Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2020 » January Megazine » انٹرویو: فضیلۃ الشیخ پروفیسر بشیراحمدلاکھوحفظہ اللہ

انٹرویو: فضیلۃ الشیخ پروفیسر بشیراحمدلاکھوحفظہ اللہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

سوال:اپنا نام ونسب بیان کیجئے؟

جواب:میرا نام بشیراحمد ہے،اوروالدکانام عبدالمجید ہے اور میرا نسب یوں ہے:بشیراحمد بن عبدالمجید بن محمد یعقوب بن یار محمد بن محمد سومر۔

سوال:اپنی تعلیم کےحوالے سے بتائیے؟

K: Med , MA(islamic  culture , Bsc

سوال:کیاآپ کے خاندان میں علماء گزرے ہیں؟

جواب :جی ہمارا گھرانہ شروع سے دینی رہا ہے، اور بفضل اللہ بڑے بڑے چارعلماء گزرے ہیں۔

(۱)ایک عالم سترہویں صدی عیسوی میں گزرےہیں۔

(۲) دوسرے عالم اٹھارہویں صدی عیسوی میں گزرے ہیں،یہ محمد سومر کے والد یا بھائی تھے، ان کا قمبر علی خان کے قریب ’’بھاوندر لاکھا‘‘ گاؤں میں مدرسہ تھا لیکن اب یہ مدرسہ ختم ہوچکا ہے۔

(۳)تیسرے عالم دین مولانا محمد ایوب لاکھو ہیں جنہوں نے 1940ء میں وفات پائی۔یہ رشتہ میں میرے نانا ہیں،آپ کا شمار بڑے زمینداروں میں ہوتاتھا،آپ کے بڑے بھائی رب رکھیولاکھو کے پاس مجسٹریٹ کے پاورتھے یعنی چھ ماہ کی سزا دے سکتے تھے،آپ کےدوبھائی تھے،رب رکھیو اور محمد یعقوب آخرالذکر میرے دادا تھے، تینوں بھائی دیندار تھے اور تینوں نے مل کر ’’رب رکھیولاکھا‘‘ کے نام سے ایک نئے گاؤں کی بنیاد ڈالی،یہ انیسویں عیسوی کی بات ہے اور پھر اس نوآباد گاؤں میں ایک مدرسہ کی بھی بنیاد ڈال دی،والد کی وفات کے بعد سرداری کی پگڑی رب رکھیو کے سرپرباندھی گئی،جس کی وجہ سے تمام تر ذمہ داریاں ان پر آن پڑیں۔اس وقت محمد ایوب اور محمدیعقوب دونوں مدرسہ میں زیرتعلیم تھے،محمد یعقوب کو مدرسہ چھوڑ کر زمینداری سنبھالناپڑی، جبکہ محمد ایوب زیرتعلیم رہے اور مدرسہ کا کورس پوراکیا اور سند حاصل کی۔رب رکھیو کی وفات کے بعد سرداری کی پگڑی میرے دادا محمد یعقوب کے سرپرباندھی گئی، جبکہ مولانا محمد ایوب نے اپنے نو آباد گاؤں میںجو مدرسہ قائم کیا تھا اس میں درس وتدریس میں مشغول ہوگئے اور ساتھ ساتھ تبلیغ کاکام بھی جاری رکھا، آپ کے مشہور شاگردوں میں سے دیوبندیوں کے مشہور عالم دین،مولانا عبدالکریم بیروالے ہیں، اور آپ کے مشہور دوستوں میں اہل حدیثوں کے مشہور عالم دین،مناظراسلام مولانا برکت علی چانڈیوشہداد کوٹی رحمہ اللہ ہیں،محمد ایوب مناظر بھی تھے اور مناظروں میں مولانا برکت علی چانڈیورحمہ اللہ نے آپ کا بھرپور ساتھ دیا،آپ کے1928.1914,1905اور 1929میں ’’اللہ رکھیوگاؤں‘‘ میں شیعوں سے مناظرے ہوئے۔

(۱)’’وجود شیعہ‘‘ کےموضوع پر مناظرہ شروع ہونے والاتھا کہ مولانا برکت علی چانڈیورحمہ اللہ نے مولانا محمد ایوب لاکھو سے کہاکہ آپ کسی سے کہیں کوئی ہماری چپلیں ایسی جگہ چھپادے جہاں کسی کو ہماری چپلوں کا پتا نہ چل سکے کیونکہ شیعہ صحابہ کرام yکی چپلیں چراتے تھے، تو شیعہ عالم نے فورا بھڑک کر کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہوصحابہ کے دور میں شیعہ کہاں تھے؟(یعنی صحابہ کرامyکے دور میں تو شیعہ تھےہی نہیں) تو مولانا برکت علی چانڈیورحمہ اللہ نے کہا جب صحابہ کرام yکےدور میںشیعہ نہیں تھے توپھر شیعانِ علیtکیسے بن گئے؟ جناب تم جو اپنا وجود نبی ﷺ اور علیtکےدور میں ثابت کرنے آئے ہو اس کا رد اپنے ہی الفاظ سے کررہے ہواور آپ کی شکست آپ کےالفاظ سے ہورہی ہے، تو شیعہ عالم کہنے لگا کہ میرا مطلب یہ نہیں تھا،یہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے، تومولانا برکت علی چانڈیو رحمہ اللہ نے کہا پہلی بات لکھ لو، پھر مناظرہ ہوگا،توحاجی رب رکھیو اور محمد یعقوب نے لکھنے پرزورڈالاکیونکہ دونوں اثرورسوخ کے مالک تھے، توشیعہ حضرات نےا ٹھنے کوغنیمت جانا اور اُٹھ کر چلے گئے۔

(۲)’’خلافت‘‘ کےموضوع پر شیعوں سے مناظرہ تھا، سنیوں کا مناظر پنجاب سے آیا تھا مولانا برکت علی چانڈیواورمحمد ایوب لاکھودونوں اس کے معاون تھے ،یہ بات رئیس اختر حسین لاکھو کے والد رئیس عبداللطیف لاکھو نے بتائی ہے جو اس مناظرہ میں موجود تھے ،کہتے ہیں جب شیعوں کےمناظر ماسٹر محمدپریل کےسامنے ہمارے مناظر نے دلائل کے انبار لگادیے،اور لوہے کی لگام پہنادی اورمناظرہ اختتام کو پہنچنے والاتھا تومحمد ایوب لاکھو نےا پنے مناظر کے کان میں کچھ کہا تو مناظر نے شیعہ سے کہا کہ: کیاخلافت کےلئےسب سے پہلے ابوبکرصدیق tکی بیعت نہیں کی گئی؟ پھر ان کے بعد عمرفاروقt کی بیعت نہیں کی گئی؟ پھر ان کے بعد عثمان غنیt کی بیعت نہیں کی گئی؟ پھر ان کے بعد چوتھے نمبر پر علیt کی بیعت نہیں کی گئی؟ بتاؤ !علیt کی بیعت چوتھے نمبر پر نہیں کی گئی؟ تو شیعہ مناظر نے کہا: ہاں یہ بات تو ٹھیک ہے کہ علی tکی بیعت چوتھے نمبر پرکی گئی تھی لیکن حق علی کا تھا جو غصب کیا گیا ،توسنی مناظر نے کہا کہ: آپ کے ہاں خلافت نبوت سے افضل ہے تو جب کسی نبی کی نبوت غصب نہیں ہوسکتی تو علیt کی خلافت کیسے غصب ہوگئی اور علیt نے خلفائے ثلاثہ کی بیعت کیوں کی؟ بس ان الفاظ کا شیعہ مناظر پر ایسا رعب بیٹھا کہ وہ خاموش ہوگیا اور مناظرہ گاہ میں نعروںکی گونج اٹھنے لگی اور سرعام شیعہ کی شکست کا اعلان کیا گیا۔

ان دوموضوع کے علاوہ،باغ فدک،بنات الرسول، تحریف القرآن، نکاح ام کلثوم بنت علی مع عمر فاروق tپر بھی آپ کے شیعوں سے مناظرے ہوئے۔ایک مرتبہ’’اللہ رکھیوجونیجو‘‘ گاؤں کے وڈیرے مہر علی جونیجو نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ rکی شان میں گستاخی کی تو مولانا محمد ایوب لاکھو تانگے پر تھے،مولانا نے تانگے سے چھلانگ کر اپنی بندوق کافائر اس پر کھول دیا ،ادھر مولانا کے نوکر نے مولانا کی بندوق کے ٹریگر کو دباتے ہی مولانا کی بندوق کے بٹ کو نیچے دبادیا جس کی وجہ سے بندوق کے فائر ہوا میں چلے گئے ،اس کے بعد اس شیعہ وڈیرےپر ایسا رعب بیٹھا کہ اس نے سرعام صحابہ کرام yکی گستاخیاں کرنا ترک کردیں،یہ بات میرے ماموں مولانا عبدالباقی لاکھوdاکثر بتاتے رہتے ہیں جوکہ 1933ء میں پیدا ہوئے ،اور اب بھی الحمدللہ بقید حیات ہیں اور جمعیت اہل حدیث سندھ کی طرف سے ضلع قمبرعلی خان کے امیر ہیں۔

سوال:مولانا محمد ایوب لاکھو کی اولادکے بارے میںکچھ بتائیں؟

جواب:مولانامحمدایوب لاکھورحمہ اللہ اہل حدیث تھے اور آپ کی اولاد میںتین بیٹے ،عبیداللہ،مولانا عبدالفتاح اورعبدالباقی ،اور چار بیٹیاں ہیں، ایک بیٹی زندہ ہے۔

سوال:مولاناعبدالفتاح لاکھورحمہ اللہ کے متعلق بتائیں؟

جواب:مولاناعبدالفتاح لاکھورحمہ اللہ اہل حدیثوں کے جید عالم اور کامیاب مناظر تھے اور میرے حقیقی ماموں تھے،مولانا عبدالفتاح لاکھو رحمہ اللہ نے عالم کا کورس دہلی ،پنجاب اور سندھ میں کیا، آپ کے اہل حدیث اساتذہ میں امام العصر علامہ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ بھی ہیں ، محدث گوندلوی رحمہ اللہ کا آپ ایک واقعہ بھی سنایاکرتے تھے، یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ محدث گوندلوی رحمہ اللہ کے ہاںزیر تعلیم تھے، آپ فرماتے تھے کہ ایک بارہم محدث العصر مولانا محمد گوندلوی رحمہ اللہ کے ساتھ چہل قدمی کے لئے نکلے آپ کے تلامذہ بھی ساتھ تھے ،ہم چل رہے تھے کہ اچانک مولانا محمد گوندلوی رحمہ اللہ ایک سمت دوڑ پڑے ہم بھی آپ کے پیچھے دوڑ پڑے، آپ کی دوڑ کی سمت کا ہم نے اندازہ لگایا تو آپ اس جلسہ کی طرف دوڑ رہے تھے جس جلسہ سے کسی خطیب کی گستاخیٔ ام المؤمنین عائشہ rکی آواز ہمارے کانوںمیں پڑ رہی تھی،

محدث گوندلوی رحمہ اللہ کی بھاگتے بھاگتے پاؤں سے چپل اتر گئی،سر سے پگڑی اتر گئی،آپ کی چپل اور پگڑی کو ہم نےاٹھایا اور آپ کے پیچھے بھاگتےرہے یہاں تک کہ مولانامحمد گوندلوی رحمہ اللہ بھاگتے بھاگتے اس جلسہ کے اسٹیج پر جاچڑھے اور اس خطیب سے اسپیکر چھین کر ام المؤمنین عائشہ صدیقہ rکی شان بیان کرنا شروع کردی اورللکارتے ہوئے اسی وقت اس خطیب سے مناظرے کا اعلان کردیا۔اس وقت اس جلسہ میںمولانا محمد گوندلوی رحمہ اللہ گستاخان صحابہ کو ایسے للکاررہے تھے جیسے کہ شیردھاڑرہاہو،اس وقت ہم نے محدث العصر محمد گوندلوی رحمہ اللہ کی جرأت ،ہمت،دلیری اورصحابہ کرام yسےمحبت کا جوش اور جذبہ دیکھا تھا کہ آج بھی وہ منظر آنکھوںکے سامنے گھومتا ہے اور وہ خطیب اسی وقت اسٹیج سے کہیںغائب ہوگیا ،اِدھر اُدھر دیکھنے کے باوجود نظر نہیں آیا۔

(جاری ہے)

About آصف فاروق کمبوہ

Check Also

انٹرویو مولانامحمد عاشق کمبوہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *