Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2020 » March to September Megazine » عقیدہ عصمت اور اسکی حقیقت

عقیدہ عصمت اور اسکی حقیقت

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

الحمدللہ وحدہ والصلوات والسلام علی من لا نبی بعدہ:

چند دن قبل ایک تحریر نظر سے گذری جس میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ باغ فدک کے مسئلے  میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جو میراث کا مطالبہ کیا تھا وہ حق بجانب تھا پھر اسکو دلائل سے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ، ہم فدک کے حوالے سے عنقریب ایک مفصل تحریر آپ کے سامنے پیش کریں گے۔ ان شاءاللہ

لیکن اس تحریر میں اس بات پر بڑی تاکید کے ساتھ زور دیا گیا تھا کہ اہل بیت خطاء سے پاک ہیں لہذا فاطمہ رضی اللہ عنہا سے غلطی کیسے سرزد ہو سکتی ہے؟؟

مجہول محرر نے اس حوالے سے شیعہ کے مشہور عقیدہ عصمت اهل بيت سے دلیل لی تھی حالانکہ یہاں بھی ایک عجیب ٹکراؤ ہے شیعہ ابھی تک اپنے اس اصول کوسلجھانے میں ناکام رہے ہیں کبھی عصمت کا دعویٰ تمام اہل بیت کے لیے کرتے ہیں اسی وجہ سے فاطمہ رضی اللہ عنھا کے لیے عصمت کا دعویٰ کیا گیا اور کبھی صرف مخصوص ائمہ اہل بیت کےلیے یہ دعویٰ کرتے ہیں!

ہماری اس پوسٹ کو لکھنے کی غرض اور مقصد ان لوگوں کی اصلاح ہے جو کہتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت ہر قسم کی اجتہادی وغیر اجتہادی خطائوں سے پاک ہیں ہم انکے اپنی ہی کتب سے ہی حوالے دے کر انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کے اس نظریے کی مخالفت آپ کے کتب کے اندر ہی موجود ہے!(یاد رہے ہمارے ہاں یہ حوالے اور یہ کتب قابل اعتبار نہیں ہیں  صرف فریق  مخالف کو مطمئن کرنے کے لئے ان کی اپنی کتب سے حوالے پیش کیے جا رہے ہیں۔)

اہل سنت کا اتفاقی نظریہ ہے عصمت کا اعزاز صرف اللہ کے انبیاء کو ہی حاصل  ہے جن کی اللہ نے ضمانت لی ہے جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے[وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى o اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى] یہ اعزاز انبیاء کے علاوہ کسی اور انسان کے لیے نہیں ہے یہاں تک کہ اس امت کے بعد النبی علیہ السلام افضل ترین انسان  ابوبکر صدیق ان کے بعد عمر فاروق اور ان کے بعد عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی اجتہادی خطائیں سرزد ہوئی تھیں ہم انہیں معصوم عن الخطا نہیں تصور کرتے۔

اہم ترین نوٹ:

ائمہ اہل بیت عظیم انسان تھے انہوں نے اس طرح کے نظریات بالکل بیان نہیں کیے یہ روافض نے گھڑ کر ان کی طرف منسوب کر دیے ہیں ۔

عقیدہ عصمت شیعہ کا اجماعی عقیدہ ہے اس کا معنی یہ ہے کہ انکے مقرر کردہ ائمہ اہل بیت ہر قسم کی اجتہادی و غیراجتہادی خطاؤں سے معصوم ہیں ان سے بھول وغیرہ نہیں ہو سکتی ۔

شیعہ کی مشہور عقیدہ کی کتاب’’ العقائد الامامیہ ‘‘میں ہے :

ونعتقد أن الإمام كالنبي يجب أن يكون معصوماً من جميع الرذائل ما ظهر منها وما بطن كما يجب أن يكون معصوماً من السهو والخطأ والنسيان لأن الأئمة حفظة الشرع والقوامون عليه حالهم في ذلك حال النبي.

(العقائد الإمامية ص:51)

ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام بھی نبی کی طرح ہوتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ معصوم ہو تمام  ظاہری و باطنی بری خصلتوں سے پاک ہو، اسی طرح ضروری ہےکہ وہ بھول، غلطی اور نسیان سے معصوم ہو کیونکہ ائمہ شریعت کے محافظ اور جو شریعت کے نگران ہوں انکا حال اس مسئلہ میں نبی جیسا ہے۔

علامہ باقر مجلسی لکھتے ہیں:

جملة القول فيه أن أصحابنا الإمامية أجمعوا على عصمة الأنبياء والأئمة صلوات الله عليهم من الذنوب الصغيرة والكبيرة عمدا وخطا ونسيانا قبل النبوة والإمامة و بعدهما بل من وقت ولادتهم إلى أن يلقوا الله تعالى۔(بحار الأنوار للمجلسي الجزء 25 ص350 )

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارے امامیہ ( شیعہ) متفق ہیں کہ انبیاء اور ائمہ صلوات اللہ علیھم  جانے انجانے میں چھوٹے بڑے گناہوں اور بھول سے پاک ہیں نبوت اور امامت سے پہلے اور بعد میں بلکہ پیدائش کے وقت سے لے کر اللہ سے ملاقات ( وفات)تک۔

معزز قارئین کرام!

ائمہ اہل بیت کے بارے میں یہ من گھڑت نظریہ ہے جس کی  قرآن وسنت میں کوئی دلیل نہیں ملتی۔

ہم اس پر آگے چل کر بات کریں گے۔ ان شاءاللہ۔

مسلمان بھائیو!

ایک اصول یاد رکھیں کلام معصوم وہ ہوتا ہے جس میں حقیقی طور پر کوئی ٹکراؤ اور تضاد نہیں  ہوتا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ  ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا](نساء 82)

کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت  کچھ اختلاف پاتے۔

معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ دین میں ٹکراؤ نہیں ہوتا جبکہ عصمت ائمہ کے عقیدے کے قائلین  کا حال یہ  ہے کہ ایک ہی کتاب کے اندر  اس عقیدے کو ذکر کرتے ہیں کہ ہمارے ائمہ تمام غلطیوں ، بھول، اجتہادی خطا اور فتوی میں خطا کرنے سے معصوم ہیں لیکن اسی کتاب میں ہزاروں جگہوں پر اس اصول کو توڑ دیتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول رہا ہے کہ کلام باطل کے متکلم  سے  ایسی چیزیں جاری کروا دیتا ہے جس سے حق کے متلاشی کے لیے حق سمجھنا اور باطل کو پرکھنا آسان ہو جاتا ہے۔

عقیدہ عصمت کے باطل ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی  ہے کہ آئمہ اہل بیت کے فتاواجات  کے بیچ میں بہت بڑا ٹکراؤ پایا جاتا ہے جس میں تطبیق کی صورت نا ممکن ہے یہ واضح دلیل ہے کہ وہ معصوم نہیں ہیں۔

شیعہ عالم دلدار علي لکھتے ہیں کہ : إن الأحاديث المأثورة عن الأئمة مختلفة جدا لا يكاد يوجد حديث إلا وفي مقابله ما ينافيه و لا يتفق خبر إلا وبإزائه ما يضاده حتى صار ذلك سببا لرجوع بعض الناقصين عن اعتقاد الحق۔(أساس الأصول ص 51)

ائمہ سے منقول احادیث کے اندر بہت ہی بڑا اختلاف ہے  آپ نہیں پائیں گے کوئی ایک حدیث مگر یہ کہ اس کے مقابلے میں دوسری حدیث ہوگی، آپ نہیں دیکھیں گے کوئی ایک خبر مگر اس کے مقابلے اور تضاد میں دوسری خبر ہوگی یہاں تک  یہ بات رجوع کا سبب بن گئی اعتقاد حق سے ، بعض ناقصین کے لیے۔

شیعہ عالم علامہ طوسي لکھتے ہیں کہ: ذاكرني بعض الأصدقاء بأحاديث أصحابنا وما وقع فيها من الاختلاف والتباين والتضاد حتى لا يكاد يسلم خبر إلا وبإزائه ما يضاده ولا يسلم حديث إلا وفي مقابله ما ينافيه حتى جعل مخالفونا ذلك من أعظم الطعون على مذهبنا (تهذيب الأحكام – للشيخ الطوسي – ج 1 – الصفحة2.)

بعض دوستوں نے میرے ساتھ ہمارے اصحابِ کی ان احادیث کے بارے میں مذاکرہ کیا جن کے اندر اختلاف اور تضاد واقع ہوا ہے یہاں تک کہ ایک خبر بھی ایسی نہیں ہے کہ جس کے مقابلے اور تضاد میں دوسری خبر نہ ہو  اور ایک بھی حدیث اس طرح صحیح سالم نہیں ہے ہے کہ اس کے مقابلے اور ٹکراؤ میں دوسری حدیث نہ ہو یہاں تک اس بات کی وجہ سےہمارے مخالفین نے ہمارے مذہب پر سب سے بڑا طعن کیا ہے۔

قارئین کرام!

آپ خود اندازہ لگائیں کہ جب ائمہ کی خبروں کے اندر اتنا بڑا ٹکڑاؤ ہے کہ شیعہ علماء کے بقول شاید کوئی ایک خبر بھی اس ٹکراؤ سے محفوظ نہ ہو تو سارے امام معصوم عن الخطا کیسے ہوئے؟؟

ٹکراؤ کی صورت میں ایک صحیح ہوتا ہے اور ایک غلط، تعجب کی بات  ہے کہ صحیح بھی معصوم عن الخطا اور غلطی کرنے والا بھی معصوم عن الخطا !!

ائمہ اہل بیت کے خبروں کے اندر ٹکراؤ کی چند مثالیں ہم پیش کرتے ہیں۔

پہلی مثال:

أحمد بن إدريس، عن محمد بن عبد الجبار، عن الحسن بن علي، عن ثعلبة بن ميمون، عن زرارة بن أعين، عن أبي جعفر عليه السلام قال: سألته عن مسألة  فأجابني ثم جاءه رجل فسأله عنها فأجابه بخلاف ما أجابني، ثم جاء رجل آخر فأجابه بخلاف ما أجابني وأجاب صاحبي، فلما خرج الرجلان قلت: يا ابن رسول الله رجلان من أهل العراق من شيعتكم قدما يسألان فأجبت كل واحد منهما بغير  ما أجبت به صاحبه؟ فقال: يا زرارة! إن هذا خير لنا وأبقى لنا ولكن ولو اجتمعتم على أمر واحد لصدقكم الناس علينا ولكان أقل لبقائنا وبقائكم.(الكافي – الشيخ الكليني – ج 1 – الصفحة 65.)

زرارہ بن اعین سے روایت ہے کہ اس نے ابو جعفر علیہ السلام سے نقل کیا کہ ،وہ کہتا ہے : میں نے ان سے ایک مسئلہ کے متعلق سوال کیا، انہوں نے مجھے اس کا جواب دیا ۔

پھر ایک دوسرا آدمی آیا ،اس نے بھی اسی مسئلے کے متعلق سوال کیا تو اس کو انہوں نے میرے جواب سے مختلف جواب دیا پھر ایک تیسرا آدمی آیا اس نے بھی اسی مسئلے کے بارے میں سوال کیا تو اس کو پہلے دونوں جوابوں کے بالکل مختلف جواب دیا ۔

جب وہ دونوں چلے گئے تو میں نے کہا اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! دو عراقی شیعہ کے پاس ایک ہی مسئلہ لے کر آئے آپ نے دونوں کو میرے جواب سے مختلف جواب دیا ؟انہوں نے کہا اے ذرارہ! یہی ہمارے اور تمہارے لیے بہتر ہے۔اگر تم ایک ہی بات پر اتفاق کر لو جو تم ہمارے متعلق کہو گے ، لوگ اس کی تصدیق کریں گے اس کے نتیجے میں ہماری بقا اور تمہاری بقا خطرے سے دوچار ہوجائے گی۔

توضیح:

اس روایت پر غور کریں  امام ابو جعفر محمد الباقر نے ایک سوال کے تین مختلف اور متضاد جوابات دیے ہیں۔

دوسری مثال:

عَن أبي بصير، قَال: ((سَألتُ أبا عبد الله -عليه السلام- عَن امرَأةٍ تَزوَّجَت وَلها زَوجٌ فَظهَر عَليها؟. قَال: تُرجَمُ المَرأة وَيُضْرَب الرَّجُل مَائة سَوطٍ ؛ لأنّه لم يَسأل. قَال شُعيب: فدخلت على أبي الحسَن( موسي الكاظم) عليه السلام فَقُلت له: امرَأةٌ تَزَوَّجَت ولها زَوجٌ . قَال: تُرجَمُ المرأةُ وَلا شَيء عَلى الرَّجُل، فَلقيتُ أبَا بَصير ، فَقُلتُ له: إنّي سَألتُ أبَا الحسَن -عليه السلام- عَن المرأة التي تَزّوجَت ولها زَوجٌ، قَال: تُرجَمُ المَرأة ولا شَيءَ عَلى الرَّجُل، قَال: فمَسَحَ عَلى صَدْرِه ، وقال: مَا أظُنُّ صَاحِبَنا تَناهَى حُكْمُه بَعد))(رجال کشی ص 152/153)

ابو بصیر سے روایت ہے کہ میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام  سے اس عورت کے بارے میں پوچھا جس نے شادی کی اور اس کا شوہر تھا ( یعنی وہ پہلے سے شادی شدہ تھی ). تو وہ اس کے سامنے حاضر ہوئی؟  اس نے کہا: اس عورت کو سنگسار کیا جائے گا، اور اس شخص کو سو کوڑے مارے جائینگے کیونکہ  اس نے پوچھا نہیں ۔شعیب کہتے ہیں پھر میں داخل ہوا ابوالحسن ( یعنی  موسی کاظم کے پاس) پھر میں نے اس سے کہا ہاں ایک عورت نے شادی کی ہے اور اس کا خاوند ( پہلے ) موجود تھا. تو آپ نے فرمایا عورت کو رجم کیا جائے گا اور اس مرد پر کوئی سزا نہیں ہے ۔پھر میں ابوبصیر سے ملا اور اسے کہا :میں نے ابو الحسن علیہ السلام سے اس عورت کے بارے میں سوال  کیا جس نے شادی کی اور اس کا پہلے سے خاوند موجود تھا تو آپ نے فرمایا : عورت کو رجم کیا جائے گا اور مرد پر کوئی سزا نہیں ، اس نے کہا : انہوں نے ان کے سینے پہ ہاتھ لگایا  اور کہا: میں یہی سمجھتا ہوں کہ ہمارے  ساتھی پہلے والے حکم ( فتویٰ) سے رک گئے تھے.

توضیح: اس مثال پر غور کریں ایک ہی سوال کے دو متضاد جوابات دیئے گئے ہیں۔

تیسری مثال :

عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) في قوله تعالى : ( لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم )  قال : نزلت في امير المؤمنين ( عليه السلام ) وبلال وعثمان بن مظعون ، فأما امير المؤمنين ( عليه السلام ) فحلف أن لا ينام بالليل ابدا ، وأما بلال فانه حلف أن لا يفطر بالنهار أبدا ، وأما عثمان بن مظعون فانه حلف أن لا ينكح ابدا إلى ان قال : فخرج رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) ونادى الصلاة جامعة ، وصعد المنبر ، وحمد الله ، واثنى عليه ، ثم قال : ما بال اقوام يحرمون على انفسهم الطيبات الا إنيّ انام الليل ، وانكح ، وافطر بالنهار ، فمن رغب عن سنّتي فليس منّي ، فقام هؤلاء ، فقالوا : يا رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) فقد حلفنا على ذلك ، فأنزل الله عزّ وجلّ : ( لا يؤاخذكم الله باللغو في ايمانكم ولكن يؤاخذكم بما عقدتم الايمان فكفارته اطعام عشرة مساكين من اوسط ما تطعمون اهليكم او كسوتهم او تحرير رقبة فمن لم يجد فصيام ثلاثة ايام ذلك كفارة ايمانكم اذا حلفتم ) .(تفسير القمي ج 1 ص 179)

ترجمہ:ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے کہ (يا ايها الذين امنوا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم )

اے ایمان والو ! تم اپنے اوپر ان پاک چیزوں کو حرام مت کرو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں۔

فرماتے ہیں یہ آیت نازل ہوئی امیرالمومنین(  علی ) رضی اللہ عنہ، بلال اور عثمان بن مظعون کے بارے میں امیرالمومنین نے قسم کھائی تھی کہ وہ رات کو کبھی نہیں سوئیں گے اور بلال نے قسم کھائی تھی دن کو کبھی بھی روزہ نہیں چھوڑیں گے اور اس نے قسم کھائی تھی وہ کبھی بھی نکاح نہیں کرے گا، پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور لوگوں کو پکارا لوگو نماز کے لیے جمع ہو جاؤ ،پھر آپ منبر پر چڑھے اللہ کی تعریف اور ثناء بیان کی پھر فرمایا کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا  ہے اپنے اوپر پاک چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں یقینا میں رات کو سوتا بھی ہوں اور میں نکاح بھی کرتا ہوں اور دن کو روزے چھوڑتا بھی ہوں اور جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ہے پھر وہ لوگ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے  : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے تو قسم اٹھائی تھی۔

تو اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:

[لَايُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ](المائدہ:۸۹)

اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کر دو،اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو  یا ان کو کپڑا دینا  یا ایک غلام یا لونڈی   آزاد کرنا ہے اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے  روزے ہیں  یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو! اسی طرح اللہ تعالٰی تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو ۔

توضیح:

شیعہ کتب کے اندر موجود اس روایت کو بار بار پڑھیں اور پھر شیعہ کے اس عصمت والے نظریہ پر غور فرمائیں اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ علی رضی اللہ  نے اپنے اوپر رات کے وقت سونے کو حرام قرار دیا تھا جو حلال کام تھا اور جسم کا حق تھا علی رضی اللہ عنہ کا یہ اجتھادی فیصلہ اللہ کے ہاں درست نہ ٹھہرا اسی وجہ سے اللہ نے آسمان سے آیت نازل فرمائی:

اے ایمان والو اپنے اوپر حلال اور جائز کاموں کو حرام قرار  مت دو۔

اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غلط قرار دیا بلکہ سخت الفاظ استعمال کیے کہ یہ فیصلہ تو میری سنت کے خلاف ہے۔

اسی طرح یہ روایت دیگر شیعہ کتب کے اندر بھی موجود ہے باقر مجلسی صاحب اس روایت کے یہ الفاظ ذکر کرتے ہیں:

عن ابن عباس ومجاهد وقتادة في قوله: ” يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله  ” الآية نزلت في علي وأبي ذر وسلمان والمقداد وعثمان بن مظعون وسالم، إنهم اتفقوا على أن يصوموا النهار ويقوموا الليل، ولا يناموا على الفرش، ولا يأكلوا اللحم، ولا يقربوا النساء والطيب، ويلبسوا المسوح ويرفضوا الدنيا، ويسيحوا في الأرض، وهم بعضهم أن يجب مذاكيره، فخطب النبي صلى الله عليه واله فقال: ما بال أقوام حرموا النساء والطيب والنوم وشهوات الدنيا ؟ أما إني لست آمركم أن تكونوا قسيسين ورهبانا، فإنه ليس في ديني ترك اللحم والنساء ولا اتخاذ الصوامع، وإن سياحة أمتي ورهبانيتهم الجهاد إلى آخر الخبر.( بحار الأنوار للمجلسي الجزءء40 ص 328)

مفہوم:

ابن عباس ،مجاهد اور قتاده سے روایت ہے کہ (يا ايها الذين امنوا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم )

اے ایمان والو ! تم اپنے اوپر ان پاک چیزوں کو حرام مت کرو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں۔

وہ فرماتے ہیں یہ آیت نازل ہوئی  علی  رضی اللہ عنہ، ابوذر، سلمان،مقداد، عثمان بن مظعون رضی اللہ عنھم اور سالم کے حوالے سے،  وہ سارے متفق ہوگئے کہ وہ  ہمیشہ دن کو روزے رکھیں گے ، رات کو قیام کریں گے، بستروں پر نہیں سوئیں گے ،گوشت نہیں کھائیں گے ، عورتوں اور خوشبوء کے قریب نہیں جائیں گے، سادہ بالوں کے بنے ہوئے کپڑے پہنیں گے ،دنیا سے بے رغبتی رکھیں گے، زمین میں نکل جائیں گے ( عبادت کے لیے) اور بعض نے ارادہ کیا کہ اپنے آپ کو خصی کر دینگے۔

آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے خطبہ ارشاد فرمایا : کیا معاملہ ہے ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے اوپر عورتوں ، خوشبو ، نیند اور دنیا کی آسائشوں کو حرام قرار دے دیا ہے؟ خبردار میں تمہیں یہ حکم نہیں دیتا کہ بن جاؤ قسیس( اپنے اوپر بہت زیادہ سختی کرنے والے ) اور رھبان ( دنیا سے قطع تعلقی کرتے ہوئے عبادت میں گذارنے والے )

بے شک میرے دین کے اندر گوشت اور عورتوں کو ترک کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی میرے دین میں صوامع ہیں  (یعنی دنیا سے منقطع ہو کر عبادت میں گذارنا)۔

بے شک میری امت کی سیاحت ( اللہ کےلیے نکل جانا ) اور رہبانیت( یکسو ہو کر عبادت کرنا) جہاد فی سبیل اللہ کے اندر ہے۔

توضیح:

اس روایت پر غور کریں علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اوپر کچھ حلال کاموں کو حرام قرار دیا تھا لیکن یہ فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط قرار دیا اور قرآن مقدس نے بھی اس فیصلے کی تردید فرمائی اس سے ثابت ہوا ہوا کہ ان کا یہ فیصلہ اجتہادی خطا تھی۔

About ابو عبدالرحمٰن عبدالرزاق دل

Check Also

حب الوطنی کا اسلام میں تصور

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *