ بہت جلدآتا ہے اور جلد ہی دور ہوجاتاہے،پس دیر ،دیر کااور جلد،جلد کا معاوضہ بن جاتا ہے، مگر اللہ رب العزت کے ہاں اچھے وہ لوگ ہیں جنہیں غصہ بہت دیر سے آئے اور جلدی دور ہوجائے، اور برے وہ لوگ ہیں جنہیں غصہ جلد آئے اور بڑی تاخیر سے جاے۔(رواہ الترمذی)

ویسے بھی تجربہ شاہد ہے کہ انسانی جذبات میں غصہ سب سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے، جو ہماری روزہ مرہ زندگی کوتلخ اور ہماری خوشی ومسرت کو ماند کردیتا ہے، غصہ کی کیفیت میں ہم بڑی مشکل سے بہتر سوچ اور اچھے طرز عمل کامظاہرہ کرسکتےہیں،چونکہ غصہ ہمیشہ لڑائی جھگڑہ اور جارحیت کی ہولناک راہ دکھاتا ہے،جس سے بد سے بدترین حالات، صورت اختیار کرلیتے ہیںاس طرح دوسروں کی نادانیوں اورنالائقیوں کی سزا خود ہم اپنے آپ کو دیتے ہیں،اگرچہ نفسیات کے لحاظ سے غیض وغضب ،اورغصہ وکدورت کوجلددبانا بھی مفید نہیں، مگر غصے کو کھلی چھٹی دی جائے تومعاشرہ انارکی وانتشار اختلاف وا فتراق کا شکارہوجائے گا چونکہ محسن انسانیت نے غصہ شیطان کااثر قرار دیا ہےجبکہ اللہ رب العزت کا ارشادگرامی ہے کہ :

[ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ يَغْفِرُوْنَ   ](شوری:۳۷)

اور جب وہ غضبناک ہوتے ہیں(تو) معاف کردیتے ہیں۔

[وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۭ ]

(آل عمران:۱۳۴)

غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ۔

ایسے میں احسن اور معقول بات کرنے کی تاکیدفرمائی گئی ہے:

[وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْـنًا](البقرہ:۸۳)

اور لوگوں سے اچھی بات کہاکرو۔

چونکہ [ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ](یوسف:۱۸)

پس صبر ہی بہتر ہے، اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔

سیدنا ابوھریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ:پہلوان وہ نہیں جو کشتی لڑنے میں غالب ہو بلکہ دراصل پہلوان وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے۔(بخاری:۶۱۴)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی بندے نےاللہ رب العزت کے نزدیک غصے کے گھونٹ سے بڑھ کر اجر والاکوئی اور گھونٹ نہیں پیا،جو صرف اللہ کی رضاجوئی حاصل کرنے کی غرض سے پیاجاتاہے۔(ابن ماجہ:۴۱۸۹)

چونکہ قوت برداشت تو برداشت کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔

انما الحلم بالتحلیم. (شعب الایمان للبیہقی ۷؍۳۹۸)

سہل بن معاذ اپنے والد گرامی سے روایت کرتےہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص غصے کو روکے حالانکہ اسے اپنا غصہ نکالنے کااختیار ہےتو قیامت کے دن اس کو تمام لوگوںکے سامنے بلاکر اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائےگاکہ جو ’’حور عین‘‘ چاہے اسے پسند کرلے۔

(ابوداؤد،کتاب الادب:۴۷۷۷)

سیدناانس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ آپﷺ نہ فحش گوتھے،نہ آپ لعنت وملامت کرنے والے تھے، نہ گالیاں دیتے تھے،بلکہ آپ کو غصہ آتا توصرف اتنا کہہ دیتے کہ اسے کیا ہوگیا ہے؟(اگر زیادہ ناراض ہوتے توفرماتے)اس کی پیشانی خاک آلودہ ہو!(بخاری ،کتاب الادب:۶۰۴۶)

ابوصالح نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام میں سے ایک شخص سے بیان کرتے ہیںاس نے عرض کیا کہ اللہ کے سچے رسول مجھے ایسا عمل (صالح) بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کرادے اور آپ مجھے زیادہ مسائل نہ بتائیں، توآپﷺ نےارشاد فرمایا:لاتغضب.یعنی:غصہ مت کیاکرو۔(مسند ابویعلی ۳؍۱۵۹۳)

یہ اور اس قسم کی دیگر احادیث مبارکہ اس شخص کی فضیلت بیان کررہی ہیں جوشخص اپنے غیض وغضب اور غصے پرقابوپالے پھر ان کے لئے رب العالمین کی رضاہے،بہرحال لڑائی جھگڑا،غیض وغضب ، غصہ اور آپے سے باہر نکل جاناخو د سنگین مسائل سے ہیں نہ کہ کسی مسئلہ کاحل!

اذ کنت فی کل الامور معاتبا

رفیقک لن تلق الذی ستعاتبہ

یعنی تم ہر کام میں اپنے رفیق پرنکتہ چینی کروگے اور اسے ڈانٹ پلاؤگے تو یاد کھوایک دن تمہاری ڈانٹ برداشت کرنے والاکوئی نہیں ہوگا۔

بلاشبہ غصہ بھی ایک فطری چیز ہے، غصہ آنا کوئی بعید امر نہیں، لیکن اگر غصہ کو اپنے اوپرغالب کردیاجائے،توپھر انسان کے لئے شدید نقصان دہ ثابت ہوگا۔ تجربہ گواہ ہے کہ غصہ کی حالت میں آدمی کاچہرہ اور آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں،گردن کی رگیں پھول جاتی ہیںاور انسان بے قابو ہوجاتاہے۔

غصہ کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ یہ اپنے مرتبہ سے کم والے پر ہی شدید ہوتاہے، ایسے میں غصہ کی حالت میں ا پنی طبیعت کو ہمیشہ اپنے قابو میں رکھو،اگرغصہ آبھی جائے تو زبان پرقابورکھواور زبان سے اس کا اظہار تک نہ کرو،اور رنجیدہ الفاظ کو اپنی زبان سے نہ نکالو اور ایسی جگہ مت جاؤ جہاں لڑائی جھگڑے کاامکان ہویاتمہاری قدرومنزلت نہ ہو۔

چونکہ جو لوگ آسودگی اور تنگی میں اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اورغصے کو روکتے ہیں اور لوگوں کے قصورمعاف کرتے ہیں اللہ ایسے نیکوکار بندوں کو پسند کرتا ہے۔(مفہوم ارشاد باری تعالیٰ)

غصہ بے وقوفی سے شروع ہوتا ہے اور پچھتاوے پر جاکرختم ہوتا ہے۔(فیثا غورث)جوشخص اپنے غصے کو برداشت کرتا ہے وہ دو سروں کے غصے سے خود کو بھی محفوظ رکھتا ہے۔(سقراط) بھلائی اس میں ہے کہ ہمیں ہمیشہ دھیمی آواز میں نرمی اور وقار سے بات کرنی چاہئے،چونکہ اچھی اور خوبصورت باتوں کا اثرہمارے قلوب پر براہ راست ہوتا ہے،جبکہ دل میں غیض وغضب ،ضدوحسد، نفرت وکدورت کے جذبات موجزن ہونگے تو آپس کے فاصلے مزید بڑھ جائیں گے،جبکہ محبت آمیز رویہ، نرم اور میٹھے الفاظ کی ادائیگی،خندہ پیشانی سے پیش آنے کی وجہ سے پرانے اختلافات بھی ختم ہوجائیں گے، جبکہ اس کے برعکس غصہ، غیض وغضب، نفرت وحقارت،سب وشتم سے بھری ہوئی آوازمیں بات کرنے سے اپنے بھی ایک دن پرائے ہوجائیں گے،چونکہ بادلوں کی گھن گرج، چمک دمک سے دل تو دہل جائیں گے،مگر صرف باد باراں اور شبنم کے نرم ونازک قطروں سے ہی جسم وجان کو سکون وطمانیت عطا ہوگی کسی نے کیاخوب کہا ہے:

کم فی المقابر من قتیل لسانہ

کانت تھاب لقائہ الشجعان

ماہرین نفسیات غصے  کو’’لمحاتی پاگل پن‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں،اعلیٰ ظرفی،اعتدال پسندی ،ٹھنڈے دل ودماغ سے مشکل سے مشکل مسائل اور اختلافات پربخوبی قابوپایاجاسکتا ہے، جبکہ اشتعال دماغ صرف مصائب ومشکلات بڑھاسکتاہے،درحقیقت لڑائی جھگڑا،غصہ وغضب انسانی گھریلو زندگی تباہ وبرباد کردیتے ہیں’’غصیل‘‘ آدمی باہمی مقابلوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتاہے، غصہ ایک ایسی چنگاری ہے جو ابتدائی مراحل میں بجھائی نہ جاسکی تو انتہائی خوفناک آگ کی صورت اختیار کرکے پورے چمنستان حیات کو چندلمحات میں خاکستر کردیتی ہے،جس میں جھلسنے اور پچھتاوے کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں۔ آئے دنوںیہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ غصہ ہمیشہ اپنے سے کمتر شخص پر ہی آتا ہے مثلاً:بیوی،بچے، شاگرد اور ملازم وغیرہ جبکہ ہم اپنے ماتحتوں اور ملازموں کو خوب سزادیتے ہیں، اور سارا وقت ان کو پر یشان کیے رکھتے ہیں، پھر تجربہ شاہد ہے کہ آئے دن لڑائی جھگڑوں کے پیچھےغصہ کے اندھے جذبات،مشتعل دماغ، اور اناپرستی شامل ہوتی ہے، اگر انسان اپنے ہی غصے پرقابو پالے تومختلف لاتعداد ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں سے بھی بچ سکتا ہے ،بلکہ معاشرتی سطح پر اپناکردار بخوبی ادا کرسکتا ہے ،غصہ ایک آگ ہے جو صرف صبروتحمل سے بجھائی جاسکتی ہے، غصہ کو بروقت روکا نہ گیا تو نفرت اور تشدد پیدا کرتا ہے پھر نفرت وتشدد بھی ایک ایسی مہلک بیماری ہے جس سے شاید ہی کوئی اور بیماری بری ہو،صبر وتحمل سے اعلیٰ انسانیت کے اوصاف حمیدہ پیدا ہوتے ہیں جبکہ بے صبری،عدم برداشت انسان کو اخلاقی پستی میں گرادیتی ہے، غصہ ہمیشہ منفی ذہن پیدا کرتا ہے جبکہ اصل انسان کی پہچان اس کی مثبت سوچ اور اعلیٰ انسانی اوصاف ہوا کرتے ہیں، جن کی تعلیم ہمیشہ انبیاء کرام دیتے آئے ہیں ،غصہ جہالت سے شروع ہوکر ندامت وپریشانی پر جاکراختتام پذیر ہوتا ہےغصیل آدمی کو ہمیشہ شدید ندامت اور رنج وافسوس ہی حاصل ہوتا ہے،غصے کی حالت میں چونکہ انسان کبھی نارمل نہیں رہتا لہذا اس کےسوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے اور وہ یوں ندامت وبدنامی کا منہ دیکھتا ہے۔

ماہرین نفسیات کے ہاں غصہ ایک نفسیاتی بیماری کانام ہے جس میں عقل وشعور،ہوش وحواس اور اعتدال پسندی پر ہمیشہ جوش وجذبات کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہوتے ہیں،  پھر یہ تکبر وغرور کامریض بنا دیتاہے ،غصہ کی حالت میں انسان بڑے بڑے فسادات،اور نقص عامہ پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے جس کی وجہ سے خود غصہ کرنے والے کی صحت بھی تباہ ہوکررہ جاتی ہے،شدید جذبات کی صورت میں تنفس تیز ہوجاتا ہے،خون میں حدت پیدا ہوکرجوش مارتا ہے،انسان آپے سے باہر ہوجاتا ہے، لہذا حضور پاک ﷺ نے ابتدائی نسخہ یہ تجویز فرمایا کہ تعوذ پڑھنا چاہئے ،گفتگو سے احتراز کیاجائے، صبر وتحمل کا دامن ہاتھوں سے نہ جانے دیاجائے، کھڑا ہوتوبیٹھ جائے، وضوکرے وغیرہ۔ چونکہ غصے کی حالت میں انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محرو ہوکر اپنے بے قابو جذبات کے ہاتھوں گالم گلوچ ،الز ام تراشی ،بہتان بازی، ہاتھا  پائی، مارپیٹ سے بھی آگے بڑھتے ہوئے کبھی تو خو دکشی کی نوبت تک بھی جا پہنچتا ہے،اطباء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر وقت اٹھے بیٹھے غیض وغضب کے عالم میں رہنے کی وجہ سے انسان متعدد مہلک موذی امراض کا شکار بن سکتاہے، مثلاً: ہائی بلڈ پریشر،امراض قلب ودماغ، ذیابیطس اور معدے کے متعدد امراض کا مر یض بن سکتا ہے، ہمیشہ غصے میں رہنے والے لوگ پورے معاشرے سے کٹ کر اپنی ضد تعصب، تنگ نظری، بے ہودہ جملے بازی ،طعن وتشیع ،الزام تراشی کے مریض بن کر پورے معاشرہ سے کٹ جاتے ہیں،پھر گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور ہوجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو غصے پرقابوپانے اور غصے کے ہولناک اثرات سے محفوظ رکھےشاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جسے غصہ نہ آتا ہو، مگر غصہ آنے کے بعد اس پر قابو پانااچھے لوگوں کاہی وتیرا ہوتا ہے اور غصہ کے زہریلے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنا چاہئے مثلاً: غرور، بدگمانی،حسد وبغض، تعصب وتنگ نظری سے خود کو محفوظ ومامون رکھنا چاہئے ،تحمل مزاجی، برداشت، اعتدال ،صبروشکر کی عادت اختیار کرنی چاہئے زندگی کے ہرمعاملے میں اللہ تعالیٰ کی مرضی ومشیئت کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے، اپنے تمام معاملات کوغیض وغضب ،غصہ واشتعال کے بجائے محبت ومودت ،نرمی وصبر سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

اپنے آپ کو بلاوجہ غیض وغضب ،غصہ اور گناہوں سے بچاکر اللہ تعالیٰ کا خوف اختیار کرتے ہوئے اسلام کے ابدی اور آفاقی اصولوں کے تحت زندگی بسر کرنی چاہئے ،یہ زندگی بہت ہی مختصر ہے اس میں دشمنیاں نہیں پالنی چاہئیں ،اپنی توانائیاں عداوتوں کے پیچھے ضایع  کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے ،اللہ تعالیٰ ہمیں راہ ہدایت پر چلنے کی توفیق بخشے آمین

لسان الفتی  نصف ونصف فوادہ

فلم یبق الا صورۃ اللحم والدم

About پروفیسر مولابخش محمدی

پروفیسر مولابخش محمدی،مٹھی تھرپارکر

Check Also

آزادی کے نام پر عریانی کافروغ

افسوس مغرب کی بے رحم آندھی نے مشرقی عورت کا پردہ، عزت، وقار، عصمت کو …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے