Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » July Magazine » المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

گھمن:عقیدہ نمبر:2

مرزائیو ںکی تعزیت اور شادی کی دعوت وغیرہ میں جانا جائز ہے ملاحظہ فرمائیں: مشہور غیر مقلد مولانا امرتسری لکھتے ہیں:

’’مرزائیوںسے تعزیت کرنا،دعوت شادی قبول کرنا،رسمی سلام کرنا اور مسجد میں چندہ لینا جائز ہے ۔‘‘(فتاویٰ ثنائیہ ۱؍۴۳۳) (ص:۴۶)

جواب: گھمن صاحب کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے کئی ایک مقام پر یہ محسوس ہوا کہ جناب اس کتاب کولکھتے ہوئے اپنی عقل کو استراحت کے لئے تعطیلات پر بھیجےہوئے تھے ،اب یہی مقام دیکھ لیجئے جناب نے اہل حدیث کے’’ گمراہ کن عقائد‘‘کے عنوان سے دو باتیں پیش کی ہیں،عقیدہ نمبر 1کا حال تو آپ دیکھ چکے ہیں اب عقیدہ نمبر 2پر غور کیجئے اس میں عقیدہ والی کیا بات ہے؟ یہ تو سراسر برتاؤ کا معاملہ ہے، پھر گھمن صاحب نے کمال یہ دکھایا کہ فاتح قادیانیت مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ کا فتوی مکمل نقل بھی نہیںکیا بلکہ اپنے الفاظ میں لکھ دیا، پہلے مکمل فتویٰ ملاحظہ کیجئے ،لکھتے ہیں:

جواب: اس میں شک نہیں کہ مرزائی گروہ عربی اسلام سے بالکل الگ ہے ،ان کی روش سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرزا صاحب کے اقوال وافعال کو سند مانتےہیں بلکہ احادیث سے بھی مقدم سمجھتے ہیں یہ کہہ کر کہ وہ حکمِ عدل تھے ان کا فیصلہ ہر بات میں فیصل ہے، اس لئے ایسے گروہ کے ساتھ کوئی معاملہ بحیثیت مسلمان کے نہیں کرنا چاہئے ،تعزیت کرنا، دعوت شادی قبول کرنا، رسمی سلام کرنا، مسجد میںچندہ لینایہ مخصوص قوم مسلم سے نہیں ہیں کیونکہ غیر مسلموں سے بھی یہ برتاؤ کرنا جائز ہیںجیسے آنحضرت ﷺ یہود ونصاریٰ سے برتاؤ کرتے تھے۔ واللہ اعلم(فتاویٰ ثنائیہ ۱؍۳۷۵مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ)

اس فتوی سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مولانا ثناءاللہ امرتسری قادیانیوں کو اسلام سے خارج الگ گروہ ہی سمجھتے تھے، قادیانیوں کو مسلمان کی حیثیت دے کر ان کے ساتھ ایسے کسی تعلق سے منع کرتے تھے اس کے بعد انہوں نے صاف لفظوں میں لکھا:’’تعزیت، قبول دعوت ،رسمی سلام ،مسجد میں چندہ لینا صرف مسلم قوم کے ساتھ مخصوص نہیں غیرمسلموں سے بھی یہ برتاؤ کرنا جائز ہیں۔‘‘ مطلب غیر مسلم سمجھتے ہوئے کسی قادیانی کی دعوت قبول کرلی یا رسمی سلام (جیسے: آداب، صبح بخیر، شب بخیر وغیرہ ) کہہ دیا، اگر گھمن صاحب مکمل فتوی نقل کردیتے یااصل الفاظ تو دھوکہ دینا آسان نہ ہوتا۔

اکابر دیوبند اور غیرمسلم سے برتاؤ

اگر گھمن صاحب اور ان کے قبیل لوگوں کو اب بھی یہ فتویٰ سمجھ میں نہ آئے تو اکابر دیوبند کا کفار ومشرکین کے ساتھ ’’برتاؤ‘‘ کی چند مثالیں ملاحظہ کرلیجئے ،سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔

1۔عاشق الٰہی میرٹھی صاحب ’’خلیفہ خاص از گنگوہی‘‘ سرپرست مدرسہ مظاہر العلوم نے ’’دوآبہہ‘‘ نامی گاؤں والوں کے بارے میں لکھا:

’’اس گاؤں کے باشندوں کو بھی حضرت (گنگوہی)کے ساتھ اس درجہ انس تھا کہ عام وخاص مرد وزن مسلمان بلکہ ہندو تک گویا آپ کے عاشق تھے‘‘ (تذکرۃ الرشید ۲؍۳۸)

2۔اب اپنے ’’امام ربانی‘‘ گنگوہی صاحب کا ایک فتویٰ ملاحظہ کیجئے ،لکھا ہے:

’’سوال:ہندوتہوار ہولی یادیوالی میں اپنے استاد یا حاکم یانوکر کو کھلیں یا پوری یا اور کچھ کھانا بطور تحفہ بھیجتے ان چیزوں کا لینا اور کھانا استاد وحاکم ونوکر مسلمان کو درست ہے یانہیں؟

جواب: درست ہے۔(فتاویٰ رشیدیہ ،تالیفات رشیدیہ ،ص:۴۷۱)

گنگوہی صاحب ہندو تہوار ہولی دیوالی کی پوریوں کا تحفہ لینا اور کھانا مسلمان کے لئے جائز سمجھتے تھے گھمن جی بتائیں کہ یہ ’’گمراہ کن عقیدہ ‘‘ ہے یا نہیں؟

3.ایک اور فتوی ملاحظہ کیجئے ،لکھا ہے:

سوال: ہندو جو پیاؤپانی کی لگاتےہیں سودی روپیہ صرف کرکے مسلمانوں کو اس کا پانی پینا درست ہے یا نہیں؟

جواب: اس پیاؤسے پانی پینا مضائقہ نہیں۔ (فتاویٰ رشیدیہ، تالیفات رشیدیہ ،ص:۴۷۱)

4.مزید سنیئے دیوبندیہ کے ’’رئیس القلم‘‘حضرت مولانا سیدمناظر احسن گیلانی صاحب نے لکھا:

عہد قاسمی کی ان ہی قدیم رودادوں میں ’’دستور العمل چندہ‘‘ و’’ذکر آئین چندہ‘‘ کاعنوان قائم کرکے پہلی دفعہ اس دستور اور آئین کی بایں الفاظ اس زمانہ کی ہر روداد میں جو ملتی ہے یعنی ’’چندہ کی کوئی مقدار مقرر نہیں، اور نہ خصوصیت مذہب وملت‘‘

اسی کے ساتھ ان ہی رودادوں میں چندہ دینے والوں کی فہرست میں دیکھ لیجئے اسلامی ناموں کے پہلو بہ پہلو منشی تلسی رام، رام سہائے، منشی ہردواری لال، لالہ بیجھاتھ، پنڈت سری رام، منشی موتی لال، سیوارام سوار وغیرہ اسماء بھی ملتے چلے جاتے ہیں، سرسری نظر ڈال کر مثلا چند نام جو سامنے آگئے وہ چن لئے گئے ہیں۔‘‘ (سوانح قاسمی جلد ۲؍۳۱۷)

گھمن صاحب! غور کیجئے ’’عہد قاسمی‘‘ مطلب آپ کے ’الامام الکبیر‘‘ قاسم نانوتوی صاحب بانی دار العلوم دیوبند کے عہد میں ان کے دور میں ’’آئین ودستور چندہ‘‘ یہی تھا کہ چندہ دینے کے لئے ’’مذہب وملت‘‘ کی کوئی تخصیص نہیں، ہر مذہب وملت کا فرد دے سکتا ہے اور دار العلوم باقاعدہ ہندؤوں سے بھی چندہ لیتا رہا ہے ،گیلانی صاحب فرماتے ہیں:

5.عموما غیر مسلم افراد کے ان چندوں کی نوعیت وقتی چندے کی نظر نہیں آتی بلکہ دوامی چندے کی فہرست میں ان میں اکثر ناموں کوہم پاتے ہیں۔ (سوانح قاسمی ۲؍۳۱۷)

گھمن صاحب غور فرمائیں اور یہ بھی دیکھیں کہ صرف چندہ لیا ہی نہیں جاتا تھا بلکہ دار العلوم کی شوریٰ شکریہ بھی ادا کرتی رہی چنانچہ گیلانی صاحب لکھتے ہیں:

6. ۱۲۸۷ءکی روداد میں یہ لکھتے ہوئے کہ …آگے اسی کے بعد ہے کہ ’’بالخصوص منشی نول کشور صاحب مالک چھاپہ خانہ اعظم مقام لکھنؤ اس امر میں زیادہ تر قابل مشکوری ہیں کہ باوجود بعد مسافت بہت سی کتب کارآمد سے معاونت کی‘‘صرف اسی روداد میں نہیں بلکہ آگے کی رودادوں میں منشی نول کشور کی توجہ خاص کا اس سلسلہ میں بار بار تذکرہ کیا گیا ہے ،۱۲۸۹ء کی روداد میں ان کا اور ان کے عطیہ کا ذکر کرکے لکھا ہے کہ ارباب شورہ مدرسہ نہایت شکرگزار ہیں، جناب منشی نول کشور صاحب مالک مطبع اعظم لکھنؤ کے جنہوں نے مثل سابق کمال دریا دلی کو کام فرمایااور چند کتب مفید سے امداد مدرسہ میں ہمت فرمائی۔‘‘(سوانح قاسمی ۲؍۳۱۴)

7.دیوبندیہ کے’’حکیم الامت ‘‘اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی گفتگو میںکانپور کے ایک مولوی صاحب کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا:

یہ مولوی صاحب تھے بڑے جری نہ کسی انگریز سے ڈرے نہ ہندوستانی سے ایک مرتبہ یہی حضرت ایک انگریز لفٹنٹ گورنر کے پاس پہنچے اور جا کر کہا کیا کچھ تمہاری حکومت میں علماء کاحق نہیں رہا کیا یہ تمہاری رعایا میں نہیں ؟ اس نے جواب میں کہا کہ ضرور ہے فرمائیے کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ کہ روز گار چاہئے….اس انگریز نے خدمت گار کو اشارہ کیا کہ وہ فورا ایک کشتی میں پچاس لاکھ روپیہ رکھ لایا اس انگریز نے خود اپنے ہاتھ میں کشتی لے کر ان کے سامنے پیش کئے کہ یہ آپ کی نذر ہے انہوں نے کہا میں آپ کی نصیحت پر یہیں سے عمل شروع کرتا ہوں۔(ملفوظات حکیم الامت ۱؍۲۷۰،ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان)

انگریز تونصاریٰ تھے ایک نصرانی نے مسجد میں بیٹھ کر تعلیم وتعلم کے لئےمولوی صاحب کو پچاس لاکھ روپے دیئے۔

اندازہ لگائیے اس وقت یہ کتنی بڑی رقم تھی !!! مزید سنئے ،فرماتے ہیں:

8.ملفوظ نمبر 211۔۔۔۔بگھر ایک قصبہ ہےوہاں پر ایک جلسہ ہوا تھا علماء کے احترام کے لئے جلسہ گاہ کو سجایاگیا بیلوں پر کپڑا منڈھا گیا پنڈال بنایاگیا،بعض علماء دیوبند یہ حالت دیکھ کر وہاں سے واپس ہوگئے اتفاق سے اسی زمانہ میں مدرسہ دیوبند میں’’لاٹوس‘‘ صاحب لیفٹنٹ گورنر آئے تھے وہاں ان کے لئے اسی قسم کا تکلف کیا گیا تھا۔

(ملفوظات حکیم الامت ۱؍۱۹۴)

انگریز مہمان کے لئے پرتکلف انتظام وہ بھی دار العلوم دیوبند میں کرایا گیا۔

9.اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنے پیر امداد اللہ صاحب کا فرمان نقل کرتے ہوئے لکھا:’’ذکر وفات وحیات ومجددین حضرت سید احمد صاحبؒ کا ہوا فرمایا کہ…امر سنگھ نے بتعظیم واکرام عام مزار تیا رکیا۔(امداد المشتاق ،ص:۶۴ملفوظ نمبر:۷۲)

10.مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب نے لکھا:

مرزائیوں کےذبیحہ کاحکم….اگر یہ شخص خود مرزائی عقیدہ اختیار کرنے والاہے یعنی اس کے ماں باپ مرزائی نہ تھے تو یہ مرتد ہے اس کے ہاتھ کاذبیحہ درست نہیں، لیکن اگر اس کے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک مرزائی تھا تو یہ اہل کتاب کے حکم میں ہے اور اس کے ہاتھ کاذبیحہ درست ہے۔(کفایۃ المفتی ۱؍۳۲۲،مطبوع دار الاشاعت کراچی)

نسلی مرزائی کےہاتھ کاذبیحہ ایسے حلال ہے جیسے اہل کتاب کا ذبیحہ، اب ہمارے نزدیک تو یہ تمام عبارات’’برتاؤ‘‘ سے متعلق ہیں ان کے صحیح یا غلط ہونے پر تو بحث ہوسکتی ہے لیکن انہیں عقائد کا عنوان نہیں دیاجاسکتا ،لیکن دیوبندیوں کے’’متکلم اسلام‘‘ الیاس گھمن صاحب کے نزدیک یہ سب کچھ’’گمراہ کن عقائد‘‘ ہیں۔ اب انہیں چاہئے کہ ان دس عبارتوں کے مضامین کو اکابرین دیوبند کے دس گمراہ کن عقائد کے نام سے پیش کردیں چونکہ ان میں ہندو ،عیسائی اور مرزائی کے ساتھ تعلقات اور چندہ لینا ،ان کا کھانا پینا جائز قرار دیاگیا ہے۔

اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور یقینا نہیں کرتے تو واضح ہوجائے گا کہ گھمن صاحب کے لینے کے باٹ اور ہیں اور دینے کے اور! دوسروں کے حق میں جن باتوں کو’’گمراہ کن عقائد‘‘ کا نام دیتے ہیں اپنے اکابر کی ایسی ہی باتوں کو عین صحیح اور ہدایت سمجھتے ہیں!!!

(جاری ہے)

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *