Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2020 » March to September Megazine » پیکر شفقت، استاذ العلماء مولانا محمد یونس بٹ رحمہ اللہ

پیکر شفقت، استاذ العلماء مولانا محمد یونس بٹ رحمہ اللہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

دنیا میں بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو ایسا طرز حیات رکھتی ہیں کہ ان کا رہن سہن، ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، بات چیت، لب و لہجہ، اخلاق و تمیز….الغرض شخصیت کا ہر زاویہ ہی خوب صورت ہوتا ہے۔ ان کی زندہ دلی اور  بذلہ سنجی ضرب المثل ہوتی  ہے۔ اپنے منفرد اور اثر  انگیز لہجے کی وجہ سے اپنے عہد  کی پہچان ہوتے ہیں۔ تہذیب سخن ان کے کردار اور اخلاق کی بلندیوں کا پتہ دیتی ہےوہ فطرتاً نرم دل تو ہوتے ہی ہیں لیکن ان میں اس قدر قوت برداشت ہوتی ہے کہ وہ سخت غصے میں بھی اپنے آپ کو اس طرح قابو میں رکھتے ہیں کہ گویا غصہ آیا ہی نہیں۔ نفرت ، کینہ بغض حسد اور عداوت کی آلائشوں سے کوسوں دور وہ ایک نئے عزم، نئی جہت کے ساتھ زندگی کے سفر پر رواں دواں رہتے ہیں۔

آج میں نے ایک ایسے ہی خوب صورت عادات کے حامل استاد اور مربی پر لکھنے کے لیے قلم اٹھایا ہے جنہوں نے لوگوں کی زندگیاں سنوارنے حق و باطل کی تمیز سکھانے اور مقصد زندگی سے روشناس کروانے جیسے نبوی مشن کو اپنایا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک کامیاب انسان کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے۔ تو کتنے ہی خوش نصیب لوگ ہیں جو اس عظیم ہستی کے طلبہ ہیں اور اپنے علمی و فکری اور عملی کار ہائے نمایاں میں اپنے  مربی کی پہچان اور شناخت ہیں۔

آج میں نے چمنستاں علم میں سے جس مہکتے پھول اور نادر شخصیت کا انتخاب کیا ہے  وہ ہیں :’’ استاذ العلماء مولانا یونس بٹ رحمہ اللہ‘‘

اس ہر دل عزیز شخصیت کو میں اگر اصغر گونڈوی کی زباں میں یوں لکھوں تو بے جا نہیں:

بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا

وہ پابند قفس جو  فطرتا  آزاد  ہوتا  ہے

مولانا یونس بٹ رحمہ اللہ 4 اپریل 1956 کو شہر ساہیوال میں پیدا ہوئے۔ والد گرامی کا نام محمد یعقوب اور دادا کا نام محمد عبداللہ تھا۔ آپ کا تعلق ایک دیندار گھرانے سے تھا۔ قیام پاکستان کے وقت ان کا خاندان امرتسر میں مقیم تھا۔ پھر ہجرت کے بعد ساہیوال آئے اور اسی شہر کو اپنامستقل مسکن بنا لیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ بہت سے خصائل حمیدہ اور اوصاف طیبہ  تو نکھرے ہی تھے۔لیکن رب العزت نے ان کو شکل و صورت کے اعتبار سے بھی بہت حسین بنایا۔

قارئین کرام!!!

ان ظاہری اور باطنی صفات کی حامل شخصیت نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے محلے کی مسجد سے کیا  اور اسی مسجد  سے ملحق مدرسے میں موجود مولانا عبد المنان رحمہ اللہ سے استفادہ کیا۔ قرآن حکیم کے کچھ پارے اسی مسجد کے امام حافظ مظفر رحمہ اللہ سے حفظ کیے۔ پھر میڑک کا  امتحان گورنمنٹ ہائی سکول ساہیوال سے پاس کیا۔

پھر اپنے حفظ کے استاد گرامی کی ترغیب پر آپ جامعہ سلفیہ تشریف لے گئے۔ رب العزت نے اچھی ذہانت سے نوازا تھا۔ جب آپ جامعہ سلفیہ تشریف لے گئے تو یہاں پہلے سال کے اختتام میں صرف تین ماہ کی قلیل مدت باقی تھی۔ آپ رحمہ اللہ نے اسی دوران پہلے سال کی تیاری کی اور باقی ساتھیوں کے ساتھ پہلا سال مکمل کر لیا۔یوں انھوں نے اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لیے جامعہ سلفیہ کا انتخاب کیا اور یہیں سے اپنی تعلیم مکمل کی۔اور آپ کوجامع سلفیہ کے ذہین طالبعلم ہو نے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ کے اساتذہ کرام میں درج ذیل گرامی قدر ہستیاں شامل ہیں:

مولانا سلطان محمود جلال پوری، مولانا احمد اللہ بڈھیمالوی،مولانا محمد صدیق، حافظ بنیامین طور، مولانا عبد الوہاب بلتستانی، مولانا قدرت اللہ فوق، مولانا عبدالسلام کیلانی، مولانا عبید الرحمن مدنی، حافظ عبد الغفار حسن اور حافظ ثناءاللہ مدنی، ڈاکٹر حسن راشد بلتستانی اور ڈاکٹر محمد سلیمان اظہر رحمھم اللہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ شیخ محمد مختار شنقیطی سے بھی علم حاصل کیا۔

مولانا یونس بٹ رحمہ اللہ نے 1971میں جامعہ سلفیہ میں داخلہ لیا۔اور 1977 میں سند فراغت حاصل کی۔ آپ کے سلفیہ کے ساتھیوں میں درج ذیل گرامی قدر شخصیات ہیں:

مولانا یسین ظفر، مولانا عبد العلیم یزدانی، مولانا محمد جو ہر بلتستانی، مولانا عبدالواحد بلتستانی( یہ سب اپنے اپنے انداز میں دعوت و اصلاح کے مشن سے وابستہ ہیں)۔ آپ 1977 میں فارغ ہوئے۔1977ء میں تحریک نظام مصطفیٰ میں حصہ لیا اور قید و بند کی صعوبتوں سے ہم کنار ہوئے۔اور پھرمزید تعلیم کے حصول کے لیے مدینہ یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ آپ کے عرب اساتذہ میں مصنف کتب کثیرہ اور نصف صدی کے لگ بھگ منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درس حدیث ارشاد فرمانے والی نابغہ روزگار شخصیت امام ابو بکر الجزائری رحمہ اللہ اور عظیم محدث ڈاکٹر عبد المحسن العباد حفظہ اللہ اور شیخ عبد الحلیم ہلالی جیسے نامور لوگ شامل ہیں۔ آپ  جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد وطن واپس لوٹے اور اپنی مادر علمی جامعہ سلفیہ کو اپنی خدمات پیش کیں اور تا دم حیات اس ادارے سے وابستہ رہے۔

مولانابٹ رحمہ اللہ بہت متحرک اور فعال شخص تھے۔ یہ تحریک ان کے اندر اپنے زمانہ طالب علمی سے تھی اور وہ عمر بھر جوانوں کی طرح متحرک رہے۔ دوران تعلیم بھی ان کی سرگرمیاں ایک فعال شخص کی تھیں۔ جامعہ سلفیہ میں انھوں نے طلبہ کے اندر تحریری و تقریری ذوق پیدا کرنے کے لیے ایک تنظیم’’النادی الاسلامی‘‘بنائی۔ اس کے علاوہ آپ نے بچوں میں کتابت اور تحریر کا فن سکھانے کے لیے طلبہ کے تعاون سے ایک ’’بزم اطفال‘‘ تشکیل دی۔ جو ہر ماہ ایک مجلہ نکالتی تھی اور اس کا مقصد طلبہ کو فن تحریر سے روشناس کروانا تھا۔ اس کے علاوہ آپ بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنے کے لیے ہفتہ کتب بینی کا انعقاد کرواتے۔ ابھی چند ماہ پہلے جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے پیج سے لائیو ہفتہ کتب بینی کے حوالے سے ان کے دروس سننے کا اتفاق ہوا۔   انٹر نیٹ کے اس دور میں جب کتابوں سے ربط ٹوٹنے کا عالم سعود عثمانی نے اس طرح بیان کیا ہے:

یہ کاغذ کی مہک ، یہ نشہ روٹھنے کو ہے

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

اس طرح کی صورت حال میں مجھےہفتہ کتب بینی کے  انعقاد کی کاوش بہت ہی اچھی اور مثالی لگی۔

میں ان کے لیکچر سے بے حد متاثر ہوئی۔لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ کتب بینی کی محبت سکھانے والی یہ عظیم ہستی ہم سے بہت دور جانے والی ہے۔ رحمہ اللہ

آپ نے نصف صدی کے لگ بھگ جامعہ سلفیہ میں خدمات سر انجام دیں۔ محبتیں بانٹنے والے اور محبتوں کے پیامبر نے اس عرصہ میں ہزاروں دلوں پر راج کیا۔ ملک بھر میں بے شمار ہستیوں نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔ جن لوگوں نے خود کو اس  تہذیب سخن کے خوگر اور اخلاق و مروت کے اس مہکتے پھول سے معطر کیا ان میں مشہور نام یہ ہیں:

محقق العصر مفتی مبشر احمد ربانی صاحب، ڈاکٹر عبید الرحمن محسن صاحب، قاری نوید الحسن صاحب، مولانا عبد الخالق مدنی، ڈاکٹر عبد القادر، حافظ مسعود عبد الرشید اظہر حفظھم اللہ شامل ہیں۔

جامعہ سلفیہ میں آپ نے سبھی نوعیت کی خدمات سر انجام دیں۔ چاہے وہ انتظامی امور ہوں یا تدریسی معاملات، امتحانی نوعیت کا کام ہو یا تفسیر و حدیث کی تدریس کا۔ یہ للہیت اور عزم کا پیکر بنے سب فرائض سر انجام دیتے رہے۔ جامعہ سلفیہ میں آپ کے قریبی ساتھیوں میں مولانا مسعود عالم،  محدث العصر مولانا شریف اور مولانا مبشر مدنی حفظھم اللہ شامل ہیں۔ جامعہ سلفیہ کی مسجد میں سالہا سال سے خطابت کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔

مؤرخ اہل حدیث مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب چمنستاں حدیث میں بٹ صاحب رحمہ اللہ  کے ترجمہ و تصنیف کا ذوق رکھنے کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے ایک عربی کتاب صفات الامر بالمعروف و النھی عن المنکر  کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ جو بین الاقوامی اشاعتی ادارے دارالاسلام سے’’راہ حق کے تقاضے‘‘کے نام سے چھپا انھوں نے شیخ محمد علی صلابی کی ایک کتاب کا بھی ترجمہ لکھا۔ اسے بھی دارالاسلام نے شائع کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے علم الفرائض کے نام سے بھی کتاب لکھی۔

مختصرا میں ان کی شخصیت پر اگر جامع بات لکھوں تو وہ یہ ہے:

وہ اجتماعی زندگی کے اصل حسن احسان، ایثار،حسن معاملات، اخوت اور رواداری  سے خوب واقف تھے اور عمر بھر یہ نعمتیں بانٹتے بھی رہے۔نفیس انسان، پر خلوص دوست، شفیق استاد، پر عزم رہنما، نظریاتی طور پر مرد آہن اور اسلامی تہذیب کا عملی نمونہ تھے۔ان کی زندگی اصلاح معاشرہ اور تبلیغ دین سے مزین تھی۔دعوت الی اللہ کا جذبہ ان کی رگ رگ میں بسا ہوا تھا۔ گویا وہ اپنی انھیں صفات کی بدولت ہر دل کی دھڑکن اور مرکزی کردار تھے۔ گویا کہ شاعر کی زبان میں ان کی شخصیت کچھ ایسی تھی:

خاموش سہی مرکزی کردار تو ہم تھے

پھر کیسے بھلا تیری کہانی سے نکلتے

اب جب ان خوب صورت عادات و اطوار کی حامل ہستی ہم میں موجود نہیں تو بے اختیار زبان پہ آتا ہے:

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

قارئین کرام!! یہ مرقع اخلاق 5 جون 2020 کو ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی نماز جنازہ بقیة السلف،شیخ الحدیث والتفسیر مولانا مسعود عالم صاحب حفظہ اللہ نے  انتہائی رقت آمیز انداز میں پڑھائی۔ ملک کے طول و عرض سے علماء و صلحاء کی ایک کثیر تعداد نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور یوں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ اس مرد مومن کو سپرد خاک کیا گیا۔ بقول محمود رام پوری:

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

رحمہ اللہ رحمة واسعة.

شیخ رحمہ اللہ کے متعلق ان کے شاگردوں اور بعض علماء کرام کے تاثرات:

وہ کتنا قیمتی سرمایہ تھے یہ عرض کرنے کے لیے میں چند تاثرات اپنے قارئین کے سامنے رکھوں گی جو ان کےتلامذہ اور چاہنے والوں کے ہیں اس سلسلے میں محقق العصر مولانا مبشر احمد ربانی صاحب حفظہ اللہ نے فرمایا:

ہمارےشیخ محترم استاذالاساتذہ،شيخ المشائخ، محدث نبیل، مفسر جلیل،زبدةالمدرسين،رأس المحققين،عمدةالواعظين،خزينة السالكين، جامع المنقول و المعقول، مخزن الاخلاق،محبوبى ومخدومى يونس بٹ صاحب،رحمه الله ألف ألف مرة بعددكل ذرة إلى يوم فرة کی وفات اہل حدیث عوام کے لئے عمومااور علماءومشائخ اور طلباء کےلئےخصوصا ایک جاں گسل حادثہ ہے جس کا قلبی زخم برس ہابرس تازہ رہےگا۔استاذمحترم ایک کامیاب مدرس ہونےکےساتھ مشفق باپ کا بھی مصداق تھے انکے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ کی کہکشاں چھائی رہتی تھی عمدہ اور صاف ستھرا لباس زیب تن کرتےتھے،یہ وہ واحداستاذہیں جن کا لباس سلائی کرنے کا شرف راقم کو کئی بار ملا ۔

تقوی،پرہیزگاری،ورع،للہیت،اوراخلاص کے پیکرعظیم تھے۔ میںنے انکے چہرے پر کبھی بھی غصےکےآثارنہیں دیکھے۔ جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے آنے کے تقریبا29سال بعد جب دوبارہ جامعہ میں جانےکااتفاق ہوا تو شیخ محترم جامعہ کی لائبریری میں درس بخاری دےرہےتھے راقم نے سلام پیش کیااور کلاس کے آخر میں بیٹھ گیا جب شیخ کا درس ختم ہوا تو نگاہ مبارک اس راقم اثیم پر پڑی تو مسکراتے لھجےمیں فرمایا آپ اب میری جگہ پر بیٹھ کر انکو کچھ نصیحت کریں میں نے دھیمےسےلہجےمیں کہا شیخ میں آپکی مسندپربیٹھنےکی جرات نہیں کرسکتا۔یاد رہے کہ میں اپنے مشائخ کے سامنے آوازبلندکرنےکو گستاخی سمجھتا ہوں اوراپنےمشائخ کی موجودگی میں فتوی دینے کی بھی ہمت نہیں پاتا إلا یہ کہ استاذکاحکم ہو تو الأمرفوق الأدب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے علم کے مطابق کچھ لکھ یا بتادیتاہوں ۔شیخ محترم کے اندرون،اور بیرون ملک ہزاروں شاگردہیں جو انکے لئے ایک عظیم صدقہ جاریہ ہے اللہ کریم انکےدرجات بلندکرے۔اور انبیاءورسل علیہم السلام صدیقین،شہداء اور صالحین کے ساتھ ملحق کرے! آمین ثم آمین

فضیلة الشیخ ڈاکٹر عبید الرحمن محسن صاحب حفظہ اللہ یوں گویا ہوئے:

شیخنا ومربینا  الفقیہ الفقيد محمد یونس بٹ رحمہ اللہ کی وفات سے شدید ذہنی صدمہ پہنچا ہے، سمجھ نہیں آ رہی تعزیت کس کس سے کروں۔ جامعہ سے جس کے درودیوار ان کی فقاہت کے امین ہیں، جامعہ کی مسجد سے جوان کی دھیمی، مدلل اور پرتاثیر خطابت سے محروم ہوئی، وفاق کے دفتر  سے جو مخلص منتظم سے محروم ہوا، ایسا منتظم جس نے تن تنہا بھی پورے وفاق کا بوجھ اپنے کندھوں پر کسی دور میں اٹھائے رکھا، دفتر کے عملے سے جوایک کامیاب  اورباپ جیسا شفیق سر پرست  ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھے، جامعہ کے مدیر گرامی قدر شیخ یاسین ظفر حفظہ اللہ سے تعزیت کروں جو ایک دیرینہ مخلص رفیق کے غم سے نڈھال ہوئے، حضرت شیخ الحدیث سے، حضرت مفتی عبدالحنان، حضرت قاری نوید الحسن یا دیگر اساتذہ سے، ان کے حقیقی بیٹوں سے جنہیں ایک عظیم باپ داغ مفارقت دے گیا یا ان کے روحانی بیٹوں سے جو ایک عظیم مربی کے سایہ عاطفت سے خالی ہو گئے۔ یا اپنے آپ سے کہ کئی دن تک عجب سکتے میں رہا، منبرو محراب پر یاد آتے رہے، بستر پر لیٹے یاد آتے رہے، کبھی بدایۃ المجتهد پڑھنے کا منظر رلاتا رہا، کبھی ان کا مسکراتا چہرا سامنے آتا رہا…

وہ بچھڑے تو اندازہ ہوا کہ ہمیں ان سے کتنی محبت تھی اور دل میں ان کا کیا مقام تھا۔میں آپ سب سے تعزیت کرتا ہوں۔ہاں میں غمزدہ عبیدالرحمن سے بھی تعزیت کرتا ہوں۔اور یہ سوچ کر غم ہلکا کرلیتا ہوں کہ محسن اعظم، رسول رحمت کی رحلت کا غم بھی تو آخر امت نے سہا تھا نا! میں اپنے آپ سے اور آپ سب سے کہتا ہوں۔

“موتوا علی مامات علیہ شیخکم”

اپنے بیٹوں کو شیخ یونس بٹ کی راہ پر لگاؤ، میرے شیخ واقعی فقیہ تھے۔

میں نے ان سے بدایۃ المجتهد جیسی ایک پیچیدہ کتاب پڑھی، لیکن ان کے انداز تدریس نے مجھے اس کتاب سے خصوصی دل چسپی پیدا کردی۔ کلاس میں تشریف لاتے، ہاتھ میں چاک تھام لیتے، بلیک بورڈ پر آج کے سبق کا عنوان لکھتے، مسئلہ کی نوعیت سمجھاتے، ائمہ کے مذاہب بالترتیب لکھتے، فقہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، ظاہری، زیدی کی آراء لکھتے، ان کے دلائل نوٹ کرتے، اسباب اختلاف پر روشنی ڈالتے، اور یہ سب کچھ زبانی ہوتا، سب موقف انہیں ازبر ہوتے، سب کچھ سمجھانے کے بعد فرماتے چلو جی اب کتاب کھولو، پھر کتاب میں سے متعلقہ مواد ترجمہ کے ساتھ سمجھاتے، اور اس قدر انہماک کے باوجود ایک ایک طالب علم پر نظر، ہاں آخر میں اور کبھی درمیان میں بھی خوب سوال وجواب ہوتے، ان کے جوابات سائل کی نفسیات اور انداز کے عین مطابق ہوتے، ہمارے بعض دوست بڑی عمر کے تھے بہت کھل کر سوال کرتے، شیخ نہ تھکتے، نہ اکتاتے، بعض شرارتی طلبہ نکاح وطلاق اور ازدواجی أحوال کے بارے غیر سنجیدہ بھی اگر سوال کرتے تو ہمارے شیخ جیسا منہ ویسا تھپڑ کے عین مطابق جواب دیتے اور بولتی بند کرادیتے۔

فقہی آراء کے ساتھ احادیث کا گہرا فہم اور استحضار

ہمارے دور طالب علمی میں شیخ ہمیں درجہ سابعہ میں بدایۃ المجتهد پڑھاتے اور درجہ سادسہ میں سنن ابی داؤد کا درس دیتے، اور وراثت کی معروف درسی کتاب سراجی اپنے اسی مخصوص انداز میں پڑھاتے۔

واللہ بارہا سوچا کہ کسی وقت سپیشل حاضری دے کر سراجی پڑھنی ہے شیخ سے، لیکن

اے بسا آرزو کہ خاک شد

چلو اسی منہج پر، وفا کے اسی راستے پر، عزیمت کی اسی راہ پر جس پر ہمارےشیخ چلتے رہے ۔حتی کہ جنتوں میں ان سے ملاقات ہوجائے،

یہ سب دار الغرور ہے!

إنا للہ وإنا إلیہ راجعون ،

ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان۔

ابن بشیر حسینوی حفظہ اللہ نے ان کی ذات گرامی کے بارے میں لکھا:

شیخ یونس بٹ رحمہ اللہ عالم با عمل تھے.. ہر وہ خوبی جو کسی استاد اور مربی میں ہونی چاہیے وہ تمام ان میں اتم درجہ موجود تھیں… میں جب بھی جامعہ سلفیہ گیا انھیں امام کے پیچھے صف اول میں پایا.. ان کی وفات پر وہ لوگ بھی روئے جو انھیں جانتے تک نہیں تھے ایسے لگتا ہے جیسے اللہ تعالی نے ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی تھی.. اللہ تعالی انھیں ضرور جنت الفردوس عطا فرمائے گا۔ ان شاء اللہ

ان کے ایک شاگرد رشید قاری عظیم اختر حفظہ اللہ نے اپنےجن تاثرات کا اظہار کیا۔۔ میں ان میں سے چند کو یہاں نقل کروں گی۔ فرماتے ہیں:

’’وہ مسکرا کے ماحول کو گلاب کردیتے۔بزم انکی آمد پہ چاند ہوتی۔تھوڑے ہونٹ کھولتے اور بڑی بات کرتے۔بولتےتو خیر کابول بولتے بہ دیگر خاموشی حسن کی چادر اوڑھے رکھتی۔نظر جھکاکے چلتے۔چلتے وقت ارد گرد نادیکھتے۔انکی چند میٹر کی چال انکے لمبے سفر کے راہی ہونےکا پتہ دیتی۔وہ شرف وفضل کا ایسا درخت تھے جسکی ٹہنیوں پہ خیر کاپھل لگتا تھا۔صبر کا کوہ گراں تھے۔لیکن محبت پرودگار میں ہلکی سی آہٹ پہ رودیتے۔زباں شکوے سے پاک رہی۔جامعہ میں رہ کر وہ لاکھوں دلوں میں رہے۔ایسارہے کہ اب مکیں بلک بلک رو رہے ہیں۔گال دن میں کئی بار انکی یاد کے آنسؤں سے غسل کرتے ہیں۔ہچکی بندھتی ہے۔اور آواز ہٹھکورے کھاتی ہے ۔حضرت الاستاذ کے جا نے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ میں ان کو کتنا چاہتا ہوں۔حضرت استاذ سےجامعہ میں ایک مرتبہ ناجائز بد تہذیبی کربیٹھا۔بالکل ناجائز۔طفل مکتب تھا،وفاق کے دفتر میں پیپر کامسئلہ تھا میں اپنے روحانی باپ کے سامنے اول فول کہتاباہر آگیا۔باہرنکلتے ہی مجھے احساس ہوگیا۔اس بات پہ تیرا خروج لگے گا۔جوکہ بنتا بھی تھا۔میں کلاس میں جانے کے لئیے وضو کر رہا تھاکہ اک طالب علم دوست نے آواز دی تجھے دفتر بلارہے ہیں۔میں ذہنی طور پہ تیار تھا۔چونکہ میں کسی اور طالب علم کے پیپر میں نمبر کم لگنے کیوجہ سے اونچی اونچی بولا۔یہ ٹھیک نہیں تم زیادتیاں کرتے ہو۔تمہیں اللہ پوچھےگا۔یہ ہے وہ ہے۔ پتا نہیں میں نے اور بھی کیا بک بک کی!اور پورا دفتر مجھے دیکھ سن رہاتھا۔ حضرت مسکرا رہے تھے۔ان دنوں فضیلت مآب چوہدری صاحب حج پرتھے۔اور پورا کنٹرول حضرت الاستاذ کے پاس تھا لہٰذا خروج پر یقین بنتاتھا۔میں دفتر گیا میرے محسن، میرےمربی،مہمان خانے میں صوفہ پہ بیٹھے تھے،اکیلے،درمیان کے دوصوفے چھوڑ کرتیسرے پہ میں بیٹھ گیا۔آواز آئی نیڑے ہو۔ہور اورے آ۔وہ نزدیک کرتے گئے میں گھستے گھستے اتناقریب ہوا کہ گھٹنے سےگھٹنہ جڑ گیا۔ہور نیڑے ہو۔میری دائیں سائئڈ پوری استاذمحترم کی بائیں طرف سے لگ گئی ہاں۔۔ماحول درخشاں ہوا۔۔غصہ کرکے کی ملیا سوائے ایدھے کہ ویکھن والے کی کہن گے۔۔میں ملول ہوا۔۔غصہ کٹ کردے۔۔اللہ تعالیٰ تیرے کولوں بہت کم لئیے گا ۔غصہ ناکریا کر۔ایناں غصہ کرکے کی لبھا۔۔میں شرمندہ در شرمندہ۔استاذ کی جسم سے میرے اندر ٹھنڈ اتررہی تھی اور میرا سینہ اللہ صاف کرہاتھا۔اللہ کولوں دعا منگیاکرتجھے اللہ علم سے نواز رہے ہیں ہن توں غصہ کرینگا۔میں رو پڑا اور معافی کا طلب  گار ہوا۔وہ مجھے مار سکتے تھے ۔کان پکڑا سکتے تھے۔خروج بھی ہوسکتاتھا۔لیکن وہ تو روحانی باپ تھے نابھلا کیوں ایسا کرتے۔پت کپت ہوجاتے ہیں۔ماپے کماپے تے نی ہوندے۔میں استاذ جی کےحوصلے پہ مٹا جارہا تھا۔مجھے کمال شفقت ومحبت سے سمجھایا پانی پلایا۔معاف کیا ڈھیروں دعائیں دیں۔اگر اس دن میرا خروج لگادیتے میں پتانہیں کہاں دکھے کھارہاہوتا۔یہ انکی نظر تھی ۔جو اس کباڑ کے ڈھیر سے خیر کا پھیلاؤ چاہتی تھی۔وہ بہت بڑے آدمی تھےانسان شناسی میں اپنے دور کے امام تھے۔میں پہلے شاگرد تھا پھرمرید ہوگیا۔۔۔

قارئین کرام !! ان سے تعلق رکھنے  والے سبھی افراد کے تاثرات اتنے ہی گہرے ہیں۔ میں طوالت کے پیش نظر انھیں پر اکتفا کرتی ہوں ۔

یقینا اتنی بلند پایہ شخصیت  کا دنیا سے رخصت ہوناایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔

رب العزت ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اور ہماری جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔

About بنت بشیر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *