Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2016 » November Magazine » Rukoo K Baad Qiyaam Main Hath Bandhna

Rukoo K Baad Qiyaam Main Hath Bandhna

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

شیخ حزب اللہ بلوچ
سینئر مدرس: مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث حیدرآباد

ہفت روزہ الاعتصام کاشمارہ 29جولائی تا 4اگست 2016ء نظر سے گزرا جس میں جماعت کے نامور عالم ومصنف حافظ صلاح الدین یوسف کا مضمون’’رکوع کے بعض اہم مسائل‘‘ کے تحت ’’رکوع کے بعد قومے میں ہاتھ باندھنے کا مسئلہ‘‘ کے عنوان سے شایع کیاگیا ہے، جسے چند ایام کے بعد پندرہ روزہ صحیفہ اہل حدیث کراچی نے بھی شامل اشاعت کیا ہے، ایک ایسا مسئلہ کہ جس کے متعلق ایک طویل عرصہ سے فریقین کی طرف سے خاموشی طاری ہے، اور تقریباً فریقین یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ یہ ایک خالص اجتہادی مسئلہ ہے، ایسے وقت میں اس مسئلہ پر ایک فریق کی طرف سے دوبارہ قلم اٹھانا بہت عجیب ہے جبکہ طرفین کی جانب سے علماء ومحدثین کی ایک جماعت نے بیسیوں کتابیں بھی اس مسئلہ پر تحریر کی ہیں جو کہ مطبوع صورت میں عوام وخواص کے پاس موجود ہیں۔
حیرانگی اس بات پر ہے کہ رکوع کے بعد ارسال الیدین کے قائلین کی طرف سے یہ سلسلہ آخردوبارہ کیوں شروع کیاگیا ہے؟ جبکہ جمعیت اہل حدیث سندھ کا ترجمان رسالہ دعوت اہل حدیث کا سلسلہ اشاعت تقریباً پندرہ سال سے جاری ہے لیکن میری معلومات کے مطابق اب تک وضع الیدین بعد الرکوع پر کوئی خاص مضمون اشاعت پذیر نہیں ہوا ہے۔
اب جبکہ ایک فریق کی جانب سے اس سلسلہ کا دوبارہ سے آغاز کیا گیا ہے تو آئندہ ایام میں اللہ نہ کرے کہ فریقین کی طرف سے یہ سلسلہ طویل ہوجائے اور اس میں شدت سختی اور تلخی آجائے اور اس کا وبال ابتداء کرنے والے فریق پر ہی ہوگا۔
اہل حق کے مابین مسائل اجتہادیہ میں استدلال واجتہاد کا اختلاف صحابہ کرام سے لیکر اسلاف واخلاف تک جاری وساری ہے، لیکن اہل حق علماء ومحدثین کی ایک جماعت کے استدلال کو اہل باطل کے استدلالات سے مشابہ قرار دیتے ہوئے کج روی وکج فہمی پر محمول کرنا اور راہ حق سے انحراف قرار دینا بھی سخت ناانصافی ہے،جیسا کہ ایساتاثر حافظ صاحب موصوف کے مضمون میں دیاگیاہے،آئندہ سطور میں ہم بتوفیق اللہ تعالیٰ حافظ صاحب کے مذکورہ مضمون کامختصر جائزہ پیش کرتے ہیں۔

دلیل ہے بھی اور سرے سے نہیں بھی!

حافظ صاحب فرماتے ہیں:بعض لوگ رکوع سے کھڑےہو کر قومے میں ہاتھ باندھ لیتے ہیں لیکن یہ عمل صحیح نہیں اس لئے کہ اس کی کوئی واضح دلیل ان کے پاس موجود نہیں ہے۔
اس عبارت کامطلب جو کہ ہرغیرجانبدار سمجھ سکتا ہے کہ :بقول ان کے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کی واضح اور صریح دلیل موجود نہیںہے یعنی غیرصریح دلائل، احادیث کے عموم سے استدلال اوراجتہاد توموجود ہے، جی ہاں اجتہادی مسائل کہتے ہی ایسے مسائل کو ہیں کہ جن میں بالکل واضح اور صریح دلیل تو نہیں ہوتی لیکن ائمہ ومحدثین قرآن وحدیث سے استنباط واجتہاد فرماتے ہیں، قرآن وحدیث کے عمومی دلائل سے استدلال کیاجاتاہے ، اگر کسی مسئلہ میں بالکل واضح اور صریح دلیل موجود ہوتو پھر کم از کم اہل الحق اہل الحدیث کے درمیان اختلاف ممکن ہی نہیں ہے جیسا کہ نماز میں سینہ پرہاتھ باندھنے کے واضح ،صریح اور صحیح دلائل موجود ہیں تو بحمدللہ اہل الحدیث کے درمیان کوئی اختلاف بھی نہیں ہے، اگر رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یاچھوڑنے کی دلیل اس انداز سے موجود ہوتی کہ:نبی کریم ﷺ نے رکوع کے بعد ہاتھ باندھے ہیں یا چھوڑ دیئے ہیں تو اہل الحدیث کے مابین اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہ رہتی!
یعنی مذکورہ بالہ عبارت میں حافظ صاحب نے اس مسئلہ کو اجتہادی تسلیم کرتے ہوئے یہ مان لیا کہ غیرصریح دلائل اور عمومی احادیث سے استدلال استنباط اور اجتہاد توضرور موجود ہے ،لیکن چند سطر کے بعد فرماتےہیں:
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ باندھنے کی سرے سے کوئی دلیل ہی نہیں جبکہ ارسال کا اثبات بالکل واضح ہے۔
یعنی اس عبارت میں فرمایا کہ:باندھنے کی سرے سے کوئی دلیل ہی نہیں!فیاللعجب اور ارسال کا اثبات بالکل واضح ہے تو ہم مؤدبانہ گزارش کرتے ہیں کہ ارسال کی وہ بالکل واضح اور صریح دلیل عنایت فرمادیں جوکہ آپ نے پورے مضمون میں کہیں بھی ذکر نہیں فرمائی ہے!
یہاں ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ان دلائل میں سے چند ایک دلائل پیش کریں جن سے علماء ومحدثین کی ایک جماعت نے رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنے پر استدلال فرمایا ہے اور ضمن میں ان پر وارد ہونے والے اعتراضات کا جائزہ بھی پیش کریں۔

پوری نماز میں ہاتھ باندھنے کاحکم

(۱) عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ اليَدَ اليُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ اليُسْرَى فِي الصَّلاَةِ»
(صحیح البخاری،باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ ،رقم الحدیث:740،مؤطا امام مالک)
سیدنا سہل بن سعد فرماتے ہیں کہ(رسول اللہ ﷺ کی طرف سے) لوگوں کو یہ حکم دیاجاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر باندھ لے۔
اس حدیث کے تحت فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین فرماتے ہیں کہ:ہم پوچھتے ہیں کہ حالت سجدہ میں ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟ جواب یہ ہے کہ زمین پر، پھر سوال یہ ہے کہ رکوع میں ہاتھ کہاں ہونگے؟ جواب یہ ہے کہ گھٹنوں پر، پھر ہم پوچھتے ہیں کہ حالت جلوس میں ہاتھ کہاں ہونگے ؟ اس کاجواب یہ ہے کہ بیٹھنے کی حالت میں ہاتھ رانوں پر ہونگے باقی رہ گیا رکوع سے پہلے قیام اور رکوع کے بعد قیام تو اس حدیث کا تقاضہ ہے کہ ان دونوں قیاموں میں ہاتھ باندھے جائیں۔(مجموع فتاوی اور رسائل للشیخ محمد بن صالح العثیمین المجلد الثالث عشر-صفۃ الرکوع)
جی ہاں اس حدیث کاظاہری تقاضہ یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے پوری نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم دیا ہے، لیکن ہاتھوں کی کیفیت کے بارے میں نماز کی بعض حالتیں اس حدیث میں وارد عام حکم سے خارج ہونگی مثلاً:
1رکوع کی حالت میں ہاتھ باندھے نہیں جائیں گے بلکہ ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھنا ہوگا کیونکہ اس کے لئے الگ حکم موجود ہے:
واذا رکع امکن یدیہ من رکبتیہ
(صحیح بخاری:828)
وامرنا ان نضع ایدینا علی الرکب
(صحیح بخاری:790)
2اسی طرح حالت سجدہ میں بھی ہاتھ نہیں باندھنے بلکہ اس کیلئے الگ حکم موجود ہے کہ سجدہ میں ہاتھ زمین پر رکھے جائیں:
فوضع یدیہ بالارض (سنن النسائی:1104)
وسجد فکانت یداہ من اذنیہ علی الموضع الذی استقبل بھما الصلاۃ (سنن النسائی:1102)
3نماز میں بیٹھنے کی صورت میں بھی ہاتھ نہیں باندھے جائیں گے کیونکہ اس حالت میں ہاتھوں کو رانوں پر رکھنے کاحکم الگ سے موجود ہے:
واذا جلس أضجع الیسری ونصب الیمنی ووضع یدہ الیسری علی فخذہ الیسری ویدہ الیمنی علی فخذہ الیسری (سنن النسائی:1159,1263صحیح ابن خزیمہ:679)
نماز کی مذکورہ تین حالتیںصحیح بخاری کی اس حدیث میں وارد عمومی حکم سے خارج ہوگئیں اب باقی رہ جاتی ہے نماز میں صرف حالت قیام یعنی رکوع سے پہلے کھڑا ہونا اور رکوع کے بعد کھڑاہونا، توقیام کے بارے میں کسی دوسری حدیث میں کوئی تخصیص اور استثناء موجود ہی نہیں ہے اور قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنے کے علاوہ کوئی اور صورت بیان نہیں کی گئی ہے۔
اب اگر کوئی یہ کہےکہ رکوع سے پہلے قیام میں تو ہاتھ باندھے جائیں گے، لیکن رکوع کے بعد والے قیام میں ہاتھ چھوڑ دیئے جائیں گے تو اس تخصیص اور استثناء کیلئے کوئی واضح دلیل پیش کرنا ضروری ہوگا جس طرح حالت رکوع، سجود اور جلوس کے استثناء کے لئے واضح دلیل پیش کی گئی۔
یعنی اگر آپ رکوع کے بعد والی کیفیت کونماز کی حالت تسلیم کرتے ہیں تونبی کریم ﷺ نے حالت نماز میں ہاتھ باندھنے کاحکم دیا ہے، جیسا کہ اس حدیث میں واضح ہے۔
اس تفصیل سے یہ بھی ثابت ہواکہ نماز کی چار ہی حالتیں ہیں: 1قیام2رکوع3سجود4جلوس ۔پانچویںکوئی حالت نماز میں نہیں ہےاور اگر آپ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے کو پانچویں حالت قرار دیتے ہیں تو پھر اشکال وارد ہوگا کہ: نماز کی حالت غیر اللہ کے سامنے اختیار نہیں کی جاسکتی پھرآپ،انسانوں ،جانوروں،قبروں کے سامنے ہاتھ چھوڑ کر کھڑےہوتے ہیں تو یہ نماز کی حالت آپ غیراللہ کے سامنے کیوں اختیار کرتے ہیں؟
معلوم ہوانماز کی چارحالتیں ہیں اور ان تمام حالتوں کے لئے ہاتھوں کی کیفیت دلائل سے ثابت ہے ،مثلاً حالت قیام میں ہاتھ باندھنا، رکوع میں ہاتھ گھٹنوں پر رکھنا، سجدوں میں زمین پر اور حالت جلوس میں رانوں پر۔
صحیح بخاری کی اس حدیث میں نماز میں ہاتھ باندھنے کاحکم ہے لیکن رکوع، سجود اور جلوس کی حالتیں اس عمومی حکم سے خاص دلیل کی وجہ سے مستثنی ہوگئیں، باقی حالت قیام کی کسی حدیث میں کوئی استثناء موجود نہیں ہے اور اس حالت میں ہاتھ باندھنے کے علاوہ کوئی اور صورت بیان بھی نہیں کی گئی، اور قیام رکوع سے پہلے بھی ہوتا ہے اوررکوع کے بعد بھی تو صحیح بخاری کی اس حدیث کا تقاضہ ہے کہ ان دونوں قیاموں میں ہاتھ باندھے جائیں آخر ان دونوں قیاموں میں کیافرق ہے کہ رکوع سےپہلے تو ہاتھ باندھے جائیں اور رکوع کے بعد چھوڑ دیئے جائیں؟
اگر یہ کہاجائے کہ رکوع سے پہلے قیام میں قرأت ہے اور رکوع کے بعد والے قیام میں قرأت نہیں ہےاس لئے رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑ دیئے جائیں تو اس فرق کے لئے کوئی واضح دلیل پیش کرنا ہوگی، دعاء افتتاح ثناء پڑھتے وقت بھی ہاتھ باندھے جاتےہیں اس وقت بھی تو قرأت نہیں ہوتی؟ نماز جنازہ میں دوسری تکبیر کے بعد درود اور تیسری تکبیر کے بعد میت کیلئےدعائیں پڑھتے وقت بھی ہاتھ چھوڑنے ہونگے!
اگرکہاجائے کہ رکوع سے قبل قیام طویل ہوتا ہے اور رکوع کے بعد مختصر اس لئے ہاتھ چھوڑے جائیں گے تو بھی اس فرق کے لئے دلیل درکار ہوگی! اور ایسے شخص کے لئے کیاحکم ہوگا جو بامرمجبوری قرأت نہ کرسکتا ہو یا اسے قرآن یاد نہ ہو جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ایسے شخص کو (سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قَوَّۃَ اِ لَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ)(ابوداؤد۸۳۲،سنن نسائی: ۹۲۴) پڑھنے کاحکم فرمایا تھا، کیاخیا ل ہے ایساشخص رکوع سے قبل قیام میں بھی ارسال کرے گا؟ یہ تو نہ قرأت کررہا ہے اور نہ ہی اس کا قیام طویل ہے!
اسی طرح نبی کریم ﷺ سے نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا ثابت ہے۔(صحیح بخاری:776)
اس صورت میں بھی رکوع سے قبل قیام مختصر ہی ہوگا تو کیا ارسال لازم آئے گا؟
اسی طرح کئی احادیث میں رکوع کے بعد قیام کی طوالت بھی ثابت ہے!

عموم سے استدلال

صحیح بخاری کی مندرجہ بالاحدیث سے استدلال پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ:نماز کی ہیئات کے بارے میں عموم سے استدلال درست نہیں ہے لیکن حقیقت میں امور الصلاۃ میں عموم کا اجراء خود حدیث سے ثابت ہے رسول اللہ ﷺ نے مسیٔ الصلاۃ والی حدیث میں نماز کی بعض ہیئات ذکر کرنے کے بعد فرمایا:ثم افعل ذالک فی صلاتک کلھا.(صحیح بخاری:793صحیح مسلم:397)
پھر تم اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرتے رہو۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:
کان رسول اللہ ﷺ یکبر فی کل خفض ورفع وقیام وقعود وابوبکر وعمر.(جامع ترمذی:۲۵۳،سنن نسائی:۳۱۹)
یعنی امور الصلاۃ میں عموم کااجراء صحابہ کرام کامنہج ہے۔
محدث کبیرالشیخ ناصر الدین الالبانی اپنی کتاب’’ صفۃ صلاۃ النبی ﷺ ‘‘میں عنوان قائم کرتے ہیں:النظر الی موضع السجود .یعنی حالت نماز میں نظر سجدے کی جگہ پرہو،دلیل کے طور پرحدیث لاتے ہیں:
وکان اذا صلی طأطأ رأسہ ورمی ببصرہ نحو الارض (البیھقی والحاکم وصححہ)
یعنی رسول اللہ ﷺ جب بھی نماز پڑھتے تو سرمبارک جھکالیتے اور آپ کی نظر نیچے زمین کی طرف ہوتی۔
سوال یہ ہے کہ :رکوع کے بعد یانماز کے ایک ایک رکن میں نظر کہاںہو؟ ہر ایک ہیئت کی الگ الگ دلیل کہاں ہے؟
لامحالہ آپ ان عمومی روایات سے ہی دلیل اخذ فرمائیں گے، شیخ نے جو دیگرروایات پیش کی ہیں وہ بھی عمومی ہی ہیں۔
بلکل اسی طرح صحیح بخاری کی اس روایت میں بھی عموم ہے کہ ہمیں حالت نماز میں ہاتھ باندھنے کاحکم دیاگیاہے۔
نیز امام بخاری نے بھی اس حدیث سے عموم ہی سمجھا ہے اس حدیث پر آپ کاباب ہے:باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ.
نماز میں ہرقیام میں ہاتھ باندھنا
عن وائل بن حجرقَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ قَائِمًا فِي الصَّلَاةِ قَبَضَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ»
(سنن النسائی،باب وضع الیمن علی الشمال فی الصلاۃ ،رقم الحدیث:887)
یعنی نبی کریم ﷺ جب بھی نماز میں قیام کی حالت میں (کھڑے) ہوتے تو اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر باندھ لیتے تھے ۔
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نماز کی حالت میں قائم کے لئے حکم یہی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ باندھے۔
اب ان احادیث کو ملاحظہ فرمائیے:
(۱)ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ، ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ: رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ ”
(صحیح بخاری:789)
(۲) ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا،(صحیح بخاری:793)
ان دونوں حدیثوں سےثابت ہوا کہ رکوع کے بعد کھڑا ہونے والا ’’قائم ‘‘ ہے اور اوپر سنن نسائی والی حدیث سے بالکل واضح ہے کہ نماز میں’’قائم ‘‘کیلئے یہی حکم ہے کہ وہ ہاتھ باندھ کر نمازپڑھے۔
سیدناوائل بن حجر کی حدیث کے الفاظ عام ہیں کہ نمازی نماز کے ہر قیام میں ہاتھ باندھے گا،کلمہ’اذا‘ بالاتفاق عموم پر دلالت کرتا ہے مگر یہ کہ کسی شرعی دلیل میں اس کی کوئی تخصیص وارد ہوجائے یہاں پر کسی ایک قیام کی تخصیص اور دوسرے قیام کی نفی کے لئے کوئی صریح دلیل پیش کرنا ضروری ہوگا مگر ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
امام ابن حزم نے المحلیٰ ۳؍۲۹میں ایک عنوان قائم کیا ہے:مسألۃ یضع المصلی یدہ الیمنی علی کوع یدہ الیسری فی الصلاۃ.پھر اس کے تحت فرماتے ہیں:یستحب ان یضع المصلی یدہ الیمنی علی کوع یدہ الیسری فی الصلاۃ فی وقوفہ کلہ فیھا.
پھر وائل بن حجر کی حدیث جس کو ذکر کرنے والے امام مسلم بھی ہیں نقل کی ہے، انہ رأی النبی ﷺ رفع یدیہ حین دخل الصلاۃ کبر ثم التحف بثوبہ ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری.
اس کے بعد دیگر عمومی روایات بھی نقل کی ہیں، امام صاحب کے الفاظ فی وقوفہ کلہ فیھا بلکل واضح ہیں کہ سیدنا وائل بن حجر کی یہ حدیث اور دیگر عمومی احادیث نماز کے تمام وقوف میں وضع الیدین پر دلالت کرتی ہیں۔
امام نسائی کی تبویب بھی عموم پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے صرف کوئی ایک خاص قیام (مثلا قیام قبل الرکوع) مراد نہیں ہے،امام نسائی نے یہ باب قائم فرمایا ہے: باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ.
امام صاحب کے اس باب میں ’’فی الصلاۃ‘‘ کی قید سے ظاہر ہے کہ وہ اس حدیث میں قیام سے کوئی خاص قیام مراد نہیں لیتے بلکہ پوری نماز کے تمام قیام ان کی مراد ہے۔
اس حدیث پر چند اشکالات وارد کئے جاتے ہیں ،آئندہ سطور میں اختصار سے ان کاجائزہ لیاجاتاہے۔
اشکال(۱)اس حدیث میں قیام کاذکر ہے جو کہ قیام اول ہے رکوع کے بعد ’’قومہ‘‘ ہوتا ہے، حافظ صلاح الدین یوسف نے بھی اپنے مضمون میں باربار لفظ’’قومہ‘‘ ہی استعمال فرمایا ہے، مؤدبانہ عرض ہے کہ کوئی ایسی دلیل عنایت فرمائیں کہ جس میں رکوع کےبعد والی حالت کو’’قومہ‘‘کہاگیا ہو؟ جبکہ کئی احادیث میں اسے قیام، قائم، قام کہا گیا ہے اس سلسلہ میں دوحدیثیں پہلے گزر چکی ہیں(۱)ثم ارفع حتی تعتدل قائما(بخاری) (۲) ثم یرفع صلبہ من الرکعۃ ثم یقول وھو قائم(بخاری)
(۳) فرفع رأسہ من الرکوع قاموا قیاما حتی یروہ…(صحیح بخاری)
امام نسائی نے بھی اس حالت کو قیام سے تعبیر فرمایا :
(۱) باب مایقول فی قیامہ ذالک (۲) باب قدر القیام بین الرکوع والسجود

امام نسائی کی تبویب

حافظ صاحب موصوف فرماتےہیں کہ امام نسائی یہ روایت کتاب الافتتاح (نمازکاآغاز) میں لائے ہیں کتاب الافتتاح میں امام صاحب نے 83ابواب قائم کیے ہیں ان سب کاتعلق پہلے رکن قیام (آغاز نماز) سے ہے، ان 83ابواب میں کوئی باب اور کوئی حدیث ایسی نہیں جس میں رکوع کے بعد کی کیفیت کابیان ہو۔ملخصا۔
الجواب: (۱) اوپرذکرہوچکا کہ امام صاحب نے اس حدیث پر مطلق باب قائم فرمایا ہے۔
(۲) محدثین کی قدر وقیمت ان کی بے انتہاء محنت ومشقت سے تو کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا لیکن اس بات کی آڑ میں شرعی اصولوں سے روگردانی نہیں کی جاسکتی، محدثین کی تبویب وتفقہ یقینا مسلمہ امور ہیں لیکن کیا کسی اہل علم نے ان کی تبویب وتفقہ کو شرعی اصول قرار دیا ہے؟ کہ جسے شرعی حجت قراردیاجائے،کیا ائمہ مصنفین کی تبویب آخری، حتمی اور شرعی دلیل کی طرح ہے کہ جس سے کوئی اختلاف نہ کیاجاسکتا ہو؟
(۳) یہی سوال سجدے کے بارے میں بھی کیاجاسکتا ہے امام نسائی نے سنن میں پہلے سجدے کی ہیئت وکیفیت کے بارے میں چالیس سے زیادہ ابواب قائم فرمائے ہیں لیکن جب آگے دوسرے سجدے کی باری آئی تو صرف ایک باب : باب التکبیر للسجود قائم فرمایا، تو کیا اب یہاں پر بھی آپ کے فرمان کی طرح یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ تمام احکام امام صاحب نے صرف پہلے سجدے کے بارے میں ہی سمجھے ہیں دوسرے سجدے کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ بلکہ ہم یہاں کہیں گے کہ چونکہ دونوں سجدوں کا طریقہ اور کیفیت ایک جیسی ہی ہے اس لئے صرف ایک سجدے کے ذکر پر اکتفا فرمایا، اسی طرح دونوں قیاموں کی کیفیت ایک جیسی ہے تو ایک کوذکر فرمادیا۔
اسی طرح آگے کتاب التطبیق اور کتاب السھو قائم فرمایا ہے کتاب السھو کو دیکھ لیں جس میں اکثر وبیشتر ابواب اور ان میں درج احادیث کا سھو سے کوئی تعلق ہی نہیں تو آپ اس پر کیا فتویٰ صادرفرمائیں گے؟
وضع الیدین کا تعلق آپ کے بقول اگرصرف افتتاح الصلاۃ کے ساتھ ہے تو پھر آپ دوسری ،تیسری اور چوتھی رکعات میں ہاتھ کس دلیل کے تحت باندھتے ہیں؟
نماز جنازہ وعیدین میں افتتاح توپہلی تکبیر سے ہوچکا توباقی تکبیرات کے بعد ہاتھ باندھنے کی کیادلیل ہے؟
صلاۃ الکسوف کے کئی طریقے خود امام نسائی نے بیان فرمائے ہیں جس میں ایک رکوع سے لیکرچار رکوع تک بیان کئے ہیں لیکن کسی رکوع کی کیفیت وطریقہ بیان نہیں کیا تو کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ صلاۃ الکسوف میں رکوع کی کوئی کیفیت مذکور نہیں ہوئی اس لئے جس طرح دل چاہے رکوع کرلیاجائے؟ جب تمام رکوعات کی کیفیت ایک جیسی ہی ہے تومحدثین نے نہ ہر ایک رکوع کیلئے الگ باب قائم کیا اور نہ ہی صحابہ کرام نے ایک ایک رکوع، سجدے یاقیام کو الگ سے بیان فرمایا، یہ بہت ہی عجیب منطق ہے کہ محدثین عظام وصحابہ کرام سے چونکہ دوسرے قیام بعدا لرکوع میں ہاتھ باندھنا ذکر نہیں اس لئے اس کاوجود ہی نہیں ہے!
شبہ؍ اشکال(۲) حافظ صاحب فرماتے ہیں سنن نسائی کی یہ روایت یہاں مختصر ہے اورصحیح مسلم میں تفصیلی ہے جہاں ہاتھ باندھنے کاذکر صرف اول قیام میں ہے قومہ میں نہیں اور دیگرجگہوں پر بھی ہاتھوں کی کیفیت بھی صحیح مسلم کی اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
قارئین کرام! ہم یہاں صحیح مسلم کی وہ حدیث درج کئے دیتے ہیں :
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ: أَنَّهُ ” رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ، – وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ – ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنَ الثَّوْبِ، ثُمَّ رَفَعَهُمَا، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ، فَلَمَّا قَالَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمَّا، سَجَدَ سَجَدَ بَيْنَ كَفَّيْهِ ”
(صحیح مسلم، باب وضع یدہ الیمنی علی الیسری بعد تکبیر الاحرام تحت صدرہ فوق سرتہ ووضعھما فی السجود علی الأرض حذو منکبیہ،الرقم:۴۰۱)
حافظ صاحب فرماتے ہیںحدیث اور باب حدیث کےالفاظ پر غور فرمائیں۔
جی ہاں ہم نے حدیث اور باب حدیث کے الفاظ پر غور کیا جس کانتیجہ مندرجہ ذیل ہے:
1باب حدیث میں ہے کہ تکبیرۃ الاحرام کےبعد ہاتھ سینے کے نیچے اور ناف کے او پر باندھیں جبکہ حدیث اس چیز پر بلکل بھی دلالت نہیں کرتی حدیث میں مطلق طور پر ہاتھ باندھنے کاذکر ہے جگہ کا کوئی تعین نہیں ہے، جگہ کا تعین دیگراحادیث میں’’علی صدرہ‘‘ ’’فوق صدرہ‘‘کے الفاظ سے ہے کہ ہاتھ سینے کے اوپر باندھنے ہیں یعنی یہ باب احادیث کے خلاف ہے ،جسے آپ خود بھی تسلیم نہیں فرماتے تو اس باب کو اپنی تائید میں ذکرفرمانا چہ معنی دارد؟؟؟؟
2کیا کسی محدث نے صحیح مسلم کی اس روایت کو سنن نسائی والی روایت کے مقید یامخصص کے طورپرذکرفرمایا ہے جیسا کہ آپ فرمارہے ہیں۔
3آپ نے فرمایا :اس حدیث میں ہاتھوں کی پانچ کیفیتیں بیان ہوئی ہیں۔مزیدفرمایا:اس میں سجدے میں جانے تک جو کیفیتیں بیان ہوئی ہیں۔ ہم نے جوغور کیا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس حدیث میں پوری نماز میں ہاتھوں کی کیفیت کا مکمل بیان بھی نہیں ہے بلکہ سجدے تک ہاتھوں کی ہر رکن میں مکمل کیفیت کیا ہے اس حدیث میں یہ بیان نہیں ہے، اس حدیث میں حالت جلوس میں ہاتھوں کی کیفیت مذکور نہیں ہے۔
ایک اہم سوال: اس حدیث میں دوسرے سجدے میں ہاتھوں کی کیفیت بالکل بھی ذکر نہیں،آپ سے عرض ہے کہ دوسرے سجدے میں ہاتھوں کی کیفیت کی کوئی صحیح اور صریح دلیل عنایت فرمائیں۔
جب آپ وہ دلیل عنایت فرمائیں گے تو اسی میں آپ کے تمام سوالوں کا جواب بھی موجود ہوگا۔آپ لامحالہ یہی جواب دیں گے کہ ایک رکعت میں سجدے چونکہ دوہیں اس لئے ایک سجدے کی کیفیت اور سجدے میں ہاتھوں کی کیفیت جب بیان ہوچکی تو دوسرے سجدے کی کیفیت بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ اسی میں آپ کے اس بے جان سوال کاجواب بھی موجود ہے کہ ایک رکعت میں قیام دو ہیں جب ایک قیام کی کیفیت بیان کردی تو علیحدہ سے دوسرے قیام بعدالرکوع کی کیفیت بیان کرنےکی ضرورت باقی نہ رہی، اس لئے محدثین نے دوسرے سجدے اور دوسرے قیام کی کیفیت کے ابواب قائم نہیں کئے نہ ہی صحابہ کرام نے الگ سے اسے بیان کیا ۔
فما ھوجوابکم فھوجوابنا.
4آپ نےفرمایا: دیکھ لیجئے اس میں رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد ہاتھوں کی کسی کیفیت کا بیان نہیں ہے، جی ہاں ہم نے دیکھا کہ یہ دوسرا قیام ہے اور جب پہلے قیام میں ہاتھوں کی کیفیت بیان کردی تو دوسرے قیام میں دوبارہ اسے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ رہی، جیسا کہ دوسرے سجدے کی مثال اوپرگذری، ویسے بھی عدم ذکر سے آپ کا کا دلیل کشید فرمانامناسب نہیں ہے۔
اس لئے اس حدیث کو سنن نسائی والی حدیث کیلئے مخصص بنانا درست نہیں ہے، نیز بالفرض صحیح مسلم والی حدیث میں قیام بعد الرکوع میں ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں ہے توہاتھوں کوچھوڑنے کا بھی ذکر نہیں ہے۔اب یہاں مشکل ہے کہ پھر اس قیام میں کیاکیاجائے؟ کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث اس سلسلہ میں ساکت اورخاموش ہے تو سنن نسائی والی حدیث سے یہ مشکل حل ہوگئی کہ نماز میں جب بھی کھڑا ہونا ہے تو ہاتھ باندھنے ہیں تو رکوع کے بعد بھی قیام یعنی کھڑا ہونا ہے۔
5جیسا عموم سنن نسائی کی حدیث میں ہے اور علماء ومحدثین کی ایک جماعت نے اس سے قیام بعدالرکوع میں وضع الیدین پر استدلال فرمایا ہے اسی طرح کے عمومات سے استدلال علماء ومحدثین کا طریقہ کار ہےمثلاً؛
(۱) نماز کی ہر رکعت میں قرأت سےقبل تعوذ پڑھنا۔
محدث کبیرشیخ البانی اور دیگر کوئی علماء قرآن مجید کی آیت: [فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۝۹۸](النحل:۹۸)سے استدلال فرماتے ہوئے نماز کی ہر رکعت میں قرأت سے پہلے تعوذ پڑھنے کو جائز، افضل اور بہتر قرار دیتے ہیں(مثلاً دیکھئے: اصل صفۃ صلاۃ النبی ﷺ للشیخ البانی،ص:826)
سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سے صرف پہلی رکعت میں تعوذ پڑھنا ثابت ہے تو پھرآیت کے عموم کو کیوں برقرار رکھتے ہوئے ہر رکعت میں تعوذ پڑھنے کی اجازت دی جارہی ہے؟ تو پھر اذا کان قائما کے عموم سے وضع الیدین بعد الرکوع غلط کیوں قرارپاتاہے؟
(۲)اقامت کا جواب دینا:
حدیث میں ہے:اذا سمعتم النداء فقولوا مثل مایقول المؤذن.
(صحیح بخاری،الرقم:611صحیح مسلم،الرقم:383)
یعنی جب بھی تم اذان سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہہ رہا ہو۔
محدث کبیر شیخ البانی نے اس عموم میں اقامت کو بھی شامل فرمایا ہے، (تمام المنۃ،ص:149.150)
کیا اقامت کا جواب دینا کسی حدیث سے ثابت ہے؟
جب اس عموم سے استدلال کیا جاسکتا ہے تو رکوع کے بعد وضع الیدین کے لئے سنن نسائی کی مذکورہ حدیث سے استدلال کیلئے کیا مانع ہے؟
(۳)اسی طرح ،اذا قام الی الصلاۃ کبر ورفع یدیہ
(متفق علیہ)
(۴)اذا کبر للصلاۃ نشر اصابعہ(ترمذی:239)
(۵)فاذا کان فی وتر من صلاتہ لم ینھض حتی یستوی قاعدا(صحیح بخاری:823)
کے عموم میں تمام فرضی، نفلی، سری، جہری ،سفری اور حضری نمازیں شامل ہونگیں۔

(۶)مطلق کو مقید پرمحمول کرنا:

یہ قاعدہ علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ مشروط ہے، امام شوکانی ارشاد الفحول ،ص:166میں لکھتےہیں :اشترط القائلون بالحمل شروطا سبعۃ. یعنی مطلق کو مقید پر محمول کرنے کیلئے سات شرطیں ہیں اور پانچویں شرط یہ بتاتے ہیں کہ بدون الحمل دونوں دلیلوں کاجمع ہونا ناممکن ہو، امام شافعی نے واقعی کہا ہے کہ مطلق مقید پرمحمول ہے لیکن یہ شرط لگائی ہے کہ دونوں کاموجب ایک ہی ہو،کما فی المستصفیٰ للغزالی ۱؍۱۷۵پس جو لوگ یہاں پر حمل کے مدعی ہیں ان کو اپنے دعویٰ کےلئے دو چیزوں کا ثابت کرنا ضروری ہے(۱)دونوں دلیلوں میں تعذر(۲) اتحاد موجب
کیونکہ حدیث اذا کان قائما میں تووضع کاموجب قیام فی الصلاۃ بتایا گیا ہے لیکن جس روایت کو مقید سمجھ کر پیش کیاگیا ہے یعنی افتتاح کے وقت ہاتھ باندھنے والی روایت اس میں کوئی موجب مذکور نہیں ہے۔ اگر یہ کہاجائے کہ موجب افتتاح ہے تو دوسری ،تیسری اور چوتھی رکعت اس حکم سے خارج ہوگی۔ اور عدم اتحاد سبب کی وجہ سے امام شافعی کے نزدیک بھی مطلق مقید پرمحمول نہ ہوگی۔ نیز روایت اذا کان قائما عام ہے ، ہاں ایسی دلیل کی ضرورت ہے جو اس کوخاص کرے۔1
(اسکات الجزوع لشیخ العرب والعجم سید بدیع الدین الراشدی)
(۷) اس طرح کی قیود کو اگر تسلیم کرلیاجائے تو کئی مسائل میں پریشانی کا سامنا کرناپڑے گا مثلا:نماز میں چارمقامات پر رفع الیدین کرنا اہل الحدیث کے امتیازی مسائل میں سے ہے لیکن ابوداؤد: 744اور ترمذی3423میں ہے:
کان اذا قام الی الصلاۃ المکتوبۃ رفع یدیہ حذو منکبیہ….
کیاخیال ہے یہاں آپ’’الصلاۃ المکتوبۃ‘‘ کی قید کو تسلیم فرمائیں گے؟
قبلہ رخ تھوکنے کی ممانعت والی احادیث مطلق بھی ہیں اور حالت نماز سے مقید بھی ،اسبال الازار کی ممانعت مطلق بھی ہے اور خیلاء کی قید کے ساتھ بھی، اسی طرح’’طلاق ثلاثہ‘‘ والامسئلہ بھی ہے۔ تتبع سے مزید کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
جب ان تمام مسائل میںمطلق کو مقید پرمحمول کئے بغیر دونوںپر عمل ممکن ہے تو اذاکان قائما کے عموم پر عمل کیوں نہیں کیاجاسکتا؟

صحابہ کرام کافہم

اس عنوان کے تحت جو کچھ حافظ صاحب نے تحریر فرمایا ہے اس کاجواب گذشتہ صفحات میں دیاجاچکا ہے، آپ نے فرمایا: کسی بھی صحابی نے رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد ہاتھ باندھنے کاذکر نہیں کیا!
یہ سوال آپ پر بھی ہوتا ہے کہ کیا کسی صحابی نے رکوع کے بعد ارسال کاذکر فرمایا ہے؟ رہنے دیجئے ہم اسے دوسری طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، کیا کسی صحابی نے دوسری، تیسری اور چوتھی رکعت میں رکوع سے قبل قیام میں ہاتھ باندھنے کاذکرفرمایا ہے؟ کسی صحابی نے نماز جنازہ کی تکبیرات کے درمیان ہاتھ باندھنے کا ذکر فرمایا ہے؟ عیدین کی افتتاحی تکبیر کےبعد دوسری تکبیرات کے بعد ہاتھ باندھنے کاذکر فرمایا ہے؟ کیا کسی صحابی نے صلاۃ الکسوف والخسوف میں متعدد رکوعات کے بعد ہاتھ باندھنے کاذکر فرمایا ہے؟

سیدنا براء بن عازب کی حدیث

یہ حدیث آپ کے لئے بالکل بھی مفید نہیں ہے کیونکہ اس میں رکوع، سجدہ،مابعد الرکوع ،قیام وقعود کی کیفیت، طریقہ وہیئت کوبیان نہیں کیا گیابلکہ کمیت، مدت اور وقت ذکر کیاگیا ہے، اس میں تو رکوع سے پہلے قیام میں بھی ہاتھ باندھنے کاذکرنہیں ہے اور آپ اس سے رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنے کی نفی کشید فرمارہے ہیں، فیاللعجب، اس حدیث میں نماز کی مذکورہ حالتوں میں ہاتھوں کی کیفیت کا کسی جگہ بھی ذکر نہیں ہے، آپ نے اس حدیث کی تشریح میں فرمایا:
اس حدیث میں نماز کے آغاز اور افتتاح کو قیام سے تعبیر کیا ہے…اس کو پہلاقیام اور رکوع کے بعد ٹھہرنے کو دوسراقیام قرار نہیں دیا گیا ان کے نزدیک نما ز کاآغاز قیام تھا لیکن رکوع کے بعد کی کیفیت یعنی قومے کو صحابی نے قیام سے تعبیر ہی نہیں کیا۔(انا للہ وانا الیہ راجعون)
پیچھے ذکر ہوچکا ہے کہ کئی احادیث میں مابعد الرکوع کی کیفیت کو قیام سے تعبیر کیاگیا کہیں قائم کہاگیا،کہیں اس حالت کیلئے قام استعمال کیا گیا، امام نسائی کے ابواب بھی ذکر کئے گئے کہ انہوں نے بھی مابعد الرکوع کی کیفیت کو قیام قرار دیا ہے۔ اسی طرح دیگر محدثین کی تعبیرات میں بھی اسے قیام قرار دیاگیا ہے، آپ سے عرض ہے کہ اپنے پورے مضمون میں آپ نے رکوع کے بعد کے قیام کو قومہ، قومہ اور قومہ قرار دیا ہے اس کی کوئی حدیث صحیح وصریح پیش فرمادیں۔
کسی ایک جگہ قیام نہیں کہاگیا تو آپ نے سرے سے انکار فرمادیا، بعض احادیث میں رکوع سے قبل والے قیام کو بھی اعتدال کہاگیا ہے اس بناء پر اسے بھی قیام سے خارج فرمادیں۔

محدثین کافہم وتفقہ

محدثین کافہم دین اور تفقہ ۔یقیناً مسلمہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ متاخرین کے لئے استنباط واجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا۔
امام شوکانی فرماتے ہیں :
فالاجتہاد علی المتأخرین ایسر واسھل من الاجتہاد علی المتقدمین ولایخالف فی ہذا من لہ فہم صحیح وعقل سوی.(ارشادالفحول ،ص:254)
متقدمین کے مقابلے میں متاخرین کے لئے اجتہاد کرنا زیادہ آسان وسہل ہے اس حقیقت سے فہم صحیح اور عقل سلیم رکھنے والاکوئی شخص اختلاف نہیں کرسکتا۔
یہ بھی یادرہے کہ جب اما م بخاری اور امام نسائی کے پاس حدیث بھی عمومی نماز اور قیام میں ہاتھ باندھنے کی تھی توا نہوں نے باب بھی عمومی قائم فرمایا اور حدیث سے زبردستی خاص پہلا قیام مراد نہیں لیا۔کماسبق
جی ہاں یہ محدثین کا فہم ہی تو ہے کہ امام ابن حزم نے عنوان قائم فرمایا: نمازی کو نماز کے:فی وقوفہ کلہ فیھا.یعنی تمام کے تمام وقوف میں ہاتھ باندھنےہیں پھر احادیث وآثار ذکرفرمائیں ۔کمامر
اورآخرمیں فرمایا:
وروینا فعل ذالک عن ابی مجلز وابراھیم النخعی، وسعید بن جبیر وعمرو بن میمون ومحمد بن سیرین، وایوب السختیانی وحماد بن سلمۃ انھم کانو یفعلون ذالک وھو قول ابی حنیفۃ والشافعی واحمد وداؤد.
یعنی مذکورہ ائمہ ومحدثین بھی اسی عمل کے قائل وفاعل تھے۔(المحلیٰ بالآثار ۳؍۳۰)
محدث دوراں الشیخ ارشاد الحق اثری ومتعنا اللہ بطول حیاتہ فرماتے ہیں ائمہ متقدمین میں امام احمد بن حنبلaسے یہ منقول ہوا کہ ان کا ایک موقف یہی رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا ہے اسی بناء پر عصر حاضر کے بعض حنبلی مشائخ بھی ہاتھ باندھنے کے قائل وفاعل ہیں…
(مقالاتِ راشدیہ)
امام احمد بن حنبلaکا قول
امام اہل السنۃ امام احمد بن حنبلaتیسری صدی ہجری کے عظیم محدث ہیں سنت کی ترویج اور بدعت کا قلع قمع کرنے میں امام صاحب موصوف کو ایک بلندمقام ومرتبہ حاصل ہے۔
آپ فرماتے ہیں: لوگ علم کے زیادہ محتاج وضرورتمند ہیں بمقابلہ پانی اور روٹی کے اس لئے کہ ایک آدمی ہرگھڑی علم کامحتاج ہے اور روٹی اور پانی کامحتاج تو دن میں دوچار مرتبہ ہی ہوگا، فرمایا ہمارے نزدیک یہ بات اصول السنہ میں سے ہے کہ اسی چیز کی پیروی کی جائے جس پر اصحاب رسول ﷺ گامزن تھے ان کی ہی اقتداء کی جائے اور بدعت کا کلی طور پر ترک کردیا جائے کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے ،فرمایا کہ جو فتوی کے منصب پر بیٹھے اس کے لئے سنت رسول ﷺ کاعالم ہونا اور اسانید صحیحہ کی پاسداری کرنے والاہونا بہت ضروری ہے۔
ایک مسئلہ کے بارے میں امام صاحبaسے سوال کیاگیا تو آپ نے فرمایا: سل غیری لیس لی ان افتی فیہ بشیٔ.
یہ سوال کسی اور سے کرو کیونکہ میرے لائق ہی نہیں کہ میں اس بارے میں کوئی فتویٰ دوں(علم نہ ہونے کی بناپر) (آداب الشریعۃ۲؍۵۹وغیرہ)
واضح ہوا کہ امام صاحب کا منہج کیا تھا اور آپ اس سلسلہ میں کتنے محتاط تھے۔
امام احمد بن حنبلaسے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یاارسال کرنے کے بارے میں سوال کیاگیا تو آپ نے فرمایا:
اذا رفع رأسہ من الرکوع ان شاء ارسل یدیہ وان شاء وضع یمینہ علی شمالہ.(کشاف القناع ۱؍۴۰۶،الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف)
یعنی: جب نمازی رکوع سے سراٹھائے تو چاہے تو اپنے ہاتھوں کو چھوڑ دے اور اگرچاہے تو باندھ لے۔
اور فرمایا:ارجو ان لایضیق ذالک ان شاءاللہ.یعنی میں سمجھتاہوں کہ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے یاباندھنے میں کوئی تنگی نہیں ہے۔ ان شاء اللہ
یعنی دونوں طرح جائز ہے۔(مسائل صالح بن احمد بن حنبل ۲؍۲۰۵فقرہ نمبر۷۷۶)
فقہ حنبلی کی معروف کتاب الروض المربع للشیخ شرف الدین ابوالنجا موسیٰ بن احمد الدمشقی المقدسی المتوفی 968ہجری میں ہے :
واذا رفع المصلی من الرکوع فان شاء وضع یمینہ علی شمالہ او ارسلھا.(الروض المربع۲؍۴۹)
یعنی نمازی رکوع کےبعد چاہے تو ہاتھ باندھ لے چاہے تو چھوڑ دے۔
اس کتاب کے حواشی میں شیخ عبدالرحمٰن بن محمد بن قاسم العاصمی النجدی فرماتے ہیں:
والاول اولیٰ الثبوت وضعھما حال القیام وعدم المخصص ولان الاصل ان کل قیام فیہ ذکر مسنون یضع فیہ یمینہ علی شمالہ وقدثبت فیہ الذکر ولان الوضع ابلغ فی التعظیم من الارسال.
(حاشیہ روض المربع ۲؍۴۹)
یعنی رکوع کے بعد ہاتھ باندھ لینا چھوڑ دینے سےبہتر ہے اس لئے کہ
1حالت قیام میں ہاتھ باندھنے کا ہی ثبوت ملتا ہے۔
2اور ایسی کوئی دلیل بھی موجود نہیں ہے جوکہ ہاتھ باندھنے کو قیام اول کے لئے خاص کردے۔
3اور یہ اصول ہےکہ ہر وہ قیام جس میں کوئی ذکر مسنون ثابت ہو تو اس میں ہاتھ باندھے جائیں اور رکوع کے بعد اذکار ثابت ہیں۔
4اس لئے بھی ہاتھ باندھنا زیادہ بہتر ہے کہ ہاتھ باندھنے میں، چھوڑ دینے سے زیادہ تعظیم کااظہار ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حنابلہ کے نزدیک زیادہ بہتر واولیٰ ہاتھ باندھناہے۔
امام احمد بن حنبلaکے قول پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ:
1امام صالحaکے اپنے والد امام احمد بن حنبلaسے اس بارے میں سوال کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے سلف میں وضع پر عمل ہوتا تھا ورنہ بقول حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کے جس کاوجود ہی نہیں تو اس بارے میں سوال کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی،یعنی امام صاحب کے دور میں اور ان کے سلف میں ہاتھ باندھنے والے موجود تھے ،ورنہ ماننا پڑے گا کہ امام صالحaکا سوال بھی لایعنی تھا اور امام احمدaکا جواب بھی لایعنی!
2یہاں ان لوگوں کا دعویٰ باطل قرار پاتا ہےکہ جو کہتے ہیں کہ اسلاف میں کسی زمانے میں بھی وضع کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
3ثابت ہوتا ہے کہ امام صاحب کےد ور میں اور آپ سے پہلے اہل حق کی ایک جماعت موجود تھی جو کہ رکوع کے بعد وضع کرتے تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ:اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
یہ بات مزید پختہ ہوجاتی ہے کہ جب ہم ابتداء میں ذکر کیے گئے امام صاحبaکے اقوال پر غور کریں اسی طرح امام صاحب a کا یہ قول :وایاک ان تتکلم فی مسئلۃ لیس لک فیھا امام.(مناقب الامام احمد لابن الجوزی ،اعلام الموقعین)
یعنی تم ہرگز کسی ایسے مسئلہ میںبات تک نہ کرو کہ جس میں تمہارا کوئی امام یعنی سلف موجود نہ ہو۔
اب خود امام صاحبaکا وضع کااختیاردینا اور اس میں کوئی حرج قرار نہ دینا اور اس مسئلہ کے بارے میں گفتگو،یہی بتاتا ہے کہ امام صاحبaکے اسلاف میں بھی یہ مسئلہ موجود تھا۔
4امام صاحب aکے اس مسئلہ میں اختیار دینے سے ثابت ہوتا ہے کہ سلف میں اور خصوصاً صحابہ کرام کے درمیان یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے، یہ امام کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے کہ جب کوئی مسئلہ آپ کو صحابہ کرام میں مختلف فیہ ملتا ہے اور ترجیح کی کوئی صورت نہیں پاتے تو اسے ترجیح دیئے بغیر چھوڑ دیتے اور اس بارے میں اختیار دے دیتے تھے جیسا کہ ان کے اصول خمسہ سے معلوم ہوتا ہے۔

ایک سوال کےذریعے وضاحت:

کے عنوان سے حافظ صلاح الدین صاحب نے جو لمبی بحث فرمائی ہے ،خلاصہ یہ ہے کہ: واضعین کی دلیل یہ عموم ہے کہ جب بھی نماز میں قیام یعنی کھڑا ہوتو ہاتھ باندھنے ہیں جب نمازی بحالت مجبوری بیٹھ کرنماز پڑھے تو کس دلیل کے تحت ہاتھ باندھے؟ فرماتے ہیں ہماری دلیل تو یہ ہے کہ افتتاح الصلاۃ میں ہاتھ باندھنے ہیں بیٹھ کر بھی نمازی نماز کا افتتاح کرے گاتو ہاتھ باندھے گا۔ کما قال حفظہ اللہ تعالیٰ
1آپ نے فرمایا :نمازی آغاز نماز اور آغاز رکعت میں ہاتھ باندھ لے۔
سوال ہے کہ حدیث میں افتتح الصلاۃ کے الفاظ ہیں مگر ہر رکعت کے آغاز میں ہاتھ باندھنے کی دلیل ہے؟ یہ مطلب آپ نے کہاں سے اخذ فرمایا کہ ہررکعت کے آغاز میں وضع ہے؟
بالفرض آپ ہی کی بات تسلیم کرلی جائے کہ آغاز نماز اور آغاز رکعت کے لئے وضع کا حکم ہے تو صلاۃ الکسوف والخسوف میں متعدد رکوع کے بعد ہاتھ باندھ لیتے ہیں وہاں نہ تو آغاز نماز ہے اور نہ ہی آغاز رکعت؟
نماز جنازہ میں تحریمھا التکبیر کے تحت تکبیر اولیٰ سے نماز کا آغاز ہوچکا تو باقی تکبیرات کے بعد درود اور میت کے لئے دعائیں کرتے ہوئے ہاتھ باندھنے کا کیاثبوت ہے؟
2قیام نماز کا ایک اہم رکن ہےجس میں کوئی اختلاف نہیں اس کے بغیر نماز نہیں ہے آپ ہی بتائیں کہ اگر بقول آپ کے تسلیم کرلیاجائے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں قیام ہی نہیں تو نماز کیسے درست ہوگی؟ تو ماننا پڑے گا کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں بھی قیام ہوتا ہے مگر بحالت مجبوری اسے بیٹھ کر ادا کیاجاتاہے،یعنی بیٹھ کر نماز پڑھتے وقت حالت قیام والی صورت، قیام کے ہی قائم مقام ہے۔
3اسلاف سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والی حالت کو بھی قیام سے تعبیر کرنے کاثبوت ملتا ہے،مثلاً:
(۱) من قال اذا صلی جالسا جعل قیامہ متربعا.
(۲)عن ابراھیم قال اذا صلی قاعدا جعل قیامہ متربعا.
(۳)دخلت علی سالم وھو یصلی جالسا جعل قیامہ متربعا.
(۴)کان سفیان اذا صلی جالسا جعل قیامہ متربعا.
(مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۳۳،ح:۶۱۴۱،۶۱۴۲وغیرہ)

علماء ومحدثین کی بڑی جماعت وضع کی قائل ہے

حافظ صلاح الدین یوسف صاحب فرماتےہیں :ہمارے ملک میں اس مسئلے پر زیادہ زور دینے کاآغاز پیرسید بدیع الدین شاہ راشدی نے کیا….شاہ صاحب کا یہ موقف علمی اعتبار اور دلائل کے اعتبار سے اتناکمزور تھا کہ ان کے اپنے بڑے بھائی بھی جو ایک بلند پایہ عالم محقق اورمحدث تھے ان کے موقف کے قائل نہ ہوسکے!
سبحان اللہ! کسی موقف کے کمزور ہونے کی یہ دلیل بھی بہت خوب ہےکہ بڑے بھائی بھی قائل نہ ہوسکے!
اہل حدیث کا موقف ہے اونٹ کاگوشت ناقض وضوء ہے لیکن جمہور اس کے قائل نہیں ہیں تو لیجئے آپ کاموقف انتہائی کمزور قرار پایا، طلاق ثلاثہ والے موقف میں جمہور کاموقف اہل الحدیث کے خلاف ہے!
جبکہ برصغیر میں شاہ صاحب کی پیدائش سے قبل بھی اس مسئلہ میں اختلاف تھا، علامہ حافظ عبداللہ محدث روپڑی فرماتے ہیں:
جب میں 1348ھ مطابق 1910ء میں تحصیل علوم کیلئے دہلی پہنچا تو وہاں اس مسئلہ کے متعلق خاصاچرچاتھا۔(ارسال الیدین ،ص:52)
(۱)شاہ صاحب خود بھی ابتداء میں ارسال کے قائل تھے، علامہ ابومحمدعبدالحق محدث بہاولپوری جوکہ وضع کے قائل تھے اور انہوں نے اس کے اثبات پر کتاب بھی لکھی تھی ان سے شاہ صاحب کیکچھ عرصہ اس پربحث بھی چلتی رہی آخر آپ ان کے دلائل سے متاثر ہوکروضع بعدالرکوع کے قائل ہوگئے۔
(۲)شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد خاص علامہ محدث ابواسماعیل یوسف حسین ہزاروی وضع الیدین بعد الرکوع کے قائل وفاعل اور داعی تھے آپ نے بھی’’اتمام الخشوع بوضع الیمین علی الشمال بعد الرکوع‘‘ کے نام سے اس پر کتاب لکھی جو 1907ء میں دہلی ہند سے شایع ہوئی جوکہ اب جنوری 2016ء میں دار التقوی کراچی سے شایع ہوئی ہے اور مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
(۳)غزنوی خاندان کے چشم وچراغ مولانا محدث اسماعیل غزنوی رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے قائل تھے اور فرمایا کہ حق یہی ہے اور میں خود بھی باندھتاہوں۔
(۴)جماعت کے نامور محقق ومناظر مولانا احمد دین گھکھڑوی اس کے قائل وفاعل تھے اورا نہوں نے بھرے مجمع میں فرمایا تھا کہ ارسال کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اسے ثابت کرسکتاہے۔
(۵)سعودی عرب کے اکثروبیشتر علماء ومشائخ وائمہ حرمین سابقہ اور موجودہ وضع الیدین بعد الرکوع کے قائل وفاعل ہیں ان کی تعداد شمار نہیں کی جاسکتی، سابق مفتی اعظم وقاضی القضاۃ الشیخ محمد بن ابراھیم آل الشیخ، مفتی اعظم سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز، الشیخ المحدث محمد بن صالح
العثیمین، قاضی القضاۃ الشیخ عبداللہ حمید، علامہ محدث حمود بن عبداللہ التویجری، الشیخ عبدالقادر حبیب اللہ السندی، محدث الشیخ حماد انصاری، الشیخ عبدالرحمٰن السدیس،الشیخ شریم وغیرھم۔
(۶)اسی طرح شام ،مصر،عراق، اردن، افریقہ، سوڈان، مراکش، فلسطین، تیونس، الجزائر، بیلجم، ڈنمارک، ترکی، کویت اور دنیا بھر کے علماء ومشائخ وعوام کی کثیرتعداد رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کی قائل وفاعل ہے۔ (القنوط والیأس لاھل الارسال، قیام بعدالرکوع میں ہاتھ باندھنا لشیخ العرب والعجم سید بدیع الدین الراشدی)
(۷)ہماری شیخ ومربی محدث العصر علامہ عبداللہ ناصر رحمانی بھی وضع الیدین بعد الرکوع کے قائل،فاعل وداعی ہیں آپ نے اس مسئلہ پر شاہ صاحب کی کتاب القنوط والیأس لاھل الارسال پر پچاس صفحات پر مشتمل عظیم الشان اور لاجواب مقدمہ تحریرفرمایا ہے میری معلومات کے مطابق آنجناب کی اس تحریر کا جواب اب تک نہیں دیاجاسکاہے، میرے استاذ فٗضیلۃا لشیخ ذوالفقار علی طاہر صاحب سندھ کے نامور محقق ڈاکٹر عبدالحفیظ سموں صاحب او ر سندھ کے اکثر وبیشتر علماء وضع الیدین بعدالرکوع کے قائل ہیں۔
ملحوظہ: حافظ صلاح الدین یوسف نے محدث دیار سندھ علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی کیلئے ’’پیر‘‘ کالقب استعمال کیا ہے، حالانکہ شاہ صاحب نے اپنی زندگی میں اپنی تقاریر میں اس لقب سےہمیشہ براءت کا اعلان فرمایا،لہذا آپ کیلئے اس لقب کے استعمال سے گریز بہتر ہے۔
vvvvvvvvvvvvvv

About الشیخ حزب اللہ بلوچ

Check Also

نیکیوں کے خزانے

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *