Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » July Magazine » لاڑکانہ مناظرے کا حقیقت پسندانہ تجزیہ

لاڑکانہ مناظرے کا حقیقت پسندانہ تجزیہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

(نوٹ: یہ پوسٹ لکھنے  کی مجھے اس لیے ضرورت پڑی کہ کچھ تعصب پسند جھوٹے افراد اس مناظرہ کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لےرہے ہیں۔)

27 جون 2019 بروز جمعرات یہ مناظرہ سلفیہ مسجد لاڑکانہ میں ہوا ؛ جس  میں مسلک حق اہلحدیث کے علماء کو واضح فتح نصیب ہوئی والحمدللہ.

اہلحدیث کی طرف سے مناظر ؛ مناظر اسلام  شیخ الحدیث حافظ بلال اشرف اعظمی تھے اور معاون میں عاجز یعنی راقم الحروف اور فضیلۃ الشیخ  مولانا ابراہیم ربانی صاحب تھے۔ جبکہ دیوبندی مناظر مولانا علی شیر رحمانی صاحب تھے۔ موضوع یہ تھا کہ احناف ان مسائل میں بھی تقلید کرتے ہیں ہیں جن میں قرآن و حدیث کی صحیح اور صریح نصوص موجود ہیں اور وہ قرآن و حدیث  سے روگردانی کرتے ہیں کیوں کہ یہ عوام کو دھوکہ دیتے ہیں ہم ان مسائل میں تقلید کرتے ہیں جن میں قرآن و حدیث سے صریح دلیل نہ ہو حالانکہ انکے اصول کی کتب اس بات کا رد کرتی ہیں، علامہ کرخی( جو متقدمین و اکابرین احناف میں سے تھے۔ )نے دو ٹوک الفاظ میں یہ احناف کا  اصول بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر آیت جو ہمارے اصحاب ( آئمہ احناف کے) خلاف ہو تو اس کو سمجھا جائے کہ یہ آیت منسوخ ہے یا اسے ترجیح پر محمول کیا جائے گاتاہم بہتر یہ ہے کہ تطبیق کی صورت پیدا کر کے اس کی کوئی تاویل کر دی جائے ۔

اور حدیث کے بارے میں اصول بیان کیا کہ ہر وہ حدیث جو ہمارے اصحاب کےقول کے خلاف ہو اس حدیث کو منسو خ سمجھا جائے یایہ کہ حدیث اپنی کسی ہم مثل حدیث کے معارض ومخالف ہے تو پھر کسی دوسری دلیل کی طرف رجوع کیا جائے گا جس سے ہمارے اصحاب نے دلیل پکڑی ہے اگر نسخ کی دلیل مل گئی تو بہتر ہے ورنہ کسی دوسری دلیل کو اپنایا جائے گا۔ ( اصول کرخی ص 14 ملخصا )۔والعیاذباللہ۔ اسی وجہ سے انہوں نے کہا:”فلعنۃ ربنا اعداد رمل علی من رد قول ابی حنیفہ. ( در مختار ص 5 )

اس شخص پر اللہ تعالٰی کی ریت کے ذرات کے برابر لعنت ہو جس نے ابو حنیفہ کے قول کو رد کیا۔!!!! کیا یہاں ابوحنیفہ کو رسالت والا مقام نہیں دیا گیا؟؟

اس لیے کہ ان کے نزدیک  ہے(وجب علی مقلد ابی حنیفہ ان یعمل بہ ولا یجوزلہ العمل لقول غیرہ)

( معیارالحق ص 201)

ابو حنیفہ رحمہ اللہ  کے مقلد پر واجب ہے کہ وہ ابو حنیفہ کے قول پر عمل کرے اوراس کے لیے غیر کے قول پر عمل کرناجائز نہیں۔ اس کی توضیح ہمارے اس دور کے ایک بڑے بزرگ طائفہ دیوبندیہ حنفیہ کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں !

لکھتے ہیں کہ عامی ایسا نہیں ہوتا جو دلائل کو پرکھ سکے ایسے شخص کو اگر اتفاقا کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہراس کے امام کے مسلک خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام اورمجتہد کے مسلک پرعمل کرے اور حدیث کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا صحیح مطلب میں نہیں سمجھ سکا یا یہ کہ امام مجتہد کے پاس اس کے معارض کوئی قوی دلیل ہوگی۔

چند سطور کے بعد لکھتے ہیں : اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پا کر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے تو اس کا نتیجہ شدید افرا تفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

( تقلید کی شرعی حیثیت ص 87 اورمقلدین آئمہ کی عدالت میں ص 238 )

مباحثہ شروع ہونے کے  بعد مسلک اہل حدیث کے مناظر کی طرف  سے تین عبارتیں  پیش کی گئیں اور حنفی مناظر آخر تک ان کا جواب نہیں دے سکا ۔(اس کے لیے وڈیو ریکارڈنگ گواہ ہے ۔ )

اھلحدیث کی طرف سے پیش کردہ  پہلی عبارت :دیوبندیوں  کے شیخ الہند محمودالحسن صاحب تقریر ترمذی ص39 میں ایک مسئلہ  پر بحث کرتے ہیں جس مسئلہ میں احادیث احناف کے خلاف ہیں؛  محمودالحسن صاحب اس مسئلہ میں  کئی ایک جوابات دیتے ہیں  جو کہ احناف کی طرف سے پیش کیے جاتے  ہیں کہ ہم حدیث کو نہیں بلکہ کہ امام شافعی  کے فہم کو ٹھکراتے ہیں ہیں احناف کی ان تمام باتوں کو کو ذکر کرنے کے بعد  اقرار کرتے ہیں کہ اس مسئلہ میں نصوص بھی موجود ہیں (یعنی جو ہمارے مذھب کے خلاف ہیں) اور آخر میں فیصلہ سناتے  ہیں جو ان کی مجبوری اور اقرار پر واضح دلیل ہے چناچہ کہا:” الحق والانصاف ان الترجيح في هذه المسالۃ للشافعي ولكن نحن مقلدون يجب علينا تقليد امامنا ابي حنيفۃ” رحمه الله

ترجمہ: حق اور انصاف کی بات یہ ہےکہ اس مسئلہ  میں امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کو کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم تو مقلد ہیں ہم پر ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید ہی واجب ہے۔

با شعور عوام  سے گزارش ہے کہ اس عبارت کا ترجمہ کسی حنفی مولوی سے ہی پوچھ لیں اور یاد رہے کہ پورے مناظرے میں رحمانی صاحب نے اس عبارت کا ترجمہ نہیں کیا کیوں کہ اس کو کو پتا تھا یہ بات  ان کے موقف کے خلاف  ہے ۔چناچہ مولانا صاحب اس عبارت سے پہلے کی عبارات پڑھ رہا تھا اور کہا دیکھو محمودالحسن نے کہا کہ ہم حدیث  نہیں بلکہ شافعی کے قیاس کا انکار کرتے ہیں حالانکہ یہ بات ہے کہ محمود الحسن نے احناف کی طرف سے پیش کیے جانے والے  سارے دلائل ذکر کیے ہیں لیکن ان دلائل سے ان کو تسلی نہیں ہوئی اور آخر میں انصاف اور حق کہتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے جو کہ خلاصہ کلام ہے۔ مولانا جس سے بھاگ رہے تھےاور پھر حنفی مناظر کہنے لگا کہ محمود الحسن صاحب نے کہا ہے نصوص ہیں آپ وہ نصوص پیش کریں حالانکہ ہمارے شیخ  نے اپنے پہلے ہی ٹائم میں بخاری شریف سے حدیث پیش کی تھی جس کو آپ ویڈیو میں سن سکتے ہیں۔ ہمارے شیخ نے ان سے کہا یہاں آپ کے شیخ الھند کہہ رہے ہیں کہ نصوص ہیں،کیا وہ جھوٹ بول رہے ہیں ؟؟؟ اس پرمولانا لاجواب ہوگیا اور کہنے لگا کہ محمودالحسن سے غلطی ہو سکتی ہے ہمارے شیخ نے کہا آپ لکھ کر دے دیں کہ محمودالحسن سے غلطی ہوئی ہے تو اس سے مولوی بھاگنے لگا اور کہا کہ میں کہ رہا ہوں غلطی ہو سکتی ہےلکھنا ضروری نہیں بلآخرپیہم اصرار پر اس نے لکھ دیا کہ ان سے غلطی ہو سکتی ہےلیکن یہ نہیں مانا کہ یہاں پر غلطی ہوئی ہے۔

تاہم مذکورہ عبارت کے حوالے سے مولانا کےپاس کوئی جواب نہیں تھا پہلے جواب دیتے ہوئے کہا کہ محمودالحسن صاحب سے غلطی ہو سکتی ہے پھر کہا کہ یہ عبارت ان سے مشکوک ہے شاگرد کی اپنی ہو سکتی ہے ہمارے شیخ نے کہا کتاب میں لکھا ہے محمودالحسن  کے شاگرد کہتے ہیں قال شیخنا یعنی ہمارے استاد نے کہا: آپ سچے یا محمودالحسن کے شاگرد؟؟؟ دیوبندی مولانا اتنا برا پھنسا اور جواب دینے سے عاجز آگیا اور جان چھڑانے کے لئےکہنے لگا  یہ بات محمود الحسن نے لکھوائی نہیں صرف کہی تھی حالانکہ مولانا کو پتہ ہے یہ پوری کتاب محمود الحسن نے املاء کروائی ہے یعنی کہی ہے اور شاگرد نے لکھی ہے لیکن یہ بات بھی عجوبہ ہے !!!! غیور عوام سوچے کیا عالم کی کہی ہوئی بات حجت نہیں ہوتی؟؟؟؟ پھر مولانا کو چاہیے تھا کہ مناظرہ بھی تحریرا کرتے۔ جب یہ بات ٹھیک سےنہ بنی تو پھر وہی بات دہراتے کہنے لگا: یہ عبارت ان  سے مشکوک ہے ممکن ہے شاگرد نے اپنی طرف سے لکھ دی ہو اس بات کا جواب دیتے  ہوئے ہمارے شیخ نے کہا : ایک بات محمود الحسن سے ان کے شاگرد کہہ رہے ہیں ایک بات کئی سالوں بعد آپ کہ رہے ہیں محمودالحسن کا شاگرد سچا ہے یا آپ…. ؟؟؟؟ اس پر مولانا پھر لاجواب ہوگیااور بہت ٹائم گزرنے کے باوجود دائیں بائیں گھومتا رہا لیکن جواب دینےسے عاجز ہوگیا ۔۔۔الحمدللہ( جس کے لئے ویڈیو ریکارڈنگ  گواہ ہے۔ )اور انکا ہی ایک بندہ درمیان گفتگو کھڑا ہوگیا  اور دیوبندی مولاناسے کہنے لگا ۔۔۔ سائیں جواب دیں صبح سے ہم کو بٹھایا ہوا ہے۔۔۔اور وہ غصے میں باہر چلا گیا۔

اہل حدیث مناظر کی طرف سے سے پیش کردہ دوسری عبارت۔۔۔اصول شاشی میں ہے”” القسم الثاني من الرواة هم المعروفون با الحفظ والعدالة دون الاجتهاد والفتوى كابي هريره وانس بن مالك واذا صحت روايۃ مثلهما عندك فان وافق الخبر القياس فلا خفاء في لزوم العمل به وان خالفه كان العمل بالقياس اولى.(اصول شاشي ص 186) یعنی  راویوں کی دوسری وہ قسم ہے  جو اجتہاد اور فتوی میں تو معروف نہیں ہیں لیکن  حافظ اور عادل ہیں جیسے  ابوہریرہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما اگر  اس طرح کے راویوں کی روایت آپ کے پاس صحیح سند سے پہنچ جائے  اور ان کی خبر قیاس کے مطابق ہے  تو ان کی خبر پر عمل کرنے  میں کوئی پوشیدگی نہیں  ہے یعنی عمل کیا جائے گا اگر ان کی خبر قیاس کے خلاف ہے   تو قیاس پر عمل کرنا ہی بہتر ہے  یعنی ان کی پیش کردہ حدیث  کو رد کر دیا جائے گا۔۔۔!

اس عبارت میں سب سے پہلے تو ابوہریرہ  اور انس رضی اللہ عنہماکی گستاخی ہے کہ نعوذ باللہ وہ فتوی دینے کے لائق نہیں اور اجتھاد نہیں کر سکتے تھےحالانکہ یہی لوگ ابوہریرہ کی فتوی کو لیکر اس حدیث کو رد کرتے ہیں جس میں ہے کہ جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اسکو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔۔۔ یعنی مطلب پرستی کی انتہاء ہے۔۔۔  یاد رہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کبار صحابہ کی موجودگی میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔ صحابہ کےلیے اس طرح کے گستاخانہ موقف سے ہی غیروں کو صحابہ پر وار کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔

ابوحنیفہ رحمہ اللہ تو فقیہ مجتھد امام اعظم بن گئے جبکہ حافظ الحدیث ابو ہریرہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کرنے والا انس رضی اللہ عنہ مجتہد نہیں اور فتوی دینے کے لائق نہیں۔۔!!! استغفرُللہ واتوب الیہ.

مولانا رحمانی کو چاہیے تھا کہ اصول شاشی کی بات کو رد کرتا اور صحابہ کا دفاع کرتا لیکن افسوس کے ساتھ وہ تو ابو ھریرہ کو غیر فقیہ ثابت کرنے کےلیے دلائل دینے لگا۔۔۔

 اسی طرح  اس عبارت  میں یہ بات موجود ہے کہ ان صحابہ کی پیش کردہ حدیث قیاس اور عقل کے خلاف ہوگی تو رد کر دی جائے گی۔۔ اب غیور عوام کو سوچنا یہ ہے کہ اس حدیث کو اصل میں بیان کرنے والا کون ہے؟؟ یہ صحابہ کس کی بات بیان کر رہے ہیں؟؟؟  ابوہریرہ یا انس رضی اللہ عنھماکا کیا قصور وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہوئی بات آگے بیان کر رہے ہیں !!!!!! فیصلہ آپ فرمائیں  یہاں کس ذات پر جرح ہو رہی ہے؟؟؟ کس ذات  پر حملہ ہو رہا ہے؟؟ اگر ابوحنیفہ کی بات کوئی ٹھکرائے تو احناف کے ہاں لعنتی  بنتاہے (جیساکہ حوالہ گذر)ا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات   ٹھکرائے جو ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے تو مجتہد اور حق پرست۔۔۔۔۔۔!!!!! فیصلہ غیور حنفی عوام کے ذمہ ہے۔

مولانا نے اس بات کو تسلیم کیا کہ واقعہ ہمارا یہ اصول  ہے پھر دفاع کرتے ہوئے  یہ حدیث بھی پیش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب ابو ہریرہ کو بھیجا تھا جائیں اور جو شخص آپ کو ملے اسے جنت کی بشارت دے دیں  بشرطیکہ کلمہ پڑھتا ہو جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ اعلان کرنے گئے تو جناب عمررضی اللہ عنہ نے ان کو واپس لوٹا دیا چنانچہ مولاناکا مقصد یہ تھا کہ ثابت ہوا کہ حضرت ابوہریرہ کی بات کو عمر نے لوٹادیاکیونکہ وہ وہ غیر فقیہانہ بات تھی حالانکہ سوچنا یہ چاہیے تھا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات آگے پہنچانے کا کس نے کہا؟؟؟ کیا وہ بھی غیر فقیہ ہیں؟؟؟ مولانا کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابو ہریرہ کو اس کام کے لیے بھیجا تھا۔ ابوہریرہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو آگے پہنچا رہے  تھے۔اس میں ابوہریرہ کے غیر فقیہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ جبکہ عمر رضی اللہ عنہ  ایک ایسے انسان تھے جن کو الہام ہوتا تھا جیساکہ احادیث میں ہے اللہ نے ان کے دل میں ڈال دیا اس بات کا نقصان کیا ہوگا ؟؟ اور اس  نے وہ بات رسول اللہ سلم کے سامنے پیش کر دی اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس بات کو سننے کے بعدابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو وقتا روک دیا وہ خود رک گئے۔۔۔

غور طلب بات یہ ہےکہ مولانا نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے پہلے کہا ہاں ہم جس مسئلے مین نص نہیں ہوتی ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں اور یہاں مان گیا اگر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے خلاف قیاس یعنی ابو حنیفہ کی رائے ہو تو ہم ابو ہریرہ کی حدیث کو رد کرکے ابو حنیفہ کی بات کو مانیں گے۔۔۔۔!!!!

حالانکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وہ راوی حدیث ہے جن سے سب سے زیادہ احادیث مروی  ہیں جس کے حافظہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تھی اور انہیں کوئی بات بھولتی نہیں تھی مولوی  صاحب کا ابو ہریرہ پر اعتراض کا مقصد یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ احادیث کا رد ہو سکے ۔۔۔۔ مولانا نے پھر اپنی بات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اصول الشاشی کھولتے ہوئے یہ دلیل دی کہ جب حضرت ابوہریرہ نے حدیث بیان کی کہ ان چیزوں کی کھانے کی وجہ سے وضو کرنا چاہیے جن کو آگ نے چھوہا ہے اس پر حضرت ابن عباس  نے حضرت ابوہریرہ کو فرمایا تھا کیا آپ گرم پانی سے وضو کریں تو ہو جائے گا ؟؟؟ یہ بات سن کر حضرت ابوہریرہ خاموش ہوگئے ۔

میرا عوام سے سوال ہے کہ ابوہریرہ نے ایک حدیث: فرمان رسول بیان کیا اس سے وہ اجتہاد اور فتوی کے درجے سے کیسے گر گئے؟؟؟ اگر اس حدیث کو بیان کرنا  غیر فقیہانہ عمل ہے تو جس پیغمبر نے یہ بات کہی ہے انکا کیا حکم ہوگا؟؟؟  نیز یہی حدیث دیگر  کئی صحابہ بیان کرتے ہیں جیساکہ ترمذی رحمہ اللہ نے کہا: وَفِي الْبَابِ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، وأُمِّ سَلَمَةَ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَبِي طَلْحَةَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأَبِي مُوسَى اسی طرح عائشہ صدیقہ ،جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی یہ روایت مروی ہے؛ کیا مذکور صحابہ سارے غیر فقیہ ہیں؟باقی حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ ابتداء اسلام میں اسی طرح تھا بعد میں منسوخ ہوگیا ابو ہریرہ کو منسوخ ہونے کا پتہ نہیں چل سکا اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے یہ بات اس لیے کی تھی کہ انہیں منسوخ ہونے کا علم تھا اور یاد رہے پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بات سے رجوع کر لیا تھا امام ترمذی نےاس روایت کو ذکر کرنے کے بعد اگلے ہی باب وفی الباب عن ابی ھریرہ کہہ کر اشارہ کیا ہےکہ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بعد میں اس حدیث کو بیان کرتے تھے جس میں ہے کہ آگ سے پکی چیز کھانے سے وضوء نہیں ٹوٹتا۔

ایک چیلنج:اصول شاشی والے نے لکھا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جب اعتراض کیا تھا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے تھے مولانا رحمانی نے بھی یہ عبارت پڑھی تھی ۔۔۔ ہمارے شیخ نے جواب دیا تھا یہ جھوٹ ہے کیونکہ ترمذی شریف میں وضاحت ہے کہ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے عظیم جواب دیا اور کہا:فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : يَا ابْنَ أَخِي، إِذَا سَمِعْتَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَا تَضْرِبْ لَهُ مَثَلًا. اے بھتیجے! حدیث رسول کے سامنے مثال مت پیش کرو۔۔۔

راقم نے اسی ٹائم آل دیوبند کو چیلنج دیا تھا ابو ہریرہ خاموش ہو گئے یہ الفاظ دکھادو!دس ہزار نقدلےلو لیکن سارے مولوی لاجواب ہوگئے ۔۔۔ الحمدللہ ۔

غور کریں جب ایک بندہ اپنے باطل مذہب کو ثابت کرنے کے لیے ایک صحابی پر الزام لگا سکتا ہے تو باقی کیا کچھ نہیں کر سکتا؟

 اہم نوٹ :یاد رہے کہ ایک طرف مولانا نے دعویٰ کیا جس مسئلہ میں نص ہوتی ہے ہم تقلید نہیں کرتے ساتھ میں یہاں حدیث کو چھوڑ کر قیاس پر عمل کرنے کی دعوت دے رہا ہےاور احناف کے ہاں قیاس پر عمل کرنا ہی تقلید ہے اس سے ثابت ہوا کہ مسائل منصوصہ کے خلاف بھی احناف تقلید کرتے ہیں اور مولاناصاحب اپنی دعویٰ میں جھوٹا ثابت ہوا۔۔۔۔اور دعویٰ توڑ بیٹھا ۔۔۔۔۔!!!!

 اس بات کو مزید سمجھنے کے لیے اصول شاشی میں یہ بحث کھول کر دیکھیں کہتا ہے کہ اسی وجہ ہم ابوہریرہ کی حدیث بیع المصراۃ والی رد کرتے ہیں۔

بیع المصراۃ والی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ جو شخص کوئی جانور خریدتا ہے جس کا دودھ تھنوں میں روکا ہوا تھا بعد میں وہ جانور دودھ کم دیتا ہے تو خریدار تین دن تک جانور واپس کرنے کا اختیار رکھتا ہے اب جو اس نے دودھ استعمال کیا ہے اس کے بدلے ایک صاع کھجور کا دیگا۔۔۔۔

شاشی والا یہ حدیث ذکر کر کے یہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ حدیث عقل کے خلاف ہے کیونکہ بھینس بکری اور گائے کے دودھ مختلف ہیں سب کےلیے ایک صاع عقل کے خلاف ہے ہم احناف اس حدیث کو مردود سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔

غیور حنفی عوام بتائے کہ کیا یہاں پر صحیح صریح حدیث کے خلاف تقلید یعنی قیاس کو تسلیم نہیں کیا گیا؟اور مولوی کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا۔۔۔۔

میرا حنفی عوام سے سوال ہے کہ اپنے مولویوں سے پوچھیں کہ یہاں ابوہریرہ نے حدیث رسول بیان کی ہے اس حدیث کو رسول سے سن کر بیان کرنے کی وجہ سے وہ غیر فقیہ بن گیا  اجتھاد اور فتوی کے درجے سے گر گیا تو اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہوگا ؟؟؟ جس نے یہ بات بطور شریعت بیان کی  اور اس  قیاس کے خلاف بات پر عمل کی دعوت دی۔۔۔۔ کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اجتھاد اور فتوی کے درجے سے گر جائیںگے!

اللہ کی قسم یہ سوال لکھتے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اگر سمجھانا مقصود نہیں ہوتا تو حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسی بات سوچنا ہی گستاخی کے مترادف ہے۔۔۔۔ اللہم صل علی محمد وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم۔۔۔۔

معزز احباب! حقیقت میں یہ قوانین اس لیے بنائے گئے ہیں کہ احادیث کو کیسے رد کیا جائے جو فقہ حنفی کے خلاف ہوں اللہ ہمیں اس عقیدے سے پناہ دے۔۔۔  اگر حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ حدیث عقل وقیاس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اللہ کے رسول کا فرمان وحی ہے  اور اللہ کی طرف سے ہے وہ خلاف قیاس کیسے ہوسکتی ہے؟ہاں ہمارا دماغ وقیاس تو بے وقوفانہ اور غلط ہو سکتا ہے لیکن حدیث نہیں ؛ اصل میں یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع دودھ کو قیمت کے طور پر نہیں دلوایا بلکہ قیامت تک آنے والے سارے لوگوں کے لیے اس مسئلہ میں ہونے والے تنازع  کو ختم کرنے کے لیے اصول وضع فرمایا جو کہ مصلحت اور قیاس کے مطابق ہے ورنہ جھگڑا ختم نہیں ہو سکتا ہر کوئی کہتا میرے جانور میں اتنا زیادہ دودھ تھا۔۔۔۔ اور یاد رہے دین ہماری رائے اور قیاس کا نام نہیں ہے کہ ہم کہیں فلاں حدیث عقل کے خلاف ہے میں نہیں مانتا۔۔ اسی وجہ سے علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى ظَاهِرِ خُفَّيْهِ۔۔۔ اگر دین کسی کی رائے کا نام ہوتا تو انسان کی رائے کہتی ہے کہ مسح موزوں کے نیچے ہونا چاہیے(کیونکہ مٹی  ونجاست نیچے سے لگنے کے امکان ہیں) لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاؤں کے اوپر مسح کرتے دیکھا ۔(ابوداؤد 161)

احباب گرامی قدر! منکرین حدیث اور دشمنان اسلام  اس طرح کے باطل اصولوں سے ہی اسلام پر وار کرتے ہیں اور احادیث کا انکار کرتے۔۔۔۔ ہمارے حنفی علماء ظاہرا تو انکار نہیں کرتےلیکن پس پردہ اس روش کے معاون ہیں۔۔۔۔ اعاذنا اللہ منہ۔

اہل حدیث مناظر کی طرف سے پیش کردہ تیسری عبارت ماہنامہ تجلی سے تھی جس میں ایک سائل دیوبندی مولوی سے سوال کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے حدیث رسول سے جواب دیں؟اس پر دیوبندی مولانا کہتا ہے: اس نوع کا مطالبہ اکثر سائلین کرتے رہتے ہیں یہ دراصل اس قاعدے سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ مقلد کےلیے قرآن وحدیث  کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ ائمہ وفقہاء کے فیصلوں اور فتووں کی ضرورت ہے۔۔۔ ( ماھنامہ تجلی1986 ء جنوری وفروری)

 آگے جان چھڑانے کے لیے کہتا ہے”” قرآن وحدیث تو جملہ قوانین شرعیہ کا ماخذ اور سر چشمہ ہیں۔۔۔۔ ان کے معانی و مطالب اور غوامض واسرار پر غور کرنا اونچے درجے کے فقھاء ومجتھدین کا کام ہےنہ کہ عوام کا۔۔۔۔۔الخ

معزز قارئین!اس عبارت پر غور کریں اور بار بار پڑھیں مولانا نےصاف کہا کہ مقلد عوام کو قرآن و حدیث کے حوالوں کی ضرورت نہیں ہے!

کیا ایک مسلمان کو قرآن و حدیث کے حوالوں کی ضرورت نہیں؟؟؟

اللہ نے قرآن وحدیث صرف علماء کےلیے نازل کیا ہے؟

کیا قرآن و حدیث عوام کےلیے بھی سرچشمہ ہدایت نہیں؟

کیا آج کے دور میں عرب سارے علماء ہیں؟ کیا وہ قرآن وحدیث نہیں پڑھیں؟کیونکہ عربی انکی اپنی زبان ہے  اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کیا وہ قرآن وحدیث نہیں پڑھتے تھے ؟

یعنی دیوبندیوں کے ہاں ایک مسلمان قرآن وحدیث سے دلیل کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتا اور نہ ہی مطالعہ کر سکتا ہے !!!! اس  سے صاف ظاہر ہے کہ عوام کو جاھل ہی رکھا جائے  عوام جب دلیل کا مطالبہ کرے گی تو ان مولویوں کو پتہ ہے ہمارے مذھب کی حقیقت عیاں ہو جائی گی۔ مسکینوں کےپاس دلیل ہو تو پیش کریں؟؟؟

مولانا نے کہا کہ قرآن وحدیث سمجھنا مجتھدین کا کام ہے ۔ کیا اللہ کا ارشاد نہیں ہے؟(ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر) ہم نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے پس ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔ رب کہہ رہا ہے قرآن آسان ہے۔ آپ کہتے ہیں:ہر بندہ نہیں سمجھ سکتا۔۔۔ حالانکہ آپ کی ہدایہ، عالمگیری قرآن سے ہزار گنا مشکل ہےاسے تو پیش کرتا ہے اور قرآن وحدیث کیوں نہیں؟؟!

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام لوگوں کو نہ سمجھا سکے اور انکے مجتھدین سمجھائیں گے ؟کیا انکے مجتھدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ذہین ہیں اور لوگوں کو سمجھانا جانتے ہیں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سارے مجتھد تو نہیں تھے وہ آپ کی بات کو کیسے سمجھتے تھے؟ ہمارے شیخ نے اس بات کو بیان کیا کہ ایک مسلمان کو قرآن وحدیث سے کیسے روکا جارہا ہے آپ غور کریں!

جب  دیوبندی مولانا  سے اس بات کا جواب نہ بن سکا تو کہنے لگا آپ قسم اٹھاؤ کہ ہم نے کہا ہے کہ ہم کو قرآن وحدیث کی ضرورت نہیں۔۔۔اور آخر تک کہتا رہا قسم اٹھاؤ ۔۔۔حالانکہ احباب دیوبندی مولوی کی عبارت دوبارہ پڑھیں مسئلہ ظاہر ہے ۔ ہمارے شیخ نے کہا قسم والا طریقہ مناظرے میں نہیں ہوتا مناظرہ دلائل کے تبادلہ کا نام ہے۔۔۔ لیکن مولوی صاحب بضدتھا۔۔۔ کیونکہ دلائل تو تھے نہیں اس نے جب ضد زیادہ کیا تو راقم نے کہا میں آپ سے تقلید شخصی کی حرمت کے حوالے سے مباہلہ کرنے کے لیے تیا ہوں ۔۔۔لیکن اب مولوی کو اپنے بطلان کا دل میں پکا یقین تھا اس لیے لاجواب ہوکر بیٹھ گیا۔۔۔

مولوی صاحب سے جب جواب نہیں بن رہا تھا تو موضوع کو تبدیل کرنے کی بڑی کوشش کی کبھی کہا اپنی پوری نماز حدیث سے ثابت کرو۔۔۔۔؟؟؟ پانچ ہزار انعام لےلو ۔

ہمارے شیخ نے کہا مناظر ے کا ٹائم آپ طے کرو میں اگر اپنی ثابت نہ کر سکا تو تجھے دس ہزار دونگا اور تو اپنی حنفی نماز حدیث سے ثابت کردے تجھے ایک لاکھ انعام دیتا ہوں۔۔۔۔ مولانا یہ بات سننے کے بعد دیوار کی طرح خاموش ہو گیا۔۔۔

نوٹ: ایک حنفی یونس نامی کی تحریر موصول ہوئی جس میں کئی غلط بیانیاں ہیں۔۔۔ اس نےکہاجگہ تبدیل کی اہل حدیث نے ۔۔۔ ہم نے جگہ احناف کی شرارت سے بچنے کے لیے تبدیل کی تھی کیونکہ تحریر شدہ ورقے میں شرائط وغیرہ کی تبدیلی کاخدشہ موجود تھا اور وقت کی تبدیلی کا مناظرہ سے تقریباً تین گھنٹے پہلے انکو بتا دیا تھا۔۔۔ اور انہوں نے اس کوخود تسلیم بھی کیا جس کی شیخ آصف فاروق صاحب کے پاس ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔۔۔ دس بجے کاٹائم مقرر تھا وہ گیارہ بجے آئے حالانکہ وہ لاڑکانہ میں پہلی مقرر شدہ جگہ میں موجود تھے جو سلفیہ مسجد سے آدھے گھنٹے کے فاصلہ سے بھی زیادہ قریب ہے اس سے پتہ چلا کہ قصور کس کا ہے!

اسی طرح محترم نے لکھا اہل حدیث شیخ کھانا کھانے کے بعد جب آئے ہم سے مصافحہ تک نہیں کیا اور سلام تک نہیں ۔۔۔۔

حالانکہ شیخ سلام کرنے کے بعد اندر ہال میںر تشریف لائے اور کوئی حنفی مصافحہ کرنے کے لیے نہ اٹھا حالانکہ چاہیے تھا کہ شیخ بلال  ہمارے مہمان تھے جیسے وہ مناظرہ گاہ میں داخل ہوتے سارے حنفی اٹھ کر ان سے ملتے۔۔۔ یہ نہیں کیا اب الٹا قصور شیخ بلال کا بتا رہے ہیں۔۔۔ اس طرح کی بہت غلط بیانیاں ہیں اس تحریر میں اللہ یونس حنفی کو حق سچ کہنے کی توفیق دے۔۔۔

نوٹ: اگر کوئی اس تحریر کا جواب لکھنا چاھتا ہے تو ہر ایک بات کا جواب دینا ہوگا ورنہ سرسری جواب مردود سمجھا جائے گا۔

اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ

About ابو عبدالرحمٰن عبدالرزاق دل

Check Also

عقیدہ عصمت اور اسکی حقیقت

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *