Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » June Magazine » المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

فریق مخالف کا اعتراض:

مفتی احمد یار خان صاحب نے اس حدیث کو متعلق جو کچھ لکھا ہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث قبروں کومٹادواور گرادو،مشرکین کی قبروں کے متعلق ہے اور اس کی دلیل وہ حدیث پیش کی گئی ہےکہ آنحضرت ﷺ نے مشرکوں کی قبروں کواکھاڑنے کا حکم دیا اور لکھتے ہیں کہ شیخ ابن حجر مکی، فتح الباری جلد ۲ص:۲۶۰میں تحریر فرماتے ہیں(عربی عبارت کاترجمہ خود مفتی صاحب کی زبانی یہ ہے) کیا جاہلیت کےمشرکین کی قبریں اکھیڑ دی جائیں(باب) فرماتے ہیں یعنی ماسوا انبیاء اور ان کے متعبین کے،کیونکہ ان کی قبریں ڈھانے میں ان کی اہانت ہے۔(جاءالحق ،ص:۲۸۰) دوسرے ا س لئے کہ اس میں قبر کے ساتھ فوٹوکاکیوں ذکر ہے، مسلمان کی قبر پر فوٹوکہا ہوتا ہے ؟ معلوم ہوا کہ کفار کی قبریں مراد ہیں کیونکہ ان کی قبروں پر میت کافوٹو بھی ہوتا ہے ۔ تیسرے اس لئے کہ فرماتے ہیں کہ اونچی قبر کو زمین کے برابر کردو اورمسلمان کی قبر کے لئے سنت ہے کہ زمین سے ایک ہاتھ اونچی رہے۔(بلفظ جاءالحق ،ص:۲۸۰)
الجواب: یہ سب باتیں مفتی احمدیارخان صاحب کی جہالت اور علم سے بے خبری کا نتیجہ ہیں:اولاً: اس لئے کہ فتح الباری کا مصنف وہ ابن حجر مکی کو قراردیتے ہیں،حالانکہ فتح الباری حافظ ابن حجر عسقلانی کی تصنیف ہے جو ابن حجر مکی سے اقدم بھی ہیں اور اعلم بھی ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اس چودھویں صدی میں ایسے لوگ مفتی بن گئے ہیں جن کو فتح الباری جیسی کتاب کےمؤلف کا صحیح علم بھی نہیں۔
وثانیاً:مفتی صاحب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ نبش قبور الگ چیز ہےجس کے بار ے میں آنحضرت ﷺ نے مشرکین کی قبروں کو اکھاڑنے کا حکم دیا تھا۔اور مفتی صاحب کے قول کے مطابق شیخ ابن حجر مکی نے فتح الباری میں اس کی شرح کی ہے۔ اور تسویہ قبور اور چیز ہے، دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔وثالثا: مفتی صاحب کی یہ تحقیق بھی قابل داد ہے کہ قبر کے ساتھ فوٹو کا ذکر ہے اور مسلمان کی قبر پر فوٹو کہاں؟ سبحان اللہ تعالیٰ! گویامفتی صاحب نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ فوٹو اور قبر ایک ساتھ ہوں، حالانکہ قبروں کو ڈھانے کا حکم الگا ہے اور تصویروں کو مٹانے کا حکم جدا ہے، وہ جہاں بھی ہوں ان کو مٹانا چاہئے، چنانچہ نسائی شریف ۱؍۲۲۱میں اسی روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں:ولاصورۃ فی بیت،کسی گھر میں کوئی تصویر نہ چھوڑنا۔ مفتی صاحب ہی فرمائیں کیا آج کل مسلمانوں کے گھروں میں بھی فوٹو اور تصویریں ہوتی ہیں یانہیں؟ ورابعا:یہ بھی مفتی صاحب نے خوب کہی کہ اونچی قبر کو زمین کے برابرکردو۔ حالانکہ ہم علامہ ماروینیؒ کےحوالہ سے نقل کرچکے ہیں کہ زمین کے ساتھ برابر کرنا مرادنہیں ہے بلکہ معتاد قبروں کے ساتھ برابر کرنا مراد ہے۔ وخامسا:مفتی صاحب کی یہ تحقیق بھی قابل داد ہے کہ قبر زمین سے ایک ہاتھ اونچی رہے، نہ معلوم یہ کس حدیث کا ترجمہ ہے کہ قبر زمین سے ایک ہاتھ اونچی ہو، یہ بدایونی تحقیق بھی بہت ہی نرالی ہے، پہلے سنن الکبری اور عالمگیری کے حوالہ سے گزرچکا ہے کہ قبر صرف ایک شبر(بالشت) کے قریب اونچی ہونی چاہئے ،غنیۃ الطالبین، ص:۶۴۰، رکن الدین :۲۰۸، فتاوی رضویہ :۴؍۱۴،اورملفوظات حصہ سوم مکمل ۳۲۸میں بھی قبر کی اونچائی ایک بالشت لکھی ہے۔وسادسا : لیجئے ہم ایک صحیح روایت عرض کرتے ہیں جس سے مفتی احمدیارخاں اور اسی طرح ان حضرات کی بخوبی تردید ہوجاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ کی مذکورہ حدیث مشرکوں کی قبروں سے متعلق ہے چنانچہ مشہور ومعروف تابعی حضرت ثمامہ بن شفّی روایت کرتے ہیں :
قال کنا مع فضالۃ بن عبید بارض الروم برودس فتوفی صاحب لنا فامر فضالۃ بقبرہ فسوی ثم قال سمعت رسول اللہ ﷺ یامر بتسویتھا.
(مسلم :۱؍۳۱۲،ونسائی:۱؍۲۲۱، ابوداؤد:۲؍۱۰۵)
ترجمہ:ہم حضرت فضالہ بن عبید(المتوفی ۵۳ھ)کے ساتھ روم کی سرزمین رودس کے مقام پر تھے کہ ہمارا ایک ساتھی فوت ہوگیا ،حضرت فضالہ نے ان کی قبر کو(عام قبروں کے ساتھ) برابر کرنے کاحکم دیا، پھر ارشاد فرمایا کہ میں نے جناب نبی کریم ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے قبروں کو برابر کرنے کاحکم دیا ہے۔
یہی روایت اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ امام بیہقی نے یوں نقل کی ہے:
عن ثمامۃ بن شفی قال:خرجنا غزاۃ زمن معاویۃ الی ہذہ الدورب وعلینا فضالۃ بن عبید فتوفی ابن عم لی یقا ل لہ نافع بن عبد قال: فقام فضالۃ فی حفرۃ فلما دفناہ قال: خففوا عنہ التراب فان رسول اللہ ﷺ کان یامرنا بتسویۃ القبور.(سنن الکبری ۳؍۴۱۱)
یہ صحیح روایت اس بات کی روشن اورواضح دلیل ہے کہ تسویۂ قبور کاحکم مشرکوں کی قبروں کے ساتھ خاص نہ تھا ورنہ جناب رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابی اور فوج کے سپہ سالار ایک مسلمان کی قبر کے تسویہ کاحکم ہرگزنہ دیتے،اور اس پر دلیل یہ نہ پیش کرتے کہ میں نے خود اپنے کانوں سے یہ مسئلہ جناب نبی کریم ﷺ سے سنا ہے، حضرات صحابہ کرام کا دور تھا اورسیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ (المتوفی:۶۰ھ) کی حکومت تھی، کسی نے بھی یہ نہ کہا کہ حضرت فضالہ رضی اللہ عنہ آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں ،تسویۃ قبور کا حکم تو مشرکوں کی قبروں کے متعلق ہے؟
الغرض حضرات صحابہ کرام سے بلانکیر یہ امرثابت ہوا کہ ان کے نزدیک بھی یہ حکم عام تھا، مشرکوں کی قبروں سے اس کی تخصیص کی ہرگز کوئی وجہ ان کے نزدیک نہ تھی۔
باقی عام قبوں کو اور قبروں پر عمارات کوآنحضرت ﷺ کے روضۂ مبارک پر قیاس کرنا درست نہیں ہے اس لئے کہ جب آنحضرت ﷺ کی وفات ہوئی تو :
فقال ناس یدفن عند المنبروقال:اخرون یدفن بالبقیع فجاء ابوبکر الصدیق فقال:سمعت رسول اللہ ﷺ یقول:مادفن نبی قط الافی مکانہ الذی توفی فیہ فحفر لہ فیہ.
(موطا امام مالک ،ص:۸۰ وشمائل ترمذی،ص:۲۸)
بعض لوگوں نے کہا کہ آ پ کو منبر کے پاس دفن کیاجائے اور بعض دوسروںنے کہا کہ آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیا جائے، اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اورانہوں نے فرمایا کہ میں نے جناب نبی کریم ﷺ سے سنا ہے کہ نبی صرف اسی جگہ دفن کیا جاتا جس میںان کی وفات ہوتی ہے سو اسی جگہ آپ کو قبر کھودی گئی۔
چونکہ آنحضرت ﷺ کی وفات حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں ہوئی تھی، لہذااس حدیث کی رو سے آپ کو وہاں ہی دفن کیا گیا، باقی حضرت ابوبکر اور حضر ت عمر کو بالتبع وہاں دفن ہونے کا شرف نصیب ہوا، اگر وہ اس جگہ سے باہر کہیں دفن ہوتے تو ہر گز ان کی قبروں پرحضرات صحابہ کرام عمارت تعمیر نہ کرتے،جیسے حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر ہزاروں کی تعداد میں حضرات صحابہ کرام تھے مگر کسی کی قبر پر نہ تو گنبد بنائے گئے اور نہ عمارتیں تعمیر ہوئیں، کئی صدیوں کے بعد ترکوں نے اپنے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے پیش نظر متعدد قبروں پر گنبد تعمیر کیے، مگر ان کا یہ فعل شرعاً کوئی حجت نہیں ہے،کیونکہ پہلے صحیح اور صریح روایت گزر چکی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس سے منع کیا ہے جوکام آپ نے منع کیا ہو وہ کسی کے کرنےسے جائز نہیں ہوجاتا۔ الغرض یوں نہیں ہوا کہ آنحضرت ﷺکی قبر مبارک پہلے ہو اور اس پر عمارت بعد کوتعمیر کی گئی ہو،بلکہ چونکہ آپ کی وفات ہی اس حجرہ میں ہوئی تھی اس لئے اس سابق حدیث کے پیش نظر آپ کو وہاں ہی دفن کیا گیا،پھر حسب تحقیق شاہ عبدالحق صاحب محدث دھلوی وغیرہ ایک خاص المناک واقعہ پیش آیا جس کے تحت ۵۵۷ھ میں سلطان نور الدین شہید محمود بن زنگی نے آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک کے اردگرد نہایت گہری دیوار میں سیسہ اور رانگ گلاکر اس کوبھر دیا اور مضبوط دیوار قائم کی۔(دیکھئے جذب القلوب الی دیار المحبوب ،ص:۸۶)اور پھر ۶۷۸ھ میں سلطان قلاؤن صالحی نے یہ گنبد سبز جو اب تک موجود ہے ،بنوایا، مفتی احمد یارخان صاحب کو اس کا اقرار ہے۔ (دیکھئے جاءالحق ،ص:۲۷)
نوٹ ضروری:قبروں پر قبوں اور گنبدوں کاگرانا صحیح احادیث اور اقوال حضرات فقہاء کرام سے ثابت ہے مگر یہ بات اچھی طرح ملحوظ خاطر رہے کہ یہ کام سلطانِ اسلام اور اسلامی حکومت کا ہے انفرادی طور پر افراد کا یہ کام نہیں ہے، اس لئے عوام کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی ہر گز گنجائش نہیں ہے۔(راہ سنت ،ص:۱۸۰تا ۱۹۲)
تنبیہ: بلاشبہ نبی کریم ﷺ حدیث مذکور کی بناء پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں مدفون ہوئے، لیکن اس حجرہ پر کوئی قبہ نہ تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور تابعین کے دور میں اس پر کوئی قبہ نہ تھا،یہ قبہ بہت بعد میں تعمیرہوا اس کی تفصیل بریلویہ کے ’’امیر اہلسنت‘‘محمد الیاس قادری صاحب بانیٔ دعوت اسلامی کی کتاب سے ملاحظہ کیجئے لکھتے ہیں:
سرکار مدینہ ﷺ کے روضہ انور پر سب سے پہلا گنبد شریف 628ھ -1269ءمیں تعمیر ہوا اور اس پر زرد رنگ کروایا گیا اور وہ پہلا گنبد کہلایا۔ (فیضان رمضان ،ص:۱۸۱مطبوعہ المکتبہ المدینہ ،کراچی)
بات واضح ہے کہ وفات کے چھ سو سال بعد تک حجرہ مبارکہ پر کوئی گنبد نہیں تھا ،سب سے پہلے ساتویں ہجری میں یہ کام ہوا، پھرسرفراز خان صفدر صاحب نے مفتی احمدیارخان بریلوی کے حوالہ سے گنبد کی ابتداء 978ھ بتلائی ہے۔
سرفراز صاحب نے نور الدین زنگی کاجومعاملہ ذکر کیا وہ بھی مستند ذرائع سے ثابت نہیں ہے۔
قارئین کرام! سرفراز صاحب کی اس طویل مدلل بحث سے بخوبی سمجھ چکے ہیںکہ قبروں پر عمارتیں بنانے سے،انہیں پختہ کرنے سے کن کن ہستیوں نے روکا اور ان احادیث کے خلاف بنی غیر شرعی اونچی قبریں برابرکرنے اوران پربنی عمارتیں اور قبوں کو گرادینے کا حکم کس نے دیا؟جی ہاں
1۔ خود نبی کریم ﷺ نے۔
2۔ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے۔
3۔ امام شافعی اور ان کےد ور میں مکہ میں موجود ائمہ نے۔
4۔ امام نووی نے۔
5۔ علامہ ابن حجر مکی ہیتمی نے۔
6۔ ملا علی قاری حنفی نے۔
7۔ سید محمد آلوسی الحنفی صاحب تفسیر روح المعانی نے۔
8۔ امام ابن تیمیہ نے۔
9۔ امام ابن القیم نے۔
10۔ سرفراز خان صفدرصاحب نے بھی ان کاکلام نقل کرکے مخالفت نہیں کی بلکہ مخالفین کے اعتراضات کے جوابات نقل کرکے ان کا بودھاپن واضح کیا۔
گھمن صاحب جواب دیں کیا یہ سب گمراہ کن عقیدہ کےحامل تھے؟ نعوذباللہ خوب دفاع کی عقائدِ دیوبند کی کہ اپنے اکابرین ہی گمراہ ثابت کربیٹھے۔ المختصر کہ الروضۃ الندیہ میں علامہ صدیق حسن خان اور ’’عرف الجاری‘‘ میں بھی کم وبیش یہی احادیث وآثار منقول ہیں ،اگر ان پر گمراہی کا فتوی لگانا ہے توصفائی اپنے گھر سے شروع کیجئے۔ ’’راہ سنت‘‘ کی تردید لکھ کر ان پر گمراہی کا فتویٰ لگائیں صرف’’گمراہ کن‘‘ کا عنوان دے دینے سے کچھ نہیں ہوتا، اس کے ’’گمراہی ‘‘ہونے کا ثبوت بھی دیں اور دلائل سے واضح کریں کہ یہ گمراہی کیوں ہے؟
(جاری ہے)

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *