Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » January Megazine » سال نو؛ چند غور طلب پہلو

سال نو؛ چند غور طلب پہلو

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

الحمدللہ والصلاة والسلام علی رسول الله وعلی آلہ واصحابہ اجمعین اما بعد:

قارئین کرام! السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

ماہ جنوری  سے عیسوی سن کی ابتدا  ہوتی ہے، اہل مغرب سال نو کا استقبال جشن سے کرتے ہیں، ایک دوسرے کو سال نو  کی مبارکباد دیتے ہیں، آتش بازی ،رقص وسرود کی محفلیں منعقد کرتے ہیں شراب نوشی اور حیا باختگی کی تمام حدیں تجاوز کر جاتے ہیں

ان کی دیکھا دیکھی (دانستہ یا نادانستہ طورپر ) ہمارے معاشرے سے بھی کچھ لوگ اس فکر سے متاثر ہو ئے اور سال نو کے موقع پر یہی طوفان بدتمیزی برپا کرنے لگے جن کی باگ ڈور بعض اہل مغرب  نے اپنے ہاتھ میں لی اور یوں دیسی لبرلز کا ایک گروہ وجود میں آیا جو ہما وقت مستعد ہے ان کی چاکری کے لیے جو وطن عزیز کو  مغربی روایت اور تھذیب کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں  جن کو وطن عزیز کا اسلامی تشخص اور مشرقی روایات ایک آنکھ نہیں بھاتے چونکہ ملک کا میڈیا اور اشرافیہ کا طبقہ ان کا ہمنوا ہے تو ان کی ہر کوشش و کاوش کو پذیرائی حاصل ہوجاتی ہے!

ہمارہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جس طرح مغربی  کلچر کی نشر واشاعت کرتا ہے تو بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک مسلم معاشرے میں نہیں بلکہ یورپ کے کسی حیا باختہ اورشرم و حیا سے عاری معاشرے میں رہ رہے ہیں !

اس میں کوئی شک نہیں کہ  ہماری سوسائٹی کی اکثریت  ان خرافات سے دور ہے اور ہمارا معاشرہ ایسا نہیں ہے تو پھر  ہمارا میڈیا جس کا کام اپنی اسلامی اور مشرقی اقدار کا تحفظ ہے وہ کیوں مغربی سوسائٹی کے شرم وحیاء سے عاری کلچر اور روایات کو فروغ دے رہا ہے!؟

حکومت وقت خصوصاً پیمرا کی ذمے داری ہے کہ میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے۔

اب آئیے!  گزشتہ برس کے تعلق سے اپنی اصلاح اور محاسبہ کے طور پر کچھ امور کی نشاندھی کرتے ہیں ایک سال کے گذرنے سے ہماری حیات مستعار میں ایک سال کی کمی ہوگئی، ہم ہر گزرتے لمحے زندگی سے دور اور موت کے نزدیک ہوتے جارہے ہیں ایسے میں سال نو پر خوشیاں منانا اور جشن کا سماں چہ معنی دارد!

ایک اور اینٹ گرگئی دیوار حیات سے

نادان کہہ رہے ہیں نیا سال مبارک!

یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ امانت ہےجس کے ایک ایک لمحے کا ہم نے حساب دینا ہے یہی فرق ہے ایک کافر کی سوچ میں جس کا سب کچھ یہ دنیاوی زیست ہے اور ایک مسلمان کی فکر میں جس کا مقصد آخرت کی حیات جاودانی ہے! سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

ارْتَحَلَتِ الدُّنْيَا مُدْبِرَةً، وَارْتَحَلَتِ الْآخِرَةُ مُقْبِلَةً، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بَنُونَ، فَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الْآخِرَةِ، وَلَا تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا ؛ فَإِنَّ الْيَوْمَ عَمَلٌ وَلَا حِسَاب، وَغَدًا حِسَابٌ وَلَا عَمَلٌ.

 دنیا پیٹھ پھیرنے والی ہے اور آخرت سامنے آ رہی ہے۔ انسانوں میں دنیا و آخرت دونوں کے چاہنے والے ہیں۔ پس تم آخرت کے چاہنے والے بنو، دنیا کے چاہنے والے نہ بنو، کیونکہ آج تو کام ہی کام ہے حساب نہیں ہے اور کل حساب ہی حساب ہو گا اور عمل کا وقت باقی نہیں رہے گا۔

اللہ ر ب العزت نےيہ زندگی عظیم مقصد کے لیے ہمیں عطا کی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ( الذاریات:56) میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ( المؤمنون:115)

 کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کا فرمان ہے کہ:

عن ابي برزة الاسلمي، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ” لا تزول قدما عبد يوم القيامة حتى يسال عن عمره فيما افناه، ‏‏‏‏‏‏وعن علمه فيم فعل، ‏‏‏‏‏‏وعن ماله من اين اكتسبه وفيم انفقه، ‏‏‏‏‏‏وعن جسمه فيم ابلاه “.

ابوبرزہ اسلمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا“۔

بحیثیت مسلمان ہمارا یہ  فرض بنتا ہے  ہم اپنا محاسبہ کریں،جو دو طرح سے ہو گا :

ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی

انفرادی طور پر اس طرح کہ؛ ہم میں سے ہر فرد سوچ بچار کرے، گزشتہ سال ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟کون کون سے کام کئے،کتنے گناہ کئے اور ہم نے  کتنی توبہ کی،کون سی مصیبتیں ہم پر آئیں اور ہم نے کتناصبر کیا،کتنے قیمتی لمحات کو ہم نے بغیر نیک عمل ضائع کیا۔۔۔؟ہم میں سے ہر شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرے،اگر ہمارا یہ سال خیر وبھلائی میں گذرا ہے تو اللہ کی تعریف کریں اور اس کا شکریہ ادا کریں،اور اللہ سے مزید  فضل کا سوال کریں، اور اگر معصیت اور منکرات میں گذرا ہےتو توبہ کریں اور اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کریں،اور نیک عمل کرنے میں جلدی کریں ، کیونکہ نیکیاں بُرائیوں کو مٹادیتی ہیں۔

جہاں یہ محاسبہ دنیا کے بارے میں ہو وہیں ہماری آخرت سے متعلق بھی ضرور ہوجہاں ہم سب کو اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے اللہ تعالٰی کے روبرو پیش ہونا ہے. ہمارے اس دنیا میں آنے کا مقصد اکیلے اللہ کی عبادت کرنا  اور نیک اعمال سےاس کی رضا مندی کو حاصل کرنا ہے اور اس خلد بریں کو پانا ہے جہاں سے ابوالبشر آدم علیہ السلام کو نکالا گیا تھا نیز یہ محاسبہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں بھی ہونا چاہیئے؛ کیونکہ اس کے بغیر کامیابی کا ملنا محال ہے۔

  اجتماعی طور پر اس طرح سے محاسبہ ہو کہ: تمام مسلمان حکمرانوں سے لے کر ایک عام آدمی تک غوروفکر کریں کہ آج امت مسلمہ جن گوناگوں مسائل کا شکار ہے ہم ان کا کتنا درد اورغم اپنے اندر محسوس کرتے ہیں. آج فلسطین، شام،یمن، افغانستان، میانمار اور کشمیر تک (کس کس جگہ کا تذکرہ کیا جائے) امت مسلمہ کا وجود زخمی ہے۔ یاد رکھیے! ہمارادین جہاں ہماری انفرادی تربیت اور اصلاح کرتا ہے وہاں اپنی عالمگیریت کی وجہ سے  پوری دنیا کے مسلمانوں کو یک جان ودوقالب کے تناظر میں دیکھتا ہے،جن کا مقصد حیات ایک ہے، جن کی عزت نفس، جان، مال اور خون کی حرمت یکساں ہے،

جن کو امام کائنات محمد صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ایک ہی جسم سے تشبیہ دی ہے :

 عن النعمان بن بشير ، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ” مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم، ‏‏‏‏‏‏مثل الجسد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى “.

سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مومنوں کی مثال ان کی دوستی اور اتحاد اور شفقت میں ایسی ہے جیسے ایک بدن کی (یعنی سب مؤمن مل کر ایک قالب کی طرح ہیں) بدن میں جب کوئی عضو دردمحسوس کرتا ہے تو سارا بدن اس میں شریک ہو جاتا ہے اسے نیند نہیں آتی، بخار آ جاتاہے۔

تاریخ کا یہ سبق ہے کہ وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی اور دنیا میں سر اٹھا کر جیتی ہیں جو اپنے ماضی کے آئینے میں حال کی تعمیر کرتی اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتی ہیں ۔کاش ہم مسلمان بھی ایسا کر پائیں۔

اللہ تعالٰی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

About شیخ عبدالصمد مدنی

Check Also

فضیلۃ الشیخ عبدالغفور دامنی رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال!

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *