Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2020 » January Megazine » مولاناعبدالوکیل صدیقی خانپوری رحمہ اللہ

مولاناعبدالوکیل صدیقی خانپوری رحمہ اللہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

علماءِ اہل حدیث نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہما،محدثین عظام،ائمہ امت، مفسرین عظام ،فاتحین ملت مسلمہ، باوقار مدرسین، مقررین ،مناظرین حق، مؤرخین اورمجدددین کے حالات زندگی پر اپنے پیچھے لاتعداد تصانیف وتالیفات یادگار چھوڑی ہیں،اس کے علاوہ مختلف پرفتن ادوار میں مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے فرزندانِ اسلام نے جو شمعیں فروزاں کیں وہ کسی صاحب فکر ونظر سے مخفی نہیں، انہی مدارس اسلامیہ میں چٹائیوں پر بیٹھے مجاہدین اسلام نے اندرون وبیرون ملک سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے دعوت وتبلیغ ،وعظ ونصیحت کے ذریعے قرآن وسنت کی تعلیمات عالیہ پہنچائیں وہ بھی تاریخ کا ایک تابناک باب ہے، ان مدارس وجامعات اسلامیہ سے استفادہ کرنے والوں نے بلااختلاف مسلک ومشرب پورے ماحول کو خالص کتاب وسنت کی تابناک روشنی سے منوراورپورے ماحول کو معطر کیا، بالخصوص برصغیر کے علماءِحدیث نے فن حدیث، اصول حدیث، حجیت حدیث اور متعلقات حدیث کے سلسلہ میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے اس سے کوئی اور شاید ہی مقابلہ کرسکے۔

علماء حق نے دین اسلام کی نشر واشاعت ،ترقی وترویج کے ساتھ شرک وبدعت کی بیخ کنی، ادیان،افکار،اور نظریات باطل کا جس پامردی سے قلع قمع کیا وہ تاریخ ملت کا ناقابل فراموش باب ہے۔ علماء اہل حدیث میں جنہوںنے اعلاء کلمۃ الحق کےلئے لازوال اور بیش بہا قربانیاں دیں ان میں ایک نمایاںنام مولانا قاری عبدالوکیل خانپوری صدیقی کابھی ہے،بلاشبہ آپ علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی کے رفیق شفیق تھے، آپ مختلف اداروں سے حصول تعلیم کے بعد خانپور ضلع رحیم یار خان تشریف لائے اور تقریری،تحریری،تدریسی خدمات کےساتھ بالخصوص تفسیری خدمات سےپورے ماحول کو معطر کیا، آپ نے نہ صرف وطن عزیز بلکہ دیار غیر میں بھی کتاب وسنت کی تبلیغ وتلقین میں نمایاں حصہ لیا تصنیفی وتالیفی خدمات کے علاوہ آپ نے تحریک نظام اسلام، مسئلہ ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے علاوہ جماعت اہل حدیث کے نظم وضبط میں بھی نمایاں حصہ لیا،بالآخر حیات ابدی کی طرف سفر تو ہر شاہ وگدا کو کرنا ہے،مگر کتنا خوب ہے وہ سفر پرسعادت جو ایک شمع فروزاں کی طرح منارہ نور اور دین قیم کے راستہ پر گامزن قافلے کے لئے زاد راہ سفر ثابت ہو، علم وعمل کے پیکر، گفتار وکردار کے غازی، حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم، اور باطل کےسامنے فولاد کی عملی تصویر قاری عبد الوکیل صدیقی رحمہ اللہ …نے طالبان علم نبوت،وارثین انبیاء اور اس کے رسول کے جانشینوں کےلئے کتنا حسین پیغام چھوڑا ہے:

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے ایک وہی باقی بتان آذری

قاری صاحب کا پیغام تھا بندوں کو بندوں کی غلامی سے آزاد کرکے رب کی غلامی میں لانے کا مشن،قاری صاحب مرحوم کی زندگی کی رخصتی سے جہاں طائفہ منصورہ مسلک اہل حدیث ایک عظیم مفسر،مدبر،بے باک مثالی مقرر اورمبلغ اسلا م سے محروم ہوگئی وہیں کاروان اسلاف کا ایک مثالی سپاہی اپنے چاہنے والوں سے بچھڑ گیا،قاری عبدالوکیل صدیقی کی سوانح پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قاری صاحب یکم جنوری 1955ء میں میاں ملک حاجی فضل الرحمٰن کے گھر صوبہ خیبر پختون خواہ، کے مشہور علاقہ ہری پور ہزارہ میں پیداہوئے ،پرائمری پاس کرنے کے بعد آپ نے علوم اسلامیہ کی تحصیل کے جانب پوری توجہ دی، اورتقریبابیس سال کی عمر میں علمی میدان میں آئے، پھر دنیانے دیکھا کہ یہ علم وعرفان کاگوہر نایاب لیل ونہار کی ہرگھڑی اقامت دین،توحید باری تعالیٰ اور اتباع سنت کاایک مثالی سرچشمہ ثابت ہوا۔

کتاب وسنت کےنکتہ ٔ واحدہ پراتحاد امت کا یہ درویش داعی، کلمۃ الحق کا ایک کلیدی کردار تھا، قاری صاحب برجستہ اپنی تقاریر دلپذیر، تحریروں، اور بزم ہائے علمی میں خصوصا مسئلہ توحید باری تعالیٰ مدلل ومؤثر اور متاثرکن انداز میں پیش کیا کرتے تھےاس میں وہ اپنی مثال آپ تھے، ان کے انداز تکلم ،انتخاب الفاظ،اسلوب بیان،دردمند ی ودلسوزی نے انہیں ایک کامیاب درمندداعی ثابت کیا:

دل میں خراش، آنکھوں میں آنسو لبوں پہ آہ

یوں بھی دعا کو ہاتھ اٹھاتا رہا ہوں میں

ان کے علمی مرتبہ کا اندازہ ان کے اساتذہ کے اسماء گرامی سے ہوتا ہے،جن میں سے حافظ محمد گوندلوی،مولانا ابوالبرکات احمد مدارسی، مولانا غلام اللہ، مولانا محمد عظیم، مولانا عبدالحمید ہزاروی،مولانا محمد الیاس اثری جیسے مایہ ناز ماہرین علوم اسلامیہ سے کماحقہ آپ نے استفادہ کیا۔

درمیانہ قدوقامت،سرخی مائل گورا رنگ، وجیہ خوبصورت نورانی چہرہ،بڑی آنکھوں پرعینک، صاف اجلالباس، چہرہ پر متانت وسنجیدگی کے نشانات نمایاں،عملی زندگی میں انہوں نے فارغ التحصیل ہونے کے بعد 2جولائی 1974ء کو ضلع رحیم یارخان کے مشہور شہر خانپور(کٹواری) تشریف لے گئے، وہاں پر ایک پرانی اور تاریخی جامعہ مسجد خواجگاں اہل حدیث میں سلسلہ درس وتدریس شروع کیا، پھر تو گویاپورے خانپور میں مساجد کا جال پھیلادیا،متعدد معیاری سلفی مساجد تعمیر ہوئیں، درس وتدریس شروع کیاتومختصر مدت میں آپ کی علمی ،ادبی، تدریسی خدمات کا شہرہ پورا علاقہ بلکہ ریاست بھاولپور میں پھیل گیا، پھر ان کا تبلیغی مشن، باب الاسلام سندھ، عروس البلاد کراچی، سکھر، نیوسعیدآباد اور پورے پنجاب تک پذیرائی اختیار کرگیا،قاری صاحب کا ابتداء میں ان باہمت، سجیلے اسلام کے سرفروش مجاہد سپاہیوں میں شمار ہونے لگا جو شیخ العرب والعجم علامہ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ (متوفی1996ء)اور عالم اسلام کے عظیم اسکالر علامہ احسان الٰہی ظہیر (متوفی1987ء)کی تقاریر تحریروں اورمحاضرات علمیہ سے بے حدمتاثر نظر آتے تھے۔

یہ تاریخی کارنامہ کوئی کم نہیں کہ قاری عبدالوکیل خانپوری نے 1986ء میں خانپور میں چوبیس کنال بہترین محل وقوع پر ایک عظیم الشان جامع مسجد، بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لئے ’’مدرسہ للبنات‘‘ اور لڑکوں کے لئے’’جامعہ محمدیہ ‘‘دینی دانش گاہ کے علاوہ ایک معیاری ومفید لائبریری قائم کی، جوان شاء اللہ ان کےلئے تاقیامت صدقہ جاریہ رہے گی،مرحوم قاری صاحب نے وطن عزیز کے علاوہ بیرون ملک بھی شرک، بدعت،پیرپرستی، شخصیت پرستی اور تقلیدی جمود کے خلاف ہمیشہ مردانہ وار مقابلہ کیا، شب وروز پاپیادہ،اونٹ گھوڑوں،سائیکل پرجاکر دورافتادہ دیہات میں تبلیغ دین کا فریضہ اداکیا، ان کے مواعظہ حسنہ سے متاثر متعدد لوگوں نے دعوت اہل حدیث کو لبیک کہا، قاری صاحب ایک کامیاب مدرس، منجھے ہوئے خطیب،جماعتی امور کے منتظم اور مثالی مفسر قرآن تھے، خصوصا قاری صاحب ایک بلند پایہ خطیب خوش نوا ،صاحب طرز قلم کار تھے، آپ کی خطابت کاجادوسرچڑھ کر بولتا تھا، جلسہ گاہ میں سامعین گھنٹوں آپ کے خطاب سے فیض یاب ہوتے رہتے، اور وہ اپنی قندیلیں روشن کرتے رہتے، آپ ہرموضوع پربے تکان گھنٹوں بھربات کرسکتے تھے:

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم

دریاؤں کے دل جس سے دھل جائیں وہ طوفان

قاری عبدالوکیل صدیقی نے جامع مسجد اہل حدیث محلہ خواجگاں میں باقاعدہ بعدنماز مغرب ترجمہ وتفسیر کاجوطویل سلسلہ شروع کیا تھا، اس سے طلباء ،علماء ،تاجر،ادیب، صحافی وعوام الناس خوب استفادہ کیا کرتے تھے،یہ سلسلۂ مبارک اتنامفیدثابت ہوا کہ چار بار کامیابی سےپایہ تکمیل تک پہنچا،آپ نے وطن عزیز میں تبلیغ دین کے علاوہ سعودی عرب، برطانیہ، افغانستان،مصر،متحدہ عرب امارات،عمان،ترکی، ہالینڈ تک قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں پہنچائیں،ان کے مثالی اور یادگارکاموں میں ایک کام باقاعدگی سے سیرت النبی ﷺ کانفرنس کاانعقاد بھی تھا، جو باقاعدہ 1975ء سے جاری ہوا اور تاہنوز بخیروخوبی جاری ہے، میں نے قاری عبدالوکیل کو جماعت غرباء اہل حدیث کی کانفرنسوں میں کئی بار دیکھا اور سنا، چندبار ان سے مختصر بات چیت کا بھی موقع ملا، ان کے مواعظ حسنہ بڑی محبت وچاہت سے سامعین سنا کرتے تھے ، اور اثر قبول کرتے،چونکہ آپ نے پوری حیاتی بغیر کسی صلہ وستائش کے وطن وبیرون وطن عالمانہ وناصحانہ پراثر، پرسوزشاہکار خطاب ارشاد فرمائے، خصوصاً مفسر قرآن،شیخ العرب والعجم علامہ بدیع الدین شاہ راشدی کے ہاں ہر سال باقاعدگی سے محمدی پارک نیوسعید میںسالانہ عظیم الشان کانفرنس میں تشریف فرماکر عوام الناس کے قلوب واذہان کو قرآن وسنت کی تعلیمات سے سیراب کیا کرتے تھے، آپ عموما کانفرنس کے عہدشباب یعنی آخری شب تشریف فرماہواکرتے تھے، جبکہ تاحدنگاہ باب الاسلام کے مسلک اہل حدیث کے شیدائی نظر آتے تھے، عجیب اتفاق کے اسی صبح علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی کی نظر عنایت سےاس خاکسار کا بعدازفجر درس قرآن بھی ہواکرتا تھا، کیا عجیب دن تھے ،کیا علماء کرام کا اخلاص اور سامعین کرام کا جذبہ ایمانی عروج پر تھا، اب یہ باتیں ماضی کا قصہ معلوم ہوتی ہیں۔

محسن ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا

ہم رہ گئے ہمار ا زمانہ چلا گیا

قاری صاحب انتہائی منکسرالمزاج،ملنسار ہر ایک سے محبت کرنے والے، دوستوں کو عزت دینے کے فن سے بخوبی واقف تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک بیٹی اور دوفرزند عطافرمائے جن میں قاری حافظ عامر حسین صدیقی ہیں،قاری عبدالوکیل صدیقی رحمہ اللہ نے عارضہ جگر کے باعث یکم مارچ 2013ء جمعۃ المبارک کے دن داعی اجل کو لبیک کہا،اناللہ واناالیہ راجعون!

ویسے تو ان کا سانحہ ارتحال بہت بڑا غم ہے، تاہم مولانا ایسے حالات میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ ان کی پوری زندگی اللہ کے دین کے غلبے کے لئے گزری اور انہوں نے آخری دم تک اپنافریضہ اداکیا،

بہت ہوئے دنیا میں شام وسحر پیدا

مگر صدیوں میں ہوتا ہے کوئی دیدہ ورپیدا

تاریخی اعتبار سے ریاست بھاولپور پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے چلیں تو معلو م ہوتا ہے کہ ریاست کے مختلف علاقوں میں مدت مدید،عرصہ بعید سے بفضل خدا دین حنیف کاکام،درس تدریس،وعظ ونصیحت، تبلیغ وتلقین، تصنیف وتالیف ہرلحاظ سے مسلک حقہ طائفہ منصورہ کے پلیٹ فارم سے کام جاری رہا ہے، مثلاً: کوئلہ شیخیاں میں 1885ء میں اپنے وقت کے فقیدالمثال عالم ربانی، مولانا عبدالحق ہاشمی (متوفی 1972ءمکۃ المکرمہ)پیداہوئے جو بعد میں تبلیغ دین متین کی غرض سے احمد پور شرقیہ تشریف فرماہوئے، جہاں تقریبا ربع صدی تک انہوں نے سلسلہ درس وتدریس،تبلیغ وتلقین،وعظ ونصیحت جاری رکھی، موصوف نے اپنے عہد کے مثالی عالم ربانی مناظر اسلام مولانا محمد حسین بٹالوی(متوفی 1920ء) جیسے عہدآفرین شخص سے علوم اسلامیہ کی تحیصل فرمائی،جو اپنے عہد کے مثالی مدرس،لاثانی خطیب العصر تھے، جو بعد میں مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین تشریف لے گئے،اور وہیں ابدی آرامی ہوئے، انہوں نے اپنے پیچھے پچاس سے زائد کتب عربی میں تصنیف وتالیف فرمائیں جن میںسے کئی کتب متعدد مجلدات پر بھی مشتمل ہیں جو ان کےفرزند ارجمند مولانا عبدالوکیل ہاشمی کے ہاں محفوظ تھیں،علاوہ ازیں مولانا عبدالحق ہاشمی رحمہ اللہ نےکئی ایک بار احمد پور شرقیہ میں انتہائی کامیاب جلسے کرائے جن میں ،مولانا ابوالوفاء ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ (متوفی1948ء)مولانا محمد ابراھیم سیالکوٹی رحمہ اللہ (متوفی1956ء) اور صاحب تصانیف کثیرہ مولانا محمد جوناگڑھی (متوفی1941ء)جیسے عبقری انسان رونق افزوہوئے۔

ڈھونڈوگے ہمیں ملکو ں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

تعبیر ہے جس کی حسرت وغم اے ہم نفسو!وہ خواب ہیں ہم

بہرحال مولاناقاری عبدالوکیل صدیقی نے پوری زندگی اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتے گزاری ،انہوں نے اللہ اور اس کے سچے رسول کی پیروی کرتے ہوئے درس وتدریس ،وعظ ونصیحت،اتباع سنت اور پھر اصحاب صفہ کی ایمان افروز یادتازہ کرتے ہوئے علوم نبوت کے فروغ کے خاطر جامعہ محمدیہ کی بنیاد رکھی، اللہ تعالیٰ ا پنے دین حق کے خاطر مولانا قاری صاحب کی جدوجہد قبول فرمائے اور ان کے جاری کردہ فیوض وبرکات کے چشمہ میں برکت ڈالے ان کو جواررحمت میں جگہ عطافرمائے اوربشری لغزشوں سے درگزرفرمائے، آمین۔

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل

وہ دوکاں اپنی بڑھا گئے

(بہادرشاہ ظفر)

About پروفیسر مولابخش محمدی

پروفیسر مولابخش محمدی،مٹھی تھرپارکر

Check Also

آزادی کے نام پر عریانی کافروغ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *