Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » October Magazine » بیٹیوں کامقام اور رشتے میں دین داری کی اہمیت

بیٹیوں کامقام اور رشتے میں دین داری کی اہمیت

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

کاوش:شیخ عبداللہ محمدی (مدرس مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث ساماروموری)

خطبہ مسنونہ کے بعد!

حدیث کی کتاب صحیح مسلم میں اللہ کے نبی ﷺ کی دوحدیثیں موجود ہیں، دراصل ان دو حدیثوں میں ملتے جلتے دوواقعات ہیں، دونوں واقعات کی راویہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ  رحمہ اللہ ہیں، فرماتی ہیں: ایک بار میرے پاس ایک عورت آئی بڑی مسکین تھی ،اس کے ساتھ دو معصوم بچیاں تھیں اس عورت نے کھانے کی چیز مانگی میرے پاس ایک ہی کھجور تھی میں نے اس عورت کودے دی، اس عورت نے اس کھجورکے دو حصے کیے ایک حصہ ایک بچی کو دے دیا اور دوسرا حصہ دوسری بچی کو دے دیا۔’’ولم تأکل منھا شیئا‘‘ خود کچھ بھی نہیں کھایا۔ تھوڑی دیر کے بعد’’قامت وخرجت وابنتاھا‘‘ وہ کھڑی ہوئی اور اپنی بچیوں کو لیکر چلی گئی، اللہ کے نبی ﷺ تشریف لائے میں نے پورا واقعہ اللہ کے نبی ﷺ کو بتایا کہ بھوک ان تینوں کے چہروں سے عیاں تھی لیکن ملنے والی کھجور اس عورت نے اپنی بچیوں کو دی خود نہیں کھائی، اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:من ابتلی من البنات بشیٔ واحسن الیھن کن سترا من النار.جس آدمی کو ان بیٹیوں کے ذریعے آزمایاگیا یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے بیٹیاں عطا کیں پھر اس آدمی نے ان بیٹیوں کےساتھ حسن سلوک کیا اچھا برتاؤ کیا انہیں دین دار بنایایہی بیٹیاں قیامت کے دن اس کے اور جہنم کے درمیان پردہ بن جائیں گی۔

دوسرا واقعہ بھی اسی سے ملتا جلتا ہے ،ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رحمہ اللہ  فرماتی ہیں: کہ میرے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ دومعصوم بچیاں تھیں، اس نے مجھ سے کھانے کی کوئی چیز طلب کی،میرے پاس تین کھجوریں تھیں میں نے وہ تینوں کھجوریں اس عورت کو دے دیں اس نے ایک کھجور ایک بیٹی کو دی،دوسری کھجور دوسری بیٹی کو دی، اور تیسری کھجور کھانے کیلئے اپنےمنہ کی طرف بڑھائی، فاستطعمتھا ابنتھا.جیسے ہی اس نے تیسری کھجور خود کھانے کا ارادہ کیاتو وہ تیسری کھجور بھی اس کی بیٹیوں نے اس سے مانگ لی، اس نے اس تیسری کھجور کے دوحصے کیے،ایک حصہ ایک بیٹی کو دے دیا اور دوسرا حصہ دوسری بیٹی کو دے دیا،خود کچھ نہیں کھایا،تھوڑی دیر کے بعد وہ اٹھ کر چلی گئی،جب اللہ کے نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے پورا واقعہ سنایا، اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا: ان اللہ قد اوجب لھا بھا الجنۃ. اس ایک عمل کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس عورت کے لیے جنت کوواجب کردیا، اس نے خود بھوک برداشت کی اس کو بھی کھانے کی چیزوں کی ضرورت تھی لیکن کھانے کی چیز جیسی ہی دستیاب ہوئی اس نے خود بھوک برداشت کی اور وہ کھانے کی چیز اپنی بیٹیوں کو دے دی، ان دو حدیثوں سے ہمیںیہ پیغام ملتا ہے کہ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں بیٹیاں عطا کی ہیں تو ہم اس بات کا یقین کرلیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں جنت میں جانے کا ایک موقعہ عطا کردیا ہے،ہم ان کے ساتھ حسن سلوک کریں اچھا رویہ اپنائیں، ان کی تربیت کریں اور یہ بات جان لیں کہ بیٹیاں جنت میں جانے کا ایک سبب ہیں جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بیٹیاں عطا ہوئی ہیں ان بیٹیوں میں اس کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی عار نہیں ہے اس کے لئے کوئی باعث ندامت بات نہیں ہے اس لیے کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فیصلہ ہے اور اللہ کے ہر فیصلے میں خیر ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ کا کوئی بھی فیصلہ اس کی مخلوق کے بارے میں ظلم پر مبنی نہیں ہوسکتا،او ر پھر ہم جب انبیاء کرام علیہ السلام کی اولاد کو دیکھتے ہیں تو ہمیںکچھ پیغمبر ایسے ملتے ہیں جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیٹیاں ہی بیٹیاں دیں یہ بات اگر باعث عار ہوتی ،باعث ندامت ہوتی تو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے پیغمبروں کو بیٹیاں نہ دیتا،سیدنانوح  علیہ السلام کی بیٹیوں کا تذکرہ ملتا ہے،سیدنالوط علیہ السلام کی بیٹیوں کا تذکرہ ملتا ہے اور خود محمد رسول اللہ ﷺ آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیٹے بھی عطا کیے لیکن کوئی بھی بیٹا سن بلوغت کو نہیں پہنچا۔ لیکن اللہ کے نبیﷺ کی جو مبارک نسل چلی ہے وہ بیٹیوں سے چلی ہے، فاطمہ رحمہ اللہ ،زینب رحمہ اللہ ، رقیہ رحمہ اللہ ، ام کلثوم  رحمہ اللہ یہ اللہ کے نبی ﷺ کی بیٹیاں تھیں اور انہیں بیٹیوں سے محمد رسول اللہ ﷺ کی مبارک نسل کا سلسلہ آگے چلا ہے، اور پیغمبروں کوخصوصا اللہ کے نبی ﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بیٹیاں عطاہونا یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ بیٹیاں باعث ندامت اور باعث عار نہیں ہیں۔ جس آدمی کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیٹیاں عطاکی ہیں اسے کوشش کرنی چاہئے ان بیٹیوں کےساتھ حسن سلوک کرے،اچھا برتاؤ کرے اور یہ بات ذہن میں بٹھالے کہ میں جس قدر ان بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتاجاؤنگا اسی قدر جنت کے قریب ہوتاجاؤنگا،بیٹیوں کےساتھ حسن سلوک کا طریقۂ کار کیا ہےکہ آدمی بیٹیوں کو اچھی دینی تعلیم دے ،ان کی تربیت کرے اور شرعی حوالے سے جو ایک عورت کی دینی ذمہ داری بنتی ہے ،بچپن ہی سے بیٹیوں کو اس شرعی ذمہ داری سے آگاہ کرتا چلے یہاں تک کہ جب بچی سن بلوغت کو پہنچے ،نکاح کے وقت کو پہنچے تو اچھی دیندار جگہ پر اس کا نکاح کردے یہ بھی بیٹی کےساتھ حسن سلوک کا والدین پر ایک فرض ہے یہ انتہائی ضروری ہے لیکن آج جب ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتےہیں تو ہمیں جو بات نظر آتی ہے کہ ہمارا جو مطمع نظر رشتوں کے حوالے سے ہے وہ دین نہیں ہے،توحید نہیں ہے،تقویٰ اور پرہیز گاری نہیں ہے،رشتے دینے کے حوالے سے ہمارا مطمع نظر قومیت ہے، اپنے گھرانوں کو دیکھنا ہے( اور بینک بیلنس ہے)کسی نے بیٹی کا رشتہ دینا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ سامنے والاموحد ہوناچاہئے ،متبع سنت ہونا چاہئے ،متقی پرہیز گار ہونا چاہئے،حلال کھانے والاہوناچاہئے، اس کی نظر یہ ہوگی کہ میں نے اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے بھتیجے کو دینا ہے ،اپنے بھانجے کو دینا ہے ،خواہ وہ پرلے درجے کامشرک ہو،پرلے درجے کا بدعتی ہو، اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کا باغی وسرکش ہو، حرام خور ہو یہ ساری خرابیاں اس میں مو جودہیں کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ وہ میرا بھتیجا ہے، میرا بھانجا ہےلہذا  بیٹی کا رشتہ اسی کو دینا ہے،قرون اولیٰ میں اس کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی،خود محمد رسول اللہ ﷺ نے رشتے دیے بھی اور رشتے مانگے بھی، بڑی اعلیٰ مثالیں موجود ہیں، اگر ہم اس حوالے سے بھی اللہ کے نبی ﷺ کے اسوہ کو لے لیں ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اسوہ کو لے لیں تو اعلیٰ ترین مثالیں موجود ہیں۔ سیدنا زید بن حارثہ  رضی اللہ عنہ ایک آزادہ کردہ غلام ہیں کسی نے بچپن میں ان کو اٹھالیا ،پھر کسی کے ہاتھوں بیچ دیا خریدنے والے نے کسی اور کو بیچ دیا حالت اور کیفیت دیکھیں اسی طرح فروخت ہوتے رہے یہاں تک کہ مکہ پہنچے اور اللہ کے نبی ﷺ نے ان کو اپنا متبنی بنایا،منہ بولابیٹابنایا، کیفیت اور حالت یہ ہے کہ پہلے فروخت ہوتے رہے ،پھر غلام رہے،اور پھرآزاد کردیے گئے یعنی آزاد کردہ غلام، لیکن محمد رسول اللہ ﷺ نے آپ کے لیے سیدنا زید بن حارثہ  رضی اللہ عنہ کے لیے رشتہ مانگا ،کس کا؟قریش کی ایک خاتون کا۔ زینب بنت جحش  رحمہ اللہ کا۔اگر یوں کہیں تو غلط نہیں کہ اللہ کے نبیﷺ نے ایک آزادہ کردہ غلام کے لیے رشتہ مانگا ایک سید زادی کا۔اس واقعے میں بڑے عبرت کے پہلو موجود ہیں،کہ اللہ کے نبی ﷺ اس رشتہ کے ذریعے تمام قسموں کے قومیتوں کے بت کو پاش پاش کرنا چاہتے ہیں، یہاں پر قومیت کو نہیں دیکھنا یہاں پر دین کو دیکھنا ہے اور توحید کو دیکھنا ہے، اور تقویٰ اورپرہیز گاری کو دیکھنا ہے اندازہ توکریں کہ ایک آزاد کردہ غلام ہیں اس کے لیے اللہ کے نبیﷺ رشتہ مانگ رہے ہیں ایک سید زادی کا، زینب بنت جحش  رحمہ اللہ نے انکار کردیاکہ میں نے زید سے نکاح نہیں کرنا،ان کے گھر والوں نے بھی جواب دے دیا، اِدھر انہوں نے انکار کیا،جواب دیا ،اُدھراللہ تبارک وتعالیٰ نے وحی نازل کردی:[وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ]

کہ کسی مؤمن مرد اور عورت کے لئے یہ لائق نہیں ،یہ زیبا نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کردے پھر وہ مؤمن مردیا عورت اپنی طرف سے کوئی بات کرے۔ اللہ کے فیصلےکو قبول نہ کرے ،اللہ کے رسول کے فیصلے کو قبول نہ کرے۔(الاحزاب:۳۶)

یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کی تائید فرمائی توپتہ چلا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے ،یہی فیصلہ ہے کہ اگر رشتہ ہوتو موحد مرد اور موحد عورت کا،دیندار مرد اور دیندار عورت کے اس کے علاوہ رشتوں کی اور کو ئی صورت ہی نہیں اور کوئی قسم ہی نہیں جب یہ آیت ا تری تو سیدہ زینب بھی نکاح کے لیے راضی ہوگئیں اور ان کا گھرانہ بھی راضی ہوگیا۔ پھر ایک دن آیا کہ ایک سیدزادی کا نکاح ایک آزادکردہ غلام کے ساتھ ہوا۔زید بن حارثہ اورزینب بنت جحشw۔ اندازہ کریں یہ اللہ کے نبی ﷺ کی تعلیم ہے ،یہ اللہ کے نبی ﷺ کا اسوہ ہے،اللہ کے نبی ﷺ کی سنت کو دیکھیں اور اس اسوہ کو دیکھیں ،اس طریقے کو دیکھیں،اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں کہ اللہ کے نبی ﷺ کی کیا سوچ تھی،بیٹیوں کے رشتے کےحوالےسے اور ہماری کیا سوچ ہے، یہی وجہ ہے کہ بیٹیوں کے رشتے ایسی غلط جگہوں پر ہوجاتےہیں کہ سامنے والے موحد نہیں ہوتے،متبع سنت نہیں ہوتے،متقی پرہیز گار نہیں ہوتے،حلال کھانے والے نہیں ہوتے اور پھر جیسے ہی چند دن گزرتے ہیں توعجب قسم کے فتنے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کئی جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ اس قسم کی شادی کا جو انجام ہوتا ہے وہ یا تو کسی قتل پر ہوتا ہے یا پھر طلاق پر ہوتا ہے،اگر دونوں طرف سے بنیاد دین ہو تو اس میں خیر ہوتی ہے اس میں برکت ہوتی ہے۔

سیدنا زید بن حارثہ کے بیٹے اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ کانکاح کس طرح ہوا اس کی شادی کس طرح ہوئی ،ان کی شادی کرانے والے بھی محمد رسول اللہ ﷺ ہیں، فاطمہ بنت قیس  رحمہ اللہ ان کو جب طلاق ہوگئی صحیح بخاری کی حدیث ہے اللہ کے نبی ﷺ نے انہیں فرمایا کہ جب عدت ختم ہوجائے تو مجھے بتانا ،میرے پاس آنا،سیدہ فاطمہ بنت قیس  رحمہ اللہ جب عدت مکمل ہو ئی تو اللہ کے نبی کو اس کی اطلاع دی، اللہ کے نبی ﷺ نے انہیں مشورہ دیا کہ ’’انکحی اسامۃ‘‘ اسامہ بن زید سے نکاح کرلو۔اور اسامہ بن زید شکل وصورت میں کیسے تھے؟ احادیث میں موجود ہے ایک تو وہ آزاد کردہ غلام کے بیٹے اور دوسرے نمبر پر شکل وصورت سے رنگت سے ایک دم سیاہ تھے، ان کے والد زید wگورے چٹے تھے اور ان کے بیٹے اسامہ ایک دم سیاہ تھے،اور لوگ ان کی ولدیت کے حوالے سے سیدنا اسامہ  رحمہ اللہ کی ولدیت کے حوالے سے مختلف باتیں کرتے تھے اور اللہ کے نبیﷺ کو ایذاء دیتے تھے،پوری کیفیت دیکھتے جائیں،ایک قیافہ شناس تھا جو قدم دیکھ کر بتادیتا تھا یہ جو قدم رکھنے والاہے اس کا کس قبیلے کے ساتھ تعلق ہے،اللہ کے نبی ﷺ ایک مرتبہ بڑےخوش عائشہ صدیقہ  رحمہ اللہ کے پاس آئے،عائشہ  رحمہ اللہ  نے اللہ کے نبی ﷺ سے اس خوشی کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ آج ان لوگوں کو منہ کی کھانی پڑی، ان کو جواب مل گیا، جو اسامہ کی ولدیت کے حوالے سے باتیں کرتے تھےکہ آج اسامہ اور ان کے والد زید اپنے چہروں پر کپڑا ڈال کر سوئے ہوئے تھے ،دونوں کے پاؤں نظر آرہے تھے ،ظاہر تھے،قیافہ شناس آیا جن کو پورے عرب والے مانتے ہیں کہ یہ حقیقی طور پر قیافہ شناس ہے،عرب والے اس سے متاثر ہیں اس نے جیسے ہی ان دونوں کے پاؤں کو دیکھا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے پتا نہیں یہ لیٹنے والے کون ہیں ،یہ سونے والے کون ہیں لیکن ان دونوں کے پاؤں بتارہےہیں یہ دونوں باپ بیٹا ہیں،اللہ کے نبی ﷺ خوش ہوگئے، کیفیت دیکھیں ،حالت دیکھیں،پس منظر دیکھیں کہ اسامہ بن زید کا پس منظر کیا ہے،کیفیت کیا ہے،لیکن وہ مسلمان ہیں،دیندار ہیں، موحدہیں، متقی پرہیزگار ہیں ان کے لیے اللہ کے نبی ﷺرشتہ لینے کے لئے جارہے ہیں ،رشتہ مانگ رہے ہیں،کس کا؟ قریش کی ایک عورت فاطمہ بنت قیس  رحمہ اللہ کا۔کہاں گئی قومیت اور کہاںگیا تعصب،فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں صحیح بخاری کی حدیث:کأنی کرھت.مجھے اللہ کے نبیﷺ کی یہ پیکش کچھ پسند نہیں آئی میں نے انکار کردیا اللہ کے نبی ﷺ نے پھر فرمایا: ’’انکحی اسامہ‘‘ اسامہ سےنکاح کرلو،جب اللہ کے نبیﷺ نے دوسری بار فرمایا میں نے رضامندی کا اظہار کردیا۔ پھر ایک دن آیا آزاد کردہ غلام کے بیٹے اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ کا نکاح قریش کے ساتھ تعلق رکھنے والی سیدزادی فاطمہ بنت قیس سے ہوگیا۔ ہر قسم کے قبیلے، گھرانے، خاندانوںاور قومیت کے جتنے بت تھےاللہ کے نبی ﷺ نے اس رشتے کےذریعے پاش پاش کرکے رکھ دیے، آگے فرماتی ہیں: ’’جعلنی اللہ فیہ خیرا‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے میرے لیے اس رشتہ میں خیر اور بھلائی ڈال دی، اس قدر برکت ڈال دی کہ ایک دن آیا محلے کی عورتیں بیٹھ کر اس طرح کی باتیں کرتیں کہ اگر جوڑی ہوتو اسامہ اور فاطمہ جیسی وجہ کیا ؟اس خیر اور برکت کی بنیاد کیا ہے؟ بنیاد یہی تھی کہ رشتہ ہوا تھا دین کی بنیاد پر،توحید کی بنیاد پر،تقویٰ اور پرہیز گاری کی بنیاد پر۔ آج رشتے بنتے بھی ہیں لیکن شادی کے چندہی دنوں بعد مختلف قسم کے فتنے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اگر ہم ان اٹھنے والے فتنوں کا جائزہ لیں توہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ جہاں دیگر اسباب ہیں وہاں ایک سبب یہ بھی ہے کہ جب رشتہ ہورہاتھا ،دین پر،تقویٰ اور پرہیزگار پر کسی کی نظر نہیں تھی تو ان واقعات سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ہمیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیٹیاں دیں ہیں ان کے ساتھ حسن سلوک رکھیں اور حسن سلوک کی ایک کیفیت یہ بھی ہے کہ ان کادیندار گھرانے میں نکاح کرادیں ، ان کارشتہ دیندار گھرانے میںہو،موحد گھرانے میں ہو، متقی اور پرہیزگار گھرانے میں ہو، کئی مثالیں موجود ہیں ،اللہ کے نبی ﷺ ایک بار مسجد نبوی میں داخل ہوئے،؟؟؟؟ قبیلے کے ایک صحابی وہاں موجود تھے ،بڑے پریشان ہیں، اللہ کے نبی ﷺ نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ میرا کوئی کاروبار نہیں ہے ،کوئی زمین نہیں ہے، اور بظاہر میری جو کیفیت اچھی اور بہتر ہونی چاہئے رنگت کے حوالے سے ،جسمانی طورپر وہ بھی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ مجھے کہیں سے رشتہ نہیں ملتا کہ میں شادی کرکے اپنا گھر آباد کرلوں، اللہ کے نبی ﷺ نےاس صحابی کو کہا کہ مدینے کے فلاں کونے میں جو گھر ہے اس گھر چلے جاؤاورانہیں میرا پیغام دینا کہ مجھے محمد رسول اللہ ﷺ نے رشتے کے لیے بھیجا ہے،بظاہر دنیاوی لحاظ سے معاشرتی حوالے سے اس شخص کی کیا کیفیت تھی یہ آپ نے سن لی،ان میں سے کوئی بات نہیں لیکن اس شخصیت میں جو سب سے بڑی بات ہے وہ یہ ہے کہ وہ دیندار ہے اور دینداری کی یہ علامت ہے کہ اس وقت جبکہ وہ پریشان تھا مسجد نبوی میں بیٹھا ہوا تھا۔ اللہ کے نبی ﷺ نے بھیج دیا وہ گھر میں پہنچا ،گھر والوں نے اس سے سوالات کیے، پوچھا۔ جو کیفیت گھر والوں کے سامنے آئی اس کے مدنظر انہوں نے انکار کردیاکہ ہم رشتہ نہیں دیتے، کس بنیاد پر دیں؟ دنیاوی حوالے سے آپ کے پاس کونسی سہولت موجود ہے، لیکن جس عورت کے حوالے سے رشتے کی بات ہورہی تھی اسے پتا چل گیا کہ آنے والے کو محمد رسول اللہ ﷺ نے بھیجا ہے اس عورت نے اپنے والدین کو مخاطب کرکے کہاکہ آنے والےکی کیفیت کو نہ دیکھیں ،حالت کو نہ دیکھیں کہ یہ کون ہے اور کیا ہے؟ یہ دیکھیں کہ اس کو بھیجا کس نے ہے،اس کو بھیجنے والے محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور اللہ کے نبی ﷺ کے ہر فیصلے میں میرےلیے خیر ہے، مجھے یہ قبول ہے،نکاح ہوگیا ،شادی ہوگئی، اور یہ نکاح اور شادی خالصتاً دینداری کی بنیاد پر تھی ،روایت میں آتا ہے کہ مدینے میں ایک دن ایسا آیا کہ پورے مدینے میں تمام گھروں سے سب سے زیادہ زکوٰۃ جس گھر سے آتی تھی وہ اسی عورت کا گھر تھا، وجہ کیا ہے؟ جو نکاح ہوا تھا جو شادی ہوئی تھی ،بنیاد دین تھا۔ دیکھتے جائیں یہ مثالیں ہمارے لیے ہیں ،وہ شادیاں جو دینداری کی بنیاد پر ہوتی ہیں ،توحید کی بنیاد پر ہوتی ہیں، تقویٰ اور پرہیز گاری کی بنیاد پر ہوتی ہیں ،اللہ تبارک وتعالیٰ کس طرح ان میں خیر اور برکتیں ڈال دیتا ہے اس کے برعکس اگر دین بنیاد نہ ہو،توحید بنیاد نہ ہوتو فتنے ہی فتنے ہوتے ہیں ۔

 سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کتب احادیث میں یہ واقعہ موجود ہے، آپ کی بیٹی حفصہ  رحمہ اللہ بیوہ ہوگئیں جب عدت مکمل ہوئی توحفصہ  رحمہ اللہ کا رشتہ سب سے پہلے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ نے پیش کیا کس کو؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو،کس قدر دینداری تھی؟ یعنی وہ شخصیت جن کے بارے میںاللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’أن عثمان رجل حی‘‘ کہ عثمان بڑے ہی حیادار ہیں۔ یہ دینداری کی مہر تھی ،محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے، ’’الا استحی من رجل تستحی منہ الملائکۃ‘‘ یہ اللہ کے نبی ﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ  کے بارے میں فرمایا تھاکہ میں اس شخص کی حیا کی لاج کیوں نہ رکھوں جس شخص کی حیا کی لاج اللہ کے فرشتے رکھتے ہیں۔کس قدر دیندا رتھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کا رشتہ ان کے سامنے پیش کیا آپ نے جواب دیا کہ میرا ان دنوں شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ پھر سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اپنی بیٹی کا رشتہ ان کے سامنے رکھا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہاں یا نہ کا کو ئی جواب نہیںدیا، ایک دن گزرا،دو دن گزرے عرصہ گزر گیا بالآخر ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حفصہ  رحمہ اللہ کے رشتے کے بارے میں پیغام آیا ،کسی کی طرف سے؟ محمد رسول اللہ ﷺ ک طرف سے۔ مطلب یہ کہ اگر سوچ دیندارا نہ ہو اپنی اولاد کے حوالے سے ،بیٹیوںکے رشتے کے حوالے سے دیندارانہ سوچ ہواور آدمی دعائیں بھی کرتا رہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ راہیں کھول دیتا ہے، اللہ کے نبیﷺ کا نکاح ہوگیا، حفصہ  رحمہ اللہ ام المؤمنین بن گئیں، مؤمنوں کی ماں!نکاح کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ نے میرے حوالے سے کچھ محسوس تو نہیں کیا، آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیںکہ آپ نے جو رشتے کی پیش کش کی تھی تو میں نے ہاں یا نہ ،کوئی جواب نہیں دیا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ واقعتاً میں نے محسوس کیا تھا میں آپ سے ناراض ہوا تھا کہ میںنے رشتہ عثمان رضی اللہ عنہ  کے سامنے پیش کیاانہوں نے نہ کرکے جواب تو دے دیا آپ نے کوئی جواب ہی نہیں دیا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ بات یہ تھی کہ ایک مرتبہ مجلس میں اللہ کے نبی ﷺ نے حفصہ کا تذکرہ کیا تھا اب میں آپ کو اصل کیفیت بتاتاتو اللہ کے نبی ﷺ کے راز کو ظاہر کرنے والی بات تھی اور مجھے یہ پتاتھا کہ اللہ کے نبی ﷺ حفصہ کے ساتھ نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں ،مجھےیہ معلوم تھا تو میں ہاں کیسے کر تا نہ آپ کو اصل کیفیت بتا سکتا تھا،نہ ہاںکرسکتا تھا ہاں اگر اللہ کے نبی ﷺ جواب دیتے تھے تومیں حفصہ کے ساتھ نکاح کرلیتا ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مطئمن ہوگئے۔

توکہنے کامقصد یہ ہے یہ جو قرون اولیٰ کےلوگ تھے، ہر حوالےسے ان کے پیش نظر دین ہوتا تھا،عمر رضی اللہ عنہ امیرالمؤمنین بنے رات کو گشت کرتے ڈھونڈتے ہیں رعایا کی باتیں نوٹ کرتے ہیں، رات کو گھوم رہے ہیں ،ایک گھر کے پاس سے گزرہوا آواز آرہی تھی ایک ماں اپنی بیٹی کو کہہ رہی تھی کہ دودھ میں پانی ملادے،بیٹی کہہ رہی تھی امیر المؤمنین نے اس بات سے منع کردیا ہے ،سامنے گھر کے دروازے پر عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکر یہ گفتگوسن رہے ہیں ،ماں نے کہا کونسا امیر المؤمنین دیکھ رہا ہے ؟بیٹی نے جواب دیا کہ امیر المؤمنین تو نہیں دیکھ رہا لیکن امیر المؤمنین کا جو اللہ ہے وہ دیکھ رہا ہے ،عمر رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ یہ جو بیٹی ہے بڑی دیندار ہے ،سورج طلوع ہوا دن کو عمر رضی اللہ عنہ اس کےگھر میں آتے ہیں اور اس بیٹی کا رشتہ مانگتے ہیں ،اپنے بیٹے عاصم کے لئے، سوچ دیکھیں ،پتہ چل گیا، اس گھرمیں ایک دیندار بچی ہے،بس پہنچ گئے ،بچی کا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے لینے کے لئے،یہ سوچ عظیم سوچ ہے،بالآخر اس لڑکی کا رشتہ ہوگیا ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عاصم سے اور تاریخ میں یہ بات مذکور ہے کہ یہی لڑکی نانی ہے کن کی ؟عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ  کی،خلیفہ عمر بن عبد العزیز کی پتہ چلا کہ اگر رشتہ دین کی بنیاد پر کیا جاتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اولاد کو بھی دیندار بنادیتا ہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ اولاد میں خیر وبرکت ڈال دیتا ہے۔

توخلاصہ کلام میرے بھائیو! یہ ہے کہ ہم ہر زاویے سے اپنا یہ منہج اور نظریہ بنائیں کہ ہم مقدم رکھیں گے ،ہر زاویے سے دین کو ،توحید کو، اتباع سنت کو ،تقویٰ اورپرہیزگاری کو خصوصا بیٹیوں کے رشتوں کے حوالے سے،بیٹوں کےرشتے کے حوالے سے یہ ہماری بنیادی سوچ ہونی چاہئے تاکہ مستقبل کا جومعاشرہ ہے وہ دیندار بن جائے، اللہ تبارک وتعالیٰسے دعا ہے کہ قرآن وحدیث کی ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ،اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسرے لوگوں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔

وآخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین.

About شیخ ذوالفقارعلی طاہررحمہ اللہ

.سابق ناظم امتحانات جمعیت اہل حدیث سندھ اور ایڈیٹر دعوت اہل حدیث اردو مجلہ ٣ جنوری ٢٠١٨ کو ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے ‏اللهم اغفر له، وارحمه، وعافه، واعف عنه، وأكرم نزله، ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا، كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس، وأبدله داراً خيراً من داره، وأهلاً خيراً من أهله، وزوجاً خيراً من زوجه، وأدخله الجنة، وأعذه من عذاب القبر، ومن عذاب النار

Check Also

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *