Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2020 » March to September Megazine » فضیلۃ الشیخ عبدالغفور دامنی رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال!

فضیلۃ الشیخ عبدالغفور دامنی رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال!

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

09 مارچ بروز پیر شب تقریباً آٹھ بجے، ایک روح فرسا اور المناک خبر موصول ہوئی ، جس نےدل کو غم و صدمے سے دوچار کر دیا آنکھیں اشکبار ہوگئیں…. خبر یہ تھی کہ جماعت اہل حدیث بلوچستان کی نامور علمی شخصیت، عظیم مؤرخ ، محقق، مؤلف کتب کثیرہ، پیکر علم وعمل، یاد گار سلف، خوش اخلاقی میں یگانہ روزگار شیخنا ابو عبدالصبور عبدالغفور دامنی رحمہ اللہ ہمیں داغ مفارقت دے کر سفر آخرت کے لیے کوچ کرگئے! إنا لله وإنا إليه راجعون إن القلب يحزن و العين تدمع ولا نقول الا ما يرضي ربنا و إنا بفراقك يا شيخنا لمحزونون.

علماء کی موت ہی دراصل ،علم کے نور کا بجھ جانا ہےاور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کا چھا جانا ہے!

سیدنا عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا.(صحیح بخاری ۱۰۰،صحیح مسلم:۶۷۹۶)

بیشک اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا جو اس کو بندوں سے چھین لے، بلکہ وہ (ربانی اور پختہ کار) علماء کو موت دے کرعلم کو اٹھالے گا، حتی کہ(ایسے علماء میں سے) کوئی عالم ایسا نہ بچے گا ،لوگ جہلاء کو اپنا سردار (اور پیشوا) بنائیں گے پھر جب ان سے (دین کی کسی بات کے متعلق) پوچھاجائےگا تو وہ بغیرعلم(اور دلیل) کے جواب دیں گے،اس لئے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور (دوسرے لوگوں کو بھی) گمراہ کریں گے۔

امیر محترم فضیلۃ الشیخ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ’’ دعوت اہل حدیث“ کی اشاعت خاص ’’پیکر علم و عمل“ کے اداریے میں تحریر فرماتے ہیں کہ:

’’کسی عزیز کی موت پر جتنے بھی آنسوبہائے جائیں،ضائع ہوجاتےہیں ،قدرت کافیصلہ اٹل ہے، جانے والے لوٹ کر نہیں آسکتے۔

امیرالمؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ اپنے طلاب کے حلقہ میں تشریف فرماتھے انہیں ایک مکتوب موصول ہوا، جسے کھول کر پڑھا، گردن جھک گئی اور آنکھوں سے آنسؤوں کی جھڑیاں بہہ نکلیں، عظیم محدث عبداللہ بن عبدالرحمٰن الدارمی رحمہ اللہ کی موت کی اطلاع تھی، زبان پر بے ساختہ یہ شعر آگئے:

عزاء فما یصنع الجازع

ودمع الأسی أبدا ضائع

بکی الناس من قبل أحبابھم

فھل منھم أحد راجع

عزیزوں کے بچھڑجانے پر جزع فزع کرنے والاکیاکرسکتاہے، اس پُرملال گھڑی کے آنسو ضائع ہی جاتے ہیں ،آج سے قبل بھی لوگ اپنے پیاروں کو روئے،مگرکیا کوئی بچھڑنے والابھی لوٹ کرواپس آیاہے؟

حضرات! ایک عالم کا  بچھڑجانامحض اس کی شخصیت ،شکل وصورت یا دم ولحم کافقد نہیں ،بلکہ اس کے سینے میں محفوظ وموجزن میراث نبوت کا فقدان ہوتا ہے۔ امت صرف اس کی شخصیت سے محروم نہیں ہوتی ،بلکہ اللہ رب العزت کی عطاکردہ اس کے حصہ کی میراثِ نبوت سے محروم ہوجاتی ہے، بلکہ بربادی کے دھانے پر جاپہنچتی ہے۔

حبرِامت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما قولہ تعالیٰ:[اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا۝۰ۭ ](الرعدـ:۴۱)

کی تفسیر میں فرمایا کرتے تھے:

خَرَابُهَا بِمَوْتِ فُقَهَائِهَا وَعُلَمَائِهَا وَأَهْلِ الْخَيْرِ مِنْهَا.

یعنی زمین کی ویرانی اور بربادی علماء اور فقہاء اور اہل خیر کی وفات سے ہوتی ہے۔بقول شاعر

الارض تحیا اذا ما عاش عالمھا

حتی یمت عالم منھا یمت طرف

زمین اس وقت زندہ وشاداب رہتی ہے جب تک اس کا عالم زندہ رہے،جب عالم کا انتقال ہوجائے تو زمین کا ایک حصہ بھی ساتھ ہی مرجاتا ہے اور مرجھاجاتاہے۔

زمین کی تمام تر شادابی علماء کے وجود سے ہے،اسی لئے شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے علماء کی مجالس کو،زمین پر اللہ تعالیٰ کی جنتیں قرار دیا ہے،ان کی یہ بات نبیﷺ کی اس حدیث سے ماخوذ ہوسکتی ہے:(اذا مررتم بریاض الجنۃ فارتعوا)یعنی:جب تمہارا جنت کے باغات کے پاس سے گذرہوتوضرور (اس باغ کے)پھل کھالیاکرو،جب صحابہ کرام نے ان باغات کی بابت دریافت کیاتو آپ نے ارشاد فرمایا:(حلق الذکر) یعنی: ذکر کے حلقے۔

واضح ہوکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کا سب سے ارفع واعلیٰ حلقہ وہ مجالس ہیں جن میں قرآن وحدیث کے احکام ومواعظ بیان کیے جائیں،ایسے حلقات یقیناً سامعین کے قلوب کی حیات ثابت ہوتے ہیں،نیز زمین کا ذرہ ذرہ مستفید ہوتارہتاہے،گویا زمین اور اہلِ زمین کی حیات علماء کے وجود کے ساتھ منسلک ہے،علماء کے چلے جانے سے زمین کا نور بھی ختم ہوجاتاہے اور اہل زمین کے قلوب بھی بنجرہوناشروع ہوجاتے ہیں،اسی لئے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ  نے اس شہر سے ہجرت کرنا فرض قراردیا ہےجس میں کوئی عالم نہ ہو۔

مشہورتابعی سعید بن جبیررحمہ اللہ نے تو علماء کی موت کو امت کی ہلاکت قراردیاہے،جبکہ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے کسی عالم کی موت کو اسلام میں ایک ایسا رَخنہ کہا ہے جو کبھی پُر نہ ہوسکے۔ (دعوت اہل حدیث ’’پیکر علم و عمل نمبر“  فروری، مارچ 2018ء)

شیخ دامنی رحمہ اللہ کے ساتھ بیتے حسین لمحات کسی سفینے کی طرح ذہن کے دریا میں چلنے لگے، سفید چہرہ جس پر بڑھاپے کا نور تھا، میانہ قد، انتہائی سادہ طبیعت جس نے ان کے شخصیت میں نکھار اور حسن پیدا کیا ہوتا، سادہ لیکن صاف ستھرا لباس، سر پر سفید رومال ہوتا ہر طرح کے تکلفات سے قطعی طور پر  نا آشنا تھے۔

بڑی پر اثر شخصیت کے مالک تھے ،اپنی خوش خلقی،مسکراہٹ اور علمی لطائف و نکات کی بنا پر رونق مجلس ہوتے، ان سے ایک مرتبہ شرف ملاقات حاصل کرنے والا ان کی شخصیت کے سحر میں کھو جاتا، ہر وقت  مکتبے میں مطالعہ کتب میں منہمک رہتے، عقیدہ سلف ، تاریخ و سیرت میں امامت کے درجے پر فائز تھے، اس بات  پر ان کی تحریر کردہ کتب اور مضامین شاہد عدل ہیں۔

علوم اسلامیہ کی عظیم درسگاہ المعھد السلفی للتعلیم و التربیۃ کے ساتھ ان کا والہانہ لگاؤ اور دلی محبت تھی ، یہاں کے اساتذہ کرام اور طلباء عظام بھی ان کی آمد کو اپنے لیے باعث شرف اور سعادت سمجھتے، کراچی میں جب بھی تشریف لاتے یہیں ان کا قیام ہوتا، فضیلۃ الشیخ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ سے ان کی محبت و وارفتگی انتہا درجے کی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریبا تمام کتب پر مقدمہ اور پیش لفظ شیخ محترم حفظہ اللہ ہی کا  تحریر کردہ ہے۔ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ سے ان کی ملاقات بھی مثالی ہوتی احترام و توقیر علماء کے پہلو نمایاں ہوتے، علمی نکات پر اظہار خیال ہوتا، تفنن اور مزاح کے حسن سے  شرکاء خوب محظوظ ہوتے! ملاقات کی تازگی کافی وقت تک رہتی۔

راقم الحروف پر بھی بڑی شفقت فرماتے، یہ ان کی ذرہ نوازی تھی بلکہ ان سے وابستہ ہر شخص ہی یہ سمجھتا کہ شیخ ان سے زیادہ محبت کرتے ہیں، ان کی مجالس علم و عرفان سے معمور ہوتیں، گویا وہ ایک ایسی شمع تھی جس کے روشن ہوتے ہی پروانے اس کے گرد جمع ہوجاتے، میں نے ہمیشہ طلباء کے جھمگٹہ میں انہیں دیکھا اور ان میں وہ ایسے نمایاں ہوتے جیسے چودہویں کا چاند ستاروں کی جھرمٹ میں !

آہ! اب وہ علم وعمل کا آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا!

قحط الرجال کے اس دور میں جب حال ہی میں ہندوستان میں شیخ لقمان سلفی (جوکہ ایک عظیم مفسر اور ہندوستان کی جماعت اہل حدیث کے گل سر سبد تھے) کی وفات کا صدمہ ابھی تازہ تھا کہ شیخ دامنی رحمہ اللہ کی وفات حسرت آیات نے اس خلیج کو اور وسیع کردیا!

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے

شیخ دامنی رحمہ اللہ کافی عرصے سے مختلف امراض میں مبتلا تھے، جن کا سامنا انہوں نے انتہائی صبر اور حوصلے سے کیا، جو یقینی طور پر ان کے لیے گناہوں کی بخشش اور درجات کی بلندی کا باعث ہوگا۔

شیخ عبدالغفور دامنی رحمه الله نے اپنے پیچھے یہ عظیم الشان ، یادگار تصانیف چھوڑی ہیں جو ان کے لیے ان شاءاللہ صدقہ جاریہ ہیں:

شرح ارکان الایمان اردو مطبوع۔شیر کا تھپڑ اردو مطبوع۔اضواء التوحید اردو مطبوع۔غزوات الرسول صلی اللہ علیہ وسلم عربی مخطوطہ

کشف الصدر فی شرح اسماء اھل بدر عربی مطبوع،مجمع المعلومات عربی مطبوع،عظمۃ الرسولﷺ عربی مخطوط،احسن القصص اردو مطبوع،اصدق القصص اردو مطبوع،تحفہ اور ماڑہ اردو مطبوع،اقسام توحید (ربوبیت، الوہیت، اسماء و صفات) اردو مطبوع،خود نوشت عبدالغفور،فضائل الجہاد اردو (مطبوع)،تاریخ الانبیاء والرسل علیہم السلام عربی (مخطوط)،اتباع لا تقليد،الدرر الثمين في مناقب امهات المومنين (مطبوع)،اسباب الإنحراف عن الحق،السلف و اتباع الوحي،معتقد اهل السنة فی الصحابة۔من ھو وحید الزمان؟ (غير مطبوع)

اللہ تعالیٰ شیخ رحمہ اللہ کی دینی جہود و مساعی قبول فرمائے اور بشری لغزشوں سے درگزر کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے، شیخ رحمہ اللہ کے شاگردوں اور اہل خانہ کو صبرِ جمیل عنایت فرمائے۔آمین

About شیخ عبدالصمد مدنی

Check Also

ترویج الحاد میں سوشل میڈیاکاکردار؛طریقۂ واردات اورحقائق

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *