Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ اکتوبر » دینی مدارس کا مقام اور بعض وزراء کے رویے!

دینی مدارس کا مقام اور بعض وزراء کے رویے!

الحمدللہ والصلاة والسلام علی رسول الله وعلی آلہ واصحابہ اجمعین اما بعد:

قارئین کرام! السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

دینی مدارس کی عظمت واہمیت کوہر باشعور انسان سمجھتا ہے،اور جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل ِ سلیم اور فہم ِ صحیح کی دولت سے نوازا ہے وہ ان مدارس کی عزت وقدر بھی کرتے ہیں  اور ان کے وجود کو ایک عظیم نعمت تصور کرتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان مدارس نے بر صغیر میں  بالخصوص دین اسلام کی حفاظت میں  بڑا قابل ِ قدر کردار اداکیا، اور تعلیمات ِ اسلامی کی اشاعت میں  ناقابل ِ فراموش خدمات انجام دی ہیں۔

در حقیقت یہ مدارس دین اسلام کے قلعے ہیں، جہاں ان سے کتاب وسنت کا نور پھوٹتا ہے جس سے شرک و بدعت کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں وہاں یہ مدارس ہماری  مشرقی روایات اور تھذیب و تمدن کے بھی امین و نقیب ہیں۔ دور حاضر میں الحاد ،بے حیائی ، مغربی اور ہندووانہ کلچر و ثقافت کے سیلاب رواں کے آگے اگر مضبوط بند باندھا ہے تو انہیں مدارس اور ان کے فیض یافتگان نے  ۔ للہ درھم

علاوہ ازیں یہ سب سے بڑے رفاحی اور فلاحی اداری بھی ہیں جو اپنے محدود وسائل سے شب وروز قوم اور ملک کی خدمت میں مصروف عمل ہیں، تعلیم کے فروغ میں ان کی نا قابل فراموش کاوشیں ہیں نیز جب بھی کوئی مصیبت کی گھڑی آتی ہے سیلاب، زلزلہ یا بارشوں کی صورت میں یا جب دشمن کے ناپاک قدم اس پاک سر زمین کی طرف بڑھنے لگتے ہیں تو ان مدارس کے فیض یافتہ لوگ ہی اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔

قارئین کرام! مدارس کی جھود و مساعی کا ایک دھندلا سا خاکہ آپ کے سامنے رکھا  ہے -الحمدللہ- ہمارے عوام کی اکثریت اس کو بخوبی سمجھتے اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن مقام افسوس یہ ہے اہل اقتدار کے حلقوں سے گاہے بگاہے ایسی گفتگو سننے میں آتی رہتی ہے جس میں ان مدارس کی تحقیر  واہانت ہوتی ہے اور بیجا الزامات واتہامات لگائے جاتے ہیں ملک وقوم کی پستی اور تنزلی کی علامت انہیں کو قرار دیا جاتا ہے!!! بالفاظ دیگر اپنی ناکامی اور کوتاہی کا سارا ملبہ مدارس اور علماء کرام پر گرادیا جاتاہے… اس کی تازہ مثال فواد چوہدری صاحب ہیں جو کہ اس وقت وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ہیں موصوف مدارس کے متعلق ’’گوہر افشانی“ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’’ہم ترقی کی دوڑ میں اس لیے پیچھے رہ گئے کہ ہم نے ہارورڈ یونیورسٹی کے بجائے مدارس بنائے“!

ہم فواد صاحب اور ان کے ہمنوا لبرلز سےبصد احترام یہ سوال کرنے کی جسارت کرتے ہیں کہ: آپ کے آباء و اجداد نے کتنے مدارس  بنائے ؟ یا جس حکومت میں آپ کرسیء وزارت پر براجمان ہیں اس نے کتنے مدارس کی بنیاد رکھی ہے یا مدارس کے لیےسالانہ کتنا بجٹ مختص کیاجاتا ہے؟

اس ملک پر کتنے مولوی اور مدارس کے خریجین حاکم بنے ہیں؟

کیاارباب مدارس اور علماء کرام نے ہارورڈ یونیورسٹی بنانے سے کسی حکومت کوروکا؟

یہ سوال تو ارباب مدارس اور اس ملک کے عوام کابنتا ہے کہ آپ سے پوچھیں : وطن عزیز پر لبرل حکمران ہی آتے رہے وہی یہاں کے سیاہ و سفید  کے مالک بنے رہے ،اقتدار کے مزے لوٹتے رہے تم نے کیا دیا اس ملک و ملت کو؟

دنیاوی تعلیم کے لئے کتنا بجٹ رکھاجاتاہے؟کالجز اور یونیوسٹیز توحکومتی نگرانی میں و زارت تعلیم کے ماتحت چلتے ہیں۔

افسوس ہے ایسی ذہنیت پر مدارس کے لیے کچھ کر نہیں سکتے تو اپنی زبان ہی بند رکھیں، تعریف نہیں کرسکتے تو طنز کے تیر بھی نہ برسائیں ۔۔۔۔

بلکہ اس کے برعکس مدارس پر بیجا پابندیاں اور مختلف حیلے بہانوں سے آئے روز مدارس پر چڑھائی، کبھی دھشت گردی کو ان سے جوڑنا۔۔۔۔۔، یہ ہے ان ’’نوازشوں اور عنایتوں‘‘کا ،لامتناہی سلسلہ جو حکمران طبقے نے مدارس پر کیا ہے!

مدارس کو نہ آپ کا تعاون چاہئے اور نہ ہی وہ آپ کی واہ واہ کے طالب ہیں،اللہ تعالیٰ ہی ان کاحامی اورناصر ہے اور پھر اس ملک کے دین سے محبت کرنے والے غیور عوام،لیکن ان کے خلاف زبان دراز کرنے سےپہلے ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈریں !

مدارس کے لئے تو یہ بات ہی قابل صدوافتخار ہے کہ وہ رسول اکرم ﷺ کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں اور مدارس کی ابتداء صفہ ٔ نبویﷺ سے ہوتی ہے اور آج تک وہ اپنی منفرد خصوصیات کے ساتھ مصروف ِ خدمات ہیں۔ بوریا نشینوں  کی خاموش لیکن انقلاب آفریں  خدمات کے اثرات و ثمرات کا ادارک کرتے ہوئے دوراندیش علامہ اقبالؒ نے پوری دردمندی سے کہا تھاکہ:’’ان مکتبوں  کو اسی حالت میں  رہنے دو، غریب مسلمانوں  کے بچوں کوانہیں  مدارس میں  پڑھنے دو،اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟جوکچھ ہوگامیں  انہیں  اپنی آنکھوں  سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں  کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگاجس طرح اندلس میں  مسلمانوں  کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود ہوا، آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا ء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں  اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں  ملتا، ہندوستان میں  بھی آگرہ کے تاج اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں  کی آٹھ سو سالہ حکومت اوران کی تہذیب کا کوئی نشا ن نہیں  ملے گا‘‘۔

(دینی مدارس :ماضی، حال، مستقبل:69)

اللہ تعالیٰ دینی مدارس کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دے،مدارس کے متعلقین،اساتذہ،طلبہ اور محسنین کی حفاظت فرمائے اور ان کو حاسدین کے حسد سے بچائے ۔

ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد

About شیخ عبدالصمد مدنی

Check Also

فضیلۃ الشیخ عبدالغفور دامنی رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال!

09 مارچ بروز پیر شب تقریباً آٹھ بجے، ایک روح فرسا اور المناک خبر موصول …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے