Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » June Magazine » تکلف کے نقصانات

تکلف کے نقصانات

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم (حفظہ اللہ تعالی)  نے مسجد حرام میں 21 شعبان 1440 کا خطبہ ” تکلف کے نقصانات” کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ کامیاب انسان  کی علامات ہے کہ جو مل جائے  اس پر راضی  رہتا ، قناعت  اور سادگی اختیار کرتا ، اور روادار ہوتا ہے۔ اس کر برعکس جو شخص حقیقت سے ہٹ کر بناوٹ کا سہارا لیتا اور تکلف کرتا ہے  تو اس کی علامات یہ ہیں کہ ، اپنے سے بڑے کے ساتھ لڑتا، ہے اور جو نہ  مل سکے اسے پا لینے کا دعوی کرتا  ہے ، نیز ایسی باتیں کہتا ہے جو جانتا ہی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تکلف  اور بناوٹ کے بغیر زندگی گزارنے والے کی زندگی خوبصورت ہوتی ہے، اور یہ کہ تکلف  سے دوری قناعت، تواضع اور کامیابی کا سبب ہے۔ جبکہ افسوس کی بات یہ کہ اب لوگوں پر بہت سی سماجی عادات میں بھی  تکلف کا راج ہے، چنانچہ کتنے ہی رسم و رواج کی وجہ سے انسان قرضوں اور ادھار کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ جس  طرح تکلف لوگوں کی رسم و رواج میں مذموم ہے اسی طرح عبادات میں بالاولی مذموم ہے۔

پہلا خطبہ!

بےشمار تعریفات اللہ تعالی کے لیے ہیں، جس نے اپنی اطاعت کا حکم دیا اور نا فرمانی سے منع کیا، اسی کے لئے حمد ہے یہاں تک کہ وہ راضی ہو، اس کی رضا کے بعد بھی، اور ہر حال میں اسی کی حمد ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ آپ ﷺ نماز پڑھنے ،قیام اور حج بیت اللہ کرنے ، اور روزے رکھنے والوں میں اعلی ترین ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ کو دین حنیف کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اللہ تعالی کے اس پیغام کو کما حقہ پہنچا کر لوگوں پر حجت قائم کر دی، آپ ﷺ خوشخبری دینے والے ، ڈرانے والے ، اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والے اور روشن چراغ ہیں۔

اللہ تعالی آپ پر ، آپ کے پاکیزہ اہل بیت، امہات المؤمنین آپ کی بیویوں، اور اچھے طریقے سے آپ کی پیروی کرنے والوں پر قیامت تک ڈھیروں رحمتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

بے شک بہترین گفتگو اللہ کی کتاب قرآن ہے ، اور بہترین طریقہ نبی ﷺ کا طریقہ ہے، اور بدترین امور دین میں ایجاد کردہ نئے کام ہیں ، دین میں ہر نیا کام بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ آپ سب سامعین ظاہری اور باطنی طور پر ، ناراضی اور رضا مندی ہر حالت میں تقوی اختیار کریں۔

{فَاتَّقُوا اللَّهَ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}

[المائدة: 100]

پس تقوی الہی اختیار کرو ،اے عقلوں والو! تاکہ تم فلاح پاؤ۔

اللہ کے بندو!

بے شک کامیاب انسان وہ ہے جسے جو مل جائے اس پر راضی رہے اور قناعت اختیار کرے، وہ لوگوں کے سامنے اپنی حقیقت رکھتا ہے اس میں کسی قسم کے تکلف یا بناوٹ کی آمیزش نہیں ہوتی ،وہ لوگوں سے بھی پہلے اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے۔

اس کی امتیازی علامت: سادگی اور رواداری ہوتی ہے، وہ غیر دستیاب چیز کے لئے تکلف نہیں کرتا جبکہ دستیاب چیز پر کنجوسی نہیں کرتا۔

وہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کی اصلی صورت میں اسے دیکھیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ لوگوں کو ان کی اصل صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔

وہ اتنا کند ذہن نہیں ہوتا کہ بناوٹی ذہانت کا سہارا لے، نہ ہی اتنا کنجوس کہ تکلف سے سخی بننا پڑے، نہ ہی اتنا غریب کہ مالدار بننے کا ڈھونگ رچائے، وہ تو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاتا ہے، اور جو سامنے آ ئے کھا لیتا ہے۔

اس لئے کہ تکلف تو ڈھونگ رچانے اور حقیقت کے برعکس اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا نام ہے۔

جو اپنی ضرورت پوری ہونے کے باوجود بھی مانگتا پھرے تو پوری دنیا کی دولت بھی اس کی ہوس نہیں بجھا سکتی۔

ابن منذر (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں: نمود و نمائش میں مبتلا شخص کی تین علامتیں ہیں۔

اپنے سے بڑے کے ساتھ لڑتا ہے۔

جو نہ مل سکے اسے پا لینے کا دعوی کرتا ہے۔

اور ایسی باتیں کہتا ہے جو جانتا ہی نہیں۔

اللہ کے بندو!

لفظ تکلف بدیہی طور پر سامع کو احساس دلاتا ہے کہ یہ معمول سے ہٹنے کو کہتے ہیں، یہ ناممکن ا لحصول یا مشقت طلب چیز کے لئے مبالغہ آرائی کا نام ہے، تکلف ایسے دعوے کو کہتے ہیں کہ جس کا انسان اہل نہ ہو ، یا جو اس کی استطاعت میں نہ ہو۔ اور یہ چیز نبوی آداب اور میانہ روی سے بغاوت ہے؛ کیونکہ نبی ﷺ سب سے بہترین شخصیت کے مالک تھے، آپ ﷺ سب سے زیادہ جو د و سخا اور بہادری والے تھے اس کے باوجود آپ ﷺ کبھی تکلف نہ کرتے اور نہ ہی کبھی نمود و نمائش میں مبتلا ہوئے؛ یہاں تک کہ آپ ﷺ کی دعوت و تبلیغ میں بھی تصنع نہ تھا ، تو آپ کے اخلاق و عادات میں تکلف کیسے آ سکتا تھا!

 آپ ﷺ کے بارے میں تو اللہ نے فرمایا:

{قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ } [ص: 86]

کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں سے ہوں۔

یعنی ڈھونگ رچانے والوں میں سے نہیں ہو جو ایسی چیزوں کا دعوی کرتے ہیں جن کے وہ اہل ہی نہیں ہوتے۔

آپ ﷺ کو جو سب اعلی ترین تعلیم دے کر بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا وہ یہ تھی کہ آپ لوگوں کو بتلا دیں کہ بےشک اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا۔ چنانچہ انسان جس کی طاقت نہیں رکھتے انہیں اس کا حکم ہی نہیں دیا گیا، بلکہ یہ تعلیم تو سراپا ہدیہ رحمت اور عطا کردہ نعمت ہے ۔

{ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ}

[الأعراف: 157]

اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا اور ان پر نا پاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان سے ان کا بوجھ اور وہ طوق اتارتا ہے جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔

تکلف جس چیز میں بھی ہو گا اسے بد نما بنا دے گا اور جس چیز سے ختم ہو جائے تو وہ خوش نما بن جاتی ہے۔

 بناوٹ اور تکلف کے بغیر حقیقی زندگی گزارنے والے کی زندگی خوبصورت ہوتی ہے؛ کیونکہ اسے اپنی اصلیت میں ہی خوش و خرم اور خوشحال زندگی گزارنے پر یقین ہے۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ بناوٹ اور تکلف سے منصب یا زندگی کسی چیز میں اضافہ نہیں ہوتا۔

اگر تکلف اسراف ، دکھلاوا، اور ناکامی کا ذریعہ ہے تو پھر تکلف سے دوری قناعت ، تواضع، اور کامیابی کا سبب ہے۔

اپنے رب کے سامنے تواضع ، اور اپنے آپ پر اعتماد انسان کو ایسا روپ دھارنے ہی نہیں دیتے جن کا وہ اہل نہیں ، نیز اسے غیر دستیاب چیز کے لئے تکلف نہیں کرنے دیتے ہیں جبکہ دستیاب چیز پر بخیلی سے روکتے ہیں۔

ولا تلبس لباسا لست منه

فلن ترقى بهنٍ ليس هنك

ولا تزعم دراية كل فنٍ

فلن تحزى بفنٍ ليس فنك

فان رمت التكلف تهت فيه

وخبت اذا اضعت به مكنك

ایسا لباس نہ پہن جو تیرا نہیں، تو ہرگز اس چیز سے بلند نہیں ہو سکتے جو تیری نہیں۔

تو ہر فن میں مہارت کا دعوی نہ کر، تو وہ فن حاصل نہیں کر سکتا جو تمہارے لیے نہیں۔

اگر تو تکلف کرے گا تو اس میں سر گرداں رہے گا، اور ناکام ہوئے گا جب اس پر اپنی طاقت ضائع کرے گا۔

اور اللہ کے بندو! اس سب کا یہ مطلب بناوٹی سادگی اور تواضع کی ترغیب نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بھی مذموم ہے، جیسے کہ سیدنا انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں : ہم عمر (رضی اللہ عنہ) کے پاس تھے تو انہوں نے کہا: ہمیں تکلف سے منع کیا گیا۔ اسے امام بخاری نے روایت کیا۔

اللہ کے بندو ! بے تکلفی اور سادگی ، معاشرے میں استقرار، ہم آہنگی کا سبب ہے۔ ان سے رضامندی اور قناعت پسندی پر برسنے والا کوڑا بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

اور بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگوں کی بہت سی سماجی عادات پر بھی تکلف کی مختلف شکلوں کا راج ہے، جس کی بدولت معاشرتی رسم و رواج بھی عقلی اور منطقی دائرے سے باہر نکل جاتے ہیں ؛ صرف اس لیے کہ لوگ کیا کہیں گے؟! یا تکلف سے شیخی بگھارنا مقصود ہوتا ہے یا دوسروں کی توجہ پانا ہدف ہوتا ہے، اسی وجہ سے سخاوت میں بھی تکلف ، خوشی کی تقریبات میں بھی تکلف، بلکہ اب تو غمی کے موقع پر تعزیت میں بھی تکلف در آیا ہے!

اور کتنے ہی رسم و رواج ایسے ہیں جن کی وجہ سے لوگ قرضوں اور ادھار کے بوجھ تلے دب گئے، خاندان بٹ گئے ، اور مال ، جان اور اولاد میں برکت اٹھ گئی ، اور کتنے قرابت دار ہیں جن کو تکلف نے دور کر دیا۔

اور کتنے سخاوت کرنے والے ہیں جن کو تکلف نے فقیر بنا دیا۔ اور کتنے سفید پوش لوگوں کا پردہ تکلف نے چاک کر دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام سخاوت پر ابھارتا ہے لیکن ساتھ ساتھ تکلف سے بھی منع کرتا ہے۔ اسلام خوبصورتی کو پسند کرتا ہے لیکن تصنع کو ناپسند کرتا ہے۔ چنانچہ باشعور مسلمان نہ تو خود تکلف کرتا اور نہ دوسروں کو تکلف میں ڈالتا ہے، تکلف اور تصنع دونوں قناعت پسندی اور رضا مندی کے دشمن ہیں۔

تکلف کرنے والا اس وقت تک آرام کا مزہ نہیں چکھ سکتا جب تک کہ تکلف چھوڑ نہ دے۔ اور تکلف اس وقت تک نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ قناعت نہ اپنا لے۔

قناعت نفس کو اس بلندی تک پہنچاتی ہے جہاں تک تکلف کی رسائی ہی نہیں!

هي القناعة فالزمها تكن ملكا

لو لم يكن فيها الا راحة البدن

یہ قناعت ہی ہے اسے اپنا لو تو بادشاہ بن جاؤ گے، چاہے اس میں آپ کو راحت بدن کے علاوہ کچھ بھی نہ ملے۔

اللہ کے بندو! حاصل کلام یہ ہے:

سادگی؛ تکلف اور لا پرواہی کے درمیان ہوتی ہے۔ تکلف کرنے والے نقاب پوشوں کی طرح ہیں اور نقاب ان کہ چہروں پر ہمیشہ لگے نہیں رہیں گے ؛کیونکہ ان کی جعل سازی آخر کار بے نقاب ہو ہی جاتی ہے!

جس کا یہ حال ہو وہ کیسے اپنے آپ پر اعتماد کر سکتا ہے، اور بلکہ دوسرے لوگ اس پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں!؟

ایسے لوگ تکلف کا سہارا صرف اس لئے لیتے ہیں کہ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں ، وہ اپنے آپ پر نظر رکھنے کی بجائے لوگوں پر زیادہ نظر رکھتے ہیں، انہوں نے کبھی اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو استعمال نہیں کیا ہوتا، ان کی نظریں دوسروں کی صلاحیتوں پر قبضہ جمانے پر ہوتی ہیں۔

اگر ہر کوئی اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں پر ہی زندگی گزارے تو انہیں اپنی عادات کی بنیاد بناوٹ کے اصولوں پر مبنی تباہ کن گھاٹی کے کنارے رکھنے کی ضرورت نہیں ہو گی ۔

جب تکلف لوگوں کی اخلاقیات اور رسم و رواج میں مذموم ہے تو عبادات میں بالاولی مذموم ہے۔

ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَيَّ، فَأَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ ؛ أَتَشَبَّثُ بِهِ، قَالَ : ” لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ “.

اللہ کے رسول! اسلام کے احکام و قوانین تو میرے لیے بہت زیادہ ہو رہے ہیں، کچھ مختصر سی چیزیں مجھے بتا دیں جن پر میں (مضبوطی) سے جما رہوں، آپ نے فرمایا: ”تمہاری زبان ہر وقت اللہ کی یاد اور ذکر سے تر رہے“ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

اللہ آپ کی حفاظت فرمائے ، آپ دیکھیں نبی ﷺ نے اس شخص کو اس کی حالت اور طاقت کے مطابق عمل کی وصیت فرمائی۔ آپ ﷺ نے اسے ایسے عمل میں تکلف کا حکم نہیں دیا جس کی اس میں طاقت اور نہ قدرت ہو۔ وہ شخص بہت اچھا کرتا ہے جو اپنی صلاحیتوں کے مطابق چلتا ہے۔

أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، قَالَ : أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنِّي أَقُولُ : وَاللَّهِ لَأَصُومَنَّ النَّهَارَ ، وَلَأَقُومَنَّ اللَّيْلَ مَا عِشْتُ ، فَقُلْتُ لَهُ : قَدْ قُلْتُهُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي ، قَالَ : فَإِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ ، فَصُمْ وَأَفْطِرْ ، وَقُمْ وَنَمْ ، وَصُمْ مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ، فَإِنَّ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا ، وَذَلِكَ مِثْلُ صِيَامِ الدَّهْرِ ، قُلْتُ : إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ ، قَالَ : فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمَيْنِ ، قُلْتُ : إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ ، قَالَ : فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا ، فَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ ، فَقُلْتُ : إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ .فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ ، يَقُولُ بَعْدَ مَا كَبِرَ : لَأَنْ أَكُونَ قَبِلْتُ الثَّلَاثَةَ الْأَيَّامَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَهْلِي وَمَالِي.

عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ تک میری یہ بات پہنچائی گئی کہ ”اللہ کی قسم! زندگی بھر میں دن میں روزے اور رات میں عبادت کروں گا“ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی، میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں، ہاں میں نے یہ کہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا لیکن تیرے اندر اس کی طاقت نہیں، اس لیے روزہ بھی رکھ اور بے روزہ بھی رہ۔ عبادت بھی کر لیکن آرام بھی کر، اور مہینے میں تین دن کے روزے رکھو۔ نیکیوں کا بدلہ دس گنا ملتا ہے، اس طرح یہ ساری عمر کے روزے ہو جائیں گے، میں نے کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر ایک دن روزہ رکھو اور دو دن نہ رکھو۔ میں نے پھر کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھو ؛ داؤد (علیہ السلام) کے روزے ایسے ہی تھے۔ اور یہی روزوں کا افضل ترین طریقہ ہے۔ میں نے اب بھی وہی کہا کہ مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے لیکن اس مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے افضل کوئی روزہ نہیں ہے۔ پھر جب عبداللہ (رضی اللہ عنہ) بعد میں ضعیف ہو گئے تو کہا کرتے تھے کہ: کاش میں نے رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی تین دن والی رخصت مان لی ہوتی تو یہ مجھے اپنے اہل اور مال سے زیادہ محبوب تھا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

اللہ تعالی کا سچا فرمان ہے:

{يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا} [النساء: 28]

اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (بوجھ) ہلکا کرے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔

اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن و سنت میں موجود آیات، ذکر اور حکمت میں برکت دے ، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔ اپنے لئے ، آپ سب کے لئے اور تمام مسلمان مرد و عورتوں کے لئے ہر گناہ کی معافی مانگتا ہوں ، آپ بھی اسی سے معافی مانگیں اور توبہ کریں ۔ بے شک میرا رب بہت معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔

 دوسرا خطبہ!

اللہ کے احسان پر اس کی حمد اور توفیق دینے پر اسی کے لئے شکر ہے۔ درود و سلام نازل ہوں اس کی رضا کی طرف دعوت دینے والے رسول ﷺ پر۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو! تقوی اختیار کرو اور جان لو، مذموم ترین تکلف ؛عقائد میں تکلف ہے، یہ آدمی کو سیدھے راستے سے ہٹا دیتا ہے، اس کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں: انسان کو سلف صالحین کے عقیدے سے پھیر دے اور نتیجتاً الحاد اور دیں سے کھلواڑ میں ملوث ہو جائے یا غلو اور تشدد میں مبتلا ہو جائے ، یہ تکلف کی سب سے خطرناک قسم ہے، کیونکہ اس کا تعلق نظریات اور عقائد سے ہے۔ ایسا تکلف ان نظریات کو ایجاد کرنے سے پیدا ہوتا ہے جن کے بارے میں اللہ کا حکم نہیں ہے۔ اسی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے نبی ﷺ نے اس میں مبتلا لوگوں کو ہلاکت سے متصف کیا اور فرمایا: هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ

تکلف سے بحث و تکرار والے ہلاک ہو گئے۔

رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان میں بد دعا اور انجام دونوں کا احتمال ہے، اور دونوں ہی خطرناک ہیں۔

غلو اور تشدد کی خطرناک اقسام میں وہ غلو ہے ، جو انسان کو تکفیر، اور قتل و غارت کو حلال سمجھنے کے راستے پر لے جائے، ایسا شخص تمام مذاہب کے ہاں متفقہ پانچ ضروریات میں سے ایک کو پامال کر دیتا ہے اور وہ ہے جان کی حفاظت ۔

کیونکہ غلو اور تشدد لوگوں کو بغیر سوچے سمجھے تکفیر کی طرف لے جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ بےگناہوں کا قتل جائز سمجھتے ہیں، دہشت، تباہی اور فساد پھیلاتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالی فساد کو پسند نہیں فرماتا۔

کیا یہ اور ان جیسے لوگ نہیں جانتے کہ جو گڑھا وہ کھود رہے ہیں، اس میں وہ ہی سب سے پہلے گریں گے!

ان میں سے جس گروہ نے بھی سر اٹھایا اسے اللہ نے مٹا دیا۔

چھوٹے بڑے ، بینا اور نابینا سب ان سے نفرت کرتے ہیں۔

تکفیر کر کے انہوں نے اپنی محنت پر پانی پھیر دیا، اور اپنی مضبوط رسی کے تار پور بکھیر دئیے!

ہم ہدایت کے بعد گمراہی اور طاقت کے بعد کمزوری سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((یَخْرُجُ مِنْ اُمَّتِیْ قَوْمٌ یُسِیْئُوْنَ الْاَعْمَالَ یَقْرَؤُوْنَ الْقُرْآنَ لَایُجَاوِزُ حَنَاجِرَھُمْ یَحْقِرُ اَحَدُکُمْ عَمَلَہُ مَعَ عَمَلِہِمْ یَقْتُلُوْنَ اَھْلَ الْاِسْلَامِ فَاِذَا خَرَجُوْا فَاقْتُلُوْھُمْ فَطُوْبٰی لِمَنْ قَتَلَہُمْ وَطُوْبٰی لِمَنْ قَتَلُوْہُ، کُلَّمَا طَلَعَ مِنْہُمْ قَرْنٌ قَطَعَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ کُلَّمَا طَلَعَ مِنْہُمْ قَرْنٌ قَطَعَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ. کُلَّمَا طَلَعَ مِنْہُمْ قَرْنٌ قَطَعَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ فَرَدَّدَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِشْرِیْنَ مَرَّۃً اَوْ اَکْثَرَ وَاَنَا اَسْمَعُ۔

سیدنا عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ)  سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : میری امت میں ایک ایسی بد عمل قوم پیدا ہو گی، کہ وہ قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے آگے نہیں جائے گا۔ تم ان کے مقابلے میں اپنے اعمال کم تر سمجھو گے، وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ جب ایسے لوگ نمودار ہوں تو تم انہیں قتل کر دینا، ان کو قتل کرنے والے کے لیے بھی بشارت ہے اور ان کے ہاتھوں قتل ہو جانے والے کے لیے بھی خوشخبری ہے، جب ان کی نسل نمودار ہو گی تو اللہ تعالی اسے نیست و نابود کر دے گا۔ جب ان کی نسل نمودار ہو گی تو اللہ تعالیٰ اسے نیست و نابود کر دے گا۔ جب ان کی نسل نمودار ہو گی تو اللہ تعالیٰ اسے نیست و نابود کر دے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس بات کو بیس یا اس سے بھی زائد مرتبہ دہرایا اور میں سنتا رہا۔ اسے امام احمد نے روایت کیا۔

اللہ کی قسم دہشت گردی کتنی قبیح ہے ، یہ دہشت گرد سے شروع ہوتی اور اس کو ختم کر دیتی ہے!

اس نے اللہ کی شریعت ، معاشرے کے امن ، اور اتحاد امت کو پامال کیا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا} [النساء: 115]

جو شخص راہ راست کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ  اختیار کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر کا خود اس نے رخ کر لیا ہے، پھر ہم اسے جہنم میں جھونک دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔

یہ اور اس طرح کے لوگوں کے لئے بری سزا ہے یہ کہ کمروں کو توڑ کر رکھ دے گی، یہ سزا ہر اس شخص کے لئے عبرت ہے جس کا دل اسے مومنوں میں دہشت پھیلانے اور ان کا خون بہانے پر ابھارتا ہے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا:

{ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ0 إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ }(المائدۃ:۳۳،۳۴)

جو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کردیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں۔ یا انہیں جلا وطن کردیا جائے،یہ تو ہوئی انکی دنیاوی ذلت اور خواری، اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے۔ ہاں جو لوگ اس سے پہلے توبہ کرلیں کہ تم ان پر قابو پالو تو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بخشش اور رحم و کرم والا ہے۔

About ادارہ

Check Also

جمعیت اہل حدیث سندھ کے زیرِ انتظام ماہانہ تبلیغی و اصلاحی دورہ جات

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *