Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » October Magazine » قادیانیت کےتابوت میں سب سے پہلا عدالتی کیل

قادیانیت کےتابوت میں سب سے پہلا عدالتی کیل

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

مقدمۂ بہاول پور

قادیانیت کے خلاف عدالتی فیصلوں کی تاریخ میں’’مقدمۂ بہاول پور‘‘ سب سے اہم ،مفصل اور مدلل ہے، اس کی اہمیت اس لئے بھی بہت زیاد ہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل جب برصغیر میں انگریز کی حکومت تھی تو ریاست بہاول پور بھی انہی کے زیرنگیں تھی۔ انگریز کے دور میں انگریزوں کی ماتحت ریاست اور عدالت کی طرف سے انگریزوں ہی کے خود کاشتہ پودے قادیانیت کے خلاف فیصلے کا آجانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل اسلام کے حق میں اس کی خصوصی عنایت تھی۔

اس مقدمے کاخلاصہ یہ ہے کہ استاذ العلماء شیخ المشائخ حضرت مولانا سلطان محمود محدث جلال پوری رحمہ اللہ کے عالی قدر اساتذہ میں ایک نام حضرت مولانا الٰہی بخش  رحمہ اللہ کا بھی ہے۔ ان کا تعارف کراتے ہوئے مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ:

وہ بہاول پور کے نواح میں چنی گوٹھ کے قریب ایک بستی مہند(م اور ہاء پر زبر،ن ساکن اور آخر میں د) میں رہتے تھے۔ نحو، منطق، فقہ، اصول فقہ،اور فلسفۂ قدیم پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ بلند پایہ مدرس تھے۔ مولانا ابومحمد عبدالحق ہاشمی (نزیل مکہ مکرمہ) ،مولانا محمد مکی کے والد مولانا خیر محمد اور مولانا حبیب اللہ گمناوی رحمہ اللہ ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔ میں نے بھی کئی کتابیں ان سے پڑھی تھیں۔

مقدمے کا پس منظر:

مولانا الٰہی بخش  رحمہ اللہ دارالعلوم (دیوبند) سے فارغ التحصیل تھے۔ ان کی بیوی ایک بچی کو جنم دے کر وفات پاگئی تو ان کی دوسری شادی لودھراں کے ایک صاحب علم کے ہاں ہوگئی۔آپ کی بیٹی جو بہت ہی کم سن تھی،آپ نے اس کانکاح اپنے سسر کے بیٹے عبدالرزاق سے کردیا۔ یہ لڑکا بعد میں قادیانیت اختیار کرکے مرتد ہوگیا۔ اس کے ارتداد کی وجہ سے مولانا الٰہی بخش رحمہ اللہ نے اپنی بیٹی کی رخصتی سے انکار کردیااور بہاول پور کی عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کردیا۔ادھرعبدالرزاق نے بھی لودھراں اور پھر ملتان کی عدالتوں میںکیس دائر کردیا۔ طرفین کی جانب سے طویل عرصے تک عدالتی کاروائیاں جاری رہیں، بالآخر مولانا نے ایک درخواست والی ریاست نواب محمد صادق خان کے نام لکھ دی۔ درخواست کےمضمون کا خلاصہ یہ تھاکہ:

میں ایک مسلمان ہوں۔ میں نے اپنی چھوٹی بیٹی کانکاح اپنے رشتہ دار عبدالرزاق سے کردیاتھا،وہ اب مرزائی ہوگیا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر نبوت ختم ہے۔ جو شخص آپ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے یا کسی مدعی نبوت کو مانے وہ مسلیمہ کذاب کی طرح ہے۔ تمام عدالتوں نے میری بیٹی کے دعوائے تنسیخِ نکاح کو خارج کرکے عبدالرزاق مرزائی کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ اب اس دنیا میں آپ ہی واحد سہارانظر آئے ہیں۔ آپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ اس مسئلے کو حل فرمائیں اور میری بیٹی کو اس کافر کے شر سے بچائیں۔

چنانچہ نواب صاحب نے حکم جاری کردیاکہ اس مقدمے کی سماعت اسلامی قانون کے مطابق کر کے فیصلہ کیاجائے۔

مقدمے کی سماعت شروع ہوگئی اور فریقین کی طرف سے بڑے بڑے علماء اور سکالروں نے عدالت میں پیش ہوکراپنے اپنے حق میں دلائل دیے، شیخ الحدیث مولانا انورشاہ کاشمیری،مولانا تقی حسن دربھنگوی، مولانا عبدالشکور لکھنوی اور مولانا ابوالوفاء شاہ جہان پوری رحمہ اللہ نے اہل اسلام کی طرف سے دلائل پیش کیے۔ مقدمے کے لئے مسلمانوں کی طرف سے مواد جمع کرنے کاکام شیخ الاسلام مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے بھانجے بابوحبیب اللہ کلرک(محکمہ انہار) اور مولانا عبداللہ معمار امرتسری رحمہ اللہ کےذمہ تھا۔ یہ دونوں مولانا ثناءاللہ امرتسری کے تربیت یافتہ تھے۔ دس گیارہ سال کی طویل اور مسلسل جدوجہد کے بعد بالآخر مولانا اٰالٰہی بخش  رحمہ اللہ کی بیٹی کے حق میں فیصلہ ہوگیا چونکہ مرزائی مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں، اس لیے یہ نکاح کالعدم ہے اور مولانا الٰہی بخش کی دختر مسماۃ عائشہ بی بی جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔

اس کے بعد وہ خاتون مولانا سلطان محمود محدث جلال پوری  رحمہ اللہ کے عقد میں آئیں۔اللہ تعالیٰ نے ان کے بطن سے دوبیٹے عطا فرمائے،محمد یحییٰ اور عبدالماجد ۔عبدالماجد کی عمر چند ماہ تھی کہ وہ اللہ کو پیارا ہوگیا،اور اول الذکر محمد یحییٰ علمی حلقوں میں ماشاءاللہ ’’مولانا پروفیسر محمد یحیٰ جلال پوری‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ایمان وسلامتی والی طویل زندگی عطافرماکر مزید دینی خدمت کا کام لے ۔آمین

پروفیسر مولانا محمد یحییٰ جلال پوری حفظہ اللہ  مولانا سلطان محمود محدث جلال پوری رحمہ اللہ کے فرزند،اماں جی مسماۃ عائشہ بی بی ‘کے جگر گوشے اور مولانا الٰہی بخش رحمہ اللہ کے نواسے ہیں۔

آیئے انہی کی زبانی اس مقدمے کی تفاصیل اور تذکرہ سنتے ہیں:

مقدمے کی اہمیت:

مقدمۂ بہاول پور اور اس کے فیصلے کی اہمیت سب سے زیادہ اس لئے ہے کہ بہاول پور کی ریاست ان دنوں انگریزوں کے زیرنگیں تھی۔ وہاں کے نواب صاحب بھی انگریز کی مرضی سے نواب تھے۔ وہ ان کے بغیر بالکل نہیں چل سکتے تھے اور نہ ان کی نوابی اور اقتدار قائم رہ سکتا تھا۔

ان مشکل اور نامساعد حالات میں اللہ تعالیٰ کی مشیت سے یہ مقدمہ وہاں کی مسلمہ عدالت عالیہ میں اپنے آخری مرحلے تک پہنچااور اسلامی قوانین کے مطابق اس کافیصلہ معرضِ وجود میں آیا۔

یہ مقدمہ ۱۹۲۶ءمیں شروع ہوااور ۱۹۳۵ءمیں اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔اس مقدمے کی روداد انتہائی دلچسپ او ر حددرجہ ایمان افروز ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت کے ساتھ بے مثال وابستگی اور ایمان پر ثبات واستقامت کازبردست اظہار ہے۔

اس کی تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ اہل اسلام نے اس مقدمے میں کس قدر دلچسپی لی اورمحنت سے کام کیا اور قادیانیوں نے مسلمانوں کو ناکام کرنے کےلیے کیاکیا ہتھ کنڈے استعمال کیے، کس قدر گھناؤنی سازشیں کیں اور مقدمے کافیصلہ اپنے حق میں کروانے کے لیے کس طرح قادیانیت نےاپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔

یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اس سے قبل ملتان کی عدالتوں میں قادیانیوں کے حق میں اس مقدمے کافیصلہ ہوچکاتھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مقدمے کے ابتدائی تین مراحل میں بہاول پور کی عدالتیں بھی مسلمانوں کےخلاف اورقادیانیوں کے حق میں فیـصلے سناچکی تھیں۔

بہاول پور کا یہ مقدمہ توآخری اپیل تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کی، حق کو فتح نصیب فرمائی اور فیصلہ اہل اسلام کے حق میں ہوا، والحمدللہ علی ذلک

مقدمے کا یہ مرحلہ اس قدر اہم تھا کہ اس موقع پر فریقین نے ایڑی چوٹی کازور لگایا اورمسلمانوں کی طرف سے سربرآوردہ اور چوٹی کے اصحابِ علم شریک تھے۔ اور مسلمانوں کے مقابلے میں قادیانیوں کی طرف سے اس وقت کے اہم ترین اورشاطر قسم کے مناظر پیش ہوئےکہ جن سے بڑھ کر قادیانیوں کےہاں کوئی سکالر یا مناظر نہیں تھا۔

قادیانیت کے حوالے سے اس مقدمے کا بہت گہرا اثردنیا بھر میں مابعد کے عدالتی مقدمات پر پڑا، حتی کہ ۱۹۷۴ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں بحث چلی تو اس میں اسی مقدمے کوبنیادی حیثیت حاصل رہی۔

یاد رہے کہ کوئی مخالف یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ محض کسی مسلمان ریاست یا مسلمان عدالت کا قادیانیوں کے خلاف فیصلہ تھا، اس لئے کہ اولا یہ انگریز کےد ور کی بات ہے اور ریاست بہاول پور ا نگریزہی کے تابع تھی اور وہاں انگریز ہی کے قوانین رائج ونافذ تھے۔ثانیا اب بھی جس کا جی چاہے مقدمے کی مطبوع روداد کا مطالعہ کرلے اور اس میں موجود مذکورہ دلائل کوکھنگال کرفیصلے کی حقیقت کوپرکھ سکتا ہے۔

’’مقدمہ بہاول پور‘‘اس مقدمے کی آخری اپیل اور آخری مرحلہ تھا۔ اس میں فریقین کی طرف سے آنے والے تمام لوگوں کی گفتگو کو توجہ سے سناگیا۔ اس میں مسلمانوں نے مرزائیوں کےکفر وارتداد کے حوالے سے جس قدر دلائل دیے اور اسی طرح قادیانیوں نے بھی جس قدر دفاع کیا، ان سب کا ریکارڈ اب تک موجودہے۔ اس مقدمے کی مکمل روداد تین جلدوں میں طبع ہوچکی ہے اور مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

یہ تھی اس مقدمے کی اہمیت!

مقدمے کا آغاز:

یہ مقدمہ کیسے شروع ہوا، اس کی تفصیل بھی ایک ایمان افروز داستان ہے۔ میرے (پروفیسرمحمد یحییٰ جلال پوری حفظہ اللہ   کے)نانا مولانا الٰہی بخش  رحمہ اللہ ڈیرہ غازی خان کے علاقے راجن پورکے قریب ایک دورافتادہ دیہات کے رہائشی تھے۔ آپ ایک سادہ منش اور دیہاتی قسم کے آدمی تھے۔شعور ہوا تو شادی ہوچکی تھی۔ تب انہیں خیال آیاکہ مجھے دین کا علم حاصل کرناچاہے۔

اس کے لئے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ وہ فصل(گندم) کی کٹائی کے دنوں میں محنت مزدوری کرکے سال بھر کی ضرورت کی گندم جمع کرلیتے اور پھربے فکر ہوجاتے۔ گھر میں پالی جانے والی بھیڑ بکڑی اور گائے بھینس کو گھر کی خواتین سنبھال لیتیں اور اس طرح ان کی گزر بسر ہوجاتی۔ نانا جان ایک دو مہینے کی اس مصروفیت کے بعد مدرسے جا کر دینی تعلیم حاصل کرتے۔ اس طرح انہوں نے مدرسے کانصاب مکمل کرکے تعلیم حاصل کی۔

اللہ تعالیٰ نےان کی علم دین سے لگن کا یہ صلہ دیا کہ ان کے شاگرد اپنے اپنے دور میں اور اپنےا پنے علاقوں میں عالی قدر مدرس اور شیوخ الحدیث ہوئے۔ اس وقت ان کے شاگردوں کی پانچویں نسل میں سے بھی بہت سے حضرات کامیاب مدرس ،معروف مفتی اور شیوخ الحدیث ہیں، اللھم زدفزد،آمین

نانا جان مولاناالٰہی بخش رحمہ اللہ نے تحصیل علم کے سلسلے میں کچھ عرصہ لودھراں میں بھی گزارا۔ انہی دنوں ان کی اہلیہ (میری جانی جان) کا انتقال ہوگیا۔وہ ایک معصوم سی چھوٹی سی بیٹی کو چھوڑ کر فوت  ہوئی تھیں۔ لودھراں والے استاد نے ناناجان کے علمی شوق اور پیش آمدہ حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی بیٹی کا نکاح اپنے شاگرد(میرے نانا جان) کے ساتھ کردیااور ناناجان نے اپنی کم عمر وکم سن بیٹی کا نکاح اپنے استاد کے بیٹے سے کردیا، اس کانام عبدالرزاق تھا۔

اس طرح نانا جان کا گھر آباد ہوگیا اور ان کی بیٹی کو پرورش کرنے والی ماں مل گئی جو ان کی ساس بھی تھی۔بعدازاں ان استاد صاحب کا انتقال ہوگیا۔

کچھ عرصے بعد عبدالرزاق نے مطالبہ کیا کہ میری منکوحہ کو رخصت کرکے میرے ہمراہ روانہ کردیاجائے۔ ناناجی نے کہا کہ وہ تو ابھی بہت چھوٹی ہے ،اس کی رخصتی کیوں کردی جائے، لیکن اس کااصرار زور پکڑتا گیااور بسااوقات نوبت تلخ کلامی تک بھی پہنچ جاتی۔ اس کے حد سے بڑھتے اصرارکو دیکھ ہوئے ناناجی اس کی ٹوہ میں لگ گئے کہ آخروہ اس قدر اصرار کیوں کررہاہے۔ا نہیں لودھراں سے اطلاع ملی کہ باپ کی وفات کے بعد عبدالرزاق مرزائیوں کے ہتھے چڑھ گیا اور مرتد ہوگیا ہے۔ یہ معلوم ہوتے ہی ناناجان نے رخصتی سے یکسر انکار کردیا۔

عبدالرزاق نے اپنی جماعت کے عملی و مالی تعاون کے بل بوتے پر پہلے لودھراں اور پھر ملتان کی عدالتوں میں مقدمہ دائر کردیا کہ میرے سسر مولاناالٰہی بخش اپنی بیٹی جو کہ میری منکوحہ ہے، کی رخصتی نہیں کررہے ۔ انہیں قانونی طور پر پابند کیاجائے کہ وہ میری منکوحہ کی رخصتی کریں، مجھے میراحق دلاجائے۔ اس کے بالمقابل نانا جان نے بہاول پور میں مقدمہ کردیا کہ میری بیٹی بہت چھوٹی ہے اور مسلمان ہے، جب کہ یہ لڑکا مرزائیت اختیار کرکے دائرہ اسلام سےخارج ہوچکا ہے، اس لئے اگر میری  بیٹی بالغ بھی ہوجائے تب بھی میں اسے اس کے حوالے نہیں کروں گا۔ اس طرح دونوں طرف سے مقدمے بازی شروع ہوگئی۔

اتفاق یہ ہےکہ ہر جگہ مقدمے کافیصلہ مر زائیوں کے حق میں ہوتا رہا۔ ان عدالتی فیصلوں کی بناپر عبدالرزاق ملتان سے بیلف لے کر ان فیصلوں کی تنفیذ کےسلسلے میں ناناجان کے گاؤں’’مہند‘‘ آتا،تاکہ انہیں گرفتار کرکے ان کی بیٹی(عبدالرزاق کی منکوحہ) کو اس کے ساتھ روانہ کردیاجائے۔

شدیدآزمائش اورابتلا:

ناناجان مولانا الٰہی بخش  رحمہ اللہ کے لئے یہ سخت آزمائش کا دور تھا۔ وہ لوگ اس قدر کثرت سے بیلف لے کر آتے  رہے کہ ناناجان کے لئے اپناتحفظ کرنابہت مشکل تھا۔آنے کی اطلاع پاکرباپ بیٹی کو کہیں روپوش ہوناپڑتا۔علاقے میں ناناجان کے شاگرد، متعلقین، متعارفین اور قدر دان بہت تھے۔ وہ آپ کے ساتھ تعاون کرتے ،آپ کبھی کسی کے ہاں اور کبھی کسی کے ہاں جاکر چھپ جاتے۔

بہرحال اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے شامل حال رہی اور کبھی پولیس کے ہاتھ نہ آئے، تاہم یہ خدشہ رہتا تھا کہ مباداپولیس کو خبر ہوجائے اور یہ اس کے ہاتھ آجائیں ،کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ پولیس کی آمد کی خبر سن کر انہیں اناج رکھنے کے لئے مٹی گارے کی بنی ہوئی ایک ’’کلہونی‘‘ میں چھپنا پڑتا جس کی جدید شکل کوآج کل ’’بھڑولا‘‘ کہتے ہیں۔

کبھی ایسا بھی ہوتا کہ باپ بیٹی کو  ننگے پاؤں بھاگ کر کسی دور دراز اور نامعلوم جگہ جاکرروپوش ہوناپڑتا۔ نانا جان کو انتظار اورامید تھی کہ ریاست مسلمان اور جج بھی مسلمان ہیں، اس لیے فیصلہ ان کے حق میں ہوجائے گا،مگرہوا یہ کہ یہ فیصلہ بھی ان کے خلاف ہوگیا۔

اُمید کی آخری کرن:

پروفیسر محمد یحیٰی جلال پوری حفظہ اللہ  صاحب بتاتے ہیں کہ:

اب صرف ایک ہی صورت باقی تھی اور وہ تھی کہ عدالتِ عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایاجائے جس کے سربراہ والی ریاست نواب محمد صادق خان خود تھے۔ ناناجان نے آخری امید کے سہارے وہاں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ،مگر وہاں تک رسائی ناناجان کے بس میں نہ تھی۔

ان کی مالی حالت تو یہ تھی کہ وہ چنی گوٹھ سے ۶۰،۷۰ میل تقریبا سوکلومیٹر کا فاصلہ بالعموم پیدل طے کرکے بہاول پور عدالت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔

مقدمے کی گیارہ سالہ طویل مدت کے دوران گنتی کے چند مواقع ایسے آئے کہ وہ اپنے گھر سے چنی گوٹھ تک کے سفر کے بعد کسی سواری پر سوار ہوکروہاں سے بہاول پور پہنچے ہوں۔مقدمے کے اکثر وبیشتر اسفار میں وہ طویل سفر پیدل طے کرکے آتے جاتے رہے بلکہ پیشی سے ایک دو دن پہلے ہی گھر سے روانہ ہوجاتے۔

نواب صاحب تک رسائی کے لئے ایک تجویز:

ناناجان نے سناہوا تھا کہ نواب صاحب صبح سویرے ڈیرہ نواب صاحب سے بہاول پور کے لئے کار پر روانہ ہوتے، اگر راستے میں کوئی سائل عرضی کے لئے کھڑا ہوتا تو وہیں رک کر سائل کی درخواست پر جو مناسب فیصلہ کرنا ہوتا ،لکھ کر دیتے تھے۔

ہوایوں کہ ایک دن ناناجان عرضی لکھ کر صبح سویرے نواب صاحب کے راستے پر کھڑے ہوگئے،گاڑی قریب آئی،نواب صاحب نے دیکھا کہ ایک درویش عرضی لیے کھڑا ہے تو وہ رک گئے اور ماجرا دریافت کیا۔ ناناجان نے بتلایا کہ میں امت محمدیہ ﷺ کی ایک بیٹی کا کیس لے کر حاضر ہوا ہوں۔یہ اگرچہ میری بیٹی ہے، تاہم اس کا مسئلہ پوری امت کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔امت محمدﷺ کی بیٹی کے تحفظ کے لیے اپنی بساط کی حد تک میں جو کچھ کرسکتا تھا کرچکا،ریاست کی تمام عدالتوں نے میرے اور میری بیٹی کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ اگر اسلام کی یہ بیٹی عدالت کے غلط فیصلے کی وجہ سے مرزائی کافرکے ہاں چلی گئی تو آخرت میں تمام در ذمہ داری آپ پر ہوگی اور اللہ کے ہاں میں نہیں ،بلکہ آپ جواب دہ ہوں گے۔

آپ کے اخلاص اور صداقت کی وجہ سے نواب صاحب پر آپ کی باتوں کاخاطر خواہ اثر ہوا۔ وہ افسردہ ہوکر بولے کیا تمام عدالتوں میں آپ کے خلاف فیصلے ہوئے ہیں؟؟ ناناجی نے کہا:جی ہاں۔ اب صرف عدالتِ عالیہ کا آخری مرحلہ باقی ہے۔ عدالت عالیہ کے سربراہ بھی نواب صاحب ہی تھے۔نواب صاحب نے کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے اس درخواست پر لکھا کہ فلاں جج اس کیس کی سماعت کریں۔ اور کہا کہ آپ کو اگر دوبارہ مجھ تک آنا پڑے تو یہی آسان طریقہ ہے جو آپ نے آج اختیار کیا ہے۔

ناناجان متعلقہ عدالت کے سینئر جج کے ہاں پیش ہوگئے اور مقدمے کا نئے سرے سے آغاز ہوگیا۔

سماعت کاآغاز:

یہ مقدمہ ۱۹۲۶ء میں شروع ہوا تھا، نانا جی کی غربت کی مختصر سی جھلک آپ پڑھ چکے ہیں، ان احوال میں آپ دیکھیں کہ امت نے ختم نبوت کےلیے کس قدر محنت کی اور مشقتیں برداشت کی ہیں۔

ایک مسکین اور درویش آدمی جس کے پاس رہنے کے لیے محض ایک کچا کوٹھڑا ہے اور جس کے پاس ایک سو کلومیٹر کے سفر کے لیے کرایہ تک نہیں، وہ اتنا بڑا مقدمہ کیسے لڑتا؟

انہوں نے جامعہ عباسیہ کےشیخ الحدیث مولانا غلام محمد گھوٹوی رحمہ اللہ  سے درخواست کی اب یہ مقدمہ آخری مرحلے میں ہے، اس کے لیے علمی طور پر خوب محنت اور بہت زور لگاناہوگا ،جب کہ میں ذاتی طور پر کچھ بھی کرنےسے قاصر ہوں۔

بہاول پور کے اس وقت کے اہل علم نے خوب تعاون کیا اور علماء کی ایک کمیٹی تشکیل پائی۔ ان علماء نے عدالت میں گواہی دی کہ کوئی مسلمان محمدرسول اللہ ﷺ کے بعد کسی دوسری کو نبی تسلیم کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہ جاتا۔

علماء کے بیان کے بعد مقدمے کو سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا۔ ناناجان نے موقع پر علماء کے سامنے واضح کیا کہ اس مقدمے کے حوالے سے مجھے کسی بھی قسم کی سہولت کی ضرورت نہیں۔ میں اس سے پہلے جس طرح اپنے طور پر آتا جاتارہاہوں ،اسی طرح آیاکروںگا۔

اس زمانے میں شیخ الحدیث مولانا انور شاہ کاشمیری صاحب کا پورے ہند میں علمی حوالے سے بڑا چرچاتھا۔انہوں نے مزید اہل علم سےبھی رابطے کیے، ان میں مولانا مفتی محمد شفیع،مولانا ابوالوفاء شاہ جہان پوری، مولانا مرتضیٰ حسن  رحمہ اللہ وغیرہ بہت لوگ تھے۔ فیصلہ ہوا کہ یہ لوگ عدالت میں بطور گواہ پیش ہوکرگواہی دیں گے کہ جو بھی آدمی محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت ونبوت کا انکارکرکے کسی بھی دوسرے آدمی کو نبی تسلیم کرے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہ جاتا۔

مرزائیوں نے جوابِ دعویٰ کے لیے اس دور کے اپنے سب سے بڑے سکالر اور مناظر شمس کو پیش کیا جس کے متعلق ان کاخیال تھا کہ پورے برصغیر میںان کی جماعت میں اس سے بڑھ کر کوئی عالم اور سکالر یامناظر نہیں۔ انہوں نے اسے اسلام کے خلاف تقاریر اور مناظرے کرنے کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ اور بھی کئی لوگ بطور معاون پیش ہوتے رہے ۔

یہ آخری مقدمہ تین سال چلتا رہا۔ اس پورے عرصے میں ناناجان حسب سابق پیدل بہاول پور آتے جاتے رہے۔

مرزائیوں کی بوکھلاہٹ:

مرازئیوں کو اندازہ ہوچکا تھا کہ اب مسلمانوں کی طرف سے جس کثرت سے علماء میدان میں نکلے ہیں، یہ فیصلہ مرزائیوں کے خلاف ہی ہوگا توا نہوں نے مقدمے کو کمزور کرنے کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردیے۔

مال ودولت کی پیشکش:

ناناجان مالی طور پر حد درجہ تنگ دست ہی نہیں،بلکہ نادار بھی تھےاور ان کے پاس رہنے کے لیے مناسب مکان اورآمد ورفت کے لیے کرایہ تک نہیں ہوتا تھا۔ اس دور میں انہیں لاکھوں روپےکی پیشکش کی گئی۔ یہ پیشکش اس بات پر نہیں تھی کہ مرزائیوں کو مسلمان تسلیم کر لیا جائے،بلکہ صرف اس بات پر تھی کہ آپ مقدمہ واپس لے لیں، ہم بچی کو طلاق دے دیتے ہیں۔

ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ عدالت کافیصلہ سامنے نہ آپائے ،مگر نانا جی نے پرعزم ہوکرجواب دیا کہ یہ مسئلہ صرف میری بیٹی عائشہ کانہیں، بلکہ پوری مسلم امت کا ہے۔میں یہ مقدمہ لڑوں گا اور اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچا کر رہوںگا۔تمہارے یہ لاکھوں روپے میری نظر میں ایک تنکے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔

مرزائیوں نے پہلی مرتبہ ناکام ہوکر کچھ عرصے بعد اس علاقے میں کئی مربعے زرعی اراضی خرید کر اپنی سابقہ نقد پیشکش کے ساتھ ساتھ زرعی رقبوں کو بھی شامل کردیا۔

مقصد صرف یہ تھا کہ کسی طرح عدالت کی طرف سے ان کے خلاف آنے والے فیصلے کو روکاجاسکے۔ ناناجان مولاناالٰہی بخش نے اسے بھی انتہائی حقارت اور بے پروائی سے ٹھکرادیا اور اپنے مؤقف پر ثابت قدم رہے۔

مرزائیوں نے ان کی بیٹی کو بھی مختلف انداز سے بہلانے پھسلانے کی کوشش کی،مگر ان کے پایۂ استقلال میں بھی جنبش نہ آئی۔

اس پورے مقدے میں اصل استقامت باپ بیٹی کی تھی۔

فریقِ مقدمہ عبدالرزاق قادیانی کاقتل:

فریقین کے دلائل پورے ہونے اور جرح ہونے کے بعد اب مقدمہ تکمیل کی طرف گامزن ہوااورفیصلہ ہونے کے قریب تھا کہ مرزائیوں نے اپنی ناکامی ونامرادی کےپیش نظر ایک اور چال چلی ، تاکہ عدالت کی طرف سے اس مقدمے کا فیصلہ نہ سنایاجاسکے۔

ان کی کوشش اب یہ ہوئی کہ کسی طرح عبدالرزاق کو راستے سے ہٹا دیاجائے۔سازش کے تحت عبدالرزاق کو اس کے دوستوں کےساتھ سیراور پکنک کے بہانے دریائے ستلج کے کنارے لے جاکر اس کے کھانے میں زہر یا کوئی بے ہوش کرنے والی چیز ڈال کر اسے بے ہوش کرکے دریائے ستلج میں پھینک دیا گیااور عدالت میں درخواست دی گئی کہ اب وجہ نزاع ختم ہوگئی ہے، عبدالرزاق مر گیا ہے ،لہذا مقدمہ یہیں روک دیاجائے۔

اب ایک اور مشکل آن پڑی کہ مولانا الٰہی بخش کو ایک اور مقدمہ لڑنا پڑگیا کہ کہیں عدالتی کاروائی کو روک دینے سےیہ مقدمہ بھی رک نہ جائے اور جوبھی ہو ،اس کافیصلہ سنایاجائے۔

ایک اور سازش:

اب مرزائیوں نےا پنی پیشکش میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ بے شک مقدمہ واپس نہ لیں۔یہ ساری رقم لے لیں اور صرف اتنا کریں کہ عدالت میں پیش نہ ہوں۔

اللہ کا شکر ہے کہ اس کے خاص فضل اور عنایت سے کسی بھی طرح کا لالچ اور پیشکش انہیں ذرہ برابر متاثر نہ کرسکا۔

اور فیصلہ آگیا:

ناناجی اور ان کی بیٹی کی راتوں کی آہ وزاریاں رنگ لائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی التجائیں سن لیں اور عدالت نے بھی طے کرلیا کہ اب یہ مقدمہ کسی بھی صورت روکا نہیں جائے گا اور اسے انجام تک پہنچا کر اس کافیصلہ سنایاجائےگا۔

آخر کار ۱۹۳۵ءمیں ایک اہم اور تاریخی فیصلہ سنا دیا گیاکہ چونکہ مرزائی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ،اس لیے یہ نکاح کالعدم ہےاورمولانا الٰہی بخش کی دختر مسماۃ عائشہ بی بی جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔

یہ اہم اور تاریخی فیصلہ خاص طور پر اہل علم کے لیے نہایت پر مسرت تھا۔فیصلے کے بعد مولانا الٰہی بخش  رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد مولانا عبدالرزاق ہاشمی رحمہ اللہ سے مشاورت کی۔ مولانا عبدالحق رحمہ اللہ اپنے شاگرد مولانا سلطان محمود محدث جلال پوری رحمہ اللہ کو اپنے بیٹوں کی طرح نہیں ،بلکہ بیٹوں سے بڑھ کر سمجھتے تھے ،اور مولانا سلطان محمود ان دونوں بزرگوں کے شاگرد اور فیض یافتہ بھی تھے ،چنانچہ ان دونوں بزرگوں کی مشاورت سے اسی سال،یعنی۱۹۳۵ء میں عائشہ بی بی کا نکاح مولانا سلطان محمود سے کردیاگیا۔

اللہ کا شکر ہے کہ اس عظیم تاریخی اور اہم ترین مقدمے کا مکمل ریکارڈ اور تمام تر تفصیلات محفوظ تھیٗں۔ عدالت کےریکارڈ سے انہیں حاصل

کرکے ایک صاحب دل نے انہیں شایع بھی کردیا۔اور اب یہ ’’مقدمہ بہاول پور‘‘ کے نام سے تین جلدوں میں مطبوع ہے۔اب اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوچکا ہے۔

سیدواحد صاحب نے سراغ لگایا کہ فریق مقدمہ عائشہ بی بی کا خاندان کہاںہے۔ اس طرح وہ والد صاحب (مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ ) تک اور پھر مجھ (پروفیسر محمد یحییٰ جلال پوری حفظہ اللہ  )تک پہنچے، چنانچہ والد صاحب نے اپنی زندگی کے احوال اور اس مقدمے کے حوالے سے کافی تفصیلات ان کو مہیا کردیں، میں نے بھی اپنی والدہ محترمہ( عائشہ بی بی ) کے حوالے سے بہت کچھ لکھ دیا۔

اس میں مقدمے کی کافی تفصیلات آگئی ہیں۔ ان تفصیلات سے پتا چلتا ہےکہ اس امت میں بہت سے ایسے خوش نصیب لوگ ہیں جو انتہائی نادار اور فاقہ مست ہوتے ہیں ،ان کےپاس رہنے کےلیے کچا سا گھروندا،کھانے پینے کے لیے قوت لایموت، سادہ لباس او ر جوتے  بھی پھٹے پرانے ہوتےہیں ،مگر وہ دین کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں اور یوں دین کا دفاع اپنا سب کچھ کھپا کر کرتےہیں۔ اللہ ان پر رحمت فرمائے اور ہمیں اس ورثے کی حفاظت کرنے اور اسے آگے بڑھانے اور پہنچانے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

About پروفیسر سعید مجتبیٰ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *